Juraat:
2025-11-21@07:38:57 GMT

استاد کے بغیر معاشرہ ۔۔؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT

استاد کے بغیر معاشرہ ۔۔؟

محمد آصف

انسانی معاشرت میں استاد کو ایک نہایت بلند اور قابلِ احترام مقام حاصل ہے ۔ استاد دراصل وہ شخصیت ہے جو انسان کے باطن میں علم، شعور، اخلاق اور کردار کی روشنی بھرتا ہے ۔ وہ محض علم کا مبلغ نہیں بلکہ کردار کا معمار اور معاشرے کی فکری بنیاد کا ستون ہے ۔ استاد کے بغیر معاشرہ تاریکی میں بھٹکتا ہے ، کیونکہ وہی وہ رہنما ہے جو انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم و ہدایت کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اگر والدین انسان کو زندگی دیتے ہیں تو استاد اسے جینے کا سلیقہ عطا کرتا ہے ۔استاد کے بغیر معاشرہ ایک ایسی بستی کی مانند ہوتا ہے جس میں روشنی کے تمام چراغ بجھ چکے ہوں۔ استاد علم، شعور، اور تربیت کا وہ سرچشمہ ہے جو انسان کو جہالت، گمراہی اور اخلاقی زوال سے بچاتا ہے ۔ جب معاشرہ استاد سے خالی ہو جاتا ہے تو وہاں انصاف کے بجائے ظلم، علم کے بجائے جہالت، اور تہذیب کے بجائے بربریت پروان چڑھتی ہے ۔ استاد ہی وہ قوت ہے جو انسان کے اندر سوچنے ، سمجھنے اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے ۔ اگر استاد نہ ہو تو قومیں اندھی تقلید، مادیت، اور اخلاقی پستی میں ڈوب جاتی ہیں۔ دراصل استاد کے بغیر معاشرہ جسم کے بغیر روح، دریا کے بغیر پانی، اور چراغ کے بغیر روشنی کے مترادف ہے یعنی ایک زندہ لاش، جو حرکت تو کرتی ہے مگر سمت اور شعور سے محروم ہوتی ہے ۔
اسلام میں استاد کے مقام و مرتبے کو نہایت بلند حیثیت حاصل ہے ۔ قرآنِ حکیم میں علم حاصل کرنے کی بارہا ترغیب دی گئی ہے اور اہلِ علم کی فضیلت کو واضح کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ;سورة الزمر: 9
ترجمہ:”کیا علم رکھنے والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں”؟
یہ آیت واضح طور پر اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ علم کی دولت انسان کو مقام و عزت عطا کرتی ہے ، اور استاد وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان اس دولت تک پہنچتا ہے ۔ نبی کریم ۖ نے بھی استاد کے مقام کو نہایت بلند فرمایا۔ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا:”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں”۔ابنِ ماجہ
یہ ارشاد مبارک اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ تعلیم و تربیت کا عمل نبوت کا تسلسل ہے ۔ نبی ۖنے اپنی امت کو نہ صرف علم سکھایا بلکہ اس کے ذریعے ایک صالح معاشرہ قائم کیا۔ اسی لیے ہر وہ شخص جو تعلیم و تربیت کے میدان میں کام کرتا ہے ، دراصل نبوت کے ورثاء میں شامل ہے ۔ تاریخِ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی علم و تربیت کو عزت دی گئی، معاشرہ ترقی یافتہ اور بااخلاق بنا، اور جب استاد کی قدر کم ہوئی تو قومیں زوال کا شکار ہو گئیں۔ مسلمانوں کی عروج کی بنیاد مدارس، اساتذہ اور علمی مراکز تھے ۔ بغداد، قرطبہ، دمشق، اور نیشاپور کے تعلیمی ادارے دنیا کے لیے مشعلِ راہ تھے ۔ وہاں کے اساتذہ نہ صرف علم دیتے تھے بلکہ طلبہ کے دلوں میں کردار و اخلاق کے چراغ جلاتے تھے ۔ استاد محض نصاب نہیں پڑھاتا بلکہ انسان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو پہچانتا اور انہیں نکھارتا ہے ۔ ایک اچھا استاد اپنے شاگرد کی سوچ، طرزِ عمل، حتیٰ کہ اس کی زندگی کے فیصلوں تک کو متاثر کرتا ہے ۔ استاد کی تربیت یافتہ نسل ہی آگے چل کر معاشرے کی رہنمائی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط، افلاطون، امام ابو حنیفہ، امام غزالی، مولانا روم، اور علامہ اقبال جیسے نام تاریخ میں زندہ ہیں، کیونکہ ان کے شاگردوں نے ان کے علم اور کردار کی خوشبو کو زمانوں تک پھیلایا۔علامہ اقبال نے استاد کی عظمت کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا کہ ”علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب” اور علم استاد کے بغیر گمراہی ہے صراط مستقیم نہیں ملتاشمع ہو یا پروانہ، سب کچھ استاد کی بدولت ہے ۔ اقبال کے نزدیک استاد وہ ہستی ہے جو شاگردوں کے دل میں عشقِ حق، خودی اور عمل کی روح پھونکتا ہے۔ وہ صرف کتابی علم نہیں دیتا بلکہ شخصیت سازی کرتا ہے ۔آج کے دور میں جب مادیت نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ، استاد کا کردار مزید اہم ہو گیا ہے ۔ جدید معاشرت میں استاد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف تعلیم دے بلکہ تربیت بھی کرے ۔ مگر افسوس کہ موجودہ تعلیمی نظام نے استاد کو محض ”نوکری” تک محدود کر دیا ہے ۔تدریس کو عبادت سمجھنے کی بجائے ایک معاشی ضرورت بنا دیا گیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ استاد اور شاگرد کے درمیان روحانی تعلق کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔ اساتذہ کا وقار اسی وقت بحال ہو سکتا ہے۔جب معاشرہ دوبارہ یہ سمجھ لے کہ استاد صرف ملازم نہیں، بلکہ ایک رہبر اور روحانی قائد ہے ۔
پاکستان کے آئین اور معاشرتی اقدار میں بھی استاد کے احترام کی تاکید کی گئی ہے ۔ قومی شاعر اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، اور علامہ شبلی نعمانی جیسے رہنماؤں نے تعلیم کو قوم کی ترقی کی بنیاد قرار دیا۔ قائداعظم نے فرمایا تھا:”قوموں کی تعمیر تعلیم کے بغیر ممکن نہیں”، اور تعلیم استاد کے بغیر نامکمل ہے ۔یہ الفاظ اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استاد دراصل قوم کے مستقبل کا معمار ہے ۔ استاد کی تربیت یافتہ قوم ہمیشہ ترقی کرتی ہے ۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے ، جہاں دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب ملک تباہ ہو گیا تو وزیرِاعظم نے کہا:”ہماری عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں مگر ہمارے اساتذہ زندہ ہیں، اس لیے ہم دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے” ۔یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قوموں کا اصل سرمایہ ان کے وسائل یا ہتھیار نہیں بلکہ ان کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں استاد کا احترام محض رسمی نہیں بلکہ عملی پہلو رکھتا ہے ۔ شاگرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے استاد کے سامنے ادب و انکسار سے پیش آئے ۔ حضرت علی نے فرمایا:”جس نے مجھے ایک حرف سکھایا، میں اس کا غلام بن گیا”۔
یہ قول بتاتا ہے کہ استاد کے لیے محبت، وفاداری اور احترام کی انتہا کیا ہونی چاہیے ۔ دوسری طرف استاد پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علم کے ذریعے شاگردوں کی فکری، اخلاقی، اور روحانی تربیت کرے ۔ استاد کا رویہ، گفتار، اور کردار خود ایک درسی کتاب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ شاگرد استاد کی باتوں سے زیادہ اس کے عمل سے سیکھتا ہے ۔ اگر استاد خود دیانت، سچائی، اور خلوص کا مظہر ہو تو اس کے شاگرد بھی انہی اوصاف کے حامل بن جاتے ہیں۔ ہمیں آج اس امر کی ضرورت ہے کہ استاد کو اس کا اصل مقام واپس دیا جائے ۔ اسے عزت، سہولیات، اور سماجی مقام دیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و جھجھک اپنی ذمہ داری ادا کر سکے ۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تربیت، تحقیق کی حوصلہ افزائی، اور شاگرد و استاد کے درمیان روحانی رشتہ دوبارہ قائم کرنا ناگزیر ہے ۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استاد وہ درخت ہے جو خود دھوپ میں جل کر دوسروں کو سایہ دیتا ہے ۔ وہ وہ چراغ ہے جو خود کو پگھلا کر دوسروں کے لیے روشنی پیدا کرتا ہے ۔ اگر ہم ایک مہذب، باشعور، اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اساتذہ کو وہی مقام دینا ہوگا جو انہیں دینِ اسلام، تاریخِ انسانی، اور فطرت نے عطا کیا ہے ۔ استاد کی عزت دراصل علم کی عزت ہے ، اور علم کی عزت انسانیت کی بقا کی ضمانت ہے ۔ استاد کا مقام کسی لفظ یا تعریف میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ معاشرے کی روح، تہذیب کا محافظ، اور نسلوں کا معمار ہے ۔ اگر ہم استاد کو اس کا صحیح مقام دے دیں، تو یقیناً ہمارا معاشرہ جہالت، اخلاقی زوال اور بداعتمادی کے اندھیروں سے نکل کر ترقی، علم، اور روشنی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: استاد کے بغیر معاشرہ ہے جو انسان میں استاد استاد کا استاد کو کہ استاد انسان کو استاد کی کرتی ہے کرتا ہے علم کی

پڑھیں:

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے

ویب ڈیسک : پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن (یومِ اطفال) منایا جا رہا ہے.

اس دن کو منانے کا مقصد بچوں کی بہترین پرورش کیلئے والدین میں شعور بیدار کرنا ہے تاکہ بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔

 اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے 20 نومبر 1989 کو بچوں کیلئے مخصوص کیا ہے جس کا مقصد دنیا بھر کے بچوں کو درپیش مسائل کا سدباب اور ان کی فلاح و بہبود میں بہتری لانا ہے۔

آئندہ برس مون سون کے نقصانات سے بچنے کیلئے ابھی سے تیاری کی جائے؛ وزیراعظم

عالمی یوم اطفال پر والدین میں بچوں کی بہترین تربیت کے لئے شعور بیدار کیا جاتا ہے کہ وہ ابتدائی عمر میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ کھیل اور سیر وتفریح کے مواقع فراہم کریں تاکہ ان کی ذہنی وجسمانی نشوونما میں اضافہ ہو، بچوں کے حقوق کا تحفظ، ان کی فلاح و بہبود اور بہترین تعلیم و تربیت کسی بھی قوم کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔

پاکستان میں اس وقت گھروں، ہوٹلوں، کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں اور دیگرکاروباری مراکز میں بڑی تعداد میں بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے جہاں ان پر مبینہ طور پر تشدد کیا جاتا ہے اور اُجرت بھی بہت کم دی جاتی ہے,معصوم بچوں سے مشقت کی حوصلہ شکنی کرنا اور چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف مؤثر کارروائی ناگزیر ہے۔

پنجاب حکومت کا غیر قانونی مقیم افغانیوں کی اطلاع دینے والوں کیلئے نقد انعام کا اعلان

وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی یومِ اطفال کے موقع پر اپنے اہم پیغام میں کہا کہ پاکستان دنیا کے ساتھ مل کر بچوں کی فلاح و بہبود، تعلیم اور تربیت کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے، رواں سال 2025ء کا عالمی یوم اطفال میرا دن، میرے حقوق کے عنوان سے منایا جا رہا ہے، جو بچوں کے بنیادی حقوق کی ادائیگی، ان کی نشوونما اور زندگی کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ کسی بھی ملک کا مستقبل اس کے بچوں سے جڑا ہوتا ہے لہٰذا عالمی سطح پر بچوں کی خوشحالی اور فلاح کے لئے مشترکہ تعاون ناگزیر ہے۔

پنجاب؛ آئمہ کرام کے وظیفے کی منظوری و نگرانی کا نیا نظام تیار

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے حقوق میں ذہنی و جسمانی نشوونما، مکمل تحفظ اور معیاری تعلیم و تربیت اہم کردار ادا کرتی ہیں، بچوں کے حقوق کی ادائیگی کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مؤثر اقدامات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہیں، حکومت پاکستان اس سلسلے میں عالمی برادری کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کر رہی ہے۔

شہباز شریف نے بتایا کہ بچوں کے خلاف پرتشدد واقعات کے سدباب کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جا رہے ہیں، ساتھ ہی ملک بھر میں ہونہار بچوں کو جدید تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے لئے دانش سکول پروجیکٹ پر تیزی سے کام جاری ہے۔

نیوز نائٹ ،18 نومبر 2024

وزیراعظم نے یاد دلایا کہ تعلیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے، جس کا بنیادی مقصد سکول سے باہر بچوں کو فوری طور پر تعلیمی دائرے میں لانا ہے۔

انہوں نے تمام والدین، اساتذہ اور معاشرے سے اپیل کی کہ وہ بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی بہتر تربیت میں اپنا کردار ادا کریں، آخر میں وزیراعظم نے عہد کیا کہ پاکستان اپنے بچوں کو ایک محفوظ، خوشحال اور تعلیم یافتہ مستقبل دینے کیلئے پوری قوت سے کوشاں ہے۔

امریکا نے پاکستانی طلبا کو بڑی خوشخبری سنادی

متعلقہ مضامین

  • کیا پولیس اہلکاروں کو تفتیش کی باقاعدہ تربیت نہیں دی جاتی؟سندھ ہائیکورٹ آئینی بنچ کے لاپتہ افراد کیس میں ریمارکس،مقدمہ درج کرنے کا حکم 
  • وزراء، انتظامیہ کے تعاون کے بغیر اہداف کا حصول ناممکن، ماضی میں لوٹ مار کا بازار گرم تھا: مریم نواز
  • اجتماع عام 2025: اْٹھو جوانوں، بدل دو نظام!
  • اسلامی معاشرے میں فرد کے فرائض
  • پیپلز پارٹی صرف سیاسی جماعت نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد کی تحریک ہے، وقار مہدی
  • چین کی ویزا فری پالیسی کے فوائد: نہ صرف آمد و رفت، بلکہ تہذیبوں کا ایک سنگم
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے
  • 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم عوام کے مفاد میں نہیں ہیں یہ آئین سے متصادم ہے: اسد قیصر
  • لاہور: سبق یاد نہ کرنے پر استاد نے 10 سالہ بچے کو شدید تشدد کا نشانہ بنا دیا
  • سبق یاد نہ ہونے پر استاد کا 10 سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد