Jasarat News:
2025-10-25@03:16:36 GMT

پیسہ بینک کے بجائے اسٹاک میں لگانا چاہیے؟ مگر کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251025-03-4

 

عبید مغل

مشہور کہاوت ہے کہ سانپ کا ڈسا ہوا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔ یہ مثال اس قوم پر خوب صادق آتی ہے جو بارہا امیدوں کے کنویں میں جھانک کر خالی لوٹی ہو۔ جس کے ساتھ ہر بار وعدے ہوئے، خواب بیچے گئے، اور جب جاگنے کا وقت آیا تو حقیقت کے ریگستان میں تنہا کھڑی رہ گئی۔ تاریخ میں کہا گیا ہے کہ جو بار بار دھوکا کھائے اور پھر بھی اعتبار کرے، وہ مظلوم نہیں بلکہ غافل کہلاتا ہے۔ گزشتہ روز روزنامہ جسارت کے صفحۂ اوّل پر ایک خبر نمایاں تھی کہ عدالت ِ عظمیٰ کے آئینی بینچ کے سربراہ عزت مآب جسٹس امین الدین خان صاحب نے دورانِ سماعت فرمایا: ’’لوگوں کو پیسہ بینک میں رکھنے کے بجائے اسٹاک مارکیٹ میں لگانا چاہیے‘‘۔ یہ جملہ بظاہر ایک معاشی مشورہ ہے، مگر پس ِ پردہ ایک سوال جنم دیتا ہے کہ جنابِ عالی! کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے اسی اسٹاک مارکیٹ میں کتنی بار اپنا خون پسینہ ڈبویا ہے؟

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ محض سرمایہ کاری کی نہیں، بلکہ کہانی ہے ان خوابوں کی جو مصنوعی منافع کے سراب میں بھگو دیے گئے۔ اس گورکھ دھندے میں کبھی ’’پمپ اینڈ ڈمپ‘‘ کے نام پر قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور اگلے ہی ہفتے زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ بڑے بروکرز اندرونی معلومات کے بل پر شیئرز خریدتے ہیں، مصنوعی قیمتیں بڑھاتے ہیں، اور جب عام آدمی جوشِ سرمایہ میں شریک ہوتا ہے تو وہی بڑے کھلاڑی اپنے شیئر بیچ کر نکل جاتے ہیں۔ چھوٹے سرمایہ کار کے ہاتھ میں بچتا ہے تو صرف ’’اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ‘‘ اور آنکھوں میں نمی۔

2024 میں سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) نے تین بڑی کمپنیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے کہ انہوں نے جعلی آرڈرز کے ذریعے اسٹاک کی قیمتیں مصنوعی طور پر بڑھائیں۔ 2008 میں JS Global Capital سے وابستہ ایک کمپنی کے حصص 1370 روپے تک پہنچے اور پھر چند ماہ میں صرف 21 روپے رہ گئے۔ کئی بار ’’منی پولیشن‘‘ اور اندرونی تجارت کے شواہد سامنے آئے مگر سزا؟ عدالتوں کی فائلوں میں دفن۔ جہانگیر ترین کا معاملہ بھی اسی اخلاقی منظرنامے کا ایک عکس ہے۔ ان پر الزام تھا کہ اربوں روپے اپنی خاندانی کمپنیوں میں منتقل کیے، مگر بعد میں رپورٹ آئی کہ ’’تمام لین دین قانون کے اندر تھے‘‘۔ عوام کے نزدیک یہ پھر ایک ایسا ہی باب تھا جس میں شور بہت ہوا مگر نتیجہ صفر نکلا۔ اب آپ فرمائیے، ایسی اسٹاک مارکیٹ میں عوام کیوں بھروسا کریں؟ چونکہ اسٹاک ایکسچینج کی حالت بھی ہماری عدلیہ کے نظام سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی۔ ایک ایسا نظامِ انصاف جس کا Rule of Law Index میں نمبر 129 ہے۔ (142 ممالک میں سے)، وہ شفافیت کا پیمانہ کیسے تھامے؟ Transparency International کے مطابق پاکستان کرپشن میں 180 ممالک میں سے 135 ویں درجے پر ہے۔ خود ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستانی کمپنیوں کی شفافیت ’’معتدل‘‘ ہے، یعنی 7.

23 از 10۔

عزت مآب جسٹس صاحب! یہ وہی عوام ہیں جنہوں نے سب کچھ آزما لیا ہے۔ اب وہ مزید کسی ’’پمپ اینڈ ڈمپ‘‘ یا اندرونی کھیل کے متحمل نہیں۔ انہیں اسلامی بینکاری نظام کی طرف رہنمائی دیجیے جہاں سرمایہ کاری مضاربت اور مشارکت کے اصولوں پر حقیقی معیشت میں شامل ہو، نہ کہ جعلی طلب و رسد کے دھوکے میں۔ اسلامی بینک جب صنعت، زراعت اور تجارت کو اسلامی بنیادوں پر قرض دیں گے تو یہ سرمایہ نہ صرف برکت پائے گا بلکہ قومی معیشت بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی۔ اور پھر ایک حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں: پاکستان کی عدلیہ اور اسٹاک مارکیٹ دونوں ایک ہی آئینے کے دو عکس ہیں۔ دونوں اداروں میں باصلاحیت، دیانتدار اور نیک نام افراد موجود ہیں، مگر نظام اندھیرے میں لپٹا ہے۔ افراد جگمگا رہے ہیں، ادارے بجھ رہے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انصاف خود تاخیر کا شکار ہو تو سرمایہ کار انصاف پر کیسے یقین کرے؟ عوام کو اب نعرے نہیں، یقین چاہیے۔ جب تک اسٹاک مارکیٹ کے بڑے مگرمچھوں کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جاتا، جب تک عدالتی فیصلے بر وقت اور بے لاگ نہیں ہوتے، تب تک یہ مشورہ کہ ’’پیسہ بینک میں رکھنے کے بجائے اسٹاک مارکیٹ میں لگائیں‘‘ ایک خوابِ ناتمام ہی رہے گا۔ اب وقت ہے کہ ہم مشورے نہیں، نظام بدلنے کی بات کریں۔ عوام کو اعتماد، معیشت کو امان، اور ریاست کو شفافیت کی ضرورت ہے، ورنہ کل کو تاریخ لکھے گی کہ ’’یہ قوم بھی رسی دیکھ کر ڈر گئی، کیونکہ اسے بار بار سانپوں نے ڈسا تھا‘‘۔

عبید مغل

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسٹاک مارکیٹ میں

پڑھیں:

ایران کے خلاف جنگ کا آپشن ٹرمپ کی شکست کیوں؟

اسلام ٹائمز: لہذا ایران کی فوجی تنصیبات پر حملہ ور ہو کر بھی امریکہ کی پریشانی دور نہیں ہوئی اور اب یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اختیار کرنا نہ صرف ایک موثر راہ حل نہیں ہے بلکہ اس سے امریکہ کو درپیش حالات مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف 12 روزہ جنگ کے بعد ایران نے بھی اسی نکتے کو واضح کیا ہے اور 20 اکتوبر کے دن رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام فوجی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے حکومت کو آئی اے ای سے تعاون پر نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایران نے 12 روزہ جنگ کے بعد نئی جوہری تنصیبات تعمیر کر لی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور محفوظ ہیں۔ تحریر: محمد امین ہدایتی نسب
 
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر کے دن ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کر دینے کے دعوے سے متعلق فرمایا تھا: "کوئی بات نہیں، تم اسی خیال میں ڈوبے رہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ تم کون ہوتے ہو جو کسی ایسے ملک کے بارے میں اظہار خیال کرو جو جوہری ٹیکنالوجی کا حامل ہے؟ اس کا امریکہ سے کیا تعلق ہے کہ ایران کے پاس جوہری ٹیکنالوجی ہے یا نہیں ہے؟ یہ مداخلت خلاف معمول، غلط اور جبر پر مبنی ہے۔" آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای یہ کہنا چاہتے تھے کہ امریکی صدر کے دعوے کے برعکس ایران کا جوہری پروگرام جوں کا توں ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے چار ماہ بعد اب ایران کے سپریم لیڈر نے اعلان کر دیا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ رہبر معظم انقلاب کے اس موقف کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے فوراً بعد ایک پریس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ اس حملے کے نتیجے میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ البتہ کچھ امریکی ذرائع ابلاغ نے اس پر سوال بھی اٹھائے تھے۔ مثال کے طور پر سی این این اور وال اسٹریٹ جرنل نے امریکہ کے کچھ حکومتی اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو مشکوک قرار دیا تھا۔ امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے این ایس اے نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے نتائج کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی تھی اور اس میں واضح طور پر ٹرمپ کا دعوی غلط ثابت کیا گیا تھا۔ سی این این کے مطابق اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی حملے کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام کا بنیادی ڈھانچہ تباہ نہیں ہوا اور اسے صرف جزوی نقصان پہنچا ہے۔
 
دوسری طرف روئٹرز اور نیویارک ٹائمز نے بھی اعلان کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے ہیں۔ ان کی رپورٹس میں واضح کیا گیا ہے اس حملے سے نہ صرف ایران کی جوہری تنصیبات کا انفرااسٹرکچر تباہ نہیں ہوا بلکہ افزودہ یورینیم بھی تباہ ہونے سے محفوظ بچ گیا ہے۔ یورپ کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے بھی اپنی رپورٹس میں اسی بات کی جانب اشارہ کیا ہے اور ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔ یہ دھچکہ اس قدر سنگین تھا کہ امریکی وزیر جنگ پٹ ہیگسیٹ نے این ایس اے کے سربراہ جنرل جیفری کروز کو اس کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ نیویارک ٹائمز نے امریکی وزیر جنگ کے اس اقدام کے محرکات کے بارے میں لکھا: "این ایس اے کے سربراہ کی برطرفی کی وجہ اس ادارے کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے نتائج کے بارے میں رپورٹ جاری کرنا تھا۔"
 
2)۔ ایران اور تین یورپی ممالک کے درمیان "اسنیپ بیک" سے متعلق انجام پانے والے مذاکرات میں مغربی فریق کے طرز عمل سے ظاہر گیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ان کے مطالبات بھی دراصل وہی ہیں جو امریکہ چاہتا ہے۔ یورپی ممالک نے اسنیپ بیک روکنے کے لیے تین شرائط پیش کی تھیں: پہلی آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کو امریکی حملے کا نشانہ بننے والی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دینا، دوسری 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخائر کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرنا اور تیسری ایران کی جانب سے امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرنا شامل تھی۔ البتہ مذاکرات کے دوران امریکہ نے کچھ نئے مطالبات بھی پیش کیے جیسے ایران کے پاس میزائلوں کی رینج 500 کلومیٹر سے کم کر دینا وغیرہ۔ یوں مغربی ممالک کے مطالبات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اب بھی باقی ہے اور امریکہ اسے ختم کرنے کے درپے ہے۔
 
اس سے ہمیں چند اہم پیغامات موصول ہوتے ہیں، جیسے: اول یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے اگرچہ کچھ نقصانات ظاہر ضرور ہوئے ہیں لیکن این ایس اے کی رپورٹ کے مطابق اس کا بنیادی ڈھانچہ محفوظ ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری مذاکرات کے دوران اسرائیل کو ایران پر حملے کے لیے سبز جھنڈی دکھائی لیکن وہ اب بھی ایران سے مذاکرات کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ ان کا اصل مقصد ایران پر فوجی دباو ڈال کر اسے اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کر دینا ہے۔ لہذا اب یہ حقیقت سب کے لیے واضح ہو چکی ہے کہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار جیسا کہ ٹرمپ سوچ رہا تھا بالکل بھی موثر واقع نہیں ہوا۔ یہ ایک بہت ہی اہم حقیقت ہے جس کی بنیاد پر ایران نے بھی اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز کر رکھی ہے۔
 
لہذا ایران کی فوجی تنصیبات پر حملہ ور ہو کر بھی امریکہ کی پریشانی دور نہیں ہوئی اور اب یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اختیار کرنا نہ صرف ایک موثر راہ حل نہیں ہے بلکہ اس سے امریکہ کو درپیش حالات مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف 12 روزہ جنگ کے بعد ایران نے بھی اسی نکتے کو واضح کیا ہے اور 20 اکتوبر کے دن رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام فوجی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے حکومت کو آئی اے ای سے تعاون پر نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایران نے 12 روزہ جنگ کے بعد نئی جوہری تنصیبات تعمیر کر لی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور محفوظ ہیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان برقرار، انڈیکس میں 2 ہزار پوائنٹس کی کمی
  • ایران کے خلاف جنگ کا آپشن ٹرمپ کی شکست کیوں؟
  •  اسٹیبلشمنٹ تک رسائی صرف خواجہ آصف کی کیوں ہے؟میاں جاوید لطیف
  • عوام کو پیسہ بینکوں میں رکھنے کے بجائے  اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، سپریم کورٹ
  • لوگوں کو پیسہ بینک میں رکھنے کے بجائے اسٹاک میں لگانا چاہیے، سپریم کورٹ
  • لوگوں کو پیسہ بینک میں رکھنے کے بجائے سٹاک مارکیٹ میں لگانا چاہیے، سپریم کورٹ
  • مشرقِ وسطیٰ کی کمپنی کا پاکستان میں 5 ارب ڈالر کی تاریخی سرمایہ کاری کا اعلان
  • مشرق وسطیٰ کی معروف کمپنی کی پاکستان کے مالیاتی شعبے میں تاریخی سرمایہ کاری
  • مارکیٹ کمیٹی کے نرخ اور دکانوں میں سبزی فروٹ کے ریٹس میں واضح فرق کیوں؟