کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اصل قیمت پر نظرِ ثانی ناگزیر: ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اصل قیمت پر نظرِ ثانی ناگزیر: ماہرین WhatsAppFacebookTwitter 0 8 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (این ای این)ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی ماحولیاتی وسماجی لاگت کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر نہ صرف ماحول کو آلودہ کر رہے ہیں بلکہ عوامی صحت اور معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو پہلے ہی 348 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔ انہوں نے یہ باتیں پالیسی ادارہ برائے پائدار ترقی کے زیراہتمام نیٹ ورک فار کلین انرجی ٹرانزیشن کے تحت منعقدہ اعلی سطح کے ایک گول میز اجلاس میں کہیں۔پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی اصل قیمت: ایک جامع نقطہ نظر کے موجوع پرنشست میں توانائی کے ماہرین، پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی ۔
نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (NTDC) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر محمد ایوب نے خبردار کیا کہ کوئلے کی اصل قیمت وہ نہیں جو صارفین کے بلوں میں نظر آتی ہے بلکہ اس کے دور رس اثرات کہیں زیادہ مہنگے اور خطرناک ہیں۔ انہوں نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ ماحولیاتی اور سماجی اخراجات کو بجلی کے نرخوں میں شامل کرنے کی راہ میں کمزور ادارہ جاتی نظام اور سیاسی مزاحمت بڑی رکاوٹ ہیں، جسے مربوط حکمتِ عملی سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ایس ڈی پی آئی کے توانائی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبید الرحمن ضیانے کہا کہ پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی تباہ کاریوں کی بڑی قیمت چکا رہا ہے اور اس وقت ملک کو ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لئے 348 ارب ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ایس ڈی پی آئی کی توانائی کی تجزیہ کارر زینب بابر نے انکشاف کیا کہ صرف صحت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی لاگت فی میگا واٹ آور 15.
ساہیوال کول پاور پلانٹ سے فی میگا واٹ آور 18,271.51 روپے جبکہ اینگرو پاور پلانٹ سے 40,392.72 روپے کے خارجی اخراجات کا بوجھ پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹس پاکستان کے کل کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کا تقریبا 27 فیصد حصہ پیدا کرتے ہیں۔ ساہیوال پلانٹ سے فی میگا واٹ آور 887 کلوگرام اور اینگرو پلانٹ سے 2154.05 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ ٹرانسپورٹ اور ماحولیاتی تباہی ان اخراجات کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ انہوں نے ان اخراجات کو قیمت میں شامل کرنے کے لئے یگوویئن ٹیکس جیسے مالیاتی طریقہ کار کی تجویز دی۔پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (PPIB) کے ڈائریکٹر جنرل علی نواز نے تاہم اعداد و شمار پر نظرِثانی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہمیں کاربن ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے اعداد و شمار کی درستگی کو یقینی بنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ پلانٹس زیرزمین پانی استعمال کرتے ہیں اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد انہیں بند کرنا کوئی عملی حل نہیں ہے۔پی پی ایم سی کی قرالعین جمیل نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کاربن کے منفی اثرات کو بھی قومی توانائی پالیسی میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس کے لئے مربوط اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا 2030 تک 60 فیصد توانائی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف دراصل ایک کاربن نیوٹرل سمت کی جانب واضح پیش رفت ہے، جو آئی ایم ایف کی تجویز کردہ کاربن لیوی سے بھی ہم آہنگ ہے، جس کا نفاذ جولائی 2025 سے متوقع ہے۔پرائیڈ (PRIED) کے سی ای او بدر عالم نے کہا کہ کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں میں صرف آلودگی کا مسئلہ نہیں بلکہ عوام کے وسائل سے مہنگا انفراسٹرکچر کھڑا کر کے منافع نجی کمپنیوں کو دیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کاربن ٹیکس صارفین کے بجائے براہِ راست کمپنیوں پر عائد ہونا چاہئے۔بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی ماہر ہیلن مشیات پریتی نے کہا کہ اگرچہ ہم ابتدائی طور پر گیس پر انحصار کر رہے ہیں لیکن ہم اپنے قابل تجدید توانائی کے حصے کو بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کا قابل تجدید توانائی میں اضافہ ایک حوصلہ افزا مثال ہے۔اختتامی کلمات میں شکیب الہی نے ایس ڈی پی آئی کی ٹیم کو اس اہم موضوع پر اعداد و شمار پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے پر سراہا اور کہا کہ یہ رپورٹ پاکستان کے لئے ایک باخبر اور ذمہ دارانہ توانائی کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کرداراداکریگی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبررات گئے پاکستان نے بھارت کے متعدد اہم فوجی مقامات پر حملے کیے :انڈین وزارت دفاع کا دعوی آئیسکو حکام نے راولپنڈی اور گردونواح میں بلیک آوٹ کے احکامات کی کی تردید کر دی سیکیورٹی کے پیش نظر راولپنڈی کی تمام سوسائٹیز میں بلیک آوٹ رکھنے کا حکم جاری چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا سے صدر پنجاب بینک ظفر مسعود کی وفد کے ہمراہ ملاقات ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے احکامات پر عملدرآمد شروع، کیپیٹل ہسپتال میں ریڈ الرٹ جاری سی ڈی اے افسران اور ملازمین کو پلاٹس کی الاٹمنٹ کی سکروٹنی کیلئے کمیٹی تشکیل ، 8رکنی کمیٹی7دن میں سینیارٹی اور سکروٹنی کر کے... سی ڈی اے بورڈ ممبران اور ملازمین کو پلاٹ الاٹمنٹ کرنے کا معاملہ ،اجلاس کے اہم نکات سب نیوز نے حاصل کرلئےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی کی اصل قیمت
پڑھیں:
پنجاب مودی کے ہندوتوا کو مسترد کرنے کی قیمت چکا رہا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) سیلاب کی لپیٹ میں پنجاب کے گاؤں جزیروں سے کم دکھائی نہیں دی رہے۔ ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت نے سیلاب سے پیدا شدہ مسائل کی طرف سے اپنا مُنہ پھیر لیا۔ تقریباً ایک ماہ تک حکومت کی طرف سے خوراک، ادویات اور کشتیوں کے زریعے بنیادی امدد بھی فراہَم نہیں کی گئی۔ صوبے کو خود اپنے وسائل کو بروئے کار لانے اور امدادی کاموں کے لیے انتظامات کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا۔
پنجاب بی جے پی کی طرف سے حمایت یافتہ ہندوتوا کی شدید مخالفت کرتا آیا ہے۔ مودی کی پنجاب سے نفرت کوئی نئی بات نہیں۔ پنجابیوں کو لگتا ہے کہ انہیں مودی کے کسان قانون اور سیاسی نظریے کو مسترد کرنے کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔
امریک سنگھ کے والد نے بیٹے کا نام اسی اُمید پر رکھا تھا کہ ایک دن وہ امریکی ویزا حاصل کرے گا اور امریکہ جا کر بس جائے گا۔
(جاری ہے)
پھر امریک اور امریکہ ایک ہو جائیں گے۔پنجاب کے بیشتر گھروں کی طرح یہاں بھی خواب وہی تھا، پردیس جانا، دولت کمانا اور خاندان کو خوشحال بنانا۔ لیکن جب تین سال کی لگاتار کوششوں کے بعد امریک کے ویزا کے امکانات ختم ہو گئے تو باپ سکھویر سنگھ نے فیصلہ کیا کہ بیٹے کا مستقبل اب گاؤں کی زمین اور کھیتوں میں تلاش کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے قرض لے کر ڈیری اور پولٹری فارم کھولا۔
فارم ابھی چند ماہ پہلے ہی قائم ہوا تھا۔ اُمید یہ تھی کہ دو تین فصلوں کے بعد قرض اتر جائے گا اور گھر کے حالات سنبھل جائیں گے۔ مگر 16 اگست کو آنے والے سیلاب نے یہ خواب بھی بہا دیا۔ پانی ان کے کھیتوں میں داخل ہوا اور چند ہی دنوں میں فارم زمین بوس ہو گیا۔ مرغیاں، ڈیری کے ڈھانچے اور چارہ سب کچھ برباد ہو گیا۔ کچھ مویشی ڈوب گئے اور جو بچ گئے وہ آج گوردوارہ ڈیرہ بابا نانک کے احاطے میں بندھے ہیں۔
امریک ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے، ''آپ کو وہ درخت دکھ رہا ہے؟ وہاں ہمارا کھیت اور فارم تھا۔ اب پانی اترنے تک ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘ وہ خود لائف جیکٹ پہن کر کشتی میں بیٹھ جاتا ہے جو امدادی سامان دوسرے دیہاتوں میں لے جا رہی ہے۔ اس کے والد کے لبوں پر صرف ایک جملہ ہے، ''تیرا بھنا مٹھا لگے‘‘ (جو کچھ بھی ہوا، واہگورو کی مرضی خوشی سے قبول ہے)۔
سیلاب کی تباہی کی وسعتپنجاب کے تمام 23 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا جا چکا ہے۔ 1.76 لاکھ ہیکٹر پر پھیلی دھان اور مکئی کی فصل جو کٹائی کے قریب تھی، بہہ گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2050 دیہاتوں کے تقریباً 20 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ سینکڑوں دیہات کے لوگ گھروں کی چھتوں یا گوردواروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
موگا کی کسان عورت روپ کور آنسو پونچھتے ہوئے کہتی ہے، ''رات کو پانی بڑھنا شروع ہوا، صبح تک ہمارے مویشی ختم ہو گئے۔
یہ کپڑے جو آپ ہمارے بدن پر دیکھ رہے ہیں، ہم صرف یہی بچا سکے۔‘‘مویشیوں کا نقصان حیران کن ہے۔ سینکڑوں جانور سرحد پار پاکستان میں بہہ گئے ۔ پنجاب کے لیے جہاں دودھ اور ڈیری کسانی کا اہم ستون ہے، یہ ایک ناقابلِ تلافی صدمہ ہے۔
مرکز کی بے رخی اور سیاسی پس منظرپنجاب کے باسیوں کو یقین ہے کہ دہلی کی بے رخی کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام ہے۔
بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کو یہاں کبھی جگہ نہ مل سکی۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں غیر سکھ وزیر اعلیٰ کا خواب آج تک پورا نہ ہو سکا۔ اکالی دل، کانگریس اور اب عام آدمی پارٹی نے باری باری اقتدار سنبھالا مگر بی جے پی حاشیے پر ہی رہی۔کسانوں کے احتجاج نے تعلقات مزید کشیدہ کر دیے۔ 2020-21 میں پنجاب کے کسانوں نے ایک سال تک دہلی کو گھیرے رکھا۔
بالآخر مودی کو قوانین واپس لینے پڑے۔ یہ پنجاب کی نافرمانی کا سب سے بڑا اعلان تھا۔ تب سے مرکز اور پنجاب کے تعلقات میں دراڑ اور گہری ہو گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب سیلاب آیا تو مرکز تین ہفتے خاموش رہا۔ وزیر اعظم نے پہلے افغانستان کے زلزلے پر تعزیت کی مگر اپنے ملک کے پنجاب کا ذکر تک نہ کیا۔ سکھ مذہبی رہنماؤں کے دباؤ کے بعد ہی مودی پنجاب آئے اور 1300 کروڑ روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔
مگر یہ رقم مرکزی خزانے سے نہیں بلکہ صوبے کے ڈیزاسٹر فنڈ سے نکالی گئی۔ پنجاب کی سیاست پر اثراتوزیر اعلیٰ بھگونت مان بیماری کا عذر پیش کر کے منظر سے غائب رہے۔ ان کی حکومت پر دہلی سے مذاکرات میں ناکامی کا الزام ہے۔ اکالی دل اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔بی جے پی نے خالصتان کارڈ کھیلنے کی کوشش کی مگر سماجی ماہر ہرویندر سنگھ بھٹی کے مطابق یہ محض ایک پرانا حربہ ہے۔
وہ کہتے ہیں، ''یہاں کوئی علیحدگی پسند تحریک نہیں۔ ہر بار جب پنجاب اپنے حقوق مانگتا ہے تو اس پر علیحدگی پسند کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔‘‘پنجاب بھارت کی غذائی سلامتی کی ضمانت ہے۔ ملک کی ایک تہائی گندم اور چاول یہیں سے خریدے جاتے ہیں۔ کھیتوں کے ڈوبنے سے اب فوڈ سپلائی چین پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر پنجاب کو فوری سہارا نہ ملا تو یہ بحران پورے ملک میں قحط کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
عوام کا حوصلہ اور کمیونٹی کی مددمرکز کی بے حسی کے باوجود پنجابی عوام نے کمر کس لی۔ مقامی لوگوں نے اپنی کشتیاں بنائیں۔ گوردواروں نے لنگر کھول دیے۔ ٹریکٹروں پر امدادی سامان بھر کر سیلابی علاقوں میں پہنچایا گیا۔
امریکہ اور کینیڈا میں مقیم پنجابیوں نے ریڈیو مہم چلا کر کروڑوں ڈالر بھیجے۔ پنجابی فلم انڈسٹری کے بڑے نام خود امداد تقسیم کرنے پہنچ گئے۔
پروفیسر گرمیت سنگھ کہتے ہیں، ''یہ حوصلہ سکھ گروؤں کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ سکھ مذہب مشکلات کے سامنے جھکنے کا نہیں بلکہ برادری کے ساتھ کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے۔‘‘ نتیجہ: پنجاب اور دہلی کے بیچ بڑھتی خلیجپنجاب پھر سے بکھرے خواب سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن مرکز کا رویہ اس غصے کو بڑھا رہا ہے۔ لوگوں کے دلوں میں یہ یقین اور گہرا ہو گیا ہے کہ دہلی کو پنجاب کی یاد صرف اس وقت آتی ہے جب سرحد پر جنگ چھڑتی ہے، نہ کہ جب شہری اپنے گھروں میں ڈوب رہے ہوں۔
تجزیہ کار راجندر برار کے مطابق، ''جب پاکستان کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو پنجابیوں کو قربانی کے لیے بلایا جاتا ہے۔ لیکن جب پنجاب پر آفت آتی ہے تو اسے اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ قیمت ہے جو پنجاب دہلی کے حکم پر راضی نہ ہونے کی صورت میں ادا کر رہا ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ