WE News:
2025-11-12@08:09:28 GMT

مری میں جشنِ آزادی، سیاحوں کے لیے خصوصی ٹریفک پلان کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT

مری میں جشنِ آزادی، سیاحوں کے لیے خصوصی ٹریفک پلان کیا ہے؟

 ڈی آئی جی ٹریفک پنجاب کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) مری وسیم اختر نے جشنِ آزادی کے موقع پر سیاحوں کی سہولت کے لیے ایک خصوصی، جامع اور منظم ٹریفک پلان جاری کر دیا ہے۔

اہم نکات

مری ٹریفک پولیس کے 200 سے زائد افسران و اہلکار ڈیوٹی پر تعینات ہوں گے۔

راولپنڈی اور اسلام آباد سے مری کا سفر ایکسپریس وے اور RMK جی ٹی روڈ کے ذریعے ممکن ہوگا۔

سرکل مری میں مخصوص سڑکوں کو ون وے کر دیا گیا ہے:

ویو فورتھ روڈ، بنک روڈ، ہال روڈ، کلڈنہ روڈ، امتیاز شہید روڈ اور مال روڈ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رہے گا۔

ٹریفک کی روانی کے لیے مری کو 5 سیکٹرز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔

ٹریفک پابندیاں

مری میں ہیوی ٹریفک کا داخلہ صبح 6 بجے سے رات 2 بجے تک بند رہے گا۔

بسیں اور بڑی گاڑیاں بروری، بانسرہ گلی اور لوئر ٹوپہ سے آگے نہیں جا سکیں گی۔

آزاد کشمیر جانے والی گاڑیاں ایکسپریس وے استعمال کریں گی۔

جی پی او چوک، جھیکا گلی چوک، کلڈنہ چوک، سنی بنک چوک کے گرد 200 میٹر تک پارکنگ پر مکمل پابندی ہوگی۔

جی پی او چوک کو پارکنگ فری زون قرار دیا گیا ہے۔

سیاحوں کے لیے ہدایات

سی ٹی او وسیم اختر کے مطابق:

پارکنگ صرف مختص شدہ مقامات پر کریں۔ مری میں سب سے بڑا مسئلہ پارکنگ ہے، لہٰذا قوانین پر عمل ضروری ہے۔ کسی بھی ٹریفک مسئلے کی صورت میں ٹریفک کنٹرول روم نمبر 051-9269200 پر رابطہ کریں۔

اضافی سہولیات

مری آنے والے سیاحوں کو ٹریفک کے ساتھ ساتھ دیگر سفری اور عوامی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جشن آزادی مری مری ٹریفک پلان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: مری ٹریفک پلان

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم: عدلیہ کی آزادی اور صوبائی خودمختاری کیلئے سنگین چیلنج

اسلام ٹائمز: 27ویں آئینی ترمیم ظاہری طور پر اصلاحات کا عنوان رکھتی ہے، مگر اس کے اثرات ریاستی طاقت کی مرکزیت، عدلیہ کی کمزوری، اور وفاقی ڈھانچے کے بگاڑ کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ آئین کی ہر ترمیم کا مقصد شہری حقوق، ادارہ جاتی توازن اور جمہوری بالادستی کو مضبوط کرنا ہونا چاہیئے، نہ کہ انہیں کمزور کرنا۔ جمہوریت صرف پارلیمنٹ کی عمارت میں نہیں بلکہ اداروں کی خودمختاری اور عوام کے شعور میں بستی ہے۔ حقیقی آئینی استحکام اسی وقت ممکن ہے جب ریاست کا ہر ستون اپنی حدود میں آزاد، جواب دہ اور متوازن رہے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ

پاکستان کے آئینی و سیاسی ڈھانچے میں 27ویں آئینی ترمیم کی تجویز نے ملک کی جمہوری قوتوں، انسانی حقوق کے اداروں اور قانونی ماہرین میں گہری تشویش پیدا کردی ہے۔ اس ترمیم کو حکومتی بیانیے میں اداروں کے درمیان "توازن" اور "ہم آہنگی" پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر پیش کیا گیا ہے، مگر اس کا اصل اثر ریاستی طاقت کو مرکز میں مرکوز کرنا، عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنا اور صوبائی خودمختاری کے ڈھانچے کو متزلزل کرنا ہو سکتا ہے۔

یہ صورتحال اس لیے بھی حساس ہے کہ پاکستان کی آئینی تاریخ میں 18ویں ترمیم ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جس نے وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم کرکے صوبائی خودمختاری کو عملی تقویت دی۔ اس کے برعکس 26ویں ترمیم کے ذریعے قائم شدہ آئینی بینچز کا تجربہ ناکام ثابت ہوا اور عدلیہ کی ادارہ جاتی ساخت سیاسی اثر و رسوخ کے دباؤ کا شکار رہی۔ اسی ناکامی کی بنیاد پر اب 27ویں ترمیم کے تحت آئینی عدالت (Constitutional Court) کے قیام کی تجویز سامنے آئی ہے، لیکن اس کے ساتھ نئے اور زیادہ سنگین خطرات جنم لیتے ہیں۔

ترمیم میں آرٹیکل 243 میں تبدیلی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں مسلح افواج کی سربراہی اور آئینی حیثیت کو مزید مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ قدم فوجی اداروں کو آئینی سطح پر اضافی تحفظ دیتا ہے، سول بالادستی اور پارلیمانی نگرانی کمزور ہو سکتی ہے، اگر فوجی عہدوں یا ساخت میں آئینی توسیع کی گئی تو طاقت کا توازن مزید یکطرفہ ہو جائے گا۔ یہ صورت حال جمہوری نظام میں اداروں کی برابری، جواب دہی اور سول اختیار کے بنیادی اصول سے متصادم ہے۔

ترمیم میں مجوزہ آئینی عدالت کا قیام بظاہر ایک انتظامی اور عدالتی اصلاح دکھائی دیتا ہے، مگر اصل مسئلہ ججوں کی تقرری اور تبادلے کی وہ مجوزہ شقیں ہیں جو عدلیہ کے آزاد کردار کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اگر جج کی رضامندی کے بغیر اس کا تبادلہ ممکن ہو یا تقرری کا عمل حکومتی اثر کے تابع ہو تو عدلیہ حکومتی مفادات کے سامنے کمزور ہو جائے گی۔ ایسی عدلیہ بنیادی حقوق کی نگہبانی نہیں کر سکتی، کیونکہ اس کی آزادی اور ادارہ جاتی خودمختاری متاثر ہو چکی ہوگی۔

27ویں ترمیم کے مجوزہ ڈھانچے میں وفاق کے اختیارات میں اضافہ اور صوبوں کے دائرہ اختیار میں کمی ایک اہم اور تشویشناک پہلو ہے۔ اس کے نتیجے میں صوبائی سطح پر پالیسی سازی اور مالی انتظام متاثر ہوگا۔ تعلیم، صحت اور سماجی بہبود جیسے بنیادی شعبوں میں صوبوں کا کردار کمزور ہو جائے گا۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پہلے سے موجود مرکزیت مخالف جذبات مزید شدید ہو سکتے ہیں۔ یہ عمل وفاقی اتحاد کے لیے براہ راست خطرہ بن سکتا ہے۔

ترمیم میں ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے نظام کی بحالی کی تجویز بھی شامل ہے۔ یہ نظام انتظامیہ کو عدالتی اختیار دینے کے مترادف ہے، جو آئین کے آرٹیکل 175(3) کی روح کے خلاف ہے۔ اس کے نتائج یہ ہوں گے۔ شہریوں کے لیے عدالتی انصاف تک غیر جانبدارانہ رسائی مشکل ہوگی۔ انتظامیہ براہ راست فیصلوں کے عمل میں شامل ہو کر طاقت کا ارتکاز بڑھائے گی۔
1۔ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی۔
2۔ صوبائی خودمختاری کمزور ہوگی۔
3۔ انسانی حقوق کے تحفظ میں ریاستی ادارے غیر مؤثر ہو جائیں گے۔
4۔ فوج اور سول نظام کے درمیان طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔

میری سفارشات مندرجہ ذیل ہیں:
ترمیم کا مسودہ مکمل طور پر عوام اور پارلیمان کے سامنے پیش کیا جائے۔
ججوں کی تقرری کے نظام میں عدلیہ کی آزادی بنیادی اصول رہے۔
صوبائی اختیارات کو آئینی ضمانت کے ساتھ برقرار رکھا جائے۔
پارلیمان کو فوجی اختیارات کی بالادست نگرانی کا حق حاصل رہے۔

27ویں آئینی ترمیم ظاہری طور پر اصلاحات کا عنوان رکھتی ہے، مگر اس کے اثرات ریاستی طاقت کی مرکزیت، عدلیہ کی کمزوری، اور وفاقی ڈھانچے کے بگاڑ کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ آئین کی ہر ترمیم کا مقصد شہری حقوق، ادارہ جاتی توازن اور جمہوری بالادستی کو مضبوط کرنا ہونا چاہیئے، نہ کہ انہیں کمزور کرنا۔ جمہوریت صرف پارلیمنٹ کی عمارت میں نہیں بلکہ اداروں کی خودمختاری اور عوام کے شعور میں بستی ہے۔ حقیقی آئینی استحکام اسی وقت ممکن ہے جب ریاست کا ہر ستون اپنی حدود میں آزاد، جواب دہ اور متوازن رہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک پلان اللہ کا ہوتا ہے اور وہ سب سے درست ہوتا ہے، حارث رؤف
  • صدر پوسٹ آفس کے پاس غیر قانونی موٹر سائیکل پارکنگ کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے
  • اسلام آباد: کچہری پارکنگ میں سلینڈر دھماکے سے ایک ہلاک، متعدد زخمی
  • اسلام آباد: کچہری کی پارکنگ میں کھڑی گاڑی میں سلینڈر دھماکا، ایک شخص جاں بحق، کئی زخمی
  • اسلام آباد: کچہری کی پارکنگ میں کھڑی گاڑی میں سلینڈر دھماکا، وکلا اور سائلین زخمی
  • صدر آصف علی زرداری کی پولینڈ کے 107ویں یوم آزادی پر پولش حکومت اور عوام کو مبارک باد
  • یونیورسٹی روڈ پرترقیاتی کام عوام کیلئے سہولت نہیں عذاب بن چکا ہے، علی خورشیدی
  • تحریک آزادی کشمیر کے شہداء کے مشن کو ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا، مقررین سیمینار
  • عدلیہ کی آزادی کیلئے قربانیاں دیں،انتقام کے بجائے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، سینیٹر پرویز رشید
  • 27ویں آئینی ترمیم: عدلیہ کی آزادی اور صوبائی خودمختاری کیلئے سنگین چیلنج