بھارتی آبی جارحیت پر ثالثی عدالت کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی سماعت کرنے والی ثالثی عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس کی اہلیت برقرار ہے اور یہ کہ ان کارروائیوں کو بروقت، موثر اور منصفانہ انداز میں آگے بڑھانا اس کی ذمے داری ہے۔
حکومت پاکستان نے ثالثی عدالت کی جانب سے اعلان کردہ ضمنی ایوارڈ کا خیر مقدم کیا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ بھارت فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کے تحت معمول کے مطابق تعاون بحال کرے اور اپنے معاہداتی فرائض مکمل دیانت دار کے ساتھ ادا کرے۔
بلاشبہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے آبی حقوق سے دستبردار نہیں ہوسکتا ۔ ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ بھارت قانونی طور پر یک طرفہ طور پر معاہدے کے مندرجات کو واپس لے یا تبدیل کرسکے کیونکہ اس کا مطلب جنگ ہوگا، جس سے کرہ ارض کے دو ارب افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ اسی منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے فوری طور پر ثالثی ٹربیونل سے رجوع کیا اور اب فیصلہ پاکستان کے حق میں آیا ہے۔
دراصل پہلگام حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مایوسی واضح تھی کیونکہ اس سے ان کی سیاست کو دھچکا لگا۔ مقبوضہ کشمیر میں شدید جبر اور یہاں تک کہ 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنا بھی جدوجہد آزادی کے جذبے کو کنٹرول کرنے یا اس پر قابو پانے میں ناکامی ہے، تاہم چار روزہ جھڑپ کے بعد سب سے زیادہ حیران کن بات مودی کا بزدلانہ رویہ تھا جس کے ساتھ بھارتی فوج کے اعلیٰ حکام نے ان سیاسی محرکات پر مبنی لیکن غیر ذمے دارانہ پالیسیوں پر عمل کیا۔ اس معاملے سے نمٹنے کے دیگر طریقے بھی تھے لیکن مودی کی جلد بازی کی وجہ سے خطرات اور کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
بھارت کی پیاس بجھانے کے لیے تمام بین الاقوامی معاہدوں اور خود انسانیت کے مستقبل کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا، جو بات اکثر فراموش کردی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نے دوہزار تیرہ میں کشن گنگا ثالثی ایوارڈ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں مقدمہ لڑنے کے پاکستان کے قانونی حق کو تسلیم کیا گیا۔ دریائے نیلم کے قدرتی بہاؤ کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی اور اس حوالے سے چند تکنیکی نکات کو بھی واضح کیا گیا۔
یہ درست ہے کہ بھارت کو کشن گنگا رن آف دی ریور منصوبے کی تکمیل کی اجازت دی گئی تھی لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت نے نیلم جہلم منصوبے پر تعمیراتی کام عجلت میں شروع کیا تھا جس سے اس کی بدنیتی واضح ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کے اہم لمحات کو نظر انداز کرنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ پاکستان کے پانی سے متعلق حقوق، پانی کے تحفظ اور اضافی پانی ذخیرہ کرنے کی ترقی کے لیے فعال طور پر کام کرنے کا وقت آ گیا ہے اور اگر اس وقت مستقبل کی ضروریات کا ادراک نہ کیا گیا تو بھارت کی خواہش و کوشش کے مطابق پاکستان کے کثیر الجہتی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسی تناظر میں مالی سال 26-2025کے بجٹ میں محدود وسائل میں آبی ذخائر کے منصوبوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے نیشنل واٹر پالیسی 2018 کے تحت جامع آبی وسائل کے نظم ونسق کے طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف اہداف مقررکیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم اپنے آبی ذخائر میں جنگی بنیادوں پر اضافہ کریں۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا ’’ آبی جارحیت‘‘ ہے۔ پاکستان کے دریاؤں کی خاموشی گواہی دے رہی ہے کہ صدیوں کی تہذیبوں، عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال اور خون کی روشنائی سے کھینچی گئی سرحدوں کی کوئی وقعت نہیں۔ دریاؤں کی یہ خاموشی اذیت اور ایک ایسی خیانت ہے طاقت کے نشے اور زعم میں سرشار ہو بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے اور یہ دوسروں کی آزادی پر ضرب لگا رہا ہے۔
یہ وہی بھارت ہے جس کا تعارف کبھی گاندھی کے عدم تشدد اور نہرو کے سیکولر ازم سے کیا جاتا تھا لیکن آج، اسی بھارت نے وہ روپ دھار لیا ہے، جس سے کبھی آزادی حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دی تھیں۔ اب وہ ملک جو کبھی نو آبادیاتی ظلم کے خلاف کھڑا ہوا تھا، خود ایک نئے سامراج کا پرچارک بن چکا ہے۔ سات مئی کی صبح، بھارت نے پاکستانی سرزمین پر آپریشن سندور کے نام سے حملہ کیا۔ شہری آبادی اور مساجد پر میزائل داغے گئے۔ چھ مئی کو بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا تھا، وہی معاہدہ جو 1960سے اب تک تین جنگوں کے باوجود قائم رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی مثال تھی کہ دشمن ممالک بھی تعاون کرسکتے ہیں، لیکن اب یہ بھی بھارت کی جارحیت کی نذر ہو چکا ہے۔
دریاؤں کو ہتھیار بنا کر پانی کی فراہمی کو روکنے کی دھمکی دراصل ایک نئی قسم کی جنگ ہے۔ وہ جنگ ہے جس میں بندوقیں نہیں بلکہ پانی روکنے کی صورت میں زندگی چھینی جاتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک ایسے جنوبی ایشیا کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے جہاں پانی پہلے ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا بین الاقوامی برادری اس خاموش قتل پر خاموش ہی رہے گی؟ آج بھارت کی زبان وہ نہیں رہی جو نہرو یا ٹیگور بولا کرتے تھے۔
اب اختلاف ’غداری‘ ہے، سوال کمزوری، اور پاکستان دشمنی حب الوطنی کے استعارے ہیں۔ قابل افسوس ہے کہ بھارت اب ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں آئینی اقدار کو قومی مفاد کی دیوار سے ٹکرا کر توڑا جا رہا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے کبھی تقسیم کو المیہ کہا تھا، مگر اب اسی تقسیم کو ووٹ بینک بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ، جو ہر عالمی تنازعے میں قراردادیں منظورکرتی ہے، یہاں بے بس دکھائی دیتی ہے۔
ہندوستان نے پہلگام فالز فلیگ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی طور پر یک طرفہ معطل کردیا تھا۔ یہ مذموم حرکت 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، سندھ طاس معاہدے کے شق نمبر12 (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب کہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔ سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian،Lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا، پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔
اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے، انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل اور غیر ذمے دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔
دو ماہ سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود نہ تو بھارت اس حوالے سے مذاکرات پر آمادہ ہے اور نہ ہی پاکستان کے حصے کے پانی میں رکاوٹیں ڈالنے سے باز آ رہا ہے بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں، چناب، جہلم اور سندھ پر جاری بھارتی آبی منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایات کی ہیں۔ بھارت متنازع رنبیر نہر پرکام کا آغازکردیا گیا ہے، جو دریائے چناب کو بھارتی ریاست راجستھان سے ملائے گی۔ اسی طرح پکل ڈل،کیرو،کاکوار اور رتلے منصوبوں پر بھی کام کی رفتار بڑھا دی گئی ہے۔
بھارت کی وزارتِ توانائی کی دستاویز کے مطابق جموں و کشمیر میں پن بجلی کی استعداد 3360میگاواٹ سے بڑھا کر 12 ہزار میگاواٹ کی جائے گی اور اس حوالے سے چار بڑے پن منصوبوں میں سے تین دریائے چناب اور اس کی ملحقہ نہروں پر تعمیرکرنے کا پلان ہے۔ ایک طرف بھارت پاکستان کا پانی روکنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور دوسری جانب اپنے متنازع منصوبوں پر جاری ورلڈ بینک کی کارروائی میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔
بھارت نے عالمی بینک کے غیر جانبدار ماہر، مائیکل لینوکو رتلے اور کشن گنگا ڈیم پر تنازعات میں ثالثی کی کارروائی روکنے کی درخواست کی، اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بھارتی اقدام کی مخالفت کی گئی ہے تاہم بھارت کی جانب سے عدم تعاون کا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی طاقتیں اور علاقائی تنظیمیں بالخصوص عالمی بینک‘ آگے بڑھیں اور بھارت پر دباؤ بڑھائیں تاکہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہے جو خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھ طاس معاہدے کے بین الاقوامی اس معاہدے کے ہے کہ بھارت پاکستان نے پاکستان کے کی جانب سے بھارت کی بھارت نے کے مطابق کشن گنگا ا رہا ہے کیا گیا کے لیے ہے اور کے تحت
پڑھیں:
بھارت سندھ طاس معاہدے پر ثالثی عدالت کے فیصلے پر فوری عمل کرے، دفتر خارجہ
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پاکستان نے سندھ طاس معاہدے پر ہیگ میں مستقل ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے بھارت سے فوری اور دیانتدارانہ عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے، دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ثالثی عدالت کا فیصلہ پاکستان کے مؤقف کو درست ثابت کرتا ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی بدستور مؤثر اور فعال ہے اور بھارت کو اسے یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے پیر کو یہاں جاری بیان نے کہا ہے کہ کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی سماعت کرنے والی ثالثی عدالت نے قرار دیا ہے کہ اسکی اہلیت برقرار ہے اور یہ کہ ان کارروائیوں کو بروقت، موثر اور منصفانہ انداز میں آگے بڑھانا اس کی ذمہ داری ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے بیان میں کہا کہ پاکستان ثالثی عدالت کی جانب سے اعلان کردہ ضمنی ایوارڈ کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ 27 جون کو ثالثی عدالت نے اس ضمنی ایوارڈ کا اعلان کرنے کا فیصلہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو التوا میں رکھنے کے غیر قانونی اور یکطرفہ اعلان کے تناظر میں کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اس ضمنی ایوارڈ کا خیر مقدم کرتا ہے، یہ ایوارڈ پاکستان کے اس موقف کی توثیق کرتا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ درست اور فعال ہے اور بھارت کو اس پر یکطرفہ کارروائی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
Post Views: 6