محمد آصف
انسانی معاشرت میں استاد کو ایک نہایت بلند اور قابلِ احترام مقام حاصل ہے ۔ استاد دراصل وہ شخصیت ہے جو انسان کے باطن میں علم، شعور، اخلاق اور کردار کی روشنی بھرتا ہے ۔ وہ محض علم کا مبلغ نہیں بلکہ کردار کا معمار اور معاشرے کی فکری بنیاد کا ستون ہے ۔ استاد کے بغیر معاشرہ تاریکی میں بھٹکتا ہے ، کیونکہ وہی وہ رہنما ہے جو انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم و ہدایت کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اگر والدین انسان کو زندگی دیتے ہیں تو استاد اسے جینے کا سلیقہ عطا کرتا ہے ۔استاد کے بغیر معاشرہ ایک ایسی بستی کی مانند ہوتا ہے جس میں روشنی کے تمام چراغ بجھ چکے ہوں۔ استاد علم، شعور، اور تربیت کا وہ سرچشمہ ہے جو انسان کو جہالت، گمراہی اور اخلاقی زوال سے بچاتا ہے ۔ جب معاشرہ استاد سے خالی ہو جاتا ہے تو وہاں انصاف کے بجائے ظلم، علم کے بجائے جہالت، اور تہذیب کے بجائے بربریت پروان چڑھتی ہے ۔ استاد ہی وہ قوت ہے جو انسان کے اندر سوچنے ، سمجھنے اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے ۔ اگر استاد نہ ہو تو قومیں اندھی تقلید، مادیت، اور اخلاقی پستی میں ڈوب جاتی ہیں۔ دراصل استاد کے بغیر معاشرہ جسم کے بغیر روح، دریا کے بغیر پانی، اور چراغ کے بغیر روشنی کے مترادف ہے یعنی ایک زندہ لاش، جو حرکت تو کرتی ہے مگر سمت اور شعور سے محروم ہوتی ہے ۔
اسلام میں استاد کے مقام و مرتبے کو نہایت بلند حیثیت حاصل ہے ۔ قرآنِ حکیم میں علم حاصل کرنے کی بارہا ترغیب دی گئی ہے اور اہلِ علم کی فضیلت کو واضح کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ;سورة الزمر: 9
ترجمہ:”کیا علم رکھنے والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں”؟
یہ آیت واضح طور پر اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ علم کی دولت انسان کو مقام و عزت عطا کرتی ہے ، اور استاد وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان اس دولت تک پہنچتا ہے ۔ نبی کریم ۖ نے بھی استاد کے مقام کو نہایت بلند فرمایا۔ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا:”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں”۔ابنِ ماجہ
یہ ارشاد مبارک اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ تعلیم و تربیت کا عمل نبوت کا تسلسل ہے ۔ نبی ۖنے اپنی امت کو نہ صرف علم سکھایا بلکہ اس کے ذریعے ایک صالح معاشرہ قائم کیا۔ اسی لیے ہر وہ شخص جو تعلیم و تربیت کے میدان میں کام کرتا ہے ، دراصل نبوت کے ورثاء میں شامل ہے ۔ تاریخِ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی علم و تربیت کو عزت دی گئی، معاشرہ ترقی یافتہ اور بااخلاق بنا، اور جب استاد کی قدر کم ہوئی تو قومیں زوال کا شکار ہو گئیں۔ مسلمانوں کی عروج کی بنیاد مدارس، اساتذہ اور علمی مراکز تھے ۔ بغداد، قرطبہ، دمشق، اور نیشاپور کے تعلیمی ادارے دنیا کے لیے مشعلِ راہ تھے ۔ وہاں کے اساتذہ نہ صرف علم دیتے تھے بلکہ طلبہ کے دلوں میں کردار و اخلاق کے چراغ جلاتے تھے ۔ استاد محض نصاب نہیں پڑھاتا بلکہ انسان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو پہچانتا اور انہیں نکھارتا ہے ۔ ایک اچھا استاد اپنے شاگرد کی سوچ، طرزِ عمل، حتیٰ کہ اس کی زندگی کے فیصلوں تک کو متاثر کرتا ہے ۔ استاد کی تربیت یافتہ نسل ہی آگے چل کر معاشرے کی رہنمائی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط، افلاطون، امام ابو حنیفہ، امام غزالی، مولانا روم، اور علامہ اقبال جیسے نام تاریخ میں زندہ ہیں، کیونکہ ان کے شاگردوں نے ان کے علم اور کردار کی خوشبو کو زمانوں تک پھیلایا۔علامہ اقبال نے استاد کی عظمت کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا کہ ”علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب” اور علم استاد کے بغیر گمراہی ہے صراط مستقیم نہیں ملتاشمع ہو یا پروانہ، سب کچھ استاد کی بدولت ہے ۔ اقبال کے نزدیک استاد وہ ہستی ہے جو شاگردوں کے دل میں عشقِ حق، خودی اور عمل کی روح پھونکتا ہے۔ وہ صرف کتابی علم نہیں دیتا بلکہ شخصیت سازی کرتا ہے ۔آج کے دور میں جب مادیت نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ، استاد کا کردار مزید اہم ہو گیا ہے ۔ جدید معاشرت میں استاد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف تعلیم دے بلکہ تربیت بھی کرے ۔ مگر افسوس کہ موجودہ تعلیمی نظام نے استاد کو محض ”نوکری” تک محدود کر دیا ہے ۔تدریس کو عبادت سمجھنے کی بجائے ایک معاشی ضرورت بنا دیا گیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ استاد اور شاگرد کے درمیان روحانی تعلق کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔ اساتذہ کا وقار اسی وقت بحال ہو سکتا ہے۔جب معاشرہ دوبارہ یہ سمجھ لے کہ استاد صرف ملازم نہیں، بلکہ ایک رہبر اور روحانی قائد ہے ۔
پاکستان کے آئین اور معاشرتی اقدار میں بھی استاد کے احترام کی تاکید کی گئی ہے ۔ قومی شاعر اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، اور علامہ شبلی نعمانی جیسے رہنماؤں نے تعلیم کو قوم کی ترقی کی بنیاد قرار دیا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا:”قوموں کی تعمیر تعلیم کے بغیر ممکن نہیں”، اور تعلیم استاد کے بغیر نامکمل ہے ۔یہ الفاظ اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استاد دراصل قوم کے مستقبل کا معمار ہے ۔ استاد کی تربیت یافتہ قوم ہمیشہ ترقی کرتی ہے ۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے ، جہاں دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب ملک تباہ ہو گیا تو وزیرِاعظم نے کہا:”ہماری عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں مگر ہمارے اساتذہ زندہ ہیں، اس لیے ہم دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے” ۔یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قوموں کا اصل سرمایہ ان کے وسائل یا ہتھیار نہیں بلکہ ان کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں استاد کا احترام محض رسمی نہیں بلکہ عملی پہلو رکھتا ہے ۔ شاگرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے استاد کے سامنے ادب و انکسار سے پیش آئے ۔ حضرت علی نے فرمایا:”جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، میں اس کا غلام بن گیا”۔
یہ قول بتاتا ہے کہ استاد کے لیے محبت، وفاداری اور احترام کی انتہا کیا ہونی چاہیے ۔ دوسری طرف استاد پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علم کے ذریعے شاگردوں کی فکری، اخلاقی، اور روحانی تربیت کرے ۔ استاد کا رویہ، گفتار، اور کردار خود ایک درسی کتاب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ شاگرد استاد کی باتوں سے زیادہ اس کے عمل سے سیکھتا ہے ۔ اگر استاد خود دیانت، سچائی، اور خلوص کا مظہر ہو تو اس کے شاگرد بھی انہی اوصاف کے حامل بن جاتے ہیں۔ ہمیں آج اس امر کی ضرورت ہے کہ استاد کو اس کا اصل مقام واپس دیا جائے ۔ اسے عزت، سہولیات، اور سماجی مقام دیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و جھجھک اپنی ذمہ داری ادا کر سکے ۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تربیت، تحقیق کی حوصلہ افزائی، اور شاگرد و استاد کے درمیان روحانی رشتہ دوبارہ قائم کرنا ناگزیر ہے ۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استاد وہ درخت ہے جو خود دھوپ میں جل کر دوسروں کو سایہ دیتا ہے ۔ وہ وہ چراغ ہے جو خود کو پگھلا کر دوسروں کے لیے روشنی پیدا کرتا ہے ۔ اگر ہم ایک مہذب، باشعور، اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اساتذہ کو وہی مقام دینا ہوگا جو انہیں دینِ اسلام، تاریخِ انسانی، اور فطرت نے عطا کیا ہے ۔ استاد کی عزت دراصل علم کی عزت ہے ، اور علم کی عزت انسانیت کی بقا کی ضمانت ہے ۔ استاد کا مقام کسی لفظ یا تعریف میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ معاشرے کی روح، تہذیب کا محافظ، اور نسلوں کا معمار ہے ۔ اگر ہم استاد کو اس کا صحیح مقام دے دیں، تو یقیناً ہمارا معاشرہ جہالت، اخلاقی زوال اور بداعتمادی کے اندھیروں سے نکل کر ترقی، علم، اور روشنی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: استاد کے بغیر معاشرہ ہے جو انسان میں استاد استاد کا استاد کو کہ استاد انسان کو استاد کی کرتی ہے کرتا ہے علم کی
پڑھیں:
پنجاب حکومت کا چیئرمین سینٹ سید یوسف گیلانی کے بیٹوں کی سیکیورٹی ختم کرنے کا فیصلہ، علی موسی گیلانی کی تنقید
ممبر قومی اسمبلی علی موسیٰ گیلانی نے کہا کہ اگر مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہمارے تعاون کے بغیر حکومت کر سکتی ہے تو شوق سے آگے بڑھیں، لیکن ہم نہ ڈرائے جائیں گے، نہ بلیک میل ہوں گے اور نہ ہی خاموش کرائے جا سکیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید علی موسی گیلانی کا پنجاب حکومت کے ناروا سلوک پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے مسلم لیگ (ن) کے ساتھیوں کو یاد دلا دیں کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں خاص طور پر جنوبی پنجاب میں عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے، جہاں عوام کا ہماری قیادت پر اعتماد اور حمایت غیرمتزلزل ہے۔ یہ کسی انتظامی حکم سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ ہم منتخب نمائندے ہیں اور یہ ہمارا آئینی حق ہے کہ ہم عوامی مسائل کو ضلعی اور صوبائی حکام کے سامنے رکھیں۔ پیپلزپارٹی کے اراکین کو خاموش یا پسِ پشت ڈالنے کی کوششیں صرف ان لوگوں کی عدمِ تحفظ کو ظاہر کرتی ہیں جو اقتدار میں ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہمارے تعاون کے بغیر حکومت کر سکتی ہے تو شوق سے آگے بڑھیں لیکن ہم نہ ڈرائے جائیں گے، نہ بلیک میل ہوں گے اور نہ ہی خاموش کرائے جا سکیں گے۔ ہماری اقدار اور ہماری جماعت کی وراثت ہمیں اس چھوٹے پن تک گرنے کی اجازت نہیں دیتی جو اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ ہم دیانتداری، برداشت اور احترام کے ساتھ خدمت کرتے رہیں گے، چاہے دوسرے ان الفاظ کے معنی بھول ہی کیوں نہ جائیں۔
کیا ہمیں محترمہ وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ جب وہ پی ڈی ایم تحریک کے دوران جلسے کر رہی تھیں تو ہم ہی پیپلزپارٹی کے اراکین تھے جنہوں نے انہیں زمینی سطح پر منظم کرنے میں مدد دی؟
اُنہوں نے کہا کہ ہماری وابستگی ہمیشہ جمہوری تعاون کے ساتھ رہی ہے، تقسیم کے ساتھ نہیں۔ یہاں تک کہ پی ڈی ایم کے دوران، جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور مجھے گرفتار کیا گیا تھا، تب بھی ہماری سیکیورٹی برقرار رہی۔ وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ یہ سیاست کا معاملہ نہیں بلکہ حفاظت کا ہے، میرے بھائی سید علی حیدر گیلانی کو طالبان نے اغوا کر لیا تھا، اس کے بعد 2013 میں حکومتِ پاکستان نے ہماری فیملی کو سیکیورٹی اہلکار فراہم کیے تھے۔ یہ کوئی مراعات نہیں تھیں بلکہ ڈسٹرکٹ سیکیورٹی کمیٹی کی سفارش پر ایک حفاظتی اقدام تھا۔ اب پنجاب کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ سیکیورٹی واپس لے لی ہے۔ تشویشناک بات اس اقدام کا حجم نہیں بلکہ اس کی چھوٹی سوچ ہے۔ یہ طرزِ عمل حکمرانی نہیں بلکہ ذاتی اور سیاسی عناد کی بو دیتا ہے۔