پیسہ بینک کے بجائے اسٹاک میں لگانا چاہیے؟ مگر کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251025-03-4
عبید مغل
مشہور کہاوت ہے کہ سانپ کا ڈسا ہوا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ یہ مثال اس قوم پر خوب صادق آتی ہے جو بارہا امیدوں کے کنویں میں جھانک کر خالی لوٹی ہو۔ جس کے ساتھ ہر بار وعدے ہوئے، خواب بیچے گئے، اور جب جاگنے کا وقت آیا تو حقیقت کے ریگستان میں تنہا کھڑی رہ گئی۔ تاریخ میں کہا گیا ہے کہ جو بار بار دھوکا کھائے اور پھر بھی اعتبار کرے، وہ مظلوم نہیں بلکہ غافل کہلاتا ہے۔ گزشتہ روز روزنامہ جسارت کے صفحۂ اوّل پر ایک خبر نمایاں تھی کہ عدالت ِ عظمیٰ کے آئینی بینچ کے سربراہ عزت مآب جسٹس امین الدین خان صاحب نے دورانِ سماعت فرمایا: ’’لوگوں کو پیسہ بینک میں رکھنے کے بجائے اسٹاک مارکیٹ میں لگانا چاہیے‘‘۔ یہ جملہ بظاہر ایک معاشی مشورہ ہے، مگر پس ِ پردہ ایک سوال جنم دیتا ہے کہ جنابِ عالی! کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے اسی اسٹاک مارکیٹ میں کتنی بار اپنا خون پسینہ ڈبویا ہے؟
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ محض سرمایہ کاری کی نہیں، بلکہ کہانی ہے ان خوابوں کی جو مصنوعی منافع کے سراب میں بھگو دیے گئے۔ اس گورکھ دھندے میں کبھی ’’پمپ اینڈ ڈمپ‘‘ کے نام پر قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور اگلے ہی ہفتے زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ بڑے بروکرز اندرونی معلومات کے بل پر شیئرز خریدتے ہیں، مصنوعی قیمتیں بڑھاتے ہیں، اور جب عام آدمی جوشِ سرمایہ میں شریک ہوتا ہے تو وہی بڑے کھلاڑی اپنے شیئر بیچ کر نکل جاتے ہیں۔ چھوٹے سرمایہ کار کے ہاتھ میں بچتا ہے تو صرف ’’اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ‘‘ اور آنکھوں میں نمی۔
2024 میں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) نے تین بڑی کمپنیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے کہ انہوں نے جعلی آرڈرز کے ذریعے اسٹاک کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھائیں۔ 2008 میں JS Global Capital سے وابستہ ایک کمپنی کے حصص 1370 روپے تک پہنچے اور پھر چند ماہ میں صرف 21 روپے رہ گئے۔ کئی بار ’’منی پولیشن‘‘ اور اندرونی تجارت کے شواہد سامنے آئے مگر سزا؟ عدالتوں کی فائلوں میں دفن۔ جہانگیر ترین کا معاملہ بھی اسی اخلاقی منظرنامے کا ایک عکس ہے۔ ان پر الزام تھا کہ اربوں روپے اپنی خاندانی کمپنیوں میں منتقل کیے، مگر بعد میں رپورٹ آئی کہ ’’تمام لین دین قانون کے اندر تھے‘‘۔ عوام کے نزدیک یہ پھر ایک ایسا ہی باب تھا جس میں شور بہت ہوا مگر نتیجہ صفر نکلا۔ اب آپ فرمائیے، ایسی اسٹاک مارکیٹ میں عوام کیوں بھروسا کریں؟ چونکہ اسٹاک ایکسچینج کی حالت بھی ہماری عدلیہ کے نظام سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ ایک ایسا نظامِ انصاف جس کا Rule of Law Index میں نمبر 129 ہے۔ (142 ممالک میں سے)، وہ شفافیت کا پیمانہ کیسے تھامے؟ Transparency International کے مطابق پاکستان کرپشن میں 180 ممالک میں سے 135 ویں درجے پر ہے۔ خود ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستانی کمپنیوں کی شفافیت ’’معتدل‘‘ ہے، یعنی 7.
عزت مآب جسٹس صاحب! یہ وہی عوام ہیں جنہوں نے سب کچھ آزما لیا ہے۔ اب وہ مزید کسی ’’پمپ اینڈ ڈمپ‘‘ یا اندرونی کھیل کے متحمل نہیں۔ انہیں اسلامی بینکاری نظام کی طرف رہنمائی دیجیے جہاں سرمایہ کاری مضاربت اور مشارکت کے اصولوں پر حقیقی معیشت میں شامل ہو، نہ کہ جعلی طلب و رسد کے دھوکے میں۔ اسلامی بینک جب صنعت، زراعت اور تجارت کو اسلامی بنیادوں پر قرض دیں گے تو یہ سرمایہ نہ صرف برکت پائے گا بلکہ قومی معیشت بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی۔ اور پھر ایک حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں: پاکستان کی عدلیہ اور اسٹاک مارکیٹ دونوں ایک ہی آئینے کے دو عکس ہیں۔ دونوں اداروں میں باصلاحیت، دیانتدار اور نیک نام افراد موجود ہیں، مگر نظام اندھیرے میں لپٹا ہے۔ افراد جگمگا رہے ہیں، ادارے بجھ رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انصاف خود تاخیر کا شکار ہو تو سرمایہ کار انصاف پر کیسے یقین کرے؟ عوام کو اب نعرے نہیں، یقین چاہیے۔ جب تک اسٹاک مارکیٹ کے بڑے مگرمچھوں کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جاتا، جب تک عدالتی فیصلے بر وقت اور بے لاگ نہیں ہوتے، تب تک یہ مشورہ کہ ’’پیسہ بینک میں رکھنے کے بجائے اسٹاک مارکیٹ میں لگائیں‘‘ ایک خوابِ ناتمام ہی رہے گا۔ اب وقت ہے کہ ہم مشورے نہیں، نظام بدلنے کی بات کریں۔ عوام کو اعتماد، معیشت کو امان، اور ریاست کو شفافیت کی ضرورت ہے، ورنہ کل کو تاریخ لکھے گی کہ ’’یہ قوم بھی رسی دیکھ کر ڈر گئی، کیونکہ اسے بار بار سانپوں نے ڈسا تھا‘‘۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسٹاک مارکیٹ میں
پڑھیں:
کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے،شرجیل میمن
بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھارتی میڈیا کے ذریعے ملک مخالف سازش کا حصہ بن رہی ہیں
ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن ریڈ لائن کراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں،بیان
سندھ کے سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے اور حکومت کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے گی۔کراچی کی مصروف شاہراہ پر گزشتہ روز سندھ ثقافتی دن کی مناسبت سے ریلی میں ہنگامہ آرائی پر شرجیل میمن نے کہا کہ کلچر ڈے منانا سب کا حق ہے لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے، کل ہم نے سب کو کلچر ڈے پر مبارک باد بھی دی تھی۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھارتی میڈیا کے ذریعے ملک مخالف سازش کا حصہ بن رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ مظالم برادشت کیے مگر کبھی اداروں کیخلاف سازش نہیں کی،پیپلزپارٹی نے مارشل لا کا سامنا کیا، آصف زرداری کو بغیر کسی ثبوت اور سزا کے 12 سال جیل میں رکھا گیا مگر ہم نے کبھی ریڈ لائن کراس نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ آج ایک شخص ملک کے خلاف سازشیں کررہا ہے جو قابل مذمت ہیں اور اس حوالے سے ہمارا مقف بالکل واضح ہے، بھارت ہمیشہ پاکستان کے خلاف رہا ہے اور اس کے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔