یومِ تحفظِ ناموسِ رسالت (ص) منانے کے حکومتی فیصلے کاخیرمقدم کرتے ہوئے ہیں، مرزا ارشدالقادری
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
پی ایس ٹی کے زیراہتمام منعقدہ تاجدار ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ قانونِ ختمِ نبوت(ص)کو ختم کرنے والے اس معاملے کو سنجیدگی سے سمجھیں یہ قانون امن وامان اورسلامتی برقرار رکھے ہوئے ہے، اگر خدانخواستہ یہ قانون نہ ہوتو شرپسند عناصر گستاخیوں کے نام پر سرعام قتل غارت گری کرینگے، قانون کی موجودگی سے تحقیق تفتیش کا عمل شرپسند عناصر کے لئے سدباب ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان سنی تحریک و تحریک ختمِ نبوت(ص) رجسٹرڈ پاکستان کے زیراہتمام یومِ تحفظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر عظیم الشان تاجدارِ ختمِ نبوت(ص)کانفرنس کی صدارت مرزا محمدارشدالقادری نے کی، علامہ سعید اخترقادری، مرزا اصغرعلی، علامہ عبدالرشیدسعیدی، صاحبزادہ شفقت طلال تاشفین، رانا غلام مرتضی قادری، پیر مظہرفاروق چشتی، سرفراز اویسی، مرزا دانش ارشد، علامہ سراج قادری، علامہ معین رضا قادری، علامہ لیاقت حسین سعیدی، علی سلیمان نوری نے اظہارِ خیال کیا۔ مرزا محمدارشدالقادری نے یومِ تحفظِ ناموسِ رسالت (ص) منانے کے حکومتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، قانونِ ختمِ نبوت(ص)کو ختم کرنے والے اس معاملے کو سنجیدگی سے سمجھیں، یہ قانون امن وامان اورسلامتی برقرار رکھے ہوئے ہے، اگر خدانخواستہ یہ قانون نہ ہوتو شرپسند عناصر گستاخیوں کے نام پر سرعام قتل غارت گری کرینگے، قانون کی موجودگی سے تحقیق تفتیش کا عمل شرپسند عناصرکے لئے سدباب ہے۔
علامہ سعید اخترقادری نے کہا کہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، مرزا اصغر علی نے کہا ملک میں توحید خداوندی پر کھلے عام حملے ہورہے ہیں، کوئی روک ٹوک نہیں، علامہ عبدالرشیدسعیدی نے کہا قرآنِ پاک، صحابہ کرام، اہلِ بیتِ پاک، امہات المومنین، مقدسات دینیہ کی آئے روز توہین پرحکومت اور اداروں کی خاموشی سے بے بسی ٹپکتی نظر آرہی ہے۔ مرزا دانش ارشد نے کہا کہ بلوچستان اور خیبرپختون خواہ میں دہشت گردوں کے خلاف افواج پاکستان کا کامیاب آپریشن ٹرین کے مسافروں کی بحفاظت بازیابی پر عوام افواج پاکستان کو سلام تحسین پیش کرتے ہیں، بلوچستان اور کے پی کے میں پاک فوج کے اقدامات قابل تحسین ہیں، پاک فوج آپریشن بدر اور دیگر اقدامات کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یہ قانون نے کہا نبوت ص
پڑھیں:
امت کی عقیدت و محبت کا مرکز خانوادۂ نبوت
احادیث میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی تعداد گیارہ آتی ہے، جن میں سے دو آپؐ کی زندگی میں فوت ہو گئی تھیں۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، اور ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا جو ام المساکین کہلاتی تھیں، حضورؐ کی حیاتِ مبارکہ میں انتقال فرما گئی تھیں۔ باقی نو ازواج مطہرات حضورؐ کی حیات کے آخر تک رہی ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں ایک بیٹا حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے ہوا، باقی آپؐ کی ساری اولاد جن کا مختلف ناموں سے تذکرہ ملتا ہے وہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بطن سے مکی دور میں ہوئی تھی۔
روایات میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بیٹے قاسم رضی اللہ عنہ تھے جو مراہقت کی عمر کو پہنچے، گھوڑے پر سواری کر لیتے تھے، بلوغت کو نہیں پہنچے، اس سے پہلے ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے علاوہ حضورؐ کے اور بیٹوں کے نام طاہر، طیب اور عبد اللہ آتے ہیں لیکن ان سب کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں حیات رہیں، سب بیٹیوں کی شادی ہوئی اور ان کی اولاد بھی ہوئی۔ آپؐ کی سب سے بڑی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جن کا نکاح ان کے خالہ زاد حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بڑے داماد حضرت خدیجہؓ کے بھانجے تھے۔ کافی عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، بدر کے قیدیوں میں بھی تھے، بعد میں مسلمان ہوئے، صحابی بنے، اسلامی تاریخ کے بڑے جرنیلوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ میں ان واقعات کی تفصیل میں نہیں جاتا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت زینب اور حضرت ابو العاص بن ربیعؓ کے باہمی معاملات کیا تھے اور حضورؐ کو حضرت ابو العاص بن ربیعؓ پر کس قدر اعتماد تھا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اور انہی کی وجہ سے حضرت عثمانؓ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ جب بدر کا معرکہ ہوا تو حضرت عثمانؓ نے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن حضرت رقیہؓ شدید بیمار تھیں، اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوا۔ حضرت رقیہؓ کی اس بیماری کی وجہ سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو بدر میں ساتھ جانے سے روک دیا تھا اور فرمایا تھا کہ رقیہ بیمار ہیں، تنہا ہیں، گھر میں کوئی ان کی تیمارداری کرنے والا نہیں ہے، اس لیے آپ مدینہ منورہ میں رہیں گے، قافلے میں ساتھ نہیں جائیں گے۔ لیکن یہ بات حضرت عثمانؓ کے اعزازات میں شمار ہوتی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا کہ آپ کو بدر میں شریک ہونے کا ثواب ملے گا اور بدر کی غنیمت کا حصہ بھی ملے گا۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ بدر میں شریک نہیں تھے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بدریوں کی جو فہرست شمار کی ہے اس میں حضرت عثمانؓ کا نام بھی ہے اور وہ بدریوں میں شمار ہوتے ہیں۔
حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دیں اور اس موقع پر اس اعتماد کا اظہار فرمایا کہ روایت میں ہے، اگر میری ستر بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے عثمانؓ کے نکاح میں دیتا چلا جاتا۔ حضرت ام کلثومؓ کا بھی حضور نبی کریمؐ کی حیات مبارکہ میں انتقال ہو گیا تھا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپؐ کی اولاد میں سے صرف حضورؐ کی سب سے چھوٹی، سب سے چہیتی اور پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حیات تھیں، اور وہ بھی بعد میں چند مہینے حیات رہیں۔ باقی ساری کی ساری اولاد پہلے فوت ہو چکی تھی، حتیٰ کہ مدینہ منورہ میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضورؐ کے جو بیٹے ابراہیمؓ پیدا ہوئے ان کا بھی دودھ پینے کی مدت کے دوران ہی انتقال ہو گیا تھا۔
سیدہ فاطمہؓ حضورؐ کی سب سے چہیتی بیٹی تھیں اور فطری بات ہے کہ سب سے چھوٹی اولاد کے ساتھ انسان کی محبت زیادہ ہوتی ہے۔ سیدہ فاطمہ طاہرہ طیبہ خاتون تھیں اور جناب نبی کریمؐ کے ساتھ ان کی محبت اور حضورؐ کی ان کے ساتھ محبت باپ بیٹی کی مثالی محبت ہے۔ سیدہ فاطمہؓ کا نکاح جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا۔ یہ مثالی جوڑا تھا، ان کے نکاح کی تفصیلات بھی محدثین نے بڑے اچھے اور بہتر انداز میں بیان فرمائی ہیں۔
بخاری شریف کی ایک روایت کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جس میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جناب نبی کریمؐ کے وصال کے وقت باپ بیٹی کی محبت کا منظر بیان فرماتی ہیں کہ حضورؐ کی بیماری کے ایام تھے، سیدہ فاطمہؓ والد محترمؐ سے ملاقات کے لیے آئیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی پر پائنتی میں بیٹھیں، حضورؐ نے حضرت فاطمہؓ کے سر، پشت پر ہاتھ پھیرا اور دونوں نے ایک دوسرے کا حال و احوال پوچھا۔ اس موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کے کان میں ایک راز کی بات کہی جو سن کر حضرت فاطمہؓ رونے لگ گئیں۔ جب رونا زیادہ ہوا تو حضورؐ نے کان میں دوسری بات کہی تو ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہؓ یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ جب وہ مجلس ختم ہوئی تو حضرت عائشہؓ نے حضرت فاطمہؓ سے پوچھا کہ پہلے کیا بات ہوئی تھی کہ تم رو پڑی تھیں؟ اور پھر کیا بات ہوئی تھی کہ روتے روتے تم ہنس پڑی تھیں؟ حضرت سیدہ فاطمہؓ نے کہا کہ یہ باپ بیٹی کا راز ہے، میں نہیں بتاؤں گی۔ چنانچہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں راز نہیں بتایا۔
(جاری ہے)