تنازع کھڑا ہوا تو تمام امریکی فوجی اڈے تباہ کردیں گے، ایران نے خبردار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر فوجی تنازع کھڑا ہوا تو وہ خطے میں موجود امریکی اڈوں پر حملہ کر دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی جانب سے سفری پابندی اس کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاس ہے، ایران
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایران کے وزیر دفاع عزیز نصیر زادہ نے کہا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے اور کوئی تنازع شروع ہوا تو ایران خطے میں موجود تمام امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔
یہ بیان ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات کے چھٹے دور سے چند روز قبل دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: جوہری معاہدہ: ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور مکمل
نصیر زادہ نے بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ دوسری جانب کے بعض ذمے داران دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہوئے تو فوجی کارروائی کی جائے گی لیکن اگر تنازع مسلط کیا گیا تو ہم خطے میں تمام امریکی اڈوں کو پوری قوت سے نشانہ بنائیں گے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حالیہ دنوں میں تہران نے ایک ایسے میزائل کا تجربہ کیا ہے جس کا وار ہیڈ 2 ٹن وزنی ہے۔
نصیر زادہ نے واضح کیا کہ ان کا ملک اپنے میزائل پروگرام پر کسی بھی قسم کی پابندی کو قبول نہیں کرے گا۔
مزید پڑھیں: مذاکرات سے قبل امریکا کا مزید ایرانی اداروں کیخلاف پابندیوں کا اعلان
یاد رہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے فروری میں کہا تھا کہ ایران کو اپنے میزائلوں سمیت اپنی فوج کو مزید تیار کرنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی اڈے ایران کے نشانے پر امریکی فوجی اڈے ایران امریکا مذاکرات ایران کی دھمکی وزیر دفاع عزیز نصیر زادہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی فوجی اڈے ایران امریکا مذاکرات ایران کی دھمکی وزیر دفاع عزیز نصیر زادہ
پڑھیں:
یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات ’تعمیری‘ رہے، ایران
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) ایرانی سفارتکاروں کے مطابق جمعے کے روز یورپی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاملات پر''کھلے اور تفصیلی‘‘ مذاکرات ہوئے۔ یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ تہران کے ساتھ یورنیم کی افزودگی اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے ساتھ مزید تعاون سے متعلق پیش رفت ہو۔ یورپی طاقتیںمتنبہ کر چکی ہیں کہ اگر ایران کسی معاہدے تک نہیں پہنچتا تو اس کے خلاف سخت پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔
مذاکرات کا یہ تازہ دور استنبول میں ہوا۔ گزشتہ ماہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی فوجی اور جوہری اہداف پر حملوں اور امریکی بمبار طیاروں کے تین اہم ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کے بعد یہ پہلے جوہری مذاکرات تھے۔
یہ بات اہم ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں میں اعلیٰ ایرانی کمانڈرز، جوہری سائنس دان اور دیگر سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، جب کہ متعدد رہائشی اور عسکری علاقے بھی فضائی کارروائیوں کا ہدف بنے۔
(جاری ہے)
ان حملوں نے اپریل میں امریکہ اور ایران کے درمیان مجوزہ جوہری مذاکرات کو بھی متاثر کیا۔ای تھری کہلانے والی تین یورپی طاقتیں یعنی فرانس، جرمنی اور برطانیہ 2015 کے غیر فعال ہو چکے جوہری معاہدے کے احیاء کی کوشش میں ہیں۔ یورپی حکام کے مطابق اگر ایران جوہری معاہدے پر متفق نہیں ہوتا تو اس کے خلاف سخت پابندیوں کا ''اسنیپ بیک میکنزم‘‘ فعال ہو جائے گا۔
یورپی ذرائع کے مطابق یہ میکنزم اگست کے آخر تک فعال ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب تہران نے خبردار کیاہے کہ اگر یورپی ممالک اس میکنزم کو فعال کرتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔
جوہری مذاکرات کے اس تازہ دور میں ایرانی وفد میں سینیئر مذاکرات کار مجید تخت روانچی کے ہمراہ نائب ایرانی وزیرخارجہ کاظم غریب آبادی بھی شریک تھے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں انہوں نے ایران پر اسرائیلی حملوں کے حوالے سے یورپی موقف پر تنقید کی اور اسنیپ بیک میکنزم (پابندیوں کے نفاز کا طریقہ کار) کے یورپی انتباہ کو بھی گفتگو کا موضوع بنایا گیا۔
ان مذاکرات میں جوہری بات چیت کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ان مذاکرات سے قبل ایک یورپی ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ متفقہ حل پر عدم اتفاق کی صورت میں یہ تینوں یورپی ممالک پابندیوں کی بحالی کے میکنزم کو فعال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یورپی ذرائع کے مطابق یورپی وفد ایران سے یورینیم کی افزودگی اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے آئی اے ای اے سے سے تعاون دوبارہ شروع کرنے کے لیے واضح اشاروں کا مطالبہ کر رہا ہے۔
ادارت: شکور رحیم