(گزشتہ سے پیوستہ)
اسرائیلی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی میزائل دفاعی نظام نے درجنوں میزائل داغے تاکہ ایرانی حملے کو روکا جا سکے۔ایک اسرائیلی عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ امریکی افواج بھی اسرائیل کو ان میزائلوں کو روکنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ایک اسرائیلی عورت بروز ہفتہ علی الصبح ایران کے داغے گئے میزائل کے وسطی اسرائیل میں گرنے کے نتیجے میں ہلاک ہو گئی، جیسا کہ اسرائیلی چینل 12 نے رپورٹ کیا ہے۔ جب کہ تل ابیب کے بڑے علاقے میں غیر معمولی تباہی کی اطلاعات آ رہی ہیں۔اسی دوران، اسرائیلی ویب سائٹس نے تل ابیب میں ایک ’’انتہائی سنگین واقعے‘‘کی خبر دی ہے، جو ایرانی میزائل کے گرنے کے بعد پیش آیا۔ یہ واقعہ ایران کی جانب سے اسرائیلی اہداف پر ایک نئی میزائلوں کی بوچھاڑ کے بعد رونما ہوا۔اخبار ’’ہآرٹز‘‘نے بتایا کہ ایرانی میزائلوں نے وسطیٰ اسرائیل کے شہر رمات گان میں 9عمارتوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، جبکہ سینکڑوں عمارتیں جزوی طور پر متاثر ہوئیں۔ رمات گان کے میئر نے کہا کہ ایرانی میزائل حملے کے نتیجے میں 100افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ (حوالہ، الجزیرہ، ایجنسیاں، اسرائیلی ذرائع ابلاغ)
ایران نے اتوار کی علی الصبح اسرائیل پر ایک اور شدید حملہ کیا، جس میں تل ابیب اور حیفا کے متعدد علاقوں کو بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی ذرائع کے مطابق، اس حملے میں ’’عماد‘‘، ’’قادر‘‘، ’’خیبر‘‘ جیسے میزائلوں کے ساتھ ساتھ ایک ’’ہائیپرسونک‘‘(فرط صوتی) میزائل بھی استعمال کیا گیا جو ایرانی فوجی صلاحیت میں ایک نئی سطح کی عکاسی کرتا ہے۔ ایرانی حملے کے نتیجے میں تل ابیب اور حیفا میں 5افراد ہلاک اور 25زخمی ہوئے۔ حیفا میں 4 افراد ہلاک اور 13زخمی، جبکہ تل ابیب میں ایک عورت ہلاک اور 20افراد زخمی ہوئے۔ تل ابیب کے 6مقامات پر ایرانی میزائلوں نے براہ راست ضربیں لگائیں۔ ایک بلند و بالا عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور وہاں افراد کے پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔ بات یام (جنوبی تل ابیب)میں 12 زخمی، رحوفوت میں 4 زخمی۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے:بیلسٹک میزائلوں کی دو لہریں ایران کی طرف سے چلائی گئیں،پہلی لہر میں 40 میزائل دوسری میں 50 میزائل بن گوریون ایئرپورٹ اور مشرقی تل ابیب میں زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ نتانیا اور ہرتسیلیا میں بھی خطرے کے سائرن بجائے گئے۔
ایرانی اعلیٰ سیکورٹی اہلکار نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا ’’ہم نے جنگ شروع نہیں کی، لیکن ہم ہی اس کا انجام طے کریں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی جنگ کا انجام ان کی حکومت اور نظام کا خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا وہ نیتن یاہو کی خواہشات کے لئے امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم قربان کریں گے؟‘‘ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر اسرائیل کے حملے جاری رہے تو ایرانی جوابی حملے مزید سخت اور بڑے پیمانے پر ہوں گے۔ اران نے اسرائیل کے ایندھن اور توانائی کے مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔ درایں اثنا ء اسرائیل پر یمن کی جانب سے بھی ایک میزائل داغا گیا، جس سے جنگ کا دائرہ بظاہر خطے بھر میں پھیل رہا ہے۔اس وقت ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے ’’دو طرفہ حملہ‘‘جاری ہے، جس نے اسرائیلی فضائی دفاع کو الجھا دیا ہے۔اندرونی صورت حال، اسرائیلی شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ محفوظ پناہ گاہوں میں رہیں۔ اسرائیلی ریڈیو کے مطابق، ڈرونز کا تل ابیب پر حملہ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کیا گیا، جس کے ساتھ میزائل فائر بھی شامل تھا۔ طمرہ (الجلیل)میں حملے سے شدید زخمیوں کی اطلاعات ہیں، کچھ کی حالت نازک ہے۔
ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق، ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی فضائیہ نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے ایک ’’مشترکہ اور مربوط حملہ‘‘کیا ہے۔ اس سے قبل جمعے کی رات سے ہی ایران نے ’’الوعد الصادق 3‘‘ کے نام سے جوابی کارروائی کا آغاز کر دیا تھا، جو اب تک سات حملوں پر مشتمل ہو چکی ہے۔اسرائیلی فوجی ریڈیو نے ایک انٹیلی جنس ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایرانی فوج اس وقت مزید میزائل حملوں کی تیاری میں مصروف ہے، اور آئندہ چند گھنٹوں میں ایک اور بیچ داغا جا سکتا ہے۔اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ اس کی فضائی دفاعی تنصیبات ایرانی میزائلوں کو روکنے کے لیے سرگرم ہو چکی ہیں، اور عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جائیں۔ اسرائیلی چینل 12 کے مطابق، اسرائیلی فوج تہران میں فوجی اہداف پر بمباری کر رہی ہے، جبکہ فضائیہ یمن میں بھی بیک وقت حملے کر رہی ہے۔ اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں ایران کی جوابی مہم روکنے کے لئے کی جا رہی ہیں۔ خطے کے لئے سنگین خطرہ،تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مشرق وسطیٰ ایک بڑی علاقائی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، جس میں امریکہ، حزب اللہ، حماس، اور خلیجی ریاستوں کے بھی شامل ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ عالمی برادری کے لئے یہ ایک خطرناک موڑ ہے، جس پر فوری سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیلی ذرائع ایرانی میزائل تل ابیب میں کہ ایرانی ایران کی کے مطابق میں ایک کیا ہے
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد یمن پر صہیونی حملوں کا آغاز، بندرگاہوں پر بمباری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد یمن پر صہیونی فوج نے حملہ کردیا اور اس دوران بحیرہ احمر کے قریب بندر گاہوں پر شدید بمباری کی۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق یمن کی فضاؤں میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں جب اسرائیلی فضائیہ نے اتوار کی رات سے پیر کی صبح تک مسلسل بمباری کرتے ہوئے کئی اہم مقامات کو نشانہ بنایا۔
یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب حالیہ ہفتوں میں ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک غیر اعلانیہ جنگ بندی دیکھنے میں آئی تھی، جس کے بعد اس قسم کی فوجی کارروائی پہلا بڑا واقعہ تصور کیا جا رہا ہے۔
امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے یمنی حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں متعدد حملے کیے، جن میں بحیرہ احمر کے ساحلی علاقے، بندرگاہیں اور ایک اہم بجلی گھر شامل ہیں۔ ان حملوں کا ہدف واضح طور پر یمنی انفرا اسٹرکچر اور بحری نقل و حمل کے نظام کو کمزور کرنا تھا۔
اسرائیلی دفاعی افواج کے مطابق یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب حوثیوں کی جانب سے اسرائیلی سرزمین کی طرف کم از کم 3 بیلسٹک میزائل فائر کیے گئے، جن میں سے ایک کو فضا ہی میں تباہ کر دیا گیا۔
اسرائیل نے ردعمل کے طور پر حدیدہ، رش عیسا اور صلیف کی بندرگاہوں کے علاوہ راس کاناتب پاور پلانٹ کو اپنے فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔
حملوں کا دائرہ صرف زمینی تنصیبات تک محدود نہ رہا بلکہ اسرائیلی فورسز نے ’گلیکسی لیڈر‘نامی ایک کارگو جہاز کو بھی نشانہ بنایا، جسے حوثیوں نے نومبر 2023 میں قبضے میں لیا تھا۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس جہاز کو ایک موبائل ریڈار اسٹیشن کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، جو بین الاقوامی بحری راستوں پر جہازوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے مؤثر کردار ادا کر رہا تھا۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے اس کارروائی کو آپریشن بلیک فلیگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ حوثیوں کو ان کے ہر اقدام کی قیمت چکانی پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یمن کی سرزمین سے اسرائیل کی جانب ڈرون یا میزائل داغے جانے کا سلسلہ جاری رہا تو جوابی حملوں کی شدت میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب حوثی فورسز نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یمنی فضائی دفاعی نظام نے اسرائیلی جارحیت کا مؤثر جواب دیا اور کئی میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کیا۔ حوثیوں کے سیاسی نمائندے محمد الفرحا نے اسرائیلی کارروائی کو شہری املاک اور بنیادی سہولتوں پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ ان حملوں کا کوئی فوجی جواز نہیں۔
کشیدگی کے پس منظر میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی واشنگٹن روانگی بھی ایک اہم سیاسی اشارہ سمجھی جا رہی ہے، جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے جا رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ان حملوں کا وقت اور دائرہ کار ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی سطح پر اپنے تحفظات اور عسکری صلاحیت کا بھرپور اظہار کر رہا ہے۔