این ڈی ایم اے کے مطابق ملک بھر میں پانچ جولائی تک مزید بارشیں، اچانک سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ متوقع ہے، خیبر پختونخوا ٹور ازم اتھارٹی نے سیلاب سے بچاؤ کے لیے تمام اضلاع کو ہدایات جاری کردی ہیں۔ موسلادھار بارشوں کے باعث کراچی،حیدرآباد اور بدین میں اربن فلڈنگ کا خدشہ ظاہرکیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے این ڈی ایم اے کو ہدایت کی ہے کہ وہ صوبوں کے ساتھ روابط کو مزید موثر بنائے ۔
ملک بھرمیں حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر ہمارے بنیادی انتظامی ڈھانچے، صلاحیتوں اور منصوبہ بندی کے شدید فقدان کو عیاں کردیا ہے۔ ہر سال جون، جولائی اور اگست کی بارشیں ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہوتیں، لیکن ان کے نتائج ہر بار نئے اور شدید تر دکھائی دیتے ہیں۔
یہ حقیقت افسوسناک ہے کہ ہم موسم کی پیشگی اطلاعات، ماضی کے تجربات اور سائنسی ترقی کے باوجود ہر سال ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ پانی میں ڈوبے شہر، ٹریفک جام،کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں، نالوں کی بندش، دیواروں کا گرنا اورکچے مکانات کا ملبہ۔ حالیہ بارشوں کے نتیجے میں درجنوں افراد جان کی بازی ہارگئے۔ بڑے شہروں جیسے کراچی، پشاور اورکوئٹہ میں بھی شہری سہولیات کی قلعی کھل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہم جانتے ہیں کہ بارش ہوگی، تو اس کے لیے پیشگی اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟
پاکستان، دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے، جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں اور یہاں شدید موسمی واقعات کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث معمول سے زیادہ بارشوں کا معیشت سے براہ راست تعلق ہے۔ معمول سے زیادہ بارشیں اور موسمیاتی تبدیلی سے 2022 میں پاکستان کو 30 ارب ڈالرکا نقصان ہوا تھا اور ملکی جی ڈی پی کو 10 فیصد کا نقصان پہنچا تھا، جب کہ 2010 کے سیلاب سے 10 ارب ڈالرکے نقصانات ہوئے۔
بارشوں سے معیشت کو نقصان مختلف سیکٹرز میں ہوتا ہے، جن میں فصل کو نقصان سمیت فوڈ سیکیورٹی کا خدشہ پیدا ہونا شامل ہیں۔ سڑکیں، مکانات، اور دیگر انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کا اثر معیشت پر ہوتا ہے۔ بارشوں سے فصلوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور جب فصل میں کمی آجاتی ہے تو اس سے پروڈکشن کم ہو کر ملکی معیشت کو اثر انداز کرتی ہے اور اسی کا اثر فوڈ سیکیورٹی پر بھی پڑتا ہے۔ 2010 کے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی 10 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہوئی تھی یعنی 48 فیصد سے بڑھ کر 58 فیصد آبادی کو فوڈ ان سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہوا تھا۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں، ان اسباب کی جن کی وجہ سے بارش ایک قدرتی نعمت کے بجائے قہر بن کر ٹوٹتی ہے۔ پاکستان میں آبادی کا ایک بڑا حصہ کچے مکانات میں رہائش پذیر ہے۔ ان مکانات کی تعمیر بغیرکسی منصوبہ بندی، غیر پائیدار مواد اور بغیر تکنیکی رہنمائی کی جاتی ہے۔ گھروں کی چھتیں یا تو مٹی سے لیپی ہوتی ہیں یا پھرکمزور لوہے کی چادروں سے ڈھکی ہوتی ہیں۔ شدید آندھی سے ان کا اڑ جانا ناگزیر ہوتا ہے۔
یہ مکانات قدرتی آفات کے لیے انتہائی غیر محفوظ ہیں، لیکن غربت اور ریاستی لاپرواہی نے عوام کو یہی ’’چھت‘‘ نصیب کی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کا مسئلہ ان علاقوں میں شدید ہو جاتا ہے جہاں غیر قانونی طور پر پہاڑی ڈھلوانوں پر مکانات تعمیرکیے جاتے ہیں یا پھر قدرتی ماحولیاتی توازن کو بگاڑکر سڑکیں اورکالونیاں بنائی جاتی ہیں۔ بارش کے باعث جب زمین کی مضبوطی کم ہوتی ہے تو یہ زمین کھسک جاتی ہے اور جو کچھ اس پر ہوتا ہے، وہ بھی ساتھ بہا لے جاتی ہے۔ ان واقعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہاڑی علاقوں میں ماحولیاتی ماہرین کی مشاورت سے تعمیرات کی جائیں اور قدرتی نکاسی آب کے راستوں میں مداخلت نہ کی جائے۔
اب بات کرتے ہیں انتظامی سطح پر ناقص ترین تیاریوں کی، جنھوں نے عوامی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ نالوں کی صفائی ہر سال بارشوں سے پہلے کی جانی چاہیے، لیکن کراچی جیسے میگا سٹی میں یہ کام یا تو کیا ہی نہیں جاتا، یا پھر دکھاؤے کی حد تک محدود ہوتا ہے۔ نالے مٹی، پلاسٹک، کچرے اور دیگر فاضل اشیاء سے بھرے ہوتے ہیں، جن سے بارش کا پانی گزر ہی نہیں سکتا۔ نتیجتاً سڑکیں جھیل بن جاتی ہیں،گھروں میں پانی داخل ہو جاتا ہے اورگندے پانی کے باعث وبائی امراض پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
ملک کے بڑے شہروں میں بارش کے دوران ٹریفک جام ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں، ٹریفک سگنلز بند ہو جاتے ہیں اور پانی میں ڈوبی سڑکیں حادثات کو دعوت دیتی ہیں۔ ایسے میں شہری کئی کئی گھنٹے گاڑیوں میں محصور رہتے ہیں۔ اسکول جانے والے بچے، بیمار افراد اور کام پر جانے والے ملازمین سب ہی اس اذیت سے گزرتے ہیں۔ ٹریفک پولیس اور شہری انتظامیہ کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور اگر ہو بھی تو اُن کے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہوتے کہ وہ کسی بہتری کی کوشش کر سکیں۔
یہ سب کچھ اگرچہ کئی سالوں سے دہرایا جا رہا ہے، لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی کوئی موثر اور دیرپا حکمت عملی دیکھنے کو نہیں ملی۔ بجٹ کی تقسیم ہو یا ترقیاتی منصوبے، ان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ نتیجتاً جب آفت آتی ہے تو ہم صرف مذمت اور تعزیت کے بیانات سن کر رہ جاتے ہیں۔ تاہم، ہر الزام حکومت یا اداروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینا بھی مناسب نہیں۔ عوام کو بھی اپنی سطح پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے تاکہ ممکنہ نقصانات سے بچا جا سکے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ جہاں ممکن ہو، کچے مکانوں کی تعمیر سے گریزکیا جائے، اگر مالی استطاعت نہ ہو تو کم از کم چھت کو مضبوط بنانے، نکاسی آب کا بندوبست کرنے اور دیواروں کی مرمت کو یقینی بنایا جائے۔
بارش سے قبل گھروں کے آس پاس نالیاں اور راستے صاف کیے جائیں تاکہ پانی کی روانی میں رکاوٹ نہ ہو۔ شہر قائد میں گڈگورننس کا مسئلہ شدت اختیار کرگیا ہے ، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، سیوریج کے پانی کی عدم نکاسی، پینے کے صاف پانی سے محرومی نے کراچی کی عروس البلاد حیثیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور بلڈر مافیا کے باعث کراچی کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوتا گیا، اس پر ریگولیٹنگ ادارے، صوبائی حکومتوں کے نمایندے شہروں میں صحت صفائی اور تعمیراتی منصوبوں کی نگرانی میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس سال بھی بارشوں کی اسی شدت کی پیش گوئی کی جا رہی ہے لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مخدوش عمارتوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں خالی کروانے کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کر سکی ہے۔ اس ضمن میں نہ ہی کوئی تیاری کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی انسپیکشن۔ مزید یہ کہ کراچی کی ساحلی پٹی پرکئی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔
ایک رپورٹ میں ایک پوش ایریا سمیت سمندر سے حاصل کی گئی زمین پر تعمیر ہونے والی عمارتوں میں موجود مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اربنائزیشن کے ایک ماہرکا کہنا ہے کراچی میں رہائش کے مسائل نے شہریوں کو بند پنجروں میں رہنے پر مجبورکردیا ہے، لاکھوں افراد چھوٹے فلیٹس میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ ارباب اختیار برسات کے موسم کی سابقہ تباہ کاریوں کو یاد رکھتے ہوئے برساتی نالوں، سیوریج، ڈرینج سسٹم کو بہتر بنائیں، سڑکوں کی مرمت اورگٹرکے ڈھکنوں کو بند کرنے کی مہم پر توجہ دیں، معصوم بچے ندی نالوں میں گرکر ہلاک ہو جاتے ہیں، اس غیر انسانی صورتحال کا ان سیاست دانوں کو فوری نوٹس لینا چاہیے جو زندگی کے حاشیوں پر رہنے والوں کے مسائل سے بے خبر ہیں۔
ادھر حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ محض وقتی اقدامات سے گریزکرے۔ ہر سال نالوں کی صفائی مہم صرف تصاویر اور وڈیوزکی حد تک محدود رہتی ہے۔ مستقل نظام بنایا جائے، باقاعدہ مانیٹرنگ ہو اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بلاامتیازکارروائی کی جائے۔ شہری منصوبہ بندی میں بارش کے پانی کی نکاسی کو اولین ترجیح دی جائے،کیونکہ بارش نعمت ہے،آفت نہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر سال مون سون کی بارشیں آتی ہیں، وہاں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو فعال اور با اختیار بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ادارے کو صرف آفات کے بعد سرگرم ہونے کے بجائے، آفات سے پہلے کی منصوبہ بندی، تیاری اور عوامی آگاہی پرکام کرنا چاہیے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والے سالوں میں تباہی کا دائرہ مزید وسیع ہو جائے گا۔ ترقی یافتہ دنیا میں بارش ترقی کی علامت سمجھی جاتی ہے، وہاں بارش فصلوں کے لیے خوشحالی لاتی ہے اور شہری علاقوں کو سرسبز بناتی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں بارش کا مطلب ہے پانی میں ڈوبی سڑکیں،کرنٹ سے اموات اور بے گھر خاندان۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے ہمیں اجتماعی شعور، فعال حکومت، اور سنجیدہ منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کو نقصان جاتے ہیں ہوتا ہے کے باعث جاتی ہے سے پہلے کے لیے ہے اور ہر سال
پڑھیں:
مون سون کی پہلی بارش میں کراچی کا بُرا حال، کئی سڑکیں اور علاقے زیر آب
کراچی(نیوز ڈیسک)بارش سے کراچی کی تباہ حال سڑکیں عوام کے لیے درد سر بن گئیں۔ شہر کی مختلف سڑکوں پر پانی اور کیچڑ تاحال موجود ہے، سولجر بازار کی مرکزی سڑک تالاب کا منظر پیش کرنے لگی۔ قیوم آباد چورنگی پر بھی بارش کا پانی کھڑا ہے، موٹرسائیکل سواروں کا چلنا محال ہوگیا۔
کراچی میں حالیہ بارش کے بعد شہر کی بیشتر سڑکیں زیرِ آب آ گئیں، جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ متعدد علاقوں میں بارش کے پانی اور کیچڑ نے آمد و رفت معطل کر دی ہے، جبکہ ناقص نکاسی آب کے نظام نے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
سولجر بازار کی مرکزی سڑک مکمل طور پر تالاب کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں گزشتہ دو روز سے پانی جمع ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ہر بارش کے بعد یہاں یہی صورتحال ہوتی ہے، لیکن مسائل کے مستقل حل کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔
علاقہ مکینوں کے مطابق پانی کے باعث نہ صرف کاروبار متاثر ہو رہا ہے بلکہ روزمرہ کی نقل و حرکت بھی مشکل ہو گئی ہے۔
قیوم آباد چورنگی پر بھی بارش کا پانی تاحال موجود ہے، جس کے باعث موٹرسائیکل سواروں کو خاصی دشواری کا سامنا ہے۔ متعدد افراد پھسلنے کے واقعات میں زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
شہر کے دیگر علاقوں ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، لالو کھیت، لیاقت آباد میں بھی نکاسی آب کا نظام مکمل طور پر ناکام نظر آتا ہے۔ ان علاقوں میں بارش کے پانی نے گلیوں کو ندی نالوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ متعلقہ ادارے نکاسی آب کے لیے ہنگامی اقدامات کریں اور بارش کے پانی کی بروقت صفائی کو یقینی بنائیں تاکہ معمولات زندگی بحال ہو سکیں۔
مزیدپڑھیں:ملک بھر میں پری مون سون بارشوں سے اب تک کتنے افراد جاں بحق ہوئے؟