Express News:
2025-12-10@07:47:26 GMT

گھر گھر میں گھائل ہی گھائل

اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT

جو جاوے کوچے سے ترے آوے ہے گھائل

تلوار کھیچے ہے نہ کوئی تیر چلے ہے

کچھ ایسی ہی صورت حال آج کل ہمارے اس وطن عزیز کی ہے۔جس کے حصول کے لیے قربانیاں دی گئی تھیں ہزاروں جان کی، اس امید کے ساتھ کہ وہاں ہم دشمنوں سے دور،اپنے ہی اپنے ہوں گے کوئی غم خزن کوئی ملال نہیں ہوگا وہی ہماری فردوس گم گشتہ ہوگی اور ہم ہوں گے

بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد

کسے را باکسے کارے نہ باشد

لیکن آج وہاں ایک گھمسان کی جنگ برپا ہے ہم اگر ہر طرف دیکھیں تو سارے کے سارے لہولہان ہیں۔اور وہی بات کہ تلوار کھچے ہے نہ کوئی تیر چلے ہے۔مطلب ہم اس لڑائی اور خونریزیوں کی بات نہیں کررہے ہیں جو ظاہری ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے وہ تو الگ سے چل رہی ہے اور چلتی رہے گی، جب تک دنیا میں عیار ومکار یہودی سوداگر اور سیدھے سادے مسلمان موجود ہیں۔ہم ایک اور جنگ کی بات کررہے ہیں جس میں کوئی ظاہری ہتھیار نہیں چل رہا ہے لیکن پھر بھی ہرطرف دیکھیے تو ہر کوئی لہولہان دکھائی دے اور گھائل نظر آئے گا یا مقتول۔یہ جنگ مغلوبہ ہر ہر شہر،ہر ہر گلی کوچے اور ہر ہر گھر میں بپا ہے۔

یہ لیڈر رہنما اور رہبر عوام کو قتل کررہے ہیں سرکاری محکمے پبلک کو گھائل کررہے ہیں سرکاری محکمے اور ادارے محکوموں کو چاقو چھریاں بھونک رہے ہیں پھر سیاسی لوگ اور پارٹیاں حکومت کے درپے ہے اور حکومت سیاست کے۔ دکاندار تاجر اور صنعت کار عوام کا قتل عام کررہے ہیں، مسیحا مریضوں کے کشتے کے پشتے لگا رہے ہیں، ٹرانسپورٹر عوام کو خونا خون کررہے ہیں، سرکاری لٹیرے ٹرانسپورٹوں کا خون چوس رہے ہیں بلکہ کچھ ایسے بھی ادارے اور عناصر ہیں جو خود کو خود ہی ٹھکانے لگارہے ہیں جیسے واپڈا،ریلوے وغیرہ۔قانون نافذ کرنے قانون کی ایسی کی تیسی کررہے ہیں محافظ ڈاکو بن چکے ہیں، چوکیدار خود چوری کررہے ہیں بلکہ قانون آئین اور انصاف خود ہی خود کے ہاتھوں لہولہان ہیں۔ہمیں تو کہیں بھی کوئی ایسا گوشہ دکھائی نہیں دے رہا ہے جہاں کوئی سلامت ہو ہاں اونچے بہت اونچے ’’ایریا‘‘ میں ہو تو ہو۔ اوراونچی دیواروں کے بیچ۔جن کی رگوں میں سابق’’رنگ‘‘ کا لہو بہہ رہا ہے سفید۔۔۔۔اور قدموں میں ان آقاؤں کا سبز رنگ۔

خط سبزے بخط سبز مرا کرد اسیر

دام ہمرنگ زمیں بود گرفتار شد

ہمیں تو اس پورے ملک میں ایسی کوئی جگہ نظر نہیں آتی جہاں یہ جنگ جاری نہ ہو ہم نے ابتدا میں جو شعر عرض کیا ہے وہی حالت ہے کوئی تیر چلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا کوئی تلوار چلتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے کوئی خنجر نیزہ کوئی چھری کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن جسے دیکھو گھائل اور لہولہان دکھائی دیتا ہے ہر طرف خون ہی خون بہہ رہا ہے کوئی دامن داغدار نہیں ،کوئی آستین سرخ نہیں لیکن لوگ گھائل ہیں زخمی ہیں، درد سے چیخ چلا رہے ہیں ،مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔لیکن سنے کون جو کہ سننے والے خود بھی اس جنگ مغلوبہ میں شامل ہیں،جو دانا دانشوروں نے ریاست کے چار ستون بتائے ہیں ان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ ستون روز بروز زمین میں دھنسے جارہے ہیں

چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا مانند مسلمانی

اور ستونوں کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہیں گے کہ عیاں راچہ بیان۔لیکن جس ستون سے ہمارا تھوڑا بہت تعلق بنتا ہے۔پہلے زمانے میں اسے صحافت کہتے تھے اور یہ ایک فن یا مشن تھا۔لیکن آج اسے میڈیا کہتے ہیں اور انڈسٹری بن گئی ہے ۔اگلے زمانوں میں یہ ’’بذریعہ قلم‘‘ کی جاتی تھی اور ضمیر کی روشنی میں کی جاتی تھی لیکن آج یہ کیمرے اور مائک سے کی جاتی ہے اور مفادات کے باٹوں سے تولی جاتی ہے۔

پورا ستون ہی دیمک کھاچکا ہے صرف اوپر خول باقی ہے۔کچھ دانا دانشور کبھی کبھی چینلوں پر اخباری بیانات اور دانش سے بھر پور کالموں میں خوشی خوشی بتاتے ہیں کہ ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے،سڑکوں پر گاڑیوں کی آبشاریں بہہ رہی ہیں جگہ جگہ فوڈ اسٹریٹ چل رہی ہیں شاپنگ مالوں میں قدم جمانے کی جگہ نہیں ملتی ہر جگہ بہار ہی بہار اور گلزار ہی گلزار ہے اورا س کا مطلب ہے کہ ہمارا معاشرہ خوشحال ہے۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں شہروں میں جو خوشحالی نظر آرہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 77سالوں میں جو بھی حکومتیں برپا ہوئی ہیں ان سب نے سینٹریلائزیشن اور مضبوط مرکز کا جو ’’عفریت‘‘ پالا ہے اس کے دو جبڑے ہیں ایک اوپر کا جو پندرہ فیصد سیاسیوں، راشیوں اور استحصالیوں پر مبنی ہے۔

وہ چلتا ہے نیچے کے جبڑے میں پھنسے ہوئے بدنصیبوں کو پیستا ہے اور اس کا خون پیتا ہے اور روز بروز موٹا ہوتا جاتا ہے۔یہ لیڈر دانا دانشور اور حکام نہیں جانتے بالکل نہیں جانتے یا جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں کہ شہروں کی چمک دمک جب نچلے طبقات والے دیکھتے ہیں تو ان سہولتوں اور ’’عیاشیوں‘‘ کو حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں اور کیا کیا کچھ ’’بیچتے‘‘ ہیں۔ان کو یہ تو یقینا پتہ ہوگا کہ دیہاتی قصبائی اور غریب لوگ ’’کیا کیا‘‘ بیچ رہے ہیں پندرہ فیصد اشراف کی ہمسری کرنے کے لیے۔ عزت، غیرت، عصمت سب کچھ۔کیونکہ این جی اوز اور بعض پرائیوٹ اسکولز وکالجوں کی شکل میں ’’سہولت کار‘‘ بھی موجود ہیں کیا کریں گے ترقی یافتہ جو بننا ہے۔کچھ’’پانے‘‘ کے لیے کھونا تو پڑتا ہے،کسی کو یقین نہ ہو تو سب کچھ سامنے ہے۔آدھی ادھوری تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی آزادی نسواں کی بانسریاں سن کر اسی راہ پر چل نکلی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کررہے ہیں رہے ہیں کے لیے ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

سوشل میڈیا کے کرشمے

کراچی:

میں ایئرپوڈز لگائے ایک دوست سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک میسیج کا نوٹیفکیشن آیا، میں نے فون اٹھا کر دیکھا تو کسی نے ایک پوسٹ شیئر کی تھی جسے پڑھ کر دل دہل گیا، اس میں لکھا تھا کہ ’’سابق کپتان فلاں کا انتقال ہو گیا‘‘۔

میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یار ایک عجیب بات کا علم ہوا ہے میں تم کو تھوڑی دیر بعد کال کرتا ہوں، ان کرکٹر سے میرا برسوں سے قریبی تعلق ہے میں نے فورا کال ملائی جو انھوں نے ریسیو نہیں کی۔

اب میرے دماغ میں بھی وسوسے آنے لگے لیکن میں ساتھ خود کو تسلی بھی دیتا رہا کہ وہ تو سپرفٹ ہیں، صبح جب اپنا کالم انھیں واٹس ایپ کیا جس پر بلو ٹک بھی آیا، اس کا مطلب ہے کہ انھوں نے اسے پڑھ لیا تھا، اس کے بعد چند منٹ بے چینی کے عالم میں ہی گذرے۔

ایسے میں فون کی گھنٹی بجی میں نے نام دیکھا تو انہی سابق کرکٹر کا تھا، فورا کال ریسیو کی تو ہیلو کے بجائے چہکتے ہوئے لہجے میں انھوں نے کہا کہ ’’ زندہ ہے۔۔۔ زندہ ہے‘‘ پھر زوردار قہقہہ لگایا اور کہنے لگے کہ ’’ دیکھو آج مجھے بھی لوگوں نے مروا دیا۔

وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس کے بارے میں غلط خبر دے رہے ہیں اس پر یا اہل خانہ پر کیا گذرتی ہو گی، کافی دیر سے میرا فون بجے چلے جا رہا ہے اور میں سب کو اپنے زندہ ہونے کا یقین دلا رہا ہوں‘‘ میں نے اطمینان کا سانس لیا اور کال ختم کر دی۔ 

کچھ دیر بعد ایک اور کھلاڑی کی سوشل میڈیا پوسٹ دیکھی کہ میری۔۔۔ سے بات ہوئی ہے، وہ زندہ ہیں‘‘ یوں جو لوگ اس غلط خبر سے واقف نہیں تھے ان تک بھی یہ بات پہنچ گئی۔

یقینی طور پر سوشل میڈیا کے آنے سے فائدے بھی ہوئے، آپ کی بات لمحوں میں دنیا کے ہر کونے تک پہنچ جاتی ہے، لینگوئج اب کوئی رکاوٹ نہیں رہی، آپ کسی بھی زبان میں لکھیں فالوور اسی وقت ترجمہ دیکھ لے گا۔ 

پہلے اخبارات سے اگلے دن علم ہوتا تھا کہ کل کیا ہوا، پھر ٹی وی پر بریکنگ نیوز چند منٹ بعد خبر سے آگاہ کرنے لگیں، اب سوشل میڈیا سے چند لمحوں میں خبر دنیا تک پہنچ جاتی ہے مگر کیا سچ ہے کیا جھوٹ اس کی پہچان آسان نہیں رہی۔ 

پہلے اگر آپ کسی کا جعلی بیان پڑھتے تھے تو یقین نہ کرنے کی گنجائش رہتی تھی، اب اے آئی سے بنی ویڈیو سے سچ اور جھوٹ کا پتا چلانا آسان نہیں رہا،ہم کرکٹ کی حد تک ہی رہتے ہیں، میں چونکہ کئی ممالک کے اسپورٹس میڈیا کی خبریں دیکھتا ہوں تو وہاں بھی کئی بار چوک ہو جاتی ہے۔

چند روز قبل مجھے بابر اعظم کے نام سے ایک ویریفائڈ اکاؤنٹ نے فالو کرنا شروع کیا، میں نے کلک کر کے دیکھا تو وہ کوئی اور صاحب تھے یوزر آئی ڈی یہ رکھی تھی۔ 

ماضی میں بلو ٹک کا مطلب ہوتا تھا کہ جس کا اکاؤنٹ ہے وہ معتبر شخص ہے، اس کی بات پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، اب 14سو روپے ماہانہ پر کوئی بھی بلو ٹک لے سکتا ہے جس نے اس کی وقعت بھی کھو دی۔ 

ویوز کے لیے کھلاڑیوں سے منسوب جعلی بیانات بھی بنائے جاتے ہیں جیسے ہم کسی کے مخالف ہیں تو اس کے بارے میں کوئی پوسٹ کسی اور بڑی شخصیت سے منسوب کر کے کر دی، ظاہر ہے ہم اسے دیکھ کر خوش ہوئے، اس بندے کی ریچ بڑھ گئی۔

لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ یہ پوسٹ تو جعلی تھی، میں نے کچھ عرصے میں بعض بڑے میڈیا گروپس کو بھی ایسا کرتے دیکھا جنھوں نے سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ چلا دی،انھیں بھی ویوز مل گئے شاید وہ جانتے تھے کہ ایسا ہی ہوگا تب ہی تصدیق کی زحمت نہ کی۔

کوئی کرکٹر مشہور ہو تو کسی اور ملک کے بڑے کھلاڑی سے منسوب کر کے تعریفوں بھری پوسٹ چلی دی حالانکہ اسے جعلی تعریف کی ضرورت نہیں مگر فالوورز خوش ہو گئے اور اپنے پیسے بن گئے اس لیے ایسا کیا۔ 

مجھے جب کسی خبر یا کسی کے بیان پر شک ہو تو گوگل کر کے ویری فائی کرنے کی کوشش کرتا ہوں زیادہ تر کا کوئی لنک ملتا ہی نہیں یعنی وہ جعلی ہی تھی، ہمیں تو بڑوں نے یہی سکھایا کہ غلط خبر دینے سے کوئی خبر نہ دینا ہی بہتر ہے، البتہ اب ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لوگ ایسا نہیں سوچتے۔

سوشل میڈیا کے آنے سے آغاز میں روایتی میڈیا کو نقصان بھی ہوا، بہت سے کھلاڑی پہلے ہم سے دوستانہ روابط اس لیے رکھتے تھے کہ اپنی بات عوام تک پہنچائیں، اپنا اچھا امیج پیش کریں،ٹیم سے باہر ہوں تو سپورٹ ملے، پھر انھیں ضرورت نہ رہی۔ 

خود ہی پوسٹ کر دی جو لمحوں میں فینز تک پہنچ جاتی، جو اس کام میں ماہر نہیں تھے انھوں نے چند ہزار روپے دے کر سوشل میڈیا کے لوگ رکھ لیے، البتہ ہم لوگوں نے بھی جلد صورتحال بھانپ لی کہ وقت کے ساتھ چلنے میں ہی بھلائی ہے۔ 

سوشل میڈیا کا خود بھی استعمال کرنے لگے جس سے اضافی ریڈرز ملے، ویڈیوز بھی دیکھی جانے لگیں،ریچ بڑھ گئی، ہر ٹیکنالوجی کے فائدے بہت ہوتے ہیں لیکن نقصانات کا اندازہ لگانا اور ان سے بچنا بیحد ضروری ہے،عام صارف کو جو نظر آئے وہ اسے سچ مان لیتا ہے۔

میں میڈیا پرسن ہوں لیکن ایک کرکٹر کے حوالے سے فیک نیوز نے مجھے بھی وقتی طور پر پریشان کر دیا تھا،ایسی چیزوں سے لوگوں کو بچانا بیحد ضروری ہے،انھیں آگاہی فراہم کرنی چاہیے، آپ دیکھیں کہ جو خبر دے رہا ہے وہ قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں۔ 

اب تو 10 فالوورز پر بھی بلو ٹک مل جاتا ہے لہذا ساکھ کو اہمیت دیں،میڈیا کو بھی ویوز کے لیے سنسنی پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے،غلط خبر سے چند ڈالرز تو مل جائیں گے لیکن کھوئی ساکھ پھر واپس نہیں آتی۔

کم از کم اسپورٹس کی حد تک ہی کوئی ایک ایسا پورٹل بنانا چاہیے جس پر کسی خبر کی ہیڈلائن لکھ کر ہی تصدیق ممکن ہو سکے، ظاہر ہے آپ کو ہر پوسٹ پر تو شک نہیں ہو گا لیکن جس پرہو اس کو تو ضرور جانچیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی پالیسی بنانی چاہیے کہ کوئی اگر متواتر غلط پوسٹ کرے گا تو اکاؤنٹ ختم کر دیا جائے گا۔

ابھی تو نہیں لیکن شاید مستقبل میں لوگ اس مسئلے کی سنگینی تو سمجھیں، سوشل میڈیا کے دور میں بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کسی نیوز کے حوالے سے زیادہ قابل بھروسہ ہیں، جب تک سوشل میڈیا کی ساکھ ایسی نہ ہوئی روایتی میڈیا زندہ رہے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • معیشت ڈنڈے سے نہیں چلائی جاسکتی،پیار سے چلتی ہے ، وزیراعظم سینٹرلائزیشن، ہم ڈی سینٹرلائزیشن پر یقین رکھتے ہیں، بلاول
  • اب کوئی بات نئی بات نہیں
  • خواب اندر خواب
  • احتجاجی تحریک کا ماحول
  • ملک 75 سال سے آزاد ہے لیکن "وَندے ماترم" پر بحث آج کیوں ہورہی ہے، پرینکا گاندھی
  • ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن ریڈ لائن کراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں، شرجیل میمن
  • ڈھکن تو سب ہٹائے جائیں گے
  • سوشل میڈیا کے کرشمے
  • مودی حکومت کی ناکامی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، کانگریس
  • کراچی حکمرانوں کی غفلت کا شکار، شہر کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے،  منعم ظفر