data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے چوتھے دن حماس نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے جب کہ اسرائیل کی جانب سے 1700 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جارہی ہے، جنہیں 7 اکتوبر 2023 کو جنگ شروع ہونے کے بعد غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کے روز حماس نے مرحلہ وار تمام 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا ہے، پہلے مرحلے میں 7 اور دوسرے مرحلے میں 13 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس آج 28 یرغمالیوں کی لاشوں کو بھی اسرائیل کے سپرد کرے گی، اسرائیلی فوجی ریڈیو کے مطابق، القسام کی جانب سے 20 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد حماس کے پاس کوئی بھی زندہ یرغمالی باقی نہیں رہا۔ دوسری جانب مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ امن معاہدے پر دستخط کی باقاعدہ تقریب منعقد کی جائے گی، امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر، ترکیہ کے صدر طیب اردوان، اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی، جرمن چانسلر، فرانس کے صدر میکرون سمیت 20 سے زائد ممالک کے سربراہان شرکت کریں گے۔ اسرائیل کا کوئی نمائندہ اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔ تاہم فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس پہلے ہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ اجلاس میں غزہ امن معاہدے پر دستخط اور امن منصوبے پر عملدرآمد کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ رپورٹس کے مطابق اجلاس کا مقصد غزہ کی جنگ ختم کرنا، خطے میں امن کو مستحکم کرنا اور عالمی سطح پر تعاون کو بڑھانا ہے۔ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور یہ کہ وہ غزہ کا دورہ کرنے پر فخر محسوس کریں گے۔ ادھر غزہ کی سلامتی کے اداروں نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک ملیشیا پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے جو قابض افواج کے لیے کام کر رہی تھی اور پناہ گزینوں کے قتل اور املاک لوٹنے میں ملوث تھی۔ حماس مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ حماس کو امریکا، عرب ثالثوں اور ترکیہ کی جانب سے اس بات کی ضمانتیں ملی ہیں کہ غزہ میں جنگ مستقل طور پر ختم ہوگئی ہے۔ خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ معاہدے میں رفح کراسنگ سے آمد اور خروج کا راستہ کھولنا شامل ہے، معاہدے کے تحت اسرائیلی جیل میں بند تمام فلسطینی خواتین اور بچوں کی رہائی شامل ہے۔ معاہدے کے تحت گزشتہ 6 ماہ میں پہلی مرتبہ غزہ میں 400 امدادی ٹرک داخل ہو ئے ہیں توقع کی جارہی ہے کہ مصر کے ساتھ رفح سرحدی گزر گاہ منگل کو جزوی طور پر کھول دی جائے گی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق خوراک اور انسانی امداد لے جانے والے ٹرک مصر کی جانب سے رفح کراسنگ سے کرم ابو سالم کراسنگ اور وہاں سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے لگے ہیں۔ پہلے مرحلے میں غزہ کی پٹی میں داخلے کی تیاری میں مصری جانب کی رفح کراسنگ سے 90 ٹرکوں کو کرم ابو سالم اور العوجہ کراسنگ تک پہنچایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں جس کھلی درندگی کا مظاہرہ کیا، ہزاروں افراد کے خون سے ہولی کھیلی، معصوم بچوں اور خواتین کو بے دردی سے شہید کیا، پورے غزہ کو بمباری کر کے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا پھر غزہ کی ناکہ بندی کر کے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور عملاً غزہ میں قحط کی سی صورتحال پیدا کی، جس پر پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف زبردست رد عمل دیکھنے میں آیا، دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے سڑکوں پر نکل کر اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج کیا، یورپی ممالک نے بھی اس صورتحال پر کھل کر اسرائیل کی مذمت کی، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا، کئی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کیے، اقوام متحدہ کو بھی یہ کہنا پڑا کہ اسرائیل غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے وہ نسل کشی ہے۔ عالمی عدالت ِ انصاف کے فیصلے اور عالمی برادری کے زبردست دباؤ کے نتیجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا اور اسرائیل پر واضح کیا کہ وہ اپنے اقدامات کی وجہ سے عالمی برادری میں تنہائی کا شکار ہورہا ہے جس پر صہیونی قیادت نے ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی۔ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے امریکا، مصر، ترکیہ اور قطر کی ثالثی سے جو معاہدہ طے پایا ہے، اس سے بلاشبہ خطے میں امن کے امکانات روشن ہوگئے ہیں تاہم ان امکانات کے درمیان چھپے خدشات کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرف معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ ہو رہا ہے وہیں دوسری جانب نیتن یاہو نے اپنے جنگی عزائم کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے خطاب میں کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں فوجی کارروائی ابھی ختم نہیں ہوئی، اسرائیل کو اب بھی بڑے سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے قیدیوں کی رہائی کے بعد غزہ میں زیر ِ زمین حماس کی سرنگوں کے نیٹ ورک کی باقیات تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے لیے امریکا کی منظوری سے کام کر رہا ہے۔ کاٹز کا کہنا ہے کہ مبینہ سرنگیں حماس کے غیر مسلح کرنے اور علاقے کو غیر فوجی بنانے کے فریم ورک کے تحت تباہ کر دی جائیں گی جس کے بارے میں اندازہ ہے کہ امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی منصوبے کے اگلے مراحل میں ہو گا۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کی مکمل تفصیلات تو ابھی سامنے نہیں آئیں مگر ابتدائی مذاکرات میں فریقین نے جن امور پر اتفاق کیا ہے وہ یقینا خوش آئند ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ایک لمبی جنگ بندی کا ’’بریک تھرو‘‘ ہے، مگر اس راہ میں بہت مشکلات آئیں گی، تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ماضی کے معاہدے اکثر اسرائیل کی جانب سے توڑے گئے ہیں، اس کی واضح مثال جنوری 2025 میں طے پانے والا جنگ بندی کا معاہد ہ ہے جس کی اسرائیل نے غزہ میں دوبارہ بمباری کر کے خلاف ورزی کی اور عملاً اس معاہدے کو سبوتاژ کیا۔ اس تلخ حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ حالیہ معاہدہ اسرائیل پر ٹرمپ کے سیاسی دباؤ کے نتیجے میں ہوا ہے، ٹرمپ کا کردار اس معاہدے کو زندہ رکھنے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اسرائیل اگر سیاسی بحران یا داخلی دباؤ محسوس کرے، تو وہ معاہدے کی خلاف ورزی کی راہ اختیار کر سکتا ہے، علاوہ ازیں اسرائیل کی پالیسی، داخلی سیاسی دباؤ اور اس کی تاریخ کی بنیاد پر یہ خدشہ موجود ہے کہ اسرائیل اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے، نیتن یاہو اقتدار میں رہنے کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ سکتے ہیں۔ بظاہر اب تک کی پیش رفت خوش آئند ہے تاہم اس امکان کوکسی طور مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل اپنی بدطینتی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک بار پر جارحیت کا مظاہرہ کرے۔ یرغمالیوں کی مکمل رہائی کے بعد غزہ میں غیر ملکی افواج کی تعیناتی، حماس کو غیر مسلح کرنے اور اس کے رہنماؤں کو ملک بدر کرنے کی کوشش امن کے لیے کی جانے والی جدوجہد پر پانی پھیرنے کے مترادف ہوگی، امریکا، مصر، ترکیہ، قطر، اور اقوامِ متحدہ جو اس جنگ بندی کے ضامن ہیں، کو انصاف سے کام لینا ہوگا اور اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ اسرائیل اس معاہدے کی پاسداری کرے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: معاہدے کے تحت کا کہنا ہے کہ رہائی کے بعد اسرائیل کے اسرائیل کی کہ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کے مطابق کی رہائی غزہ کی ہیں کہ کے لیے رہا ہے اور اس
پڑھیں:
حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی، اسرائیلی فوج کے چیف اور وزیر دفاع آپس میں جھگڑ پڑے
واضح رہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب اسرائیل میں فوج اور حکومت یوں آمنے سامنے آئی ہو۔ غزہ جنگ کے ابتدا سے ہی دونوں ہی ایک دوسرے پر ناکامی کا ملبہ ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل میں غزہ جنگ کے بعد سے فوجی اور سیاسی قیادت کے درمیان ٹکراؤ روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی پر کوئی ایک بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق فوجی سربراہ چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال زمیر اور وزیرِ دفاع عزرائیل کاٹز کے درمیان کشیدگی اور اختلاف اب سب کے سامنے آگیا۔ یہ ٹکراؤ اُس وقت بڑھا، جب وزیر دفاع نے 7 اکتوبر 2023ء کے حماس حملے کو نہ روک پانے سے متعلق فوجی ناکامیوں پر تیار کردہ تحقیقاتی رپورٹ کی دوبارہ جانچ کا حکم دیا۔ اسرائیلی وزیر نے اس جانچ کے لیے اپنے ماتحت دفاعی ادارے کے کمپٹرولر بریگیڈیئر جنرل (ر) یائر وولانسکی کو تحقیقات کا نیا مینڈیٹ دیا۔ انھوں نے اس جانچ کے حکم کے ساتھ ہی فوجی افسران کی ترقیوں کے معاملے کو بھی ایک ماہ کے لیے معطل کر دیا۔
جس پر اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زمیر غصے میں آگئے اور انھوں نے کھلم کھلا کہا کہ مجھے یہ سارے حساس اور اہم فیصلے میڈیا کے ذریعے معلوم ہوئے اور وہ بھی اُس وقت جب ہم گولان کی پہاڑیوں میں مشق میں مصروف تھے۔ ایال زمیر نے اپنے سخت بیان میں مزید کہا کہ یہ رپورٹ شروع سے ہی صرف اور صرف فوجی تحقیقاتی معیار جانچنے کے لیے تھی، لیکن اب اسے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ رپورٹ سیکڑوں گواہیاں سننے اور وسیع تحقیق کے نتیجے میں پیشہ ورانہ انداز میں تیار کی گئی تھی، جس کی دوبارہ جانچ غیر متعلق اور ناقص ترین فیصلہ ہے۔ اسرائیلی آرمی چیف نے اپنے وزیر دفاع کو یاد دلایا کہ فوج ہی واحد ادارہ ہے، جس نے اپنی ناکامیوں کی خود تحقیقات کیں اور ذمہ داری بھی قبول کی۔
ایال زمیر نے کہا کہ اگر کسی کو مزید تحقیقات کی ضرورت ہے تو پھر ایک غیر جانبدار، آزاد اور کسی تھرڈ پارٹی کے ماتحت کمیشن تشکیل دیا جائے۔ ترقیاں روکنے کے وزیر دفاع کے فیصلے پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا کہ اس عمل سے فوج کی صلاحیت اور مستقبل کے چیلنجز کی تیاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ فوجی افسران کی برخاستگی یا سرزنش فوج کا اندرونی معاملہ ہے اور اس کے لیے وزیر دفاع کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ میں یہ عمل جاری رکھوں گا اور بطور روایتی طریقہ کار وزیر دفاع کو بھیجتا رہوں گا۔ واضح رہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب اسرائیل میں فوج اور حکومت یوں آمنے سامنے آئی ہو۔ غزہ جنگ کے ابتدا سے ہی دونوں ہی ایک دوسرے پر ناکامی کا ملبہ ڈال کر بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔