WE News:
2025-11-03@11:11:07 GMT

نور مقدم قتل کیس میں کب کیا ہوا؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

نور مقدم قتل کیس میں کب کیا ہوا؟

آج سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں نور مقدم قتل کیس میں ٹرائل کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے سزا پانے والے ظاہر جعفر کی قتل کے مقدمے میں سزائے موت برقرار رکھی جبکہ ریپ الزامات کے تحت ملنے والی سزائے موت کو عمر قید سے تبدیل کردیا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران غیر ازدواجی تعلقات پر جسٹس علی باقر نجفی کے ریمارکس پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی، ساتھ ہی ساتھ اغوا کی بجائے غیر قانونی حراست کے ریمارکس پر بھی سول سوسائٹی کی جانب سے تنقید کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں نور مقدم قتل کیس میں سزا کیخلاف اپیل: پروسیکیوشن کا پورا کیس کیمروں کی فوٹیج اور ڈی وی آر پر ہے، وکیل سلمان صفدر

ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی زیربحث رہا کہ اگر ایک اثر و رسوخ رکھنے والے خاندان کی بیٹی کے قتل کے حتمی فیصلے میں 5 سال لگ گئے تو اِس ملک کا نظامِ انصاف عام آدمی کو انصاف دینے کی اہلیت تو نہیں رکھتا۔

نور مقدم کیس میں کب کیا ہوا؟

آج سے قریباً 5 سال قبل 20 جولائی 2021 کو ایک خبر نے پورے پاکستان کو غمزدہ کردیا جب یہ پتا چلا کہ پاکستان کے سابق سفارتکار شوکت مقدم کی 27 سالہ صاحبزادی کو ایک اور بااثر اور رئیس خاندان کے بیٹے ظاہر جعفر نے ایف سیون فور کے ایک گھر میں بہیمانہ انداز میں قتل کرکے سر تن سے الگ کردیا ہے۔

قتل کی تفصیلات انتہائی دلخراش تھیں کہ کس طرح ظاہر جعفر نے پہلے نور مقدم کو اپنے گھر میں قید کیا، جس کے دوران اُس نے دو دفعہ بھاگنے کی کوشش کی، لیکن ایک دفعہ چوکیدار نے گیٹ بند کر دیا اور دوسری دفعہ جب نور مقدم نے چھت سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی تو ظاہر جعفر کے ملازمین نے ایک بار پھر مقتولہ کو قابو میں کرکے اندر دھکیل دیا جس کے بعد ظاہر جعفر نے مقتولہ کو پہلے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور اُس کے بعد تیز دھار آلے کے وار کرتے ہوئے اُس کا سر تن سے جدا کردیا۔

اس قتل کے بعد ظاہر جعفر کے والدین نے میڈیا کو بتایا کہ اُن کے بیٹے کا ذہنی توازن درست نہیں، اور جب اُنہیں یہ خبر ملی کہ وہ اس وقت بہت متشدد ہوا ہوا ہے تو اُنہوں نے فوری طور پر ایک نفسیاتی امراض کے ادارے کو فون کرکے اُن کے عملے کو وہاں بھجوایا، لیکن ظاہر جعفر نے اُس عملے کے ایک فرد کو شدید زخمی کردیا۔

قتل کا واقعہ 20 جولائی 2021 کی رات 10 بجے پیش آیا جبکہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم کی مدعیت میں مقدمہ رات 11:30 بجے درج کیا گیا۔

جولائی اگست میں اسلام آباد پولیس نے واقعے کی تحقیقات شروع کیں تو سی سی ٹی وی فوٹیج بہت کارآمد ثابت ہوئی جس سے پتا چلا کہ نور مقدم نے دو دفعہ بھاگنے کی کوشش کی جو کہ ناکام بنا دی گئی۔ یہی سی سی ٹی وی فوٹیج اور اُس کی بنیاد پر تفتیشی افسر کے بیان نے اس مقدمے کے فیصلے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ فرانزک شہادتوں سے بھی مقدمہ ثابت کرنے میں اہم مدد ملی۔

24 فروری 2022 کوسیشن عدالت نے ظاہر جعفر کو قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی، اس کے علاوہ ریپ کے الزام پر 25 سال قید بامشقت اور 2 لاکھ روپے جرمانہ، اور اغوا کے الزام پر اضافی سزا دی گئی۔

مارچ 2023 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیشن عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ریپ کے الزام میں بھی سزائے موت سنا دی۔

آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے قتل کے الزام میں سزائے موت کو برقرار رکھا جبکہ ریپ الزامات کے تحت سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ جبکہ اغوا کے الزامات کے تحت دی گئی 10 سال کی سزا کو کم کر کے ایک سال میں تبدیل کردیا۔

یہ بھی پڑھیں نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار

اب ظاہر جعفر کی اپیل مسترد ہونے کے بعد اُس کے پاس معافی کا ایک فورم موجود ہے کہ صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews رحم کی اپیل سزائے موت ظاہر جعفر عدالت عدالتیں کب کیا ہوا نظام انصاف نورمقدم قتل کیس وکلا وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: رحم کی اپیل سزائے موت ظاہر جعفر عدالت عدالتیں کب کیا ہوا نظام انصاف نورمقدم قتل کیس وکلا وی نیوز نور مقدم قتل کیس ظاہر جعفر نے سزائے موت کے الزام کیس میں کے بعد قتل کے

پڑھیں:

اسرائیلی وزیر کی ہاتھ بندھے، اوندھے منہ لیٹے فلسطینی قیدیوں کو قتل کی دھمکی؛ ویڈیو وائرل

اسرائیل کے دائیں بازو کے سخت گیر وزیر بن گویر کا ایک ویڈیو پیغام وائرل ہو رہا ہے جس میں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں اور صیہونی ریاست کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر نے یہ ویڈیو خود اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کی ہے۔

ویڈیو میں اسرائیلی وزیر اُن فلسطینی قیدیوں کے سامنے کھڑے ہیں جن کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں اور انھیں اوندھا فرش پر لٹایا ہوا ہے۔

اسرائیلی وزیر نے اس مقام پر کھڑے ہوکر ان فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ہمارے بچوں اور خواتین کو مارنے آئے تھے۔

Once again, Israel’s far-right National Security Minister Ben Gvir speaks about the Palestinian abductees and openly incites against them while they stand bound before him, saying: “Do you see them? This is how they are now — but one thing remains to be done, and that is to… pic.twitter.com/k9ylK5Fkvk

— غزة 24 | التغطية مستمرة (@Gaza24Live) October 31, 2025

انھوں نے اپنے مخصوص نفرت آمیز لہجے میں مزید کہا کہ اب دیکھیں ان کا حال کیا ہے۔ اب ایک ہی چیز باقی ہے اور وہ ہے ان لوگوں کے لیے فوری طور پر سزائے موت۔

اسرائیلی وزیر بن گویر اپنی اشتعال انگیز بیانات کے لیے مشہور ہیں، انھوں نے انتباہ دیا ہے کہ اگر ان کی سزائے موت سے متعلق تجویز پارلیمنٹ میں پیش نہ کی گئی تو وہ وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت کی حمایت ختم کر دیں گے۔

انھوں نے ویڈیو کے ساتھ ایک تفصیلی پیغام بھی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے حماس کے رہنماؤں کو ہلاک کرنے کے بعد تنظیم نے یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

اسرائیلی وزیر بن گویر نے فلسطینی قیدیوں پر سخت پابندیوں اور جیلوں میں خوف کی فضا پیدا کرنے کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں جیلوں میں انقلاب پر فخر کرتا ہوں۔ اب وہ تفریحی کیمپ نہیں بلکہ خوف کی جگہیں بن چکی ہیں۔ وہاں قیدیوں کے چہروں سے مسکراہٹیں مٹا دی گئی ہیں۔

بن گویر جو قومی سلامتی کے وزیر ہیں، نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جو بھی میرے جیل سے گزرا ہے وہ دوبارہ وہاں جانا نہیں چاہتا۔

حالیہ ہفتوں میں بن گویر نے سزائے موت کے قانون پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک دہشت گرد زندہ رہیں گے، باہر کے شدت پسند مزید اسرائیلیوں کو اغوا کرنے کی ترغیب پاتے رہیں گے۔

انھوں نے فلسطینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ کسی یہودی کو قتل کریں گے تو زندہ نہیں رہیں گے۔

یاد رہے کہ بن گویر ان چند وزیروں میں شامل تھے جنہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے معاہدے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

ان کی جماعت ’’اوتزما یہودیت‘‘ نے ماضی میں بھی قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیرِ انصاف یاریو لیوین کا بھی کہنا ہے کہ وہ ایک خصوصی عدالت قائم کرنے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔

ان کے بقول یہ عدالتیں 7 اکتوبر 2023 کے حملوں میں ملوث غزہ کے جنگجوؤں پر مقدمہ چلائے گی اور مجرم ثابت ہونے والوں کو سزائے موت سنائی جا سکے گی۔

 

متعلقہ مضامین

  • ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ، اربوں کے اثاثوں والے افراد کی لسٹ جاری
  • اسرائیلی وزیر کی ہاتھ بندھے، اوندھے منہ لیٹے فلسطینی قیدیوں کو قتل کی دھمکی؛ ویڈیو وائرل