’دعا ہے کہ میری شادی برقرار رہے مگر آپ کی حرکتیں ایسی نہیں‘، رجب بٹ کا اپنے سالے کو دھمکی آمیز پیغام
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
معروف پاکستانی یوٹیوبر رجب بٹ جن کے فیملی وی لاگز عوام میں کافی مقبول ہوتے ہیں وہ آج کل مختلف تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں جہاں ایک طرف وہ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں وہیں ان کے اپنی اہلیہ ایمان کے ساتھ کشیدہ تعلقات بھی سوشل میڈیا پر آگئے ہیں۔
ایمان کے بھائی عون نے کہا ہے کہ ایمان پر سوشل میڈیا پر آںے کے حوالے پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اب اس حوالے سے رجب بٹ نے حالیہ ویڈیو میں عون کو دھمکی آمیز پیغام میں کہا ہے کہ یہ میرا اور میری بیوی کا مسئلہ ہے، جب تک وہ میری بیوی ہے آپ نے اس کو ٹک ٹاک پر نہیں لے کر آنا لیکن آپ کی حرکتیں ایسی نہیں کہ وہ میری بیوی رہے۔
رجب بٹ نے اپنے سالے عون کو کہا ہے کہ کچھ باتیں ضروری ہیں جو واضح کرنا چاہتا ہوں کیونکہ خاموشی بعض اوقات قصوروار ٹھہرا دیتی ہے۔ آپ بھائی بنیں سانپ نہ بنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایمان میری بیوی ہے اگر وہ مجھ سے ناراض ہے تو میں منا لوں گا وہ میری ٹینشن ہے۔ ہم اس مسئلے کو حل کر لیں گے کسی اور کا بولنا نہیں بنتا۔ ایمان سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر وہ مسئلہ حل کرنا چاہے تو ہم کر لیں گے اور اگر نہ چاہے تو چیزیں بربادی کی طرف جائیں گی۔
ایمان کے ویزے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رجب بٹ نے بتایا کہ ایمان نے اپنے ہاتھوں سے ویزہ اپلائی کیا تھا لیکن ریجیکشن لگ گئی اور پیسے ضائع ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: رجب بٹ اور دوستوں کی نازیبا ویڈیوز لیک، دوستوں کا مؤقف سامنے آ گیا
انہوں نے مزید کہا کہ عون کو میں نے ایک مہینہ پہلے بھی سمجھایا تھا کہ میں نے کبھی تم سے شکایت نہیں کی، لیکن تمہاری مداخلت نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ ایمان تمہاری بہن ضرور ہے، لیکن اُس پر سوشل میڈیا پر تبصرے کرنا، اُس کے نام پر پوڈکاسٹ میں بات کرنا یا ٹک ٹاک پر لانا کسی صورت مناسب نہیں۔ یہ چیزیں اُس کی اور میری عزت پر اثر ڈالتی ہیں۔
جب ایمان بیمار تھی اور آپ نے اُس کی اسپتال کی تصویر سوشل میڈیا پر لگائی، تب بھی میں نے کہا تھا کہ ایسا نہ کرو لوگ مذاق بناتے ہیں۔ اُس وقت بھی میں نے صبر کیا۔ وہ میرے بلاگ میں نہیں آتی تو آپ نے بھی اس کو کانٹینٹ نہیں بنانا جس کے جواب میں آپ نے کہا تھا آئندہ ایسا نہیں ہو گا لیکن پھر بھی آپ نے اُس کی پری برتھ ڈے کی ویڈیوز پوسٹ کیں، جس سے ہمیں عوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: ’ہاں میں اہلیہ کو نظر انداز کرتا ہوں‘، رجب بٹ خود پر تنقید کے بعد بول پڑے
رجب بٹ نے عون کا آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ آپ کو کس نے حق دیا کہ آپ بیٹھ کرڈسکس کریں کہ ایمان کے سوشل میڈیا پر آںے پر پابندی ہے، اگر میں نے کوئی بات کی تو آپ فرار کا راستہ مانگیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایمان میرے نکاح میں ہے آپ کو پہلے بھی سمجھایا تھا، مجھے معلوم ہے آپ کون کون سے ایڈیٹرز کو کون سی باتیں میرے خلاف کرنے کو کہتے ہیں، یاد رکھیں ان سب چیزوں سے سب سے پہلے نقصان ہمارا ہی ہو گا۔ چھوٹے بھائی بنو ناسور نہ بنو۔
یہ بھی پڑھیں: ’رجب بٹ اچھے بیٹے تو ہوسکتے ہیں مگر شوہر نہیں‘، اہلیہ سے بدسلوکی کے بعد یوٹیوبر پر شدید تنقید
یو ٹیوبر کا کہنا تھا کہ گھروں کی چار دیواری میں بات ہونی چاہیے آپ نے لوگوں کی ہمدردیاں لینے کی کوشش کی ہے اس لیے میں نے جواب دیا۔ جب سے شادی ہوئی میں تو گھر ہی نہیں گیا لیکن میں تو شکوہ نہیں کر رہا۔ اگلی بار آپ نے ایمان کو ڈسکس نہیں کرنا۔ میرے لیے سب دروازے پہلے ہی بند نہ کریں۔
رجب بٹ کا آخر میں کہنا تھا کہ بیٹیوں کو بساتے ہیں اجاڑتے نہیں ہیں۔ آپ کو یہاں لانے والا میں ہی ہوں تو میرے ساتھ کھیلنے کی کوشش نہ کریں ورنہ کام خراب ہو جائے گا۔ اگر آپ کو سمجھ ہوتی تو اپنے گھر کے فوجی نہ مارتے۔ اپنی حدود میں رہیں میری آپ کو لاسٹ وارننگ ہے آئندہ ایمان کو ٹک ٹاک پر مت لانا۔ اگر آج کے بعد کسی فین پیج میں گھر کی بات گئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایمان رجب بٹ رجب بٹ اہلیہ رجب بٹ ویڈیوز عون اور رجب بٹ یو ٹیوبرٹک ٹاکر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایمان رجب بٹ اہلیہ رجب بٹ ویڈیوز عون اور رجب بٹ یو ٹیوبرٹک ٹاکر سوشل میڈیا پر میری بیوی ایمان کے کہ ایمان تھا کہ
پڑھیں:
یہ غلط ہو رہا ہے
پہلے دنیا ہر دس برس بعد اپنا رنگ ڈھنگ تبدیل کرتی تھی مگر اب بدلاؤ کا عمل بہت تیزی اختیارکرچکا ہے، ہر شے ہی ٹھہراؤ کے معنی سے انجان ہوتی جا رہی ہے، جدیدیت کی جدت بھی مانند پڑنے لگی ہے، نئے اطوار پرانے اور پرانے اطوار فرسودہ بہت کم وقت میں ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی طرح کی تبدیلی جب اپنے روایتی طریقہ کار کے تحت رونما ہوتی ہے تو وہ معاشرے اور اُس کے افراد کو خوشگواری کی نوید سناتی ہے۔
مگر مسلسل آنے والی غیر معمولی تبدیلیاں معاشرے کو صرف اور صرف بربادی کی جانب دھکیلنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ قدرت نے اس دنیا میں ہونے والے ہر کام کا ایک مخصوص عمل موجود رکھا ہے جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، دنیا والوں کی جانب سے قدرتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کی صورت میں زمین پر تباہی کا نزول ناگزیر ہے۔
اس کرہ ارض پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مختلف اقسام کی ایجادات جہاں ایک طرف ابنِ آدم کو سہولیات فراہم کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف اُن کے مضر اثرات پوری قومِ انسانی کو شدید نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ انسانوں کا مشترکہ مزاج اس طرزکا ہے کہ وہ تھوڑے فائدے کے آگے بڑے نقصان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب کسی چیز سے اُنھیں بیشمار فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے تو اُن کی آنکھیں اُس کے ہمراہ آنے والی بڑی خرابی کو دیکھنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ ہم سبھی نے یہ سن رکھا ہے کہ ’’ لالچ بری بلا ہے‘‘ دراصل مزید اور مزید کی خواہش ہم سے میسر آیا ہوا بھی چھین لیتی ہے، زیادہ کی تمنا انسان کے وجود میں بے چینی پیدا کر دیتی ہے۔
نعمت کا اصل مزا انتظار میں ہے کیونکہ ہر شے کا فوراً مل جانا زندگی کا حُسن ختم کر دیتا ہے۔ محرومی انسان کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے اور بہتری کی جانب سفر کرنے پر اُکساتی ہے، اس کے علاوہ یہ انسانوں کے اندر قدرکا جذبہ بھی اُجاگر کرتی ہے۔ انسان کا شاکر ہونا اور تھوڑے کو بہت سمجھنا اُس کے ذہنی سکون کے لیے انتہائی اہم ہے، البتہ بِنا محنت، بغیر مانگے اور وقت سے پہلے کیسی چیز کا مل جانا انسان کی طبیعت میں اُچاٹ پن اور بیزاری کو جنم دیتا ہے۔
اگر انسان کا دماغ اور جسم دونوں مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہوں گے، تبھی وہ صحیح معنوں میں صحت مند گردانا جائے گا، بصورت دیگر وہ خود پر خود ہی بوجھ بن کر رہ جائے گا جسے اُٹھانا اُس کے اعصاب کو تھکا کر شل کردے گا۔ ہر انسانی ترقی قابلِ ستائش نہیں ہوتی ہے بلکہ کچھ تو بِلا ضرورت وقوع پذیر ہو جاتی ہیں جو سکون کے بجائے بے سکونی کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔
تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ دیکھ کر بے حد حیرانی ہوتی ہے کہ پرانے وقتوں میں انسان کے پاس آسائشیں کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں مگر اطمینان اور خوشی کا احساس اپنی انتہا پر موجود تھا، اس کے برعکس زمانہ حال میں بنی نوع انسان کے پاس تقریباً ہر شے بے حساب ہے، ماسوائے چین و سکون کے۔
دورِ ماضی میں جب انسان خوش ہوتا تھا تو سرشاری اُس کے پورے وجود سے عیاں ہوتی تھی اور جب کبھی وہ رنج، پریشانی اور بے چینی کی کیفیات میں مبتلا ہو جاتا تھا تب وہ رنجیدگی اور دل گیری کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر رہا ہوتا تھا۔ آج کی دنیا میں ہر انسان اپنے آپ میں ایک بہترین اداکار ہے جن کو اپنے اندرونی جذبات کو ظاہر ہونے سے روکنا باخوبی آتا ہے، ظہورِ احساسات کے سامنے زبردستی بند باندھنے کے اس عمل نے موجودہ دور کے ہر دوسرے انسان کو ذہنی طور پر بیمار کر کے رکھ دیا ہے۔
نئے دورکے انسان کی کوئی ذاتی پسند یا ناپسند نہیں ہے بلکہ زمانے کا چلن اُن کا منظورِ نظر بن جاتا ہے، وہ شوق بھی صرف وہی پالتے ہیں جن کو اشرافیہ قدرکی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اپنی جڑوں میں موجود تخلیقی عنصرکی بیدردی سے ناقدری کرتے ہوئے انسان خود سے بہتر لگنے والے افراد کی نقول بننے کو ترجیح دیتا ہے۔
یہاں ہرکوئی اپنی کھوکھلی ذات کو دنیا کے سامنے سجا، سنوار کر پیش کرنے کے قابل بنانے کے جتن کرنے میں اتنا مصروف ہوچکا ہے کہ اپنے اصل کو بالکل فراموش کر بیٹھا ہے۔ ماڈرن ورلڈ کے انسانوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو مسلسل اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلائیں گے تو وہ اُنھیں بھول جائیں گے تبھی وہ جگ بھاتے معیار پر پورا اُترنے کی کوششوں میں خود کو ہلکان کر کے رکھ دیتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ آج کا انسان اپنی ذات کے بجائے دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جی رہا ہے تو اس میں قطعی مبالغہ آراء نہیں ہوگی۔جدید دنیا نے یہاں بسنے والے تقریباً تمام نوجوانوں کو ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیا ہے، ہنسنے کھیلنے اور موج مستی کی عمر میں وہ اپنے دماغ پر بلاضروری بوجھ ڈال کر وقت سے پہلے سنجیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
انٹرنیٹ سرفنگ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہماری نوجوان نسل کے دماغ کوکھانے کا کام کر رہے ہیں جب کہ موبائل اسمارٹ فون، ایٹم بم سے کم خطرناک ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ گزرے ہوئے وقتوں میں کبھی موبائل فون رابطے کا ذریعہ مانے جاتے تھے لیکن اب یہ ہماری ذہنی و جسمانی صحت اور نسلوں کو تباہ کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے انسان کو سماج میں متحرک تو نہیں کیا بلکہ الٹا ایسی بھیانک تنہائی میں جھونک دیا ہے جہاں اُن کا جسم اور روح بھی ایک دوسرے سے انجان انجان دکھائی دیتے ہیں۔روشنی جب تک نورکی حیثیت سے ہماری زندگیوں میں رمق بکھیرتی ہے تب تک ہی وہ قلب کو بھاتی ہے، ساتھ ہمارے پورے وجود کو منور اور پر رونق بنا کر خوشنمائی کا پیکر بنا دیتی ہے جب کہ اُسی روشنی کی زیادتی اور بھڑکیلا پن ہماری آنکھوں کو چندھیا کر بینائی سے محروم کردیتا ہے۔
کسی بھی شے کو ضرورت سے بڑھ کر استعمال کرنا اُس کو امرت سے زہر میں تبدیل کر دیتا ہے، لفظ معتدل کو اُس کے صحیح معنوں اور پوری افادیت کے ساتھ زندگی میں اپنانے سے ترنم کا احساس تادمِ مرگ زندہ رہتا ہے۔ زمانے کی چکا چوند میں اپنی ذات کوگم ہونے سے بچانے کے لیے میسر آئی تمام طرزکی تسہیل کو صرف اور صرف اُس کی مثبتیت کے ساتھ بروئے کار لانا انتہائی ضروری ہے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہے لہذٰا خود کو خود ہی سے بچانے کی حکمتِ عملی مرتب کرنے میں دیر نہ لگائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت نکل جائے اور آپ کی بقاء کے سارے در مقفل ہو جائیں۔