قدیم مگر زندہ شہروں میں کچھ تو ایسا طلسم ہوتا ہے کہ صدیوں حوادث زمانہ سہنے کے باوجود زندہ رہتے ہیں۔ تین ہزار سال سے زائد کی تاریخ رکھنے والا ملتان ایسا ہی شہر ہے جس کے بارے میں اس کے ایک سپوت ڈاکٹر اسلم انصاری نے ’’ملتان ، شہر طلسمات‘‘ کا نام دیا۔ ملتان شہر سے ہمارا تعارف لڑکپن کے زمانے سے ہوا۔
رحیم یار خان کے ایک دور افتادہ گاؤں میں ریڈیو بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے کا ہمارا واحد ذریعہ تھا۔’’یہ لاہور ہے‘‘کی مانوس آواز نے ایک مدت تک ریڈیو پاکستان لاہور کے ساتھ تعلق استوار رکھا۔ بعد ازاں ایسی ہی آواز ملتان سے گونجی ’’یہ ملتان ہے‘‘ تو ریڈیو پاکستان ملتان کے ساتھ بھی ایک نیا رشتہ استوار ہو گیا۔
خواجہ فرید گورنمنٹ ڈگری کالج سے گریجویشن کے بعد ایم بی اے کرنے کا جنون سوار ہوا تو 1977 میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ہماری پہلی چوائس بنی۔ یوں اس شہر کے ساتھ تعلق ایک منزل اور طے کر گیا۔ ایم بی اے کیے ہوئے مدت گزر گئی لیکن کسی نہ کسی صورت میں ملتان سے یہ قلبی اور ذہنی تعلق آج بھی قائم ہے۔
ملتان شہر میں بطور طالب علم وارد ہوا تو ایک اجنبی تھا لیکن جلد ہی حلقہ احباب کا ایک وسیع سلسلہ تشکیل پا گیا جس کے بیشتر افراد کے ساتھ آج بھی یہ تعلق قائم و دائم ہے۔ ملتان کی عمومی وجہ شہرت ’’گرد، گرما اور گورستان‘‘ سنی تھی لیکن ملتان میں قیام کے دوران اس شہر طلسمات کا خود تجربہ کیا جن کا سحر آج بھی قائم ہے۔
کچھ ہفتے قبل ملتان جانے کا عرصے بعد موقع ملا۔ یار من نسیم شاہد جو ایک معروف استاد، شاعر اور کالمسٹ ہیں ان سے درخواست کی کہ چند احباب کے ساتھ ایک نشست ہو جائے تو عمدہ رہے گا۔ کم وقت میں بہت سے احباب سے تبادلہ خیال کا موقع مل جائے گا۔
برپا کی گئی محفل میں برادرم شاکر حسین شاکر ، برادرم شوکت اشفاق ، اظہر سلیم مجوکا ، ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا سمیت کئی دیگر احباب شامل ہوئے۔ گفتگو ہلکے پھلکے موضوعات سے شروع ہوئی تو پھر بقول شخصے دبستان کھلتے چلے گئے۔
شاکر حسین شاکر ملتان کی ایک منفرد پہچان ہیں۔ انتہائی عمدہ ادیب اور کالم نگار تو ہیں ہی لیکن ملتان کی تہذیبی اور ادبی شہر داری کا ایک مضبوط حوالہ بھی ہے۔ ان کا ’’کتاب ورثہ‘‘ ملتان کے ادبی اور تہذیبی حوالوں میں ایک نمایاں حوالہ ہے۔
اسی حوالے کا کمال تھا یا پاس کہ محفل میں آتے ہی انھوں نے ہمیں چار کتابیں عنایت کیں۔ ایک سے ایک شاندار علمی اور تہذیںی تصنیف تھی۔ ڈاکٹر اسلم انصاری کی تصنیف ’’ملتان - شہر طلسمات‘‘ ڈاکٹر محمد حنیف چوہدری کی شاندار تحقیقی کتاب ’’ایک صدی کا ملتان : 1900 سے 2000 تک‘‘ ڈاکٹر عصمت ناز کے خواتین رفقاء اساتذہ کے خاکے: جن لمحوں میں ہم ساتھ رہے.
طلعت جاوید کی خاکوں پر مبنی تصنیف؛ اہل نظر -جن سے راہ حیات روشن تھی۔تمام کتابوں کا ایک کالم میں تذکرہ مشکل ہے، تاہم پہلی دو تصنیفات کا مختصر تذکرہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری لکھتے ہیں: ملتان کا تعارف ہم کیا کرائیں جب کہ ملتان اپنا تعارف آپ ہے۔ملتان کی قدامت مسلمہ ہے اور اس کی عظمت تسلیم شدہ ہے۔
اس کی شہرت کا یہ حال ہے کہ داتا گنج بخش علیہ الرحمہ نے اپنی مشہور تصنیف کشف المحجوب میں لاہور کا تعارف کراتے ہوئے لکھا کہ لاہور شہریست در نواح ملتان۔ بعض انگریز مورخین کی رائے ہے کہ ملتان کی باقاعدہ تاریخ سکندر اعظم کے حملے سے شروع ہوتی ہے۔
ملتان دنیا کے ان چند شہروں میں سے ہے جو صد ہا سال سے صفحہ ارض پر سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ جس نے بھی اس شہر کے باطن میں جھانک کر دیکھا، وہ ہمیشہ کے لیے اسی کا ہو کر رہ گیا۔
ان کے بقول ملتان کی سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ اس کو کوئی بڑا مورخ نہیں ملا۔ بڑے مورخ سے مراد ٹوائن بی، کار لائل اور گبن جیسے مورخ ہیں۔ تاہم ملتان کی تاریخ کے بکھرے اجزاء کو سمیٹ کر وحدت کا روپ دینے والوں میں ملتان کے بہت سے سپوت قابل فخر ہیں جن کے سبب ملتان کی تاریخ محفوظ ہوئی۔
ڈاکٹر اسلم انصاری کے بقول بر صغیر کے باقی تمام دبستانوں کے مقابلے میں ملتان کا طرز تعمیر زیادہ قدیم شمار ہوتا ہے۔ ملتان میں مسلمانوں کی آمد سے قبل ملتان کے فن تعمیر کی کیا صورتحال تھی ، اس بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی لیکن قلعہ ملتان کی قدامت اور ملتان کے سورج مندر کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملتان کا قدیم فن تعمیر بھی خاصا ترقی یافتہ تھا۔
عرب فاتحین کے آنے پر جو طرز تعمیر وجود میں آیا ، بعد کے حملہ آوروں نے اس کو بھی نیست و نابود کر دیا۔ اس لیے ملتان میں عربوں کے دور کے فن تعمیر کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں البتہ کچھ باقیات ضرور موجود ہیں۔ایک صدی کا ملتان ڈاکٹر محمد حنیف چوہدری کی عرق ریز تحقیق پر مبنی شاندار تاریخی دستاویز ہے جو انھوں نے عمر کے آخری حصے میں تحریر کی۔ ڈاکٹر محمد حنیف چوہدری کون تھے؟
ملتان شہر کی تہذیبی تاریخ پر اتھارٹی،معروف مزاحیہ شاعر اور کالم نگار یار من خالد مسعود خان اس کتاب کے لیے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ڈاکٹر محمد حنیف چوہدری روزنامہ امروز میں سب ایڈیٹر تھے۔ ان کی اصل شناخت پنجابی کے بہت بڑے افسانہ نگار، لکھاری اور محقق کے طور پر تھی۔
1990 میں امروز بند ہو گیا تو چوہدری صاحب مکمل طور پر ادب اور تحقیق سے جڑ گئے۔ ایم اے پنجابی کرنے کے بعد ایم فل کیا اور پھر پی ایچ ڈی کا بیڑا اٹھا لیا۔ وہ پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول کے لیے نہیں کر رہے تھے بلکہ مقصد صرف خود کو کسی باضابطہ اور لازمی تحقیق کے لیے وقف کرنا تھا۔
جب انھوں نے پی ایچ ڈی 2019 میں مکمل کی تو اپنی عمر کی 89 بہاریں دیکھ چکے تھے۔ نواسی سال کی عمر میں ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ لگ گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ لفظ ڈاکٹر ان کے نام سے جڑ کر معتبر ہو گیا۔
یہ کتاب نہیں ایک جادو نگری ہے جس میں ملتان کی حویلیاں اور سرائے، ملتان کے مندروں کا انہدام ، ملتان کے خانہ بدوشوں کے عقائد اور اس میں ملتان میں نو گزی قبروں کی حقیقت، بیس ہزار قبل از مسیح کا ملتان، ملتان کے گم گشتہ قبرستان، ملتانی وسیب، ملتان کے باغوں پر کیا گزری جیسے مضمون ہیں۔
ان کی کتاب کا مسودہ ان کی 93ویں سالگرہ کے روز پریس میں گیا جب انھیں مٹی کا مہمان ہوئے پانچ روز گزر چکے تھے۔ ہم قرض اتارنے میں تھوڑی تاخیر کر گئے مگر جالندھر کی تحصیل نکودر سے آنے والا مٹی کا مہمان جاتے جاتے مٹی کا قرض اتار گیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر اسلم انصاری شہر طلسمات ملتان میں میں ملتان کی تاریخ ملتان کی ملتان کے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالکریم اسلام آباد پہنچ گئے
—تصویر بشکریہ سوشل میڈیارابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ 6 روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے۔
ڈاکٹر عبدالکریم العیسٰی اپنے دورے کے دوران اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں کریں گے۔
ان ملاقاتوں میں مذہبی، سماجی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ سے متعلق امور زیرِبحث آئیں گے۔