بھارتی ایئرلائنز کیلئےفضائی حدود بند،اربوں کا نقصان،کارگو سروس بھی ٹھپ
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
نئی دہلی(ویب ڈیسک ) پاک بھارت جنگ ختم ہو چکی ہے، مگر پاکستان نے تاحال بھارتی ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود نہیں کھولی، جس کے باعث بھارتی فضائی کمپنیوں کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایوی ایشن ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود کی بندش سے نہ صرف بھارتی مسافر پروازیں بلکہ کارگو سروسز بھی متاثر ہوئی ہیں، اور اب تک بھارت کو 5 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔
یہ پابندی تین ہفتوں سے جاری ہے، جس کے باعث بھارت سے امریکا، یورپ اور کینیڈا جانے والے لاکھوں مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارتی پروازوں کو متبادل راستے اختیار کرنے کی وجہ سے ان کے سفر میں دو سے تین گھنٹے کا اضافی وقت لگ رہا ہے، جس سے نہ صرف اخراجات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ فلائٹ شیڈول بھی متاثر ہو رہا ہے۔
مزیدپڑھیں:بیٹی صرف ویڈیوز بنانے گئی تھی:جاسوسی کے الزام میں گرفتار یوٹیوبر کے والد کابیان
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پاک بھارت جنگ: پاکستانی کامیابیوں کو گھٹانے کی کوششیں کیوں؟
پاک بھارت جنگ ختم ہوچکی، سیز فائر ہوگئی اور خاصے امکانات ہیں کہ اس میں توسیع ہوجائے گی۔ جنگ میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا ، اس کی کئی وجوہات ہیں جو ہم آگے جا کر بیان کرتے ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی میڈیا اور خود بھارت کے کئی ممتاز دفاعی تجزیہ کار مودی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی نہ صرف حکمت عملی غلط رہی بلکہ اس کا بھارت کو بہت نقصان پہنچا۔
اس پس منظر میں حیران کن اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایک خاص حلقہ اس پاکستانی جیت اور کامیابی پر نجانے کیوں جھنجھلایا ہوا اور فرسٹریٹڈ ہے۔ یہ لوگ نہ صرف تلملا رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر مختلف طریقوں سے اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کبھی یہ پاکستان فوج کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ کامیابی ایئرفورس کی ہے، فوج کی نہیں ۔ کبھی یہ بھارتی بیانیے کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی کامیابیوں پر سوال اٹھاتے اور اس میں کیڑے نکالنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ تازہ ہتھیار نیویارک ٹائمز میں دو دن قبل چھپنے والا ایک آرٹیکل کی صورت آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بھارتی میزائل حملوں سے زیادہ نقصان ہوا جبکہ پاکستانی حملوں نے بھارت کو کم نقصان پہنچایا۔
نیویارک ٹائمز کے کسی آرٹیکل کی ایسی پزیرائی میں نے حالیہ کئی برسوں میں نہیں دیکھی۔ یوں لگ رہا ہے جیسے ہمارے ان پاکستانی بھائیوں کے من میں لڈو پھوٹ رہے ہیں، ان کا بس نہیں چلتا کہ نیویارک ٹائمز کے اس آرٹیکل کے پوسٹر لگا کر دیواروں پر لگائیں، بازاروں میں بانٹیں، جہازوں سے پمفلٹ کی طرح پھینکیں۔ اس پر بھی بات کرتے ہیں، مگر پہلے پاکستان کی کامیابی کا تجزیہ کر لیں۔
پاک فوج کی کامیابی کے 4 دلائل
سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لی جائے کہ اگر اپنے مخالف سے چھ سات گنا بڑی فوج ، کئی گنا زیادہ جدید اور مہنگے ہتھیاروں سے لیس ہو کر حملہ آور ہو اور اس مخالف کو وہ کچلنے میں ناکام رہے تو یہ اس کی شکست ہی سمجھی جاتی ہے۔
کم افرادی قوت، نسبتاً تھوڑے اسلحے اور کم وسائل کے ساتھ لڑنے والی چھوٹی فوج اگر مخالف سے برابر رہ جائے ، تب بھی اس کی فتح ہے۔ اگر بڑی فوج حملہ آور تھی اور وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی تب تو ناکامی تسلیم شدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بھارتی جنگی ایڈونچر کو دنیا بھر میں ناکامی تصور کیا جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں ایسا نہیں ہوا کہ پاکستانی فوج نے صرف اپنی بقا کی جنگ لڑی ہو اور اپنا وجود قائم رکھا ہو بلکہ اس کے برعکس پاکستانی فوج نے بھارتی حملے کا جواب دیا اور نہایت شدید، بھرپور اور زوردار انداز میں ایسا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت اور عسکری ماہرین ابھی تک بھونچکا ہیں، انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کیوں ہوا؟بھارتی وزیردفاع کہہ چکے ہیں کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ پاکستان ان کے میزائل حملے کا جواب دے گا۔ اس سے ویسے بھارتی حکومت کی کوڑھ مغزی اور احمقانہ تصورات کا تو پتہ چلتا ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی انٹیلی جنس بھی پرلے درجے کی نالائق ہے۔
تیسری بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ پاک فضائیہ نے بھارتی فضائیہ کے مقابلے میں اپنی برتری نہ صرف قائم کر دی بلکہ اسے آؤٹ کلاس کر دیا۔ یہ بڑی بات ہے۔ اپنے سے کئی گنا بڑی فضائیہ کو جسے دنیا کے جدید اور مہنگے ترین طیاروں میں سے ایک طیارہ رافیل کےتین سکواڈز کی قوت حاصل تھی ، جس کے پاس دنیا کے بہترین اینٹی میزائل سسٹمز میں سے ایک ایس چار سو موجود ہے، اسے یوں وائپ آؤٹ کر دینا ایک حیران کن بات ہے۔
افواج پاکستان سے حسد کرنے اور کڑھنے والوں کی تو خیر کوئی اہمیت ہی نہیں، دنیا بھر کے ڈیفنس اینالسٹ اور عسکری ماہرین اس سب پر حیران ہے، بے شمار فورمز میں اس پر ڈسکشن ہو رہی ہیں، اس ڈوگ فائٹ کے ڈیٹا کو گولڈن ڈیٹا کہا جا رہا ہے اور اس میں ماہرین دلچسپی لے رہے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ پہلی لڑائی کے بعد بھارتی فضائیہ دوبارہ میدان میں نہیں آئی، رافیل کو تو گویا گراونڈ کر دیا گیا۔ ایل او سی کے بھارتی سائیڈ پر دو ڈھائی سو کلومیٹر کی رینج میں کوئی بھارتی طیارہ نہیں اڑا۔ ایک طرح سے یہ پاک ائیرفورس نے یہ نو فلائی زون بنا دیا۔ کیا یہ کم بڑی کامیابی ہے؟
چوتھی بات پاکستان کے میزائلوں کی کامیابی ہے۔ پاکستان نے مختلف میزائلوں سے بھارت کے کئی ائیربیسز اور مقبوضہ کشمیر میں کئی اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں کہ پاکستانی میزائل بھارتی اینٹی میزائل دفاعی نظام کو چاک کر کے اندر گھسے اور مطلوبہ اہداف کو ہٹ کیا۔ نیویارک ٹائمز نے یہ دعویٰ کیا کہ نقصان کم ہوا۔ یہ مگر وہ بھی مان رہے ہیں کہ میزائلوں نےوہاں ہٹ کیا یا اس کے قریب گرے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان جنگ کی شدت نہیں بڑھانا چاہتاتھا، ممکن ہے ہمارے ماہرین نے دانستہ طور پر زیادہ طاقتور میزائل پھینکنے کے بجائے پہلے مرحلے پر یہ بتایا ہو کہ ہم یہاں ہٹ کر سکتے ہیں اور اگر اگلا میزائل زیادہ لوڈ والا پھینکا تو سب کچھ اڑ جائے گا۔ کہنے کا مقصد ہے کہ میزائلوں کا دفاعی نظام بریک کر کے آگے گزر جانا اہم ہے، نقصان زیادہ ہوا یا کم اس پر تو بحث ہوسکتی ہے اور بھارتی دعوے بھی چیلنج ہوسکتے ہیں۔ اس لئے بھی کہ ابھی تک تھرڈ پارٹی ایسسمنٹ رپورٹ نہیں آئی۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں موجود کمزوریاں
نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی میزائلوں سے زیادہ نقصان پہنچا اور پاکستانی میزائلوں سے بھارتی ائیربیسز کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ بھارت کا ایک میزائل نور خان ائیربیس کی طرف فائر کیا گیا اور اس سے کچھ نقصان پہنچا مگر وہ پاکستانی میزائل حملے سے پہلے ہوا تھا جبکہ رحیم یار خان ائیرپورٹ اور بھولاری ائیر بیس پر بھارتی حملے ضرور ہوئے، مگر زیادہ اہم ائیر بیسز پر بھارتی میزائل حملے انٹرسیپٹ کر لئے گئے، حتیٰ کہ نور خان ائیربیس پر بھی دوسرا حملہ ناکام بنا دیا گیا۔
جہاں تک نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کا تعلق ہے، اس میں بھی کئی تضادات اور خلا موجود ہیں۔ نوجوان کالمسٹ، بلاگر فرحان ملک نے اس حوالے سے عمدہ نکات اٹھائے، وہ لکھتے ہیں؛”نیو یارک ٹائمز کی 14 مئی 2025 کو شائع ہونے والی سٹوری میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ نیویارک ٹائمز نے سیٹلائٹ کا نام، وقت یا کوآرڈینیٹس کیوں نہیں بتائے۔ کیا یہ تصاویر مشکوک ہیں یعنی خود ساختہ ہیں ان کے اصلی ہونے کا ثبوت کہاں ہے؟ نیویارک ٹائمز نے پاکستانی حملوں سے بھارتی ایئر بیسز کے نقصان کی تفصیلات کیوں نہیں دکھائیں؟ جبکہ وہ اپنی رپورٹ میں چار ائیر بیسز کے تباہ ہونے کا دعویٰ بھی کر رہا ہے کہ بھارت نے تسلیم کیا ہے کہ ان کا نقصان ہوا ، مگر کس نوعیت کا ہوا ہے یہ بتانے سے گریز کیا۔
” اسی طرح سٹوری میں پاکستانی اڈوں کی تصاویر تو دکھائی گئی ہیں لیکن ادھم پور ایئر بیس پر پاکستانی حملے کی تصویر میں کوئی واضح نقصان کیونکہ نہیں دکھایا ؟ حالانکہ ایک بھارتی فوجی کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی اس سٹوری میں بھی وہ کر رہا ہے۔کیا نیویارک ٹائمز نے جان بوجھ کر ایسی تصاویر منتخب کیں جو بھارت کے حق میں ہوں؟سٹلائٹ سے تصاویر لینے کا وقت اور موسمی حالات کیوں نہیں بتائے؟ جو سٹلائٹ تصاویر کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے یعنی جو موازنہ کیا گیا ہے وہ بالکل گمراہ کن ہے۔نیویارک ٹائمز نے بھولاری ایئر بیس پر ایک ہینگر کے نقصان کی بات کی، لیکن تکنیکی طور پر ایک ہینگر کا محدود نقصان کسی ایئر بیس کی آپریشنل صلاحیت کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟ پاکستانی فوج نے ان اڈوں سے آپریشنز جاری رکھے،پھر نقصان کی شدت کو بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کیا؟”
کیا روسی ایس چار سو نشانہ بنا تھا
جہاں تک ایس چارسو میزائل سسٹم کی تباہی کا سوال ہے، اس حوالے سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان نے اس اینٹی میزائل سسٹم کواینٹی ریڈار میزائل سی ایم چار سو اے کے جی (CM-400AKGسے نشانہ بنایا۔ عالمی ڈیفنس جرنلز کے مطابق یہ میزائل چین کی کمپنی CASIC (چائنا ایرو اسپیس سائنس اینڈ انڈسٹری کارپوریشن) نے تیار کیا ہے اور پاکستان نے اسے اپنے دفاعی ذخیرے میں شامل کیا ہے۔ پاکستانی فضائیہ نے اس میزائل کو JF-17 تھنڈر طیارے پر نصب کیا تھا۔
CM-400AKG کی خصوصیات
رفتار: یہ میزائل ہائپرسونک ہے اور Mach 4.5 سے Mach 5.5 تک کی رفتار حاصل کر سکتا ہے۔ رینج: تقریباً 100 سے 240 کلومیٹر تک۔
ورکنگ میکنزم: انرشیل اور سیٹلائٹ نیویگیشن کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کی شناخت کے لیے پیسیو ریڈار ہومنگ۔
ایس چار سو میں کئی قسم کے ریڈار اور میزائل سسٹم ہیں، ان میں سے ایک بہت اہم چیز بورڈ (Cheeseboard) ہے۔ یہ ریڈار فضائی اہداف کو اسکین، شناخت اور ٹریک کرتا ہے۔متعدد فریکوئنسی بینڈز میں کام کرتا ہے تاکہ تیزرفتار اور چھپے ہوئے اہداف کو بھی پکڑ سکے۔
اینٹی ریڈار میزائلز خاص طور پر ریڈار کے سگنلز کو ٹریک کر کے اس کے ماخذ پر حملہ کرتے ہیں۔ان کا مقصد دشمن کے ریڈار سسٹمز کو ناکارہ بنانا یا کمزور کرنا ہوتا ہے تاکہ دفاعی نظام کی نگرانی اور ردعمل کی صلاحیت متاثر ہو۔ پاکستانی اینٹی ریڈار میزائل نے بھی یہی کام کیا ، اس نے چیز بورڈ کو نشانہ بنایا تاکہ یہ سسٹم ناکارہ ہوجائے یااس میں کچھ وقت کے لئے تعطل آ جائے۔
اب چاہے جو کچھ بھی کہے، یہ تو حقیقت ہے کہ پاکستانی میزائل بھارتی ائیربیسز پر گرے، ایس چار سو اینٹی میزائل سسٹم انہیں نہیں روک سکا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ پاکستانی دعویٰ غلط نہیں کہ ان کے اینٹی ریڈار میزائل نے آدم پور کے ایس چار سو سسٹم کو نقصان پہنچایا۔ وزیراعظم مودی نے وہاں دورہ کیا اور اس موقعہ پر ایس چار سو کے لانچنگ وھیکل کو دکھا کر یہ تاثر دیا گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ حالانکہ بات یہ نہیں۔ لانچر وھیکل الگ چیز ہے اور اس سسٹم کے چیز بورڈ، بگ برڈ اور دیگر ریڈار سسٹم کی اپنی اہمیت ہے۔
جو چیز جیسے ہے، ویسے قبول کر لیں
میرا ان تمام پاکستانی دوستوں کو مشورہ ہے جنہیں یہ خدشہ ہے کہ اس جنگ میں کامیابی کے بعد پاک فوج کی توقیر بہت زیادہ بڑھ گئی، سپہ سالار زیادہ مقبول اور طاقتور ہوگئے یا اسٹیبلشمنٹ کو فائدہ پہنچ گیا۔ بھیا جی جو چیز جیسے ہے، ویسے قبول کر لو۔ جنگ ایک ہنڈولا ہے جو کبھی اوپر جاتا ہے کبھی نیچے۔ اللہ کے فضل اس کی رحمت اور پھر ہماری افواج کی مہارت ، دلیری سے یہ ہنڈولا اوپر کی طرف گیا ہے، پاکستان سرخرو ہوا ہے۔ اس بات کو تسلیم کر لیں۔ یہ پاکستان اور پاکستانیوں کی کامیابی ہے۔
آپ اگر بھارتی بیانیے کو دہرانے اور اسے رٹ کر جگہ جگہ کاپی پیسٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو نقصان آپ کا اپنا ہی ہے۔ عوامی حمایت ایک الگ چیز ہے اور سیاسی سپورٹ الگ۔
عوام کی حمایت مستقل نہیں ہوتی۔ کوئی سیاسی جماعت اگر عوامی امنگوں کےخلاف جائے، عوامی جذبات کو نہ سمجھے اور بلاوجہ کی مخالفت کرے تو وہ عوامی سپورٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے گی، پھر اس کے اپنے سیاسی کارکنوں کی سپورٹ اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں دلا سکتی۔
وقت کو سمجھیں، اس کے مطابق ایکٹ کریں۔ یہی سیاست ہے۔ یہی سمجھداری ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔