data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہمارے اکثر دکھوں، پریشانیوں اور شکایتوں کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کی نظروں میں اچھا بننا یا سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش خصوصاً اس وقت مری نہیں، جب ہم اپنی اخلاقی خوبیوں، مثلاً دوسروں کا حال احوال دریافت کرکے، دوسروں کی مدد کرکے اور ان کی مشکلات میں معاونت کرکے، ان کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہیں۔ تاہم، یہ خواہش اس وقت ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے، جب ہم اپنی دولت، اپنے اسٹیٹس اور اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کے بیان کرتے، یا اپنی کار اور کوٹھی سے دوسروں کو مرعوب کرنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ اسی چیز سے دکھاوے اور نمود و نمایش کا مرض پیدا ہوتا ہے، جو آج ہمارے معاشرے میں عام ہے۔
ایک مثال پر غور کیجیے: ایک متوسط اور نچلے متوسّط طبقے کا فرد بھی جب اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی کرتا ہے تو استطاعت نہ ہونے کے باوجود وہ ادھر اُدھر سے قرض لے کر، یا سامان بیچ کر، محض اس لیے تین چار سو مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام کرتاہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو عزیز و رشتہ دار کیا کہیں گے؟ کچھ یہی معاملہ اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے کا ہے کہ جو شادی بیاہ کی تقریبات میں محض دکھاوے کے لیے کئی کئی ڈشیں کھانے پہ رکھتا ہے۔ اسی طرح بارات اور ولیمے کے علاوہ مہندی، مایوں وغیرہ کی غیر ضروری رسومات پہ روپے پیسے کو پانی کی طرح بہادیا جاتاہے۔ یہ فضول خرچی محض اس لیے کی جاتی ہے کہ سوسائٹی میں اپنی ناک اونچی ہو۔ عزیزو رشتے دار کہیں کہ واہ کیا مہندی کی تقریب تھی! دلہن کے ملبوسات اور میک اپ پر ہر گھرانہ ہزاروں روپے لٹا دیتا ہے اور اب تو دلہن کے ساتھ ساتھ دولہا میاں کو بھی کوئی مہنگا بیوٹیشن میک اپ کرکے تقریب میں شرکت کے قابل بناتا ہے۔ گویا ایک بیٹے یا بیٹی کی شادی ہی میں اتنے اخراجات اُٹھ جاتے ہیں کہ عام آدمی کی کمر بوجھ سے جھک جاتی ہے۔
ان ساری پریشانیوں کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم دکھاوے اور نام و نمود کی فرسودہ، تکلیف دہ سماجی روایات کی ڈور سے بندھ گئے ہیں اور بعض صورتوں میں ان سے متفق نہ ہونے کے باوجود روایات کی ان زنجیروں کو توڑنے کی اپنے اندر ہمّت نہیں پاتے کہ ’’دنیا کیا کہے گی؟‘‘
ہم میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ کہہ دیں: ’’دنیا جو کہے میری بلاسے‘‘ اور پھر اپنی استطاعت کے مطابق سادگی سے یہ ضروری فریضہ انجام دیں۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ محض لوگوں کے کہنے سننے کے خوف سے ہم خود کو مقروض بنالیں۔
اس دکھاوے اور نمود و نمایش نے ہمارے اخلاقی معیارات کو اتنا کھوکھلا اور مضحکہ خیز بنادیا ہے کہ اب شرافت، کردار، تعلیم اور صحت جیسی خوبیوں پر دولت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دولت ہی خوبی کا واحد معیار بن کر رہ گیا ہے۔ یہ معیار اتنی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اگر اسکول اچھا ہو، فیس معقول ہو، اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں، تب بھی ہم ایسے اسکول میں بچّوں کو نہیں پڑھاتے جس کی شہرت اونچے اسکول کی نہ ہو۔ پڑھاتے ایسے اسکول میں ہیں جس کی فیس مہنگی ہو اور جس کا نام اور شہرت ایسی ہو کہ لوگ سن کر کہیں کہ: ’’اچھا، آپ کا بچّہ فلاں اسکول میں پڑھتا ہے‘‘۔ ایسے مشہور اسکولوں کا حال یہ ہے کہ ہوش ربا فیس دینے اور ٹرانسپورٹ کا خرچ برداشت کرنے کے باوجود بچّے کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانا پڑتی ہے۔ سربلند کرنے کے سماجی مرتبے کے علاوہ اگلے درجوں میں تعلیم اور کیریئر بنانے میں مددگارو معاون بننے کی بھی اُمید ہوتی ہے۔ ہم ایسی ہی ’اونچی دکان‘ سے ’پھیکا پکوان‘ خریدنا پسند کرتے ہیں۔ اسکول سے بچّے نے کیا اور کتنا سیکھا اور اسکول کے اساتذہ نے کتنی محنت کی اور کیا کچھ سکھایا اور تربیت دی ان سوالات سے والدین کا عموماً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لوگوں کی سوچ اس درجہ طبقاتی ہوگئی ہے کہ ہم آدمی کی حیثیت اور مرتبے کا اندازہ اُس علاقے سے لگاتے ہیں جہاں وہ رہتا ہے۔ ایک اچھے کردار اور اخلاق کا آدمی اگر کسی نواحی یا نیم پسماندہ بستی کا رہایشی ہو تو عموماً وہ بے وقعت ہوجاتا ہے۔ رشتے دار اگر بدقسمتی سے ایسی بستی کے رہایشی ہوں تو ان کے پاس آنا جانا اور ملنا جلنا بھی براے نام ہی ہوتا ہے۔
اس کی وجہ اور کیا ہے کہ ہماری نظروں میں زندگی کی سب سے بڑی قدر دھن دولت، کار، کوٹھی اور بنک بیلنس ہے۔ یہ مادی اشیا یقیناً زندگی میں اہمیت رکھتی ہیں اور ان کے جائز حصول میں کوئی عیب نہیں ہے۔ لیکن اس سے زیادہ بُری بات اور کیا ہوگی کہ دولت اور مادی اشیا کے سامنے ہم انسانی اور اخلاقی اوصاف اور خوبیوں کو کمتر اور بے وقعت سمجھنے لگیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ دولت باوجود اپنی طاقت اور اہمیت کے، عمر اور جوانی کی طرح ڈھلتی چھاؤں ہے۔ ہم نے کتنے دولت مندوں کو قلاّش ہوتے اور کتنے قلاّشوں کو دولت مند ہوتے دیکھا ہے۔ روپیہ پیسہ تو گردش کرنے والی چیز ہے۔ ایسی عارضی اور پُر فریب حقیقت پر جان دینا، اسی کو سب کچھ سمجھ لینا، اچھّائی اور برائی کا اسی کو پیمانہ بنالینا، کوتاہ نظری اور سطحی سوچ کا شاخسانہ ہے۔
ڈاکٹر طاہر مسعود
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہے کہ ہم جاتی ہے اور کیا ہیں کہ
پڑھیں:
اداکار جوڑے نے بیٹی کو اسکول نہ بھیجنے کی وجہ بتادی
اداکارہ زارا نور عباس اور اُن کے شوہر اسد صدیقی نے کم عمر بچوں کو اسکول بھیجنے کے معاملے پر اپنی رائے ظاہر کی ہے اور بتایا کہ وہ ابھی اپنی بیٹی کو اسکول نہیں بھیجیں گے۔
اسد صدیقی نے کہا کہ بچوں کو اسکول بھیجنے کی صحیح عمر سات سال ہے اور اس سے قبل اسکول بھیجنا زیادہ درست نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آجکل کے اسکول زیادہ تر تعلیم کے بجائے کاروباری مقاصد کے لیے چلائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے فن لینڈ کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں بھی بچے سات سال کی عمر میں ہی اسکول جاتے ہیں، اور یہ بات اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سات سال کی عمر تک بچہ گھر میں رہ کر بہت سی اہم عادتیں اور زندگی کے اصول سیکھ لیتا ہے، جو اس کی مجموعی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔
زارا اور اسد کے اس موقف سے بہت سے صارفین متفق نظر آئے، جبکہ کچھ نے اختلاف بھی کیا۔
واضح رہے کہ اداکار جوڑے کے ہاں مارچ 2024 میں بیٹی نور جہاں پیدا ہوئی تھی، جس کے بارے میں یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔