اسلام آباد، اسپتالوں، مراکز صحت میں ڈیجیٹل نظام فعال
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
اسپتالوں اور مراکز صحت میں پیدائش اور وفات کی اطلاع کے ڈیجیٹل نظام نے کام شروع کر دیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ کی ہدایات پر نادرا رجسٹریشن نظام میں بہتری اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے اور صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے پیدائش اور وفات کے اندراج کی کارروائی اب زیادہ مؤثر، تیز اور شفاف بنایا گیا ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے یکم جنوری کو منظور کیے گئے نیشنل بائیومیٹرک اینڈ رجسٹریشن پالیسی فریم ورک پر کام جاری ہے اور پائلٹ پراجیکٹ کے تحت نادرا نے 50 سے زائد اسپتالوں اور مراکز صحت میں جدید ترین نظام فراہم کردیا ہے۔
ان اسپتالوں میں اسلام آباد کا پمز، سی ڈی اے اور ایف جی اسپتال، لاہور کا لیڈی ایچیسن اسپتال، کوئٹہ، خیبرپختونخوا، آزاد جموں وکشمیر، گلگت اور سندھ کے متعدد اسپتال اور مراکز صحت بھی شامل ہیں۔
نئے نظام کی بدولت اسپتال یا مرکز صحت میں پیدائش یا وفات کی اطلاع نادرا کو براہ راست موصول ہوتی ہے، نادرا والدین یا متوفی کے ورثا کو موبائل ایپ اور ایس ایم ایس کے ذریعے یونین کونسل میں اندراج کا پیغام بھجوائے گا۔
خودکار نظام کے تحت اب تک ملک بھر میں پیدائش کی 4 ہزار اور وفات کی 407 اطلاعات موصول ہوئیں، شہری نادرا کی موبائل ایپ پر یا قریبی یونین کونسل جا کر پیدائش یا وفات کا اندراج کرا سکیں گے۔
پائلٹ پراجیکٹ کے تحت پنجاب کے تین اضلاع میں سہولت فراہم اور جلد پورے پنجاب میں میسر ہوں گی، دیگر سرکاری اور غیرسرکاری اسپتالوں اور مراکز صحت میں بھی جدید نظام کی فراہمی پر کام جاری ہے۔
اسی طرح صوبائی حکومتوں کی تیاری مکمل ہونے پر یونین کونسل میں اندراج کی سہولت بھی فراہم کر دی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور مراکز صحت مراکز صحت میں
پڑھیں:
بار بار احتجاج کے سبب اسلام آباد کی بندش، حکومت اس عمل کو کیسے روک سکتی ہے؟
اپریل 2016 میں پانامہ پیپرز کے منظرِ عام پر آنے اور اس میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا ذکر آنے کے بعد پاکستان تحریک اِنصاف نے برسرِاقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف تحریک تیز تر کردی تھی۔
اِسی پس منظر میں پاکستان تحریک اِنصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے اکتوبر 2016 میں اعلان کیاکہ اگر نواز شریف کے خلاف قانونی اقدامات نہیں کیے جاتے تو وہ 2 نومبر 2016 کو اسلام آباد بند کردیں گے جسے انہوں نے اِسلام آباد لاک ڈاؤن کا نام دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کے احتجاج سے ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچا؟
اس درخواست پر اِسلام آباد ہائیکورٹ نے کیا فیصلہ کیا تھا، اس پر جانے سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ 2012 میں پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے سے لے کر اب تک اِسلام آباد اور راولپنڈی کے شہری آئے روز سڑکوں کی بندش سے سخت پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔
جب مریض اسپتال نہیں جا سکتے، بچے اسکول اور ملازمت پیشہ افراد دفاتر نہیں جا سکتے۔ یہ صورتحال جہاں شہریوں کی آزادنہ نقل و حمل کے بنیادی حق کو متاثر کرتی ہے وہیں بڑے پیمانے پر معاشی نقصان کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔
9 اکتوبر کو پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج کے پیش نظر جڑواں شہروں کو کنٹینرز کی بڑی بڑی دیواریں کھڑی کرکے ایک قید خانے میں بدل دیا گیا جہاں شہریوں کی نقل و حمل شدید ترین متاثر ہوئی۔ جڑواں شہروں کے رہنے والے اب کچھ تو اس صورتحال کے عادی بھی ہو چکے ہیں لیکن اِس سے بیزار بھی نظر آتے ہیں۔
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں احتجاج کے دوران کنٹینرز لگا کر سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنا ایک عام حکمت عملی بن چکی ہے، جو بنیادی طور پر مظاہرین کو ریڈ زون تک رسائی روکنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
یہ اقدام 2014 سے زیادہ واضح ہوا، جب پاکستان تحریک انصاف کا طویل دھرنا ہوا۔ اس کے بعد سے خاص طور پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے موقع پر شہر کو ’کنٹینر سٹی‘ بنا دیا جاتا ہے، جس سے عام شہریوں کی روزمرہ زندگی، ٹریفک، تعلیم اور کاروبار بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
اسلام آباد لاک ڈاؤن پر کیا فیصلہ ہوا؟31 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکم جاری کیاکہ پاکستان تحریک انصاف اپنا احتجاج اسلام آباد میں احتجاج کے لیے مختص جگہ ’ڈیموکریسی پارک اینڈ اسپیچ کارنر‘ جو پریڈ گراؤنڈ شکر پڑیاں کے نام سے معروف ہے وہاں کر سکتی ہے لیکن شہر کی بندش کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اِسلام آباد ہائیکورٹ نے کہاکہ پُرامن احتجاج بنیادی حق ہے لیکن شہریوں کی آزادانہ نقل و حمل بھی بنیادی حق ہے، جسے روکا نہیں جا سکتا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جس نے فیصلہ دیا کہ احتجاج کے لیے کسی مخصوص جگہ کی پابندی نہیں لگائی جا سکتی لیکن انتظامیہ پرامن احتجاج کے لیے انتظامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ شہری زندگی مفلوج نہ ہو۔
لیکن شہری زندگی مفلوج نہ کرنے کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
پاکستان عوامی تحریک کا 2012 کا احتجاج
پاکستان عوامی تحریک نے 2012 میں اپنے سربراہ طاہر القادری کی سربراہی میں اسلام آباد کا رُخ کیا اور کئی دن تک اِسلام آباد کا بلیو ایریا مفلوج رہا۔
پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے 2014 کے حکومت مخالف دھرنے کے موقع پر شہر کی مرکزی سڑکوں جیسے جناح ایونیو، آئی جے پی روڈ کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا، اور یہ دھرنا 126 دن تک جاری رہا، جس نے شہر کو مفلوج کردیا۔
نومبر 2017 میں ٹی ایل پی کا فیض آباد دھرنانومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان نے فیض آباد میں دھرنا دیا، اس موقع پر فیض آباد انٹرچینج اور جُڑواں شہروں کے انٹری پوائنٹس پر کنٹینرز لگائے گئے، اس دوران مظاہرین اور فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئین۔
اکتوبر 2020 میں ٹی ایل پی کا فرانس کے خلاف احتجاجاکتوبر 2020 میں تحریک لبیک پاکستان نے ایک بار پھر فرانس کے خلاف احتجاج کی کال دی۔ اس موقع پر شہر کی کلیدی سڑکوں (جی ٹی روڈ، مارگلہ روڈ) پر کنٹینرز لگائے گئے اور ریڈزون کو سیل کیا گیا۔
مئی 2022 میں پی ٹی آئی کا احتجاجمئی 2022 میں پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان حکومت کے خاتمے کے خلاف احتجاج کیا، اس موقع پر جناح ایونیو، ڈی چوک اور انٹری پوائنٹس پر کنٹینرز لگائے گئے، احتجاج کے دوران مظاہرین نے میٹرو اسٹیشن توڑے اور درختوں کو آگ لگائی۔
مئی 2023 میں پی ٹی آئی کا عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج
مئی 2023 میں پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا، اس دوران بھی ریڈ زون اور جڑواں شہروں کی شاہراہوں پر کنٹینرز کی دیواریں بنائی گئیں، جس کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ستمبر 2024 میں پی ٹی آئی کا مخصوص نشستوں کے خلاف احتجاجستمبر 2024 میں پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کے خاتمے کے خلاف احتجاج کیا۔ اس موقع پر مختلف سڑکوں سری نگر ہائی وے، چائنا چوک پر کنٹینرز لگائے گئے، جس کے باعث شہری زندگی مفلوج ہوئی۔
اکتوبر 2024 میں پی ٹی آئی کا ڈی چوک دھرنااکتوبر 2024 میں پی ٹی آئی نے عمران خان کی رہائی کے لیے ڈی چوک میں دھرنا دینے کا اعلان کیا، اس موقع پر بھی کنٹینرز کی دیواریں کھڑی کی گئیں، اور عوام مشکلات کا شکار رہے۔
نومبر 2024 میں پی ٹی آئی کا دھرنانومبر 2024 میں پی ٹی آئی نے ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کے لیے ڈی چوک میں دھرنا دینے کا اعلان کیا۔ پشاور سے نکلنے والے مارچ کی قیادت علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کررہے تھے۔ اس دوران بھی قریباً 4 روز تک راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کی زندگی مفلوج رہی۔
اب ایک بار پھر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا فلسطین کی حمایت میں ’لبیک یا اقصیٰ‘ مارچ جاری ہے، جس کے باعث 9 اکتوبر سے جڑواں شہروں کے تمام داخلی پوائنٹس بشمول فیض آباد، جی ٹی روڈ، مارگلہ روڈ کنٹینرز سے بلاک ہیں، اور عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق یا اقوام متحدہ کا انٹرنیشنل کوویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کا آرٹیکل 19 اور 21 احتجاج کے حق کو تین شرائط کے ساتھ تسلیم کرتا ہے۔
اس میں پہلے نمبر پر یہ ہے کہ احتجاج کا قانونی جواز ہونا چاہیے، دوسرا احتجاج کسی جائز مقصد کے تحت یعنی قومی سلامتی، عوامی نظم، صحت عامہ یا دوسروں کے حقوق کا تحفظ کے لیے ہو، اور تیسرا اُس میں ضرورت اور تناسب کا خیال رکھا جائے۔
آرٹیکل 19 اور 21 بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق احتجاج کے حق کو تسلیم کرتا ہے لیکن اسے تین شرائط کے تحت محدود کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کو اہل غزہ سے ہمدردی نہیں، احتجاج مذہبی سیاست کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے، سوشل میڈیا پر بحث
اس طرح سے یونائیٹڈ نیشنز یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس بھی حدود و قیود کے ساتھ احتجاج کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔
اس کے علاوہ یورپی اور امریکی کنونشنز بھی احتجاج کے حق کو شرائط کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews احتجاج کا حق اسلام آباد احتجاج پی ٹی آئی دھرنا ٹی ایل پی مارچ راستوں کی بندش وی نیوز