پارلیمانی انتخابات ملتوی کرنے سے خانہ جنگی ہوسکتی ہے، امریکی ایلچی ٹام بیرک کا لبنان کو انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی خصوصی ایلچی ٹام بیرک نے لبنان میں اگلے سال کے پارلیمانی انتخابات ملتوی کرنے کی خبروں پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر 2026 کے انتخابات جنگ کے بہانے سے مؤخر کیے گئے تو اس کے نتیجے میں ملک میں بڑے پیمانے پر سیاسی افراتفری اور فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑک سکتی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹام بیرک نے کہا کہ جنگ کے نام پر انتخابات مؤخر کرنا لبنان کے پہلے سے ہی کمزور سیاسی نظام کو توڑ دے گا اور مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو مزید گہرا کر دے گا۔
امریکی ایلچی کے مطابق حزب اللہ اپنی سیاسی اور عسکری طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے ممکنہ طور پر انتخابات میں تاخیر کر سکتی ہے تاکہ وہ اپنے فوجی ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر، سیاسی سطح پر از سرِ نو منظم، اور جنگ کے بعد طاقت کے توازن پر ازسرِ نو گفت و شنید کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر سے لبنان کے عیسائی، سنی اور اصلاح پسند طبقات کے درمیان اختلافات بڑھ جائیں گے اور ملک میں 2019 کی طرز کے بڑے عوامی احتجاج بھڑکنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
ٹام بیرک کاکہنا تھا کہ ایسے وقت میں انتخابات کرائے گئے تو وہ حزب اللہ کی کمزور ہوتی ہوئی حیثیت کو بے نقاب کر دیں گے، اس کے اتحادیوں کے لیے انتخابی دھچکے کا باعث بن سکتے ہیں اور مخالف دھڑوں کو حوصلہ دیں گے کہ وہ لبنان کے نازک فرقہ وارانہ نظام میں حزب اللہ کی برتری کو چیلنج کریں۔
واضح رہے کہ لبنان میں 128 رکنی پارلیمان کے انتخابات مئی 2026 میں ہونا طے ہیں۔ حزب اللہ کی جانب سے بیرک کے بیان پر تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ رواں سال اگست میں لبنانی حکومت نے امریکی ایلچی کی تجویز پر ایک منصوبہ منظور کیا تھا جس کے تحت تمام ہتھیاروں کو ریاستی کنٹرول میں لانے کی بات کی گئی تھی، تاہم حزب اللہ نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ہتھیار اس وقت تک نہیں چھوڑے گی جب تک اسرائیل جنوبی لبنان میں قابض پانچ سرحدی چوکیوں سے مکمل انخلا نہیں کرتا۔
قابلِ ذکر ہے کہ نومبر 2024 کے جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل کو جنوری 2025 تک جنوبی لبنان سے مکمل انخلا کرنا تھا، اس نے ابھی تک جزوی طور پر انخلا کیا ہے اور اب بھی پانچ سرحدی مقامات پر فوجی قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
عراقی انتخابات اور امریکی گدھیں
اسلام ٹائمز: پارلیمنٹ میں شیعہ دھڑے کی اکثریت امریکی اقدامات و اہداف کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے، لیکن اسکے لئے تمام شیعہ حلقوں کو اپنے ذاتی مفادات پر ملکی و شیعی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ شیعہ الائینس اور وزیراعظم کے مضبوط امیدوار محمد الشیاع سوڈانی اور نوری مالک کیلئے عراق کی موجودہ صورتحال ایک بڑے امتحان اور چیلنج سے کم نہیں، کیونکہ امریکہ سمیت علاقے کے عرب ممالک عراق کے بارے میں جو خواب دیکھ رہے ہیں، اسکا مقابلہ باہمی تعاون، ہم آہنگی اور عراق کی مرجعیت کو ساتھ لیکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ عراقی عوام نے سوڈانی، مالکی اور حکیم جیسی شیعہ قیادت پر اعتماد کیا ہے۔ ان قائدین کو عوام کے اعتماد پر پورا اترنا ہوگا، ورنہ اگلے انتخابات برعکس نتائج کے حامل بھی ہوسکتے ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
بغداد حالیہ دنوں سینیئر امریکی سفارت کاروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ سفارتکار نما امریکی جاسوس عراق میں نئی حکومت کی تشکیل کے لیے ہونے والے مذاکرات پر اثرانداز ہونے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ان امریکی سفارتکاروں کے دوروں کا مقصد نئی کابینہ کی تشکیل کے عمل کو متاثر کرنے کے لیے امریکی سیاسی دباؤ کو استعمال کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے امریکی نائب وزیر خارجہ مائیکل ریگاس اور شام کے لیے ٹرمپ کے خصوصی نمائندے تھامس بیرک نے رواں ہفتے بغداد کا دورہ کیا۔ دریں اثناء عراق کے لیے ٹرمپ کے نمائندے مارک ساویہ بھی آنے والے دنوں میں بغداد جائیں گے۔ ماہرین ان تین اعلیٰ امریکی سفارت کاروں کے عراق کے دورے کو انتخابات کے بعد ملک میں ہونے والی پیش رفت بالخصوص وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ہونے والے سیاسی مذاکرات سے مربوط قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ریگاس کا یہ دورہ ایک سرکاری مگر خاموش سفر تھا، حقیقت میں عراق سے متعلقہ معاملات میں تبدیلیوں کا پیش خیمہ اور ساویہ کے سرکاری فرائض سنبھالنے کی تیاری سے مربوط ہے، البتہ بغداد میں امریکی سفارت خانے نے ریگاس کے اس دورے کو بغداد واشنگٹن شراکت کو مضبوط بنانے اور عراق کی خود مختاری اور استحکام کی حمایت کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس طرح کے بیانات عراق میں مزاحمتی قوتوں کے خلاف سیاسی دباؤ کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ امریکیوں کی سفارتی کوششیں اس حقیقت کی وجہ سے ہیں کہ حالیہ عراقی انتخابات میں سول تحریکوں سمیت جن قوتوں کی امریکی حمایت کرتے ہیں، انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ اس کے مقابلے میں مزاحمت کے قریب سمجھی جانے والی قوتوں نے، (جو کہ امریکی قابضین کی مسلسل موجودگی کی مخالفت کرتی ہیں،) 2021ء کے انتخابات کے مقابلے میں پارلیمنٹ میں زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔
بغداد میں داخل ہونے سے پہلے ہی عراق کے لئے ٹرمپ کے نمائندے ساویہ نے اپنی بیان بازی کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا اور "X" پلیٹ فارم پر امریکی روڈ میپ کا خاکہ پیش کیا، جس میں "سیاست سے ہتھیاروں کا خاتمہ، اداروں کی آزادی کو مضبوط کرنا، آئین کا احترام کرنا اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے دروازے کھولنا" جیسے دعوے پیش کئے گئے ہیں۔ یہ روڈ میپ عراق کے مستقبل کے لیے گویا ان کا منصوبہ ہے۔ عراق میں ٹرمپ کے نمائندے، جو پہلے پنسلوانیا میں منشیات فروش تھے، انہوں نے عراقی حکومت کو واضح طور پر دھمکی دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یا تو عراق ایسے اداروں کی طرف بڑھے گا، جو قانون پر عمل درآمد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، یا پھر وہ پیچیدگی کے اس چکر میں واپس آجائے گا، جس نے سب پر ظلم کیا ہے۔
ساویہ کی دھمکی سے مراد وہ صورت حال ہے، جو پردے کے پیچھے چل رہی ہے، جس میں مزاحمتی بلاک کے قریبی دھڑوں کو اگلی حکومت میں اقتدار حاصل کرنے سے روکنا یا اہم ایگزیکٹو فیصلہ سازی کے عہدوں کو کنٹرول میں لینا شامل ہے۔ یہ ایسا مطالبہ جسے مختلف عراقی دھڑوں نے ابھی تک مسترد کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے مستقبل کی عراقی حکومت کے حوالے سے کئی سرخ لکیریں متعین کی ہیں، جن کے مطابق صدر، وزیراعظم، وزیر دفاع، وزیر اقتصادیات اور انٹیلی جنس چیف کو واشنگٹن سے منظوری لینا ہوگی۔ امریکیوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ حشد الشعبی کے ارکان کابینہ میں موجود نہ ہوں، جس سے عراق کی سیاسی فضا میں تعطل کے آثار پہلے ہی ظاہر ہوچکے ہیں۔
اس تناظر میں حشد الشعبی کے ایک سیاسی رہنماء نے لبنان کے الاخبار میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق میں ہماری موجودگی مستقل ہے اور بیرونی دباؤ سے یہ مساوات نہیں بدلے گی۔ عراق پر دباؤ ڈالنے کا امریکی منصوبہ پرانا ہے، لیکن یہ آج کی تاریخ میں کامیاب نہیں ہوگا، یہ ناکام ہوگا، جیسا کہ پہلے ناکام ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا: "اگلی پارلیمنٹ مزاحمت کی سوچ سے ہم آہنگ ہوگی اور قانون سازی کے ذریعے حشد الشعبی کا دفاع کرے گی۔" شیعہ رابطہ فریم ورک کے رہنماؤں میں سے ایک علی محی الدین نے بھی نئی حکومت کے تعین کے لیے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں الاخبار کو بتایا کہ "کوآرڈینیشن فریم ورک ایک متوازن حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو انتخابات کے نتائج اور عراقی عوام کی مرضی کی عکاسی کرے گا، نہ کہ امریکی سفارت خانے کی ترجیحات کو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کے ہاتھوں تک ہتھیاروں کی محدودیت ایک اہم مقصد ہے، جس پر ہم سب متفق ہیں، لیکن عراق کے دفاع میں لڑنے والی افواج کو اس محدودیت میں شامل نہیں کیا جائیگا۔
بہرحال عراق کی موجودہ صورت حال سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی نقطہ نظر کے برعکس، عراق میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کہ امریکی احکامات اور قراردادوں کے ذریعے ملکی سیاسی حالات پر اپنی مرضی مسلط کرسکیں۔ پارلیمنٹ میں شیعہ دھڑے کی اکثریت امریکی اقدامات و اہداف کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے، لیکن اس کے لئے تمام شیعہ حلقوں کو اپنے ذاتی مفادات پر ملکی و شیعی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ شیعہ الائینس اور وزیراعظم کے مضبوط امیدوار محمد الشیاع سوڈانی اور نوری مالک کے لئے عراق کی موجودہ صورتحال ایک بڑے امتحان اور چیلنج سے کم نہیں، کیونکہ امریکہ سمیت علاقے کے عرب ممالک عراق کے بارے میں جو خواب دیکھ رہے ہیں، اس کا مقابلہ باہمی تعاون، ہم آہنگی اور عراق کی مرجعیت کو ساتھ لیکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ عراقی عوام نے سوڈانی، مالکی اور حکیم جیسی شیعہ قیادت پر اعتماد کیا ہے۔ ان قائدین کو عوام کے اعتماد پر پورا اترنا ہوگا، ورنہ اگلے انتخابات برعکس نتائج کے حامل بھی ہوسکتے ہیں۔