بھارت کو اگر دوبارہ شوق پورا کرنا ہے تو آزمالے ہم تیار ہیں، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23 مئی 2025)ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ بھارت کو اگر دوبارہ شوق پورا کرنا ہے تو آزمالے ہم تیار ہیں،بھارت نے ایک جارجیت کا نتیجہ دیکھ لیا ہے، بھارت سے اب بھی کہتے ہیں کہ کوئی بیوقوفی نہ کرے، بھارت دہشت گردی کو پاکستان کیخلاف استعمال کررہا ہے،وفاقی سیکرٹری داخلہ خرم آغا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جب تک کشمیر کا تنازعہ حل نہیں ہوتا پاکستان اور بھارت کے درمیان امن نہیں ہو سکتا۔
مسئلہ کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ چین بھی فریق ہے۔24 کروڑانسانوں کا پانی بند کرنے کی بات کوئی پاگل انسان ہی کر سکتا ہے۔بھارت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو بطورہتھیار استعمال کر رہا ہے۔(جاری ہے)
معرکہ حق میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے دشمن کا منہ کالا کیا۔بھارت پاکستان کیخلاف دہشت گردی کو ٹول کے طو رپر استعمال کر تاہے ۔بھارت اس خطے میں عدم استحکام اور دہشت گردی کا محور ہے۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ دہشتگردی کون کر رہا ہے۔ بھارت ڈرامہ کر رہا ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی ہو رہی ہے۔ بھارت اپنی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ سب کر رہا ہے۔ بھارت کے اندر سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج سینہ تان کر کھڑی ہیں ان کی بزدلانہ کارروائیوں سے ہم ڈرنے والے بالکل نہیں۔ بھارت کے اندر سے سوالات آرہے ہیں کہ سکیورٹی فیلیئر ہوگیا۔ یہ دہشت گردی کہاں جا کر ختم ہوتی ہے کون ہدایات دیتا ہے سب کچھ واضح ہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے بھارت اس حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔افغانستان عدم استحکام کی سازش میں بھارت کا آلہ کار نہ بنے۔افغانستان ہمارا دوست بردار ملک ہے دہشتگردوں کی پناہ گاہ اپنے ملک میں نہ بننے دے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردوں سے نمٹ رہے ہیں ۔ دہشت گردوں سے نمٹنے کے سواءکوئی چارہ نہیں ہے۔روزانہ 150سے زائد انٹیلی جنس آپریشن کر رہے ہیں۔دہشت گردوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ ماہ رنگ بلوچستان کا چہرہ دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ماہ رنگ بلوچستان دہشت گردوں کی پراکسی ہیں۔ماہ رنگ بلوچ نے جعفرایکسپریس کے دہشت گردوں کی لاشیں مانگیں۔ دہشت گردوں کی لاشیں بی وائی سی کو کیوں دیں۔ دہشت گردوں کی لاشیں ان کے ورثا کو دی گئیں۔ دہشت گردی کے پیچھے کوئی نظریہ نہیں صرف بھارت ہے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ دہشتگردوں کو بھی پتہ ہے و ہ کبھی بلوچستان کو علیحدہ نہیں کر سکتے۔ بلوچی ہمارے بھائی اور دل کا ٹکڑا ہیں۔ کراچی میں کوئٹہ سے زیادہ بلوچ رہتے ہیں یہ بلوچستان کو پاکستان سے جدا نہیں کر سکتے۔ فتنہ الہندوستان بلوچستان کی ترقی کے خلاف ہیں، رستہ دشوار اورطویل ہو سکتاہے، فتح حق کی ہوتی ہے۔بلوچستان کے بلوچ پوچھ رہے ہیں کہ اس دہشت گردی کا بلوچیت سے کیا تعلق ہے؟ پاکستان کے مسلمان پوچھ رہے ہیں کہ اس دہشتگردی کا اسلام اور پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ یہ کون سا اسلام اور کون سی بلوچیت ہے جس میں انسان کا زندہ رہنے کا حق یہ ہے کہ تمہارا ڈی این اے کیا ہے ؟ یہ کون سا نظریہ ہے جس کے تحت یہ درندگی ہندوستان کے پیسے اور احکام پر بربریت کررہے ہیں؟ یہ کوی نظریہ نہیں یہ حیوانیت ہے۔اس لئے یہ فتنہ الہندوستان ہے، اس کا کسی بلوچستان سے تعلق نہیں ہے، اس کا تعلق صرف ہندوستان سے ہے۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید بتایا کہ اسلم اچھو بھارت میں ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بھی بھارت میں موجود ہے۔ زخمی دہشت گردوں کا علاج بھارت میں ہوتا ہے۔ بھارت انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کررہا ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ خوارج مسلمانوں کو قتل کریں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری ڈی جی آئی ایس پی آر دہشت گردوں کی کر رہا ہے نے کہا کہ بھارت کے گردی کو رہے ہیں کہ دہشت ہیں کہ
پڑھیں:
دہشت گردی اور اسمگلنگ کا خاتمہ ضروری
وفاقی کابینہ نے معرکہ حق، آپریشن بنیان مرصوص کی اعلیٰ حکمت عملی اور دلیرانہ قیادت کی بنیاد پر ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے اور دشمن کو شکست دینے پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر (نشان امتیاز ملٹری) کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دے دی۔
ادھر پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کا رابطہ ہوا ہے، جس میں افواج کو فرنٹ لائن سے ہٹانے پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ ادھر بدھ کے روز بلوچستان کے شہر خضدار میں بچوں کو اسکول لے جانے والی ایک بس پر خودکش حملے کے نتیجے میں 3 بچوں سمیت 5 افراد شہید اور 38 شدید زخمی ہوگئے۔
بلاشبہ آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کا کریڈٹ سپہ سالار حافظ سید عاصم منیر کو جاتا ہے، ان کی جدید جنگی حکمت عملی کے سبب بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، لٰہذا ان کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی کو سراہا گیا ہے۔
ان کا اہم قومی امور کے حل میں انتہائی کلیدی کردار رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ملک کی معیشت کی مضبوطی، خارجہ امور، دہشت گردی کے خاتمے، مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ سمیت اہم ترین مسائل کے حل میں وفاقی حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ہے۔ دوسری جانب پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطے کے نتیجے میں افواج کو فرنٹ لائن سے ہٹانے پر اتفاق ہونا خوش آیند امر ہے،کیونکہ امن کا راستہ اختیار کرنے میں دونوں ممالک کے عوام کی بھلائی پوشیدہ ہے۔
بلوچستان کے شہر خضدار میں دہشت گردوں کا اسکول کے معصوم طلبہ پر حملہ کرنا انسانیت سے گرا ہوا فعل ہے، ان درندہ صفت عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ دہشت گردوں نے پاکستان کے مختلف حصوں کو بارہا نشانہ بنایا ہے۔ چاہے وہ مساجد ہوں، تعلیمی ادارے، بازار، فوجی تنصیبات یا عام شہری، دہشت گردوں کے حملوں نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔ دہشت گردی محض ایک داخلی مسئلہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیرونی عوامل بھی کارفرما ہیں۔
بعض عالمی طاقتیں اور ہمسایہ ممالک پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں، اور انھوں نے بعض علیحدگی پسند اور شدت پسند گروہوں کی پشت پناہی کر کے پاکستان میں عدم استحکام کو فروغ دیا ہے۔ ان گروہوں کو مالی، فکری اور عسکری معاونت فراہم کی جاتی رہی ہے، جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انٹیلجنس بیسڈ آپریشنز کیے جارہے ہیں، دہشت گرد سرحد پار چلے جاتے ہیں مگر افغانستان کا ان دہشت گردوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے یا وہ کنٹرول کرنا نہیں چاہتا۔ بلوچستان میں اکثر بسوں میں اسلحہ بردار نقاب پوش داخل ہوتے ہیں۔ بس میں سوار مسافروں کا شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور جن کا شناختی کارڈ پنجاب کا ہو، انھیں قتل کردیتے ہیں جب کہ باقی مسافروں کو بس سمیت آگے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے بعد ازاں ان افراد کی لاشیں ملتی ہیں۔
اب خضدار میں اسکول کے طلبہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ۔ میڈیا، سیاستدان، انسانی حقوق کی تنظیمیں اگرچہ بلوچستان میں گمشدہ افراد کے مسئلے پر بہت بات کرتی ہیں۔
اس پر دھرنے، لانگ مارچ اور مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں جس پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن بلوچستان میں دہشت گرد جو ظلم کررہے ہیں،ان کے بہیمانہ قتل و غارت پر سول سوسائٹی اور اہل علم کا رردعمل خاصا کمزور نظر آتا ہے۔ بلوچستان میںدہشت گردوں نے متعدد بے قصور ڈاکٹرز، پروفیسرز، اساتذہ، کاروباری افراد اور محنت کشوں کو قتل کیاہے،اب اسکول کے بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے، اس ظلم کو ظلم کہتے ہوئے کسی کو ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔
افغانستان مسلسل دوہری پالیسی پر عمل پیرا ہے ، افغانستان کی کسی حکومت نے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گینگز کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کی ہے ۔ پاکستان میں ایک مخصوص لابی دہائیوں سے پاکستان کے مفادات کے برعکس افغانستان کے مخصوص گروہوں کے ساتھ ہم آہنگ چلی آرہی ہے۔پاکستان نے جب بھی افغانستان کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے کی تیاری کی تو اس لابی نے پاکستان کے سسٹم کو دباؤ میں لاکر کچھ نہیں کرنے دیا۔
کوئی ان سے پوچھے کہ کیا افغان سیاسی عمائدین اور ان کا کاروباری طبقہ بھی پاکستان کے حق میں ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لیے بھارت اور افغانستان دونوں برابر ہیں۔ درحقیقت دہشت گردی کو ایک مناسب ڈھانچے میں تبدیل کردیا گیا ہے، بشمول منشیات جو یہاں تیار نہیں کی جاتی ہیں وہ افغانستان سے آتی ہیں۔ ہنڈی/ حوالہ کا نظام پاکستان، بھارت اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے قائم ہے۔
یہ اتنے لمبے عرصے سے دہشت گردی کی مالی معاونت سمیت ہر طرح کے کالے دھن کو لانڈرنگ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دہشت گرد گروہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ یہ بہت سے جائز کاروباروں میں کامیاب رہتا ہے اور ہمارے لوگوں نے اس کا غلط استعمال کیا ہے۔
جرائم کی زیادہ تر آمدنی غیر قانونی ذرائع سے ہوتی ہے، یعنی بدعنوانی، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ، غیر قانونی جوا اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں۔ طویل عرصے بعد لگا تار دہشت گردی کی کارروائیوں نے واضح کر دیا ہے کہ مبہم اور نیم دلانہ پالیسیوں سے کام نہیں چلے گا، ساتھ ہی بہت سارے سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ ایسے بہت سے سوال موجود ہیں جن کا جواب دوعملی کا چولا اتار کر سیاسی اور تزویراتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر تلاش کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں اسمگلنگ اور بلیک منی ایک اہم مسئلہ ہے، اور اس کا ملکی معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ اس پر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک میں موجود بدعنوان اور جرائم پیشہ عناصر طرح طرح سے ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں تیزی سے مصروف عمل ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اسمگلنگ ہے، اگرچہ معیشت کی تباہی میں اپنے حجم کے اعتبار سے اس کا حصہ دیگر بد اعمالیوں کے مقابلے میں کم نظر آتا ہے، لیکن اس کے اثرات کثیر الجہتی ہیں۔ اس سے ایک جانب قومی خزانے کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو دوسری جانب بہت سی صنعتیں اور کاروبار اس کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں یا ہو رہے ہیں۔
جہاں دہشت گردی نے ملک کی سلامتی کو نشانہ بنایا، وہیں اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہر سال اربوں روپے کا ٹیکس چوری ہو جاتا ہے کیونکہ اسمگلنگ شدہ اشیاء قانونی راستوں سے ملک میں داخل نہیں ہوتیں، جس کے باعث حکومت کی آمدنی کم ہوتی ہے۔ یہ آمدنی وہی ہے جس سے صحت، تعلیم، سڑکوں اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے بجٹ مختص ہوتا ہے۔ جب ریاست کے مالی وسائل کم ہوں گے تو عوامی خدمات بھی متاثر ہوں گی، اور یوں ایک عام شہری ہی اس کا سب سے بڑا متاثر بنتا ہے۔
اسمگلنگ کی وجہ سے ملک کی مقامی صنعتیں بھی شدید متاثر ہوتی ہیں۔ جب اسمگل شدہ سستی اشیاء بازار میں دستیاب ہوتی ہیں تو مقامی کارخانے اور کاروباری افراد ان کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتے۔ نتیجتاً کارخانے بند ہو جاتے ہیں، بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، اور معاشی بدحالی جنم لیتی ہے۔ اس کے علاوہ اسمگلنگ سے حاصل شدہ رقم غیرقانونی سرگرمیوں میں استعمال ہوتی ہے، جن میں منشیات کی خرید و فروخت، غیرقانونی ہتھیاروں کی ترسیل، اور بعض اوقات دہشت گردی کی فنڈنگ بھی شامل ہوتی ہے۔ دہشت گردی اور اسمگلنگ کے پیچھے بعض اوقات وہی عناصر ہوتے ہیں جو ریاستی نظام میں شامل ہو کر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ یہ ریاستی نظام کی کمزوری اور بدعنوانی کا ثبوت ہے، جو ان مسائل کو مزید سنگین بناتا ہے۔
اداروں کے مابین بہتر رابطہ کاری کی بھی ضرورت ہے۔ ادارہ جاتی اصلاحات اور انفورسمنٹ کے نظام کو جدید بنانا ناگزیر ہے تاکہ پاکستان معاشی لحاظ سے ایک پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اور صرف ہماری ہے، ملک اور نسل کی بقا کی جنگ، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
دانش مندانہ اور فلسفیانہ موشگافیوں سے نکل کر حقیقت سے آنکھیں چار کرنی ہوں گی۔ نظام میں اصلاحات کا کام سویلین حکومت اور پارلیمنٹ کا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر نیک نیتی سے قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کی تائید و عملی شراکت سے اس سمت میں پیشِ رفت کی جائے تو حالات جلد تبدیل ہوسکتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ مصلحتوں کا بالائے طاق رکھ کر بلوچستان میں دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپور آپریشن کرکے بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنایا جائے۔