Express News:
2025-05-16@06:19:28 GMT

قربانی کے فضائل و مسائل

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

’’ قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے۔‘‘ (ترمذی)

’’جس نے خوش دلی سے طالب ِ ثواب ہو کر قربانی کی تو وہ آتش جہنم سے حجاب (یعنی روک) ہوجائے گی۔‘‘ (العجم الکبیر)

’’جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ (ابن ماجہ)

جو لوگ قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود اپنی قربانی واجب نہیں کرتے، ان کے لیے لمحۂ فکر ہے، اوّل یہی نقصان کیا کم تھا کہ قربانی نہ کرنے سے اتنے بڑے ثواب سے محروم ہوگئے، مزید یہ کہ وہ گناہ گار اور جہنم کے حق دار بھی ہیں۔ فتاویٰ امجدیہ میں ہے: ’’اگر کسی پر قربانی واجب ہے اور اس وقت اس کے پاس روپے نہیں ہیں تو قرض لے کر یا کوئی چیز فروخت کرکے قربانی کرے۔‘‘

حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے:

’’انسان بقرہ عید کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتا جو اﷲ عزوجل کو خون بہانے سے زیادہ پیاری ہو، یہ قربانی قیامت میں اپنے سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گی اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے لہٰذا خوش دلی سے قربانی کرو۔‘‘ (ترمذی)

حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’قربانی اپنے کرنے والے کے نیکیوں کے پلڑے میں رکھی جائے گی جس سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا۔‘‘

حضرت علامہ علی قاریؒ فرماتے ہیں: ’’پھر اس کے لیے سواری بنے گی جس کے ذریعے یہ شخص بہ آسانی پل صراط سے گزرے گا اور اس (جانور) کا ہر عضو مالک (قربانی پیش کرنے والے) کے ہر عضو (کے لیے جہنم سے آزادی) کا فدیہ بنے گا۔‘‘

ہر بالغ، مقیم مسلمان مرد و عورت، مالک نصاب پر قربانی واجب ہے۔ مالک نصاب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیت کا حاجت اصلیہ کے علاوہ سامان ہو اور اس پر اﷲ عزوجل یا بندوں کا اتنا قرض نہ ہو جسے ادا کردہ ذکر کردہ نصاب باقی نہ رہے۔

فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ حاجت اصلیہ (ضروریاتِ زندگی) سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی عموماً انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزر اوقات میں شدید تنگی و دشواری ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر، پہننے کے کپڑے، سواری، علم دین سے متعلق کتابیں اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ۔ اگر ’’حاجت اصلیہ‘‘ کی تعریف پیش نظر رکھی جائے تو بہ خوبی معلوم ہوگا کہ ہمارے گھروں میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں کہ جو حاجت اصلیہ میں داخل نہیں چناں چہ اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پہنچ گئی تو قربانی واجب ہوگئی۔

’’مال اور دیگر شرائط قربانی کے ایام (یعنی 10ذوالحجہ کی صبح صادق سے لے کر 12 ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب تک) میں پائے جائیں جبھی قربانی واجب ہوگی، اس کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی ’’بہارِ شریعت‘‘ میں فرماتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ دسویں ہی کو قربانی کر ڈالے، اس کے لیے گنجائش ہے کہ پورے وقت میں جب چاہے کرے لہٰذا اگر ابتدائے وقت میں (10ذوالحجہ کی صبح) اس کا اہل نہ تھا، وجوب کے شرائط نہیں پائے جاتے تھے اور آخر وقت میں (یعنی 12 ذوالحجہ کو غروبِ آفتاب سے پہلے) اہل ہوگیا یعنی وجوب کے شرائط پائے گئے تو اس پر قربانی واجب ہوگئی اور اگر ابتدائے وقت میں واجب تھی اور ابھی (قربانی) نہیں کی اور آخر وقت میں شرائط جاتے رہے تو (قربانی) واجب نہ رہی۔‘‘ (عالمگیری)

بعض لوگ پورے گھر کی طرف سے صرف ایک بکرا قربان کرتے ہیں حالاں کہ بعض اوقات گھر کے کئی افراد صاحب ِ نصاب ہوتے ہیں اور اس بناء پر ان سب پر قربانی واجب ہوتی ہے ان سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کی جائے۔ ایک بکرا جو سب کی طرف سے کیا گیا کسی کا بھی واجب ادا نہ ہوا کہ بکرے میں ایک سے زیادہ حصے نہیں ہوسکتے، کسی ایک طے شدہ فرد ہی کی طرف سے بکرا قربان ہوسکتا ہے۔ گائے (بھینس) اور اونٹ میں سات قربانیاں ہو سکتی ہیں۔ نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں مگر کر دینا بہتر ہے (اور اجازت بھی ضروری نہیں)۔ بالغ اولاد یا زوجہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو ان سے اجازت طلب کرے اگر ان سے اجازت لیے بغیر کر دی تو ان کی طرف سے واجب ادا نہیں ہوگا۔ (عالمگیری)

اجازت دو طرح سے ہوتی ہے: صراحۃً : مثلاً ان میں سے کوئی واضح طور پر کہہ دے کہ میری طرف سے قربانی کردو۔ دولۃً: مثلاً یہ اپنی زوجہ یا اولاد کی طرف سے قربانی کرتا ہے اور انہیں اس کا علم ہے اور وہ راضی ہیں۔ (فتاویٰ اہل سنّت)

قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے، کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلاً بہ جائے قربانی کے بکرا یا اس کی قیمت صدقہ (خیرات) کر دی جائے یہ ناکافی ہے۔ (عالمگیری)

قربانی کے جانور کی عمر اونٹ پانچ سال کا، گائے دو سال کی، بکرا (اس میں بکری، دنبہ، دنبی اور بھیڑ نر و مادہ دونوں شامل ہیں) ایک سال کا۔ اس سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں، زیادہ ہو تو جائز بل کہ افضل ہے۔ ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھے مہینے کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ یاد رکھیے! مطلقاً چھے ماہ کے دنبے کی قربانی جائز نہیں، اس کا اتنا فربہ (یعنی تگڑا) اور قدآور ہونا ضروری ہے کہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے۔ اگر چھے ماہ بل کہ سال میں ایک دن بھی کم عمر کا دنبے یا بھیڑ کا بچہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا نہیں لگتا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی، قربانی کا جانور بے عیب ہونا ضروری ہے۔ اگر تھوڑا سا عیب (مثلاً کان میں چیرا یا سوراخ ہو) تو قربانی مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو قربانی نہیں ہوگی۔ (بہارِ شریعت)

ایسا پاگل جانور جو چرتا نہ ہو، اتنا کم زور کہ ہڈیوں میں مغز نہ رہا، (اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دبلے پن کی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکے) اندھا یا ایسا کانا جس کا کاناپن ظاہر ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو (یعنی جو بیماری کی وجہ سے چارہ نہ کھائے) ایسا لنگڑا جو خود اپنے پاؤں سے قربان گاہ تک نہ جا سکے، جس کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو، وحشی (یعنی جنگلی) جانور جیسے نیل گائے، جنگلی بکرا یا خنثی جانور (یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامتیں ہوں) یا جلالہ جو صرف غلیظ کھاتا ہو یا جس کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو، کان، دم یا چکی ایک تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں، ناک کٹی ہوئی ہو، دانت نہ ہوں (یعنی جھڑ گئے ہوں)، تھن کٹے ہوئے ہوں یا خشک ہوں، ان سب کی قربانی ناجائز ہے۔ بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا اور گائے، بھینس میں دو کا خشک ہونا ’’ناجائز‘‘ ہونے کے لیے کافی ہے۔ (درمختار)

جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں، اس کی قربانی جائز ہے اور اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گئے، اگر جڑ سمیت ٹوٹے ہیں تو قربانی نہ ہو گی اور صرف اوپر سے ٹوٹے ہیں جڑ سلامت ہے تو ہو جائے گی۔ قربانی کرتے وقت جانور اچھلا کُودا جس کی وجہ سے عیب پیدا ہو گیا یہ عیب مضر نہیں یعنی قربانی ہو جائے گی اور اگر اچھلنے کودنے سے عیب پیدا ہوگیا اور وہ چھوٹ کر بھاگ گیا اور فوراً پکڑ کر لایا گیا اور ذبح کر دیا گیا جب بھی قربانی ہو جائے گی۔ (بہار شریعت)

بہتر ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے جب کہ اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو ذبح کرنے کا حکم دے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی وہاں حاضر ہو۔ (عالمگیری)

قربانی کی اور اس کے پیٹ میں سے زندہ بچہ نکلا تو اسے بھی ذبح کردے اور اسے (یعنی بچے کا گوشت) کھایا جا سکتا ہے اور مرا ہوا بچہ ہو تو اسے پھینک دے کہ مردار ہے۔ (قربانی ہو گئی اور اس مرے ہوئے بچے کی ماں کا گوشت کھا سکتے ہیں)۔

(بہ حوالہ: بہارِ شریعت)

دوسرے سے ذبح کروایا اور خود اپنا ہاتھ بھی چھری پر رکھ دیا کہ دونوں نے مل کر ذبح کیا تو دونوں پر بسم اﷲ کہنا واجب ہے۔ ایک نے بھی جان بوجھ کر چھوڑ دی یا یہ خیال کر کے چھوڑ دی کہ دوسرے نے کہہ لی مجھے کہنے کی کیا ضرورت ہے تو دونوں صورتوں میں جانور حلال نہ رہا۔ (درمختار)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پر قربانی واجب فرماتے ہیں حاجت اصلیہ قربانی کے تو قربانی کی قربانی قربانی کی کی طرف سے ہوتی ہے اور اگر میں ایک جائے گی گی اور ہیں کہ اور اس ہے اور کے لیے

پڑھیں:

7مئی 2025

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان نے کرایا اور یہ جعفر ایکسپریس کے اغواء کا بدلہ تھا‘ ٹرین کا اغواء ایک ٹیکنیکل کام ہوتا ہے‘ کوئی دہشت گرد جماعت یہ اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک اسے کسی ملک کی مدد حاصل نہ ہو‘ انڈیا نے بی ایل اے کو تیار کیا‘ ہر قسم کی سپورٹ دی اور یہ ٹرین اغواء کرنے میں کام یاب ہو گئی۔

 پاکستان کی بہت بے عزتی ہوئی اور اس نے پہلگام میں بھارت کی بے عزتی کر کے اس کا بدلہ لے لیا وغیرہ وغیرہ‘ دوسرا مفروضہ‘ یہ مودی کا فالس فلیگ آپریشن تھا اور اس کا مقصد پاکستان پر جنگ مسلط کرکے اسے معاشی ٹیک آف سے روکنا تھا‘ دونوںمیں کون سا مفروضہ درست ہے یہ فیصلہ وقت کرے گا تاہم یہ طے ہے مودی نے اس کو موقع بنایا اور اسے آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات اور خود کو تاحیات وزیراعظم بنانے کے لیے بطور ٹرافی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا‘ یہ منصوبہ بظاہر پرفیکٹ تھا لیکن اس میں دو خامیاں تھیں‘ پہلی خامی 1971 کا سانحہ تھا‘ پاک فوج نے آدھا ملک گنوا کر یہ سیکھ لیا تھا ہم سائز‘ بجٹ اور وار مشینری میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

 ہم صرف ٹریننگ‘ میرٹ اور مستقبل کی اسمارٹ ٹیکنالوجی سے ہی اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن سے لڑ سکتے ہیں‘ پاک فوج کو یہ بھی معلوم ہو گیاانڈیا بنگلہ دیش تک نہیں رکے گا‘ یہ باقی پاکستان کو بھی توڑنے کی کوشش کرے گا لہٰذا فوج نے ہر صورت اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہے تاکہ ملک بچ سکے چناں چہ فوج نے پچھلے 50برسوں میں ٹریننگ‘ آلات جنگ اور بھارت تینوں سے غفلت نہیں برتی‘ 2019کے پلوامہ واقعے کے بعد فوج نے فضائی برتری کے لیے بھی دن رات ایک کر دیے‘ انھیں حکومت سے رقم ملی یا نہیں مگر یہ میزائل پروگرام‘ ائیرفورس اور سائبر وار فیئر پر سرمایہ کاری کرتی چلی گئی‘ آپ اس کا نتیجہ 10مئی کو دیکھ لیں‘ دوسری خامی نریندر مودی یہ فراموش کر بیٹھا پاک فوج پچھلے 45برسوں سے حالت جنگ میں ہے‘ افغان وار سے لے کر فتنہ الخوارج تک فوج اور آئی ایس آئی نے ایک دن سانس نہیں لیا۔

 یہ ہر روز حالت جنگ میں رہی اوریہ جنگ تین طرفہ تھی‘ عالمی‘ اندرونی سیاست اور دم توڑتی معیشت‘ ان 45 برسوں میں فوج اور آئی ایس آئی دونوں ہر قسم کے حالات کے لیے ٹرینڈ ہو گئی جب کہ اس کے مقابلے میں انڈین آرمی نے 1971کے بعد کوئی جنگ نہیں لڑی تھی‘ کارگل وارمیں بھارتی فوج نے تھوڑی بہت ہل جل کی لیکن یہ پاکستان جیسے ملک سے لڑنے کے لیے کافی نہیں تھا‘ را کی تمام تر پریکٹس بھی پاکستان میں دھماکوں اور طالبان اور بی ایل اے کی مدد تک محدود تھی جب کہ اس کے مقابلے میں آئی ایس آئی کو مسلسل سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے ساتھ کام کا موقع ملا اور یہ چالیس سال کے جی بی اور موساد کا مقابلہ بھی کرتی رہی‘ اس پریکٹس نے اسے را کے مقابلے میں بہت پختہ کر دیا۔

پاک فوج کی ایک اور برتری ڈرونز اور سائبر ٹیکنالوجی تھی‘ دنیا میں ڈرونز کا افتتاح بھی پاکستان سے ہوا تھا‘ جون 2004میں جنوبی وزیرستان میںدنیا کا پہلا ڈرون حملہ ہوا اور یہ اس کے بعد ہوتے چلے گئے‘ پاکستان نے اس میں بہت نقصان اٹھایا لیکن یہ ڈرون ٹیکنالوجی سیکھ گیا جب کہ بھارت نے یہ ٹیکنالوجی صرف خریدی تھی بھگتی نہیں تھی‘ پاکستان نے پچھلے 25 برسوں میں دنیا کے موسٹ وانٹیڈ مجرموں اور خطرناک ترین آرگنائزیشنز کو بھی بھگتایا ‘ ان میں القاعدہ‘ داعش‘ طالبان اور ٹی ٹی پی شامل ہیں‘ اس نے بھی عوام‘ فوج اور آئی ایس آئی کے اعصاب مضبوط کر دیے‘ پاکستان کو ایک اور برتری چین کی شکل میں بھی حاصل تھی‘ چین ٹیکنالوجی میں امریکا اور یورپ کا مقابلہ کرتا ہے۔

 اس نے 40برسوں میں ٹریلین ڈالر کی وار انڈسٹری ڈویلپ کر لی لیکن اس نے کیوں کہ کوئی جنگ نہیں لڑی لہٰذا یہ اپنا اسلحہ ٹیسٹ کر سکا اور نہ دنیا کو بیچ سکا‘ پاکستان پچھلے دس برسوں میں آہستہ آہستہ چین کی ٹیسٹنگ گراؤنڈ بنتا چلا گیا‘ ہمیں اس کے دو فائدے ہوئے‘ ہمیں عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں دس فیصد رقم میں جدید ترین اسلحہ ملنے لگا اور دوسرا وارٹیکنالوجی میں چین کا ہم پر انحصار بڑھتا چلا گیا‘ میں آپ کو سمجھانے کے لیے دو مثالیں دیتا ہوں‘ بھارت نے فرانس سے رافیل طیارے خریدے‘ اسے 36 طیارے 9 بلین ڈالر میں ملے گویا اسے ایک طیارہ 250 ملین ڈالر میں پڑا جب کہ ہم نے چین سے 35 ملین ڈالر کے حساب سے جے ٹین (J-10) طیارے خریدے ‘ دونوں کی قیمت میں آٹھ گناہ فرق تھا۔

 ہم نے چین کے ساتھ مل کرجے ایف 17 خود بنا لیا تھا‘ آپ اب فرض کیجیے سات مئی اور 10مئی کو اگر جے ٹین اور جے ایف 17 گر جاتے تو کس کا زیادہ نقصان ہوتا‘ پاکستان یا چین؟ پاکستان اس کے باوجود بچ جاتا کیوں کہ یہ نیوکلیئر پاور ہے‘ دنیا فوراً جنگ بند کرا دیتی لیکن اگر چین کے طیارے گر جاتے تو اس کی ٹریلین ڈالر کی وار انڈسٹری ختم ہو جاتی لہٰذا اس نے ہر صورت ہمارا ’’آؤٹ آف دی وے‘‘ ساتھ دینا تھا کیوں کہ اس سے اسے اپنی ٹیکنالوجی کے وار ٹیسٹ کا موقع مل رہا تھا اور کام یابی کی شکل میں اسے پوری دنیا کی مارکیٹ بھی مل جانی تھی‘دوسرا چین یہ بھی جانتا تھا اگر بھارت جیت گیا تو اس کا اگلا ہدف چین ہو گا‘ یہ معاشی اور عسکری دونوں شعبوں میں پہلوان بن جائے گا اور پھرہمیں ہلنے نہیں دے گا‘ پاکستان نے چین کی ان دونوں مجبوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

نریند مودی کا10مئی کی ہار میں کوئی قصور نہیں تھا‘ اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو مار کھا جاتا‘ کیوں؟ کیوں کہ بھارت ہر سال اپنی فوج پر ساڑھے 80 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ ہماری فوج کوصرف ساڑھے آٹھ بلین ڈالرملتے ہیں‘ بھارت کے پاس جدید ترین توپین ارجن اور بھشما‘ جدید ترین جہاز رافیل‘ مضبوط ترین اینٹی بیلسٹک میزائل ایس 400 اور اسرائیل کے جدید ترین ڈرونز ہاروپ ہیں‘ اس کی فوج کی تعداد 14لاکھ ہے اور اس کے خزانے میں بھی 600 ارب ڈالر پڑے ہیں لہٰذا یہ تکبر میں کیوں نہ آتا؟ ہم نے انڈیا کو 2019 میں آدھ گھنٹے میں زمین پر لٹا دیا تھا‘ یہ بھارت کے لیے بڑا سیٹ بیک تھا۔

 مودی نے اس کے بعد ائیرفورس میں رافیل شامل کیے اور مطمئن ہو گیا لیکن پاکستان محدود بجٹ کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اور اس نے طیاروں اور ڈرونز کی کمیونی کیشن ہیک کرنے میں کمال حاصل کر لیا لہٰذا پاکستان نے دس مئی کی صبح انڈین ائیرفورس کا پورا سسٹم جام کر دیا‘ ہم نے بھارت کی 70 فیصد بجلی بند کر دی تھی اور ریڈار سسٹم منجمد کر دیا تھا یہاں تک کہ ہمارے طیارے دہلی تک پہنچ گئے اور وہاں اپنا ’’پے لوڈ‘‘ خالی کر کے واپس آ گئے‘ اس جنگ میںانڈیا کے سات طیارے اور 26ائیربیس تباہ ہو گئے جب کہ ہمارے کسی پائلٹ اور کسی طیارے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا‘ کیا یہ معجزہ نہیں‘ کیا یہ کمال نہیں اور کیا اس پر پوری قوم کو سجدہ شکر بجا نہیں لانا چاہیے؟۔

ہم اب 22 اپریل سے 10مئی کے انتہائی حساس اور مشکل ترین دنوں کی طرف آتے ہیں‘ 22 اپریل کے پہلگام کے واقعے کے بعد جب بھارتی چینلز نے منہ کی توپین کھولیں تو پاکستان اٹھ کر بیٹھ گیا‘ 22 اپریل کی شام تک فوج اور آئی ایس آئی اس نتیجے تک پہنچ چکی تھی ہمیں فوری طور پر جنگ کی تیاری کر لینی چاہیے چناں چہ فوج نے چھٹیاں کینسل کر دیں اور تمام افسروں اور جوانوں کو ہائی الرٹ کر دیا‘ پہلا مقابلہ انفارمیشن وار تھی‘ بھارت نے میجر گورو آریا‘ ارنب گوسوامی‘ امن چوپڑا‘ روبیکا لیاقت‘ سدھیر چوہدری‘ برکھا دت‘ گورو ساونت اور چینلز ری پبلک ٹی وی‘ اے بی پی نیوز‘ آج تک اور این ڈی ٹی کو میدان میں اتار دیا جب کہ ہماری انفارمیشن منسٹری اور ٹی وی چینلز اپنی دھوتی سنبھالتے رہ گئے۔

 پاکستانی صحافی کنفیوژڈ بھی تھے اور ڈبل مائینڈڈ بھی چناں چہ آئی ایس پی آر اور چند یوٹیوبرز سامنے آئے اور انھوں نے اتنی انفارمیشن بمنگ کی کہ انڈیا پاکستان کے اکاؤنٹس بند کرنے پر مجبور ہوگیا‘ پاکستان نے اگلے دن زیادہ بڑا کمال کر دیا‘ اس نے جیوٹیکنگ کے ذریعے انڈیا کے تمام بڑے یوٹیوب چینلز پر اپنا ملی ترانہ چلوا دیا‘ آئی ایس پی آر عوام کے رابطے میں بھی رہا‘ ہر قسم کی صورت حال پر ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری عوام کے سامنے آتے اور قوم کو تازہ ترین صورت حال پر اعتماد میں لیتے رہے‘ یہ بار بار عوام کو حوصلہ بھی دیتے تھے اور انھیں یہ بھی بتاتے تھے ہم جس دن جواب دیں گے اس دن دنیا دیکھے گی اور پھر دنیا نے دیکھا‘انڈین ائیرفورس کا پاکستانی ائیرفورس کے ساتھ پہلا سامنا 29 اور 30 اپریل کی درمیانی رات ہوا‘ انڈیا نے حملے کی کوشش کی لیکن پاکستانی جہازوں نے ان کا راستہ روک لیا‘ پاکستان نے ان کا کمیونی کیشن سسٹم بھی جام کر دیا‘ اس کے بعد ایل او سی کا محاذ گرم ہو گیا۔

 پاکستان نے گولے مار مار کر انڈین آرمی کا حشر کر دیا‘ پاکستان نے اس دوران اڑی اور بگلیہار ڈیمز کو بھی نشانے پر لے لیا‘ میزائل فٹ کر دیے گئے جس پر انڈیا نے گھبرا کر پانی چھوڑ دیا کیوں کہ ان کا خیال تھا پاکستان ڈیم توڑ کر علاقے میں سیلاب لے آئے گا‘ یہ صورت حال بہرحال 6 اور 7مئی کی درمیانی رات تک چلی‘ اس رات عرب اسرائیل جنگ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی فضائی ڈاگ فائیٹ ہوئی‘ 125 طیارے اس رات ایل او سی پر تھے‘ اسی ڈاگ فائیٹ کے دوران انڈیا نے پاکستان کے 9 شہروں پر میزائل داغ دیے جس سے مسجدیں اور سول عمارتوں کو نقصان پہنچا اور 30لوگ شہید ہو گئے‘ اس کے جواب میں پاکستان نے انڈیا کے پانچ طیارے گرا دیے جن میں تین رافیل بھی موجود تھے‘ یہ دنیا میں تباہ ہونے والے پہلے رافیل طیارے تھے۔

     (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • پوری قوم اپنی بہادرافواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ملک و قوم کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے،چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا
  • نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل
  • 7مئی 2025
  • پاکستان اور بھارت جنگ بندی سے فائدہ اٹھا کر حل طلب مسائل کو حل کریں، اقوام متحدہ
  • اراکین قومی اسمبلی پارلیمنٹ لاجز کی تزئین وآرائش اور مرمت نہ ہونے پرپھٹ پڑے
  • چائے کی چاہ، واہ بھئی واہ
  • کراچی: لیاقت آباد میں ڈاکو شہری سے مویشیوں سے بھرا ٹرک چھین کر فرار
  • بہت زیادہ تھائرائیڈ ہارمون معمر افراد میں کیا ذہنی مسائل پیدا کرسکتا ہے؟
  • چین اور امریکہ کے مابین تعاون ہی مسائل کا درست حل ہے، چینی میڈیا