توانائی کے شعبے کے معاہدوں میں نظرثانی سے متعلق حکومتی سطح پر کیے گئے 40 کھرب روپے کی بچت کے دعوے اس وقت غلط ثابت ہوئے جب حکومتی ملکیتی اداروں نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی عوامی سماعت میں اعتراف کیا کہ اصل بچت محض 20 سے 25 کھرب روپے (تقریباً نصف) ہوگی۔

اس بچت کے نتیجے میں اگلے مالی سال میں بنیادی ٹیرف میں صرف 30 سے 67 پیسے فی یونٹ کی کمی متوقع ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ سماعت نیپرا کے چیئرمین وسیم مختار کی زیر صدارت منعقد ہوئی، جسے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی درخواست پر بلایا گیا تھا۔ سی پی پی اے جو پاور ڈویژن کے تحت کام کرنے والا کارپوریٹ ادارہ ہے نے آئندہ مالی سال کی بجلی کی قیمت خرید (پی پی پی) کے تعین کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

مختلف مبصرین اور صنعتکاروں نے ان بچتوں سے متعلق حکومتی دعووں پر سوال اٹھائے تھے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے صنعتکار عامر شیخ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سی پی پی اے کی تجویز کردہ ٹیرف پہلے ہی غیر معمولی حد تک بلند ہیں تو معاہدوں پر نظرثانی سے صنعتی صارفین کو کیا فائدہ ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ بیس ٹیرف میں معمولی کمی بعد ازاں ایندھن کی لاگت اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے ختم ہو جائے گی، جس سے صارفین پر بوجھ برقرار رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ صنعت اپنی بجلی خود پیدا کرنے پر بھی غور کر رہی ہے کیونکہ نہ تو بجلی کی فراہمی مستحکم ہے اور نہ ہی نرخوں میں کوئی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کی جانب سے دی گئی مہلت دو ماہ میں ختم ہو رہی ہے، جس سے مزید غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگی۔

پنجاب پاور بورڈ کے ایک عہدیدار نے بھی اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار کیا اور سوال کیا کہ کیا نظرثانی شدہ معاہدوں میں کیپیسٹی پیمنٹس کے اثرات کو شامل کیا گیا ہے، خاص طور پر جب ان میں کوئی واضح کمی نظر نہیں آتی۔

سی پی پی اے کے نمائندے نوید قیصر نے اعتراف کیا کہ حکومت نے ابتدائی طور پر 40 کھرب روپے کی بچت کا تخمینہ لگایا تھا، مگر اب جامشورو پاور پلانٹ اور شاہ تاج شوگر ملز سے واجبات کے باعث یہ بچت 20 سے 24 کھرب روپے تک محدود ہو گئی ہے۔

نیپرا کے خیبرپختونخوا سے رکن نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی جانب سے معاشی لوڈشیڈنگ کے ذریعے سسٹم لاسز کم ظاہر کرنے پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فیڈرز بند کرنے سے نقصانات میں حقیقی کمی نہیں آتی، بلکہ صرف بجلی کی مکمل بندش سے ہی ڈسکوز کے نقصانات ختم ہو سکتے ہیں۔

سی پی پی اے کے ایک اور عہدیدار نے خبردار کیا کہ اگر کمرشل بنیادوں پر کی جانے والی لوڈشیڈنگ بند کی گئی تو ڈسکوز کے نقصانات میں 600 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔

نیپرا کے چیئرمین وسیم مختار نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ جب گزشتہ دو برسوں میں بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے تو حکومت کو آئندہ اضافے کی توقع کیوں ہے؟ جس پر سی پی پی اے نے جواب دیا کہ بہتر اقتصادی ترقی اور کم بجلی نرخوں سے توانائی کی کھپت میں اضافہ متوقع ہے، اور حالیہ مہینوں میں اس میں بہتری دیکھی گئی ہے۔

سی پی پی اے نے آئندہ مالی سال کے لیے بنیادی ٹیرف میں نظرثانی کی تجویز دی، جو کہ سات مختلف منظرناموں پر مبنی تھی۔ ان کے مطابق صارفین کے نرخوں میں 30 پیسے سے لے کر 2.

25 روپے فی یونٹ تک کمی آسکتی ہے۔

چیئرمین وسیم مختار نے استفسار کیا کہ ان میں سب سے زیادہ ممکنہ منظرنامہ کون سا ہے؟ جس پر نوید قیصر نے جواب دیا کہ 30 سے 67 پیسے فی یونٹ کی کمی سب سے زیادہ متوقع ہے۔

عام حالات اور روپے/ڈالر کی شرح تبادلہ 280 پر مستحکم رہنے کی صورت میں، مالی سال 26أ2025 میں اوسط بنیادی ٹیرف 2.25 روپے فی یونٹ کم ہو کر 24.75 روپے ہو جائے گا، جو اس وقت 27 روپے فی یونٹ ہے۔ اگر شرح تبادلہ 300 روپے فی ڈالر تک گر گئی تو یہ کمی صرف 30 پیسے فی یونٹ تک محدود رہ جائے گی۔

اس کے علاوہ بجلی کی اوسط قیمت خرید 8.16 روپے سے بڑھ کر 9.52 روپے فی یونٹ ہو جائے گی، جس سے مجموعی لاگت 34 سے 35 روپے فی یونٹ کے درمیان متوقع ہے جس میں ٹیکس، فیس، ڈیوٹیز اور سرچارجز شامل نہیں ہے۔

سی پی پی اے کی درخواست میں سات منظرنامے پیش کیے گئے، جو مختلف مفروضات جیسے طلب، ہائیڈرولوجی، ایندھن کی قیمتیں، اور شرح تبادلہ کی بنیاد پر تیار کیے گئے تھے۔ ان منظرناموں کے مطابق پاکستان کے توانائی کے مجموعی مکس میں مقامی ایندھن کا حصہ 55 سے 58 فیصد تک ہے، جبکہ صاف توانائی کے ذرائع کا حصہ 52 سے 56 فیصد کے درمیان ہے۔

Post Views: 2

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: روپے فی یونٹ سی پی پی اے کھرب روپے مالی سال متوقع ہے کے مطابق بجلی کی کیا کہ

پڑھیں:

وفاقی بجٹ 2 جون کو پیش کیے جانے کا امکان 

اسلام آباد(این این آئی)وفاقی بجٹ 2 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے، جس پر آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ورچوئل تکنیکی مذاکرات جاری ہیں۔پالیسی سطح کی بات چیت 19 مئی سے شروع ہو کر 23 مئی تک جاری رہے گی۔ذرائع کے مطابق اگلے مالی سال میں مجموعی آمدنی 200 کھرب روپے تک پہنچ سکتی ہے، قرضوں کی ادائیگی کے لیے اخراجات پر سخت کنٹرول ضروری ہے۔آئی ایم ایف کی پیشگوئی ہے کہ اقتصادی ترقی 3.6 فیصد اور افراطِ زر 7.7 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔اگلے سال کے لیے حکومت کی آمدنی کا ہدف 190 کھرب 900 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، ایف بی آر کی وصولیوں کے ساتھ زرعی آمدنی پر ٹیکس اہم کردار ادا کرے گا۔اگلے سال اخراجات 260 کھرب 570 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی بجٹ 2 جون کو پیش کیے جانے کا امکان 
  • ملتان: ڈائیلسز یونٹ سے 26 سے زائد افراد میں ایڈز منتقلی، وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش
  • بجلی صارفین کو 3 روپے فی یونٹ کمی کے ریلیف سے محروم کر دیا گیا
  • کے الیکٹرک صارفین کیلئے بجلی 5 روپے 2 پیسے فی یونٹ سستی ہونے کا امکان ،درخواست دائر
  • حکومت ایک بار پھر سولربائی بیک ریٹ کم کرنے کے لیے پر تولنے لگی
  • کے الیکٹرک صارفین کیلئے بجلی 5 روپے 2 پیسے فی یونٹ سستی ہونے کا امکان 
  • کے الیکٹرک صارفین کیلئے بجلی 5 روپے 2 پیسے فی یونٹ سستی ہونے کا امکان
  • صارفین کے لیے بجلی سستی کرنے کی درخواست
  • کراچی کے صارفین کیلئے بجلی 5 روپے 2 پیسے سستی کرنے کی درخواست