بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا دعویٰ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ عسکری کشیدگی کا خاتمہ براہ راست دو طرفہ بات چیت کا نتیجہ تھا، جس میں بین الاقوامی سطح پر اور بالخصوص امریکہ کی طرف سے کوئی ثالثی نہیں ہوئی تھی۔
خارجہ ایس جے شنکر ان دنوں جرمنی اور نیدرلینڈز جیسے یورپی ممالک کے دورے پر ہیں، جہاں وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی پر نئی دہلی کا موقف پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈچ ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان پر حملے کے لیے جو آپریشن سندور شروع کیا تھا، وہ اب بھی جاری ہے۔ تاہم وقتی طور پر یہ آپریشن غیر فعال ہے اور عسکریت پسندوں کی جانب سے کسی حملے کی صورت میں اسے دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن سندور کا تسلسل بھارت کے لیے ایک اسٹریٹیجک مقصد پورا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آپریشن جاری ہے، کیونکہ اس آپریشن میں ایک واضح پیغام ہے – 22 اپریل کو ہم نے جس طرح کی کارروائیاں دیکھی تھیں، اگر ایسی دوبارہ ہوئیں، تو ان کا جواب دیا جائے گا۔ ہم پھر دہشت گردوں کو نشانہ بنائیں گے۔ اگر دہشت گرد پاکستان میں ہیں، تو ہم انہیں وہاں بھی ماریں گے، جہاں وہ ہیں۔‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ یہ آپریشن اصولی طور پر اب بھی قائم ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوجی کارروائی بھی جاری ہے۔
انہوں نے کہاکہ آپریشن جاری رکھنے کا مطلب ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل لڑنا نہیں بلکہ فی الوقت لڑائی اور دیگر عسکری کارروائیوں کے خاتمے پر اتفاق ہے، اس لیے وقتی طور پر آپریشن غیر فعال ہے۔ البتہ وقت پڑنے پر دوبارہ بھی شروع بھی کیا جا سکتا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت اور پاکستان کی حالیہ کشیدگی کے عروج پر جو جنگ بندی ہوئی، اس میں امریکہ سمیت کسی نے بھی کوئی ثالثی نہیں کی اور لڑائی ’’پاکستانی فوج کی جانب سے ہاٹ لائن پر بات چیت کرنے کے بعد‘‘ روکی گئی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ پاکستانی فوج تھی، جس نے پیغام دیا کہ وہ فائرنگ بند کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم نے اسی کے مطابق جواب دیا۔‘‘ البتہ جے شنکر نے تسلیم کیا کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک نے لڑائی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور دونوں فریقوں کو فون کالز بھی کی تھیں۔
بھارتی وزیر خارجہ نے کہاکہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس نے اس پر بات کی تھی۔ مسٹر روبیو نے مجھ سے اور جے ڈی وینس نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کی تھی، تاہم ان کا کردار تشویش کا اظہار کرنے تک ہی محدود تھا۔
جے شنکر نے کہاکہ ہم سے جس نے بھی بات کی، امریکہ سمیت، ہم نے اس پر ایک بات بالکل واضح کر دی تھی کہ اگر پاکستانی جنگ بند کرنا چاہتے ہیں، تو یہ بات ہم ان سے سننا چاہتے ہیں اور ان کے جنرل کو ہمارے جنرل کو فون کر کے یہ کہنا پڑے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ دنوں میں کئی بار یہ بات بہت واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی حالیہ لڑائی انہی کی کوششوں کی بدولت رکی تھی۔ ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی بھی پیشکش کی ہے۔
تاہم چونکہ بھارت ثالثی کا مخالف ہے، اس لیے وہ پوری شدت سے اس بات کو مسترد کرتا آیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں کسی بھی ملک نے کسی ثالث کا کوئی کردار ادا نہیں کیا۔  امریکی صدر کے ان دعووں کے بارے میں جب جے شنکر سے پوچھا گیا کہ امریکی صدر نے جنگ بندی میں سہولت فراہم کی اور ثالثی کی پیشکش کی ہے، تو جے شنکر نے ایسے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ ہمارے اور پاکستانیوں کے درمیان کا معاملہ ہے۔ ہم اس سے دو طرفہ طور پر نمٹنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ نے کشمیر پر نئی دہلی کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ کوئی بھی ملک اپنی سرزمین کے کسی حصے پر مذاکرات نہیں کرتا۔ کشمیر کا ایک حصہ ایسا ہے جو 1947 اور 1948 سے پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔ جب وہ اس حصے کو چھوڑنے کی تجویز پیش کریں گے، تو ہم ان سے بات کرنا چاہیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا  کہ یہ ایک سنجیدہ بات چیت ہونا چاہیے۔ یہ وہ ہے، جو ہمیں اپنے اور حکومت پاکستان کے درمیان کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم اپنی سرزمین پر بات چیت نہیں کر رہے ہیں۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بھارت اور پاکستان بھارتی وزیر خارجہ پاکستان کے درمیان انہوں نے کہا کہ بھارت بات چیت کی تھی

پڑھیں:

جنگی بندی میں ٹرمپ کا کوئی کردار ہے، نہ ہی پاکستان نے ایٹمی حملے کی دھمکی دی، بھارتی خارجہ سیکریٹری

خارجہ سیکریٹری وکرم مسری نے پارلیمانی کمیٹی برائے امور خارجہ کی میٹنگ کے دوران امریکی صدر کے بیان بر خلاف بات کرتے ہوئے کہا کہ ہند پاک دشمنی میں توقف کا مطالبہ ڈی جی ایم او سے ڈی جی ایم او بات چیت کے بعد کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سیز فائر کا اعلان کیوں کیا؟ سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کو بھارتی انتہا پسندوں کی دھمکیاں

وکرم مسری کے مطابق ٹرمپ نے ’جنگ بندی‘ کے بارے میں اپنے دعوے سوشل میڈیا پر کیے، نہ کہ کسی سرکاری چینل کے ذریعے، جہاں بھارت اپنی بات کو سامنے رکھ سکتا تھا۔

خارجہ سیکریٹری کہنا تھا کہ کسی دوسرے ملک کے پاس جموں و کشمیر کے مسائل پر تبصرہ کرنے کا کوئی مؤقف نہیں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ دو گھنٹے سے زیادہ طویل ان کیمرہ سیشن میں سیکرٹری خارجہ نے مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ معمولات کی بحالی کو مسترد کر دیا۔

بار بار پوچھے گئے سوال پر خارجہ سیکریٹری نے پینل کے ارکان کو بتایا کہ پاکستان کے ڈی جی ایم او میجر جنرل کاشف عبداللہ نے 10 مئی کی صبح 9.15 بجے اپنے بھارتی ہم منصب سے رابطہ قائم کرنے کی پہلی کوشش کی۔ تاہم بھارتی ڈی جی ایم او لیفٹیننٹ جنرل راجیو گھئی اس وقت تک اعلیٰ حکام سے الجھ گئے تھے اور وہ فون نہیں اٹھا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے  تھوڑی دیر بعد ہی پاکستانی ہائی کمیشن کے عہدیداروں نے ایم ای اے کو پاکستانی ڈی جی ایم او راجیو گھئی سے رابطے کی کوششوں کے بارے میں بتایا۔

پارلیمانی پینل کی سربراہی کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کررہے ہیں اور اس میں روی شنکر پرساد، اسد الدین اویسی، سدھانشو ترویدی ابھیشیک بنرجی، ساگاریکا گھوس، راجیو شکلا، جان برٹاس، اپراجیتا سارنگی، اے ڈی سنگھ، دیپندر سنگھ ہڈا شامل ہیں۔

اجلاس میں چیئرپرسن سمیت ریکارڈ 24 اراکین نے شرکت کی۔

خارجہ سیکریٹری نے پینل کو یہ بھی بتایا کہ تنازع مکمل طور پر روایتی ڈومین میں رہا، اور پاکستان کی طرف سے کوئی جوہری سگنل نہیں دیا گیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ان رپورٹس میں تضاد ہے کہ پاکستان نے جنگ کے دوران جوہری خطرہ ظاہر کیا تھا، کچھ نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس خطرے کی وجہ سے امریکا کو مداخلت کرنا پڑی۔

پاکستان کی جانب سے چینی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں سوالات کے جواب میں مسری نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے 9 فضائی اڈوں پر ضرب لگائی ہے اور پاکستان جس پلیٹ فارم سے ہتھیار چلاتا ہے وہ غیر اہم ہے۔

اجلاس میں ترکی کے پاکستان کی حمایت میں سامنے آنے کے بارے میں بہت سارے سوالات دیکھنے میں آئے۔

خارجہ سیکریٹری نے اس بات کی تردید کی کہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پاکستان کو بھارت کے حملے کے بارے میں مطلع کیا تھا، جیسا کہ ان کے ویڈیو تبصرہ سے ظاہر ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیرخارجہ ’آپریشن سندھ‘ کے پہلے مرحلے کے عین بعد کا حوالہ دے رہے تھے جب بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا بھارت پاکستان ٹرمپ وکرم مسری

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کے تمام دعوے جھوٹے ہیں، بھارتی وزیر خارجہ
  • مودی سرکار کی آپریشن سندور میں ناکامی پر سابق بھارتی وزیر خارجہ کے ہوشربا انکشافات
  • آپریشن سندور جاری مگر فی الوقت غیر فعال، بھارتی وزیر خارجہ
  • مودی سرکار کی آپریشن سندور میں ناکامی پر سابق بھارتی وزیر خارجہ کے ہوشربا انکشافات
  • جنگی بندی میں ٹرمپ کا کوئی کردار ہے، نہ ہی پاکستان نے ایٹمی حملے کی دھمکی دی، بھارتی خارجہ سیکریٹری
  • بھارت کا بلیم گیم بے نقاب ہوچکا‘ پاکستان نے الزامات کو غلط ثابت کیا : اسحاق ڈار
  • آپریشن سندور بھارت کے لئے ناسور بن گیا، تاریخی سبکی پر حکومت اور فوج کی نیندیں اڑگئیں
  • پاک بھارت جنگ بندی دوطرفہ تھی، اس میں ٹرمپ کا کوئی کردار نہیں، بھارتی سیکرٹری خارجہ
  • آپریشن سندور بھارت کیلئے ناسور بن گیا(تاریخی سبکی پرمودی حکومت اور فوج کی نیندیں اڑگئیں)