لاہور میں تصوف کا نیا مرکز — روحانیت، سکون اور علم کا سنگم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
لاہور:
منہاج یونیورسٹی لاہور میں قائم ہونے والا پاکستان کا پہلا تصوف سینٹر روحانیت، سکونِ قلب اور بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک نیا باب کھول رہا ہے۔
تین سال کی محنت سے تعمیر ہونے والا یہ مرکز صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک فکری و روحانی تجربہ گاہ ہے جہاں جدید دنیا کے ذہنی دباؤ اور مادی دوڑ سے تھکے ہوئے انسان کو باطنی سکون اور خود شناسی کی راہ دکھائی جاتی ہے۔
یہ سینٹر کسی ایک سلسلۂ تصوف سے وابستہ نہیں بلکہ قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی، شاذلی، رفائی اور دیگر سلاسل کی مشترکہ تعلیمات پر قائم ہے۔ اس کی عمارت پاکستان، ایران اور ترکی کے اسلامی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے،گنبد، محرابیں، نیلی ٹائلوں کے نقوش اور خطاطی کے جھروکے گویا روحانیت کی تصویری زبان بن گئے ہوں۔
سینٹر میں داخل ہوتے ہی ایک خاص فضا محسوس ہوتی ہے۔ مراقبہ ہال میں روشنی مدھم ہے، بانسری کے سر ہوا میں تیر رہے ہیں اور عود کی خوشبو فضا کو مہکا رہی ہے۔ یہاں چند لمحے بیٹھنے والا شخص چاہے طالب علم ہو یا زائر، کسی اندرونی خاموشی سے ہم کلام ہونے لگتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جسے ڈاکٹر خرم شہزاد ’’باطنی یکسوئی‘‘ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر خرم شہزاد، جو تصوف سینٹر کے ڈائریکٹر اور منہاج یونیورسٹی کے رجسٹرار ہیں، کہتے ہیں کہ آج کا انسان معاشی، سماجی اور سیاسی دباؤ کے باعث ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ مغرب نے اس کیفیت سے نجات کے لیے میڈیٹیشن اور مائنڈ فل نیس جیسے تصورات متعارف کرائے، لیکن اسلام نے صدیوں پہلے مراقبہ، محاسبۂ نفس اور ذکرِ الٰہی کے ذریعے یہی راستہ دکھایا۔
ان کے مطابق، تصوف سینٹر کا مقصد انسان کو حقیقی تصوف سے متعارف کرانا اور روحانیت کو محض رسوم کے بجائے ایک علم اور طرزِ حیات کے طور پر اپنانا ہے۔
ڈاکٹر خرم شہزاد کے مطابق، اس ادارے کا ایک بڑا مقصد معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور شدت پسندی کو کم کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں، جب انسان اپنے باطن میں سکون پاتا ہے تو اس کے رویوں میں اعتدال پیدا ہوتا ہے۔ ذکر اور مراقبہ انسان کو دوسروں کے لیے نرم دل اور خود اپنے لیے پُرامن بنا دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آج اگرکہیں پیری، مریدی کے نام پر کوئی ایسے افعال سرانجام دیتا ہے جو قرآن و سنت اور صوفیا کی تعلیمات کے منافی ہیں تو ایسے لوگ پیر نہیں ہو سکتے۔
تصوف سینٹر میں مختلف کورسز مرتب کیے گئے ہیں جن میں بیک وقت سو افراد تک رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ ہر کورس کی باقاعدہ فیس مقرر ہے اور خواتین کے لیے علیحدہ اوقات رکھے گئے ہیں تاکہ وہ بھی روحانی تعلیم و تربیت میں بھرپور حصہ لے سکیں۔
مرکز کے کوآرڈینیٹر علی سعد قادری کے مطابق یہاں طلبہ کو اس فضا میں پڑھایا جاتا ہے جو ابتدائی ادوار کے صوفیائے کرام کے خانقاہی ماحول سے متاثر ہے۔ ہر سلسلے کے طلبہ تمام سلاسل کا نصاب پڑھتے ہیں تاکہ امت کو ایک جامع تصورِ تصوف دیا جا سکے، جب کہ تحقیق اپنے مخصوص سلسلے پر کرتے ہیں۔
سینٹر کی لائبریری بھی اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ یہاں نہ صرف مسلم صوفیاء کی کتب رکھی گئی ہیں بلکہ دیگر مذاہب جیسے مسیحیت، ہندومت اور سکھ مت کی روحانیت پر لکھی گئی نادر کتابیں بھی دستیاب ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے روحانی نظریات کو سمجھ سکیں اور فکری احترام کی فضا قائم ہو۔
تصوف سینٹر کا نصاب عرب و عجم اور برصغیر کے صوفیاء کی تصانیف پر مشتمل ہے۔ یہاں رومی کی مثنوی سے لے کر داتا گنج بخشؒ کی کشف المحجوب تک اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مواعظ سے امام غزالیؒ کی احیاء العلوم تک، تصوف کے تمام اہم گوشے شامل ہیں۔
ڈاکٹر خرم شہزاد علامہ اقبال کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اِس دور میں خانقاہوں سے نکل کر رسمِ شبیری ادا کرنا دراصل اپنی فیلڈ میں بہترین کارکردگی دکھا کر قوم کے لیے کردار ادا کرنا ہے۔ تصوف کا مطلب گوشہ نشینی نہیں بلکہ خدمتِ خلق ہے۔‘‘
یوں منہاج یونیورسٹی کا تصوف سینٹر محض ایک عمارت نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے، ایک ایسی جگہ جہاں روحانیت اور عقل، علم اور احساس، فن اور ایمان ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ جہاں بانسری کی دُھن، عود کی مہک، اور دل کی دھڑکنیں ایک ہی پیغام دیتی ہیں: انسان اپنے باطن کو پہچان لے تو کائنات اُس پر روشن ہو جاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر خرم شہزاد تصوف سینٹر نہیں بلکہ کہتے ہیں ہیں بلکہ کے لیے
پڑھیں:
ون ڈش پالیسی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251208-03-3
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو حکم دیا ہے کہ شادیوں، فارم ہائوسز اور کھلی فضا میں ہونے والی تقریبات میں ون ڈش کی خلاف ورزی اور بلند آواز میوزک کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی، مقررہ اوقات کار کے اندر تقریبات ختم کروانے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ یہ فیصلے اگر صرف کاغذ پر نہ رہیں بلکہ عملی طور پر پورے صوبے میں سختی سے لاگو کیے جائیں تو بے شمار سماجی اور معاشرتی فوائد سامنے آ سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ عمل درامد کا ہے، ورنہ فیصلے تو پچھلے بیس سال سے بار بار ہورہے ہیں۔ ہر حکومت یہی اعلان کرتی آئی ہے کہ شور کم کرو، رسم و رواج میں سادگی لاؤ، فضول خرچی مت کرو۔ مگر جب ضلعی انتظامیہ خود ان احکامات کو سنجیدگی سے نہ لے، تو عوام کہاں سے عمل کریں گے۔ صوبے میں یکساں سختی کے ساتھ اس پالیسی پر عمل درامد کیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ون ڈش پالیسی صرف فضول خرچی روکنے کے لیے نہیں، بلکہ غربت زدہ معاشرے میں سماجی دباؤ کم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ایک گھر پانچ ڈشیں رکھے گا تو دوسرے گھر کو بھی مجبوراً اس کی تقلید کرنا پڑتی ہے۔ یہی معاشرتی دوڑ ہمارے اندر احساسِ کمتری، مقابلہ بازی اور غیر ضروری اخراجات کو جنم دیتی ہے۔ اگر ون ڈش پالیسی مستقل مزاجی سے لاگو رہے تو یہ رواج آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا اور لوگوں کا بوجھ کم ہوگا۔ اسی طرح لائوڈ اسپیکر اور میوزک کے بے قابو استعمال پر پابندی تو بنیادی سماجی ضرورت ہے۔ ہمارے تقاریب میں آواز کی حد نام کی کوئی چیز نہیں رہتی۔ رات دو بجے گلیاں لرز رہی ہوتی ہیں اور صبح اسکول و دفاتر جانے والے لوگ نیند پوری نہ ہونے پر اذیت میں ہوتے ہیں۔ شور صرف پریشانی نہیں، بلکہ صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ یہ پابندی صرف پنجاب تک محدود رہنے کے بجائے ایک ملک گیر اصول بننی چاہیے۔ دیگر صوبوں کو بھی اسی مستقل مزاجی کے ساتھ یہ پالیسی اپنانی چاہیے۔ یہ قدم خوش آئند ہے، مگر اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے۔ اگر انتظامیہ مستقل مزاجی کے ساتھ یہ اقدامات جاری رکھے، تو پنجاب میں ایک صحت مند، منظم اور نسبتاً پرسکون معاشرتی کلچر فروغ پا سکتا ہے۔ اور اگر باقی صوبے بھی یہی راستہ اختیار کر لیں تو شاید شور، فضول خرچی اور رات گئے تک چلنے والی تقریبات کا ناپسندیدہ کلچر رفتہ رفتہ ختم ہو جائے۔