سکھر- حیدر آباد موٹر وے میں ایسا کیا ہے کہ یہ 12 سال میں مکمل نہیں ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
حیدرآباد سکھر موٹر وے (M-6) پاکستان کے جنوبی اور شمالی علاقوں کو جوڑنے والی اہم شاہراہ ہے، جو کراچی سے پشاور تک کے موٹر وے نیٹ ورک کا آخری غیر مکمل حصہ ہے۔
یہ منصوبہ سندھ کے مختلف اضلاع سے گزرتا ہے اور اس کی تکمیل سے علاقائی ترقی اور اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اوور اسپیڈنگ پر چالان، بچوں نے موٹروے پولیس سے عیدی مانگ لی
حیدر آباد سکھر موٹروے کی کل لمبائی 306 کلومیٹر ہے جو 6 لینز پر مشتمل 2 طرفہ موٹر وے ہوگا، یہ موٹر وے جامشورو، حیدرآباد، مٹیاری، ٹنڈو آدم، شہدادپور، نوابشاہ، نوشہرو فیروز، خیرپور اور سکھر سے گزرے گا۔
حیدر آباد سکھر موٹر وے میں 15 انٹرچینجز، 82 کینال پل، 1 انڈس دریا پر بڑا پل، 6 فلائی اوورز، 19 انڈرپاسز، 10 سروس ایریاز، 12 ریسٹ ایریاز کے علاوہ اور جدید ٹریفک مینجمنٹ سسٹم بھی شامل ہوگا۔
حیدر آباد سکھر موٹروے کا ابتدائی تخمینہ جو 2022 میں لگایا گیا تھا وہ تقریباً 308.
منصوبے کی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ورلڈ بینک، قطر، آذربائیجان اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک جیسے اداروں سے سرمایہ کاری کے لیے رابطہ کیا گیا ہے، متوقع تکمیل کا وقت 30 ماہ بتایا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:موٹر وے اور جی ٹی روڈ ٹول ٹیکس میں اضافہ بھتے کی مانند ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
M-6 موٹر وے کا آغاز جامشورو میں M-9 موٹر وے سے ہوگا اور یہ N-55 انڈس ہائی وے اور N-5 نیشنل ہائی وے سے منسلک ہوگا۔ یہ موٹر وے مٹیاری، ٹنڈو آدم، شہدادپور، نوابشاہ، خیرپور، اور آخر میں روہڑی (سکھر) تک جائے گا۔
M-6 موٹر وے کی تکمیل سے کراچی سے پشاور تک کا موٹر وے نیٹ ورک مکمل ہوگا، جو ملک کی اقتصادی ترقی، تجارتی سرگرمیوں، اور علاقائی رابطوں میں اہم کردار ادا کرے گا۔
یہ منصوبہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا بھی حصہ ہے، جو بین الاقوامی تجارتی راستوں کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
معاشی ماہر و تجزیہ کار تنویر ملک نے اس منصوبے کے حوالے سے وی نیوز کو بتایا کہ سکھر حیدر آباد موٹر وے سی پیک کا ایسٹرن پارٹ ہے، جس کے تحت چین کو کراچی پورٹ سے جوڑا جائے گا۔ جس میں تھاکوٹ، خنجراب، برہان، لاہور، ملتان، سکھر، حیدرآباد اور پھر کراچی شامل تھا۔
ایک روٹ بلوچستان اور گوادر کا تھا اور ایک رتوڈیرو، لاڑکانہ خضدار اور ڈی جی خان اور ڈی آئی خان کے روٹ کا حصہ بننا تھا۔
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ سی پیک کو 12 سال ہو چکے ہیں، جس کے تحت ملتان سکھر تک تو بن چکا لیکن یہ والا پراجیکٹ سکھر سے حیدر آباد تک کا منصوبہ مکمل اس لیے نہیں ہوسکا۔
تنویر ملک کے مطابق اس کا سب سے پہلا مرحلہ زمین لینے کا تھا، جس کو خریدتے وقت یہ مسلئہ سامنے آیا کہ متعلقہ زمین لوگ بہت مہنگے داموں بیچ رہے ہیں جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں:موٹر وے سے ایوان صدر تک کا سفر صرف 15منٹ میں، محسن نقوی نے نئے منصوبے کا اعلان کردیا
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ اب پھر سے شور ہو رہا ہے کہ اس روٹ کو بنایا جائے تا کہ سی پیک کے نامکمل حصہ کو مکمل کیا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کئی سو ارب کا پراجیکٹ ہے اس بجٹ میں وفاقی حکومت نے 100 ارب روپے رکھے ہیں تو یہ رقم مناسب اس لیے ہے کہ اس پراجیکٹ کو ایک سال میں نہیں بننا۔
اس پراجیکٹ میں چین کی فنڈنگ لانے کی کوشش کی گئی، لیکن چائنیز اب انفراسٹرکچر پراجیکٹس میں دلچسپی نہیں رکھتے، تو اب اس کو حکومت پاکستان کو خود اپنے وسائل سے بنانا پڑے گا۔
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ جہاں تک سندھ کے اعتراضات کا معاملہ ہے تو کچھ حد تک ان کے اعتراضات درست بھی ہیں، کیوں کہ پورے پاکستان میں موٹرویز کا جال بچھا دیا گیا ہے، لیکن صرف یہ ایک ٹکڑا رہ گیا ہے، ایسا ہی اگر کراچی حیدر آباد کو دیکھا جائے تو وہ بھی ایکسپریس وے ہے، موٹروے وہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ موٹروے کا جو اسٹرکچر ہوتا ہے وہ کراچی حیدرآباد روٹ کا نہیں ہے۔
اب مسلئہ یہ ہے کہ پراجیکٹس کی الوکیشن تو ہوجاتی ہے پر فنڈز کی پاکستان میں یوٹیلائزیشن نہیں ہو پاتی، اگر اس وقت وفاقی حکومت اس پراجیکٹ پر تیزی سے کام کا آغاز کر دے تو سندھ حکومت کے اعتراضات کو دور کیا جا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آذربائیجان تنویر ملک چین سکھر حیدرآباد موٹر وے سی پیک موٹر وےذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: تنویر ملک چین سکھر حیدرا باد موٹر وے سی پیک موٹر وے آباد سکھر موٹر کا کہنا ہے کہ تنویر ملک موٹر وے سی پیک
پڑھیں:
سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جون2025ء) سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں ڈیجیٹل شواہد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فوٹیج کو درست طریقے سے تصدیق شدہ قرار دیا جائے تو وہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری(خاموش گواہ اصول) کے تحت بنیادی شہادت کے طور پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔صرف حالات و واقعات کی بنیاد پر سزا دینا قانوناً ممنوع نہیں لیکن ایسے شواہد ملزم کی بیگناہی سے مطابقت نہیں رکھنے چاہئیں اور ان شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے۔جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے 13 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں اس قدر شامل ہو چکی ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اسے استعمال کر رہا ہے۔(جاری ہے)
جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے اس 3 رکنی بینچ کی سربراہی کی جس نے 20 مئی کو ظاہر ذاکر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی، یاد رہے کہ نور مقدم کے 2021 کے اندوہناک قتل نے ملک بھر میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم عدالت میں ایک مایوس شخص کے طور پر سامنے آیا، جس پر بینچ کے کسی بھی رکن کو کوئی ہمدردی محسوس نہیں ہوئی، تاہم بینچ کے رکن جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ وہ جلد ہی اپنا اضافی نوٹ جاری کریں گے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ پچھلے 25 سالوں میں تقریباً تمام ممالک میں ’سائلنٹ وٹنس تھیوری‘ (خاموش گواہ کا اصول) کو اپنایا گیا ہے، اس اصول کے تحت، اگر کسی تصویر یا ویڈیو کو اس طریقہ کار یا نظام کی درستگی سے ثابت کیا جا سکے جس کے ذریعے وہ بنائی گئی ہے، تو پھر وہ خود بخود ایک گواہ کے طور پر تسلیم کی جا سکتی ہے، یعنی یہ تصاویر یا ویڈیوز اپنی صداقت خود بیان کرتی ہیں۔سائلنٹ وٹنس تھیوری ایک ایسا قانون ہے جو تصویر، ویڈیو یا دیگر ریکارڈ شدہ مواد کو اس بات کے پختہ ثبوت کے طور پر قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جس واقعے کو دکھا رہے ہیں، وہ حقیقت میں پیش آیا اور اس کے لیے کسی عینی شاہد کی گواہی درکار نہیں ہوتی کہ اس نے وہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔عدالت نے تسلیم کیا کہ کافی عرصے تک ملکی عدالتیں ڈیجیٹل شواہد کو بروئے کار نہ لا سکیں کیونکہ انہیں صرف سنی سنائی باتوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا، حالانکہ یہ شواہد صرف قانونِ شہادت 1984 کے آرٹیکل 164 کے تحت قابلِ قبول تھے۔تاہم، مجرموں کی شناخت اور سراغ رسانی میں ڈیجیٹل شواہد کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بعض اہم قانونی تبدیلیاں کی گئیں تاکہ ان شواہد کو بنیادی شہادت کا درجہ دیا جا سکے۔عدالت نے فوٹیج کی شہادتی حیثیت کے حوالے سے برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کی مثالیں بھی دی ہیں، ماضی قریب تک پاکستان میں اس قسم کے شواہد کو ثانوی یا سنی سنائی شہادت سمجھا جاتا تھا، لیکن مجرموں کی شناخت میں اس کی افادیت کے پیش نظر متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی گئی اور ڈیجیٹل شواہد کو بنیادی شہادت تسلیم کیا گیا۔عدالت نے مزید وضاحت کی کہ یہ بات عام طور پر تسلیم شدہ ہے کہ سزا محض حالات و واقعاتی شواہد کی بنیاد پر بھی دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ سخت اصولوں اور معیارات پر پورا اتری.سپریم کورٹ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درخواست گزار (ملزم) نے یہ وضاحت پیش نہیں کی کہ مقتولہ اس کے گھر پر کیوں موجود تھی اور اس کی لاش اسی جگہ سے کیوں برآمد ہوئی۔واضح رہے کہ 27 سالہ لڑکی نور مقدم 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد میں ظاہر جعفر کی رہائش گاہ سے انتہائی بے دردی سے قتل شدہ حالت میں ملی تھیں، ظاہر جعفر کو مرکزی ملزم کے طور پر گرفتار کیا گیا اور 24 فروری 2022 کو ٹرائل کورٹ نے اسے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔عدالت نے اسے جنسی زیادتی کا بھی مجرم قرار دیتے ہوئے 25 سال قیدِ بامشقت اور 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے زیادتی کے جرم میں عمر قید کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔