انناس کا شربت ہاضمے کے مسائل کا بہترین علاج
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
انناس کا شربت نہ صرف لذیذ ہوتا ہے بلکہ ہاضمے کے لیے بھی بےحد مفید سمجھا جاتا ہے۔
انناس میں ایک قدرتی انزائم برومیلین (Bromelain) پایا جاتا ہے جو پروٹین کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے اور پیٹ کی بھاری پن، گیس یا بدہضمی کو کم کرتا ہے۔
برومیلین جسم میں سوزش کم کرنے میں بھی مددگار ہے، خاص طور پر معدے اور آنتوں کی سوزش کے لیے۔
اسی طرح انناس میں فائبر (ریشہ) موجود ہوتا ہے جو آنتوں کی حرکت کو بہتر بناتا ہے اور قبض سے بچاتا ہے۔ کھانے کے بعد انناس کا شربت یا تازہ رس پینے سے متلی اور بھاری پن میں کمی آتی ہے۔
اس میں وٹامن سی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جو جسم کی قوتِ مدافعت بڑھاتی ہے۔ تاہم جن لوگوں کو معدے میں تیزابیت کا مسئلہ ہو، وہ زیادہ مقدار میں انناس کا شربت نہ پئیں۔
شوگر کے مریض بھی احتیاط سے استعمال کریں کیونکہ انناس میں قدرتی مٹھاس زیادہ ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انناس کا شربت
پڑھیں:
الامراض والعلاج اورہلکا پھلکا کرنا
ہمارے کچھ پڑھنے والے بڑے زورآورہوتے ہیں کہیں دوربہت دورکسی بھولے بسرے کالم کاحوالہ دے کر اسے ری بیٹ یا ری رائٹ (rewrite) کرنے کی فرمائش کردیتے ہیں ۔جانتے نہیں کہ ہم نہایت ہی بے ترتیب اورمنتشر قسم کے خانہ بدوش ہیں جو لکھ دیا سو لکھ دیا اوربھول گئے ،اس لمبے عرصے میں بہت ہی پیارے پیارے لوگوں کے خطوط بڑے قیمتی مضامین اورپوری کتابیں تک زینت طاق نسیاں کرچکے ہیں ۔
جو آنے والا پل اس کو کس نے دیکھا
جوجانے والا پل کس نے اس کو روکا ہے
بہت لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان تحریروں کو کتابی صورت میں کیوں نہیں چھاپتے ۔
نہ سمجھے کہ مجبوریاں اپنی کہاں ہیں
زمین آسمان ہم سے دونوں خفا ہیں
لیکن یہ اچھا ہے کہ موضوع ہمیں یاد آجاتا ہے بس پھر کیا ہے پکار اٹھتے ہیں کہ ’’غنچے‘‘ذرا لانا تو میرا قلم دان۔
اب کہ ایک قاری نے اس کالم کے بارے میںفرمائش کی ہے جس کا عنوان تھا ۔
’’مرض سے نہیں علاج سے ماریں گے ‘‘
اچھا ہوا کہ اس موضوع میں کچھ اوریہ اضافے بھی ہوچکے ہیں علاج کچھ اورجدید ہوگیا ہے ۔
ہمارے نہایت ہی معتبر ذریعے نے بتایا ہے کہ کسی نامعلوم مقام پر کسی نامعلوم تاریخ کو دواساز کمپینوں اورمسیحاؤں کے درمیان یہ ’’طے پا‘‘ گیا تھا کہ کسی بھی مریض کو جو ہتھے چڑھ جائے مرض سے نہیں مرنے دیں گے بلکہ علاج سے ماریں گے لیکن اب تازہ ترین مینٹگ میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ علاج سے ماریں گے لیکن ہرقسم کے بوجھ ہلکا کرکے ماریں گے یہ قرارداد پیش کرنے والے نے غالباً استاد قمرجلالوی کا یہ شعر پڑھا تھا کہ ؎
اب نزع کاعالم طاری ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
اس بات کو ذرا تاریخی ٹچ بھی دیتے ہیں۔ سکندریہ کاایک فلسفی تھا فلاطینوس، اس نے تصوف کے اس نظرئیے کو بڑا پھیلا دیا تھا جیسے ’’نو فلاطونیت‘‘ کہتے ہیں اوروحدت الوجود سے ملتا جلتا نظریہ ہے۔
فلاطینوس کا کہنا ہے کہ ہر روح، روح اعلیٰ سے نکلی ہے ، اسے ’’فصل‘‘ یعنی جدائی کی حالت کہتے ہیں اورہر روح ایک مرتبہ پھر ’’روح اعلیٰ‘‘ میں جاکر مل جائے گی اورروح اعلیٰ کی طرف پرواز میں روح پر دنیاوی علائق کا بوجھ جنتا کم ہوگا اتنی ہی تیزی سے روع اعلیٰ کی طرف ’’پرواز‘‘ کرے گی ، مقصد ہے ’’دنیاوی‘‘ علائق کا بوجھ اس پر کم سے کم ہونا چاہیے تاکہ تیز اورتیز پرواز کرکے روح اعلیٰ سے واصل ہوجائے ، گوتم بدھ کا بھی یہی نظریہ ہے ۔قمرجلالوی نے بات دوسرے پیرائے میں کی ہے لیکن بہرحال بات ’’بوجھ‘‘ اتارنے کی ہے اور ’’مسیحاؤں‘‘ اوردواسازاداروں سے مل کر اس کارخیر کافیصلہ کیا ہے کہ مریض کو ’’آخری فلائٹ‘‘ میں روانہ کرنے سے اس کاسارا بوجھ بلکہ سارے بوجھ ہلکے کیے جائیں ، ظاہرہے یہ بوجھ دنیاوی علائق ہی کے ہوتے ہیں اوردنیاوی علائق میں سب سے زیادہ وزنی بوجھ وہ ہے جسے پیسہ یا مال کہتے ہیں ۔کل ملاکر بات یہ بنی کہ مریض کو علاج کے ذریعے ایسے وداع کیاجائے کہ پرندے کی طرح بالکل ہلکا پھلکا ہو۔
اس مریض کی طرح جسے سارے علائق سے ہلکا پھلکا تو کردیاگیا تھا لیکن عین پرواز کے وقت جب اس کی فلائٹ بھی بھاگ گئی تھی۔دنیا میں وہ اچھی خاصی جائیداد کا اور مال ومتاع کامالک تھا یعنی دنیاوی علائق میں مبتلا تھا کہ اسے زکام ہوگیا ۔زکام والے ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے ایکسرے اورلیبارٹریوں اوردواساز کمپنیوں نے مل کر تھوڑا ہلکا پھلکا کیا، تو زکام تو ٹھیک ہوگیا لیکن کانوں کی طرف سے دیوار ہوگئی ، ڈاکٹرنے اسے کانوں کے ڈاکٹر کے پاس بھیجا کیوں کہ کانوں والے ڈاکٹر کی جانب سے کبھی بھیجے گئے وہ ایک مریض کا قرضدار تھا ، اس کو مریضوں کا میوچل ٹرانسفر بھی کہہ سکتے ہیں کہ سب آپس میں اسی طرح تبادلہ کرتے رہتے ہیں ، ہرڈاکٹر طرح طرح کا علاج کرتا ہے کہ دوسرے ڈاکٹر کے کام بھی ہو جاتے ہیں ۔
قصہ بڑا طولانی ہے لیکن عام ہے ہرکسی کو اس ہفت خوان کا پتہ ہے اس لیے قصہ مختصر یہ کہ اس مریض کو جب سات ڈاکٹر نے باری باری نچوڑا تو مریض اس تمام جسم کی سیاحت کرچکا تھا جیسے وہ کوئی مریض نہیں بلکہ کوئی مغربی سیاح ہو اور وہ اپنے جسم کی سیاحت پر نکلا ہو ، اچھی طرح سیاحت کرنے کے بعد مرض اس کی آنکھوں میں پہنچ گیا وہ جب آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے جلدی جلدی پرچے گھسیٹ کر ایکسرے اورچار پانچ ٹیسٹ کروانے کاکہا۔ اس پر مریض کے منہ سے نکل گیا ، کہ آنکھوں کے ایکسرے کا نہ کہیں دیکھا سنا ہے، اس پر ڈاکٹر غصے میں آکر بولا ، ڈاکٹر میں ہوں یا تم ؟
خیربڑی مشکل سے مریض نے ڈاکٹر کو شانت کیااورپھر سب کچھ کروا کے لے آیا ،اچھا ہوا کہ سب کچھ پاس ہی تھا اوروہ لیب والے سارے ڈاکٹر کے بھائی، بھتیجے یا بھانجے تھے لیکن آخر میں جب وہ دواؤں کی دکان پر گیا جس میں ڈاکٹر کا بیٹا براجمان تھا اوراس نے جو دوائیاں اس کے سامنے رکھیں ان میں تیس انجکشن، چارگولیوں کے ڈبے، چار شربت اورآٹھ آنکھوں میں ڈالنے کے ڈراپس تھے۔ مریض یہ سب دیکھ کر ناچنے لگا تو ڈاکٹر نے اسے دماغی ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔ چنانچہ تازہ ترین قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ مرض سے نہیں مرنے دیں گے ، علاج سے ماریں گے اوردنیاوی علائق سے ہلکا پھلکا کرکے آخری سفر پر بھیجیں گے ۔