دوغو پرینچک نے کہا ہے کہ اس سے قبل ایسی کوئی کانفرنس کبھی کسی مسلم یا ترک ملک میں منعقد نہیں ہوئی، اگر باکو میں ہوئی تو یہ مغربی ایشیا اور قفقاز میں موجود ممالک کے لیے خطرات کو بڑھائے گی اور ترک و اسلامی دنیا کی وحدت کو نقصان پہنچائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ ترکی کی وطن پارٹی کے رہنما دوغو پرینچک نے ایک بیان میں آذربایجان کے صدر الہام علی اوف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس یورپی خاخاموں کی کانفرنس کو منسوخ کریں، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی معمول پر آنے کے حوالے سے گفتگو کے لیے باکو میں منعقد کی جا رہی ہے۔ دوغو پرینچک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ الہام علی اوف نے یورپی یہودی رہنماؤں کو باکو مدعو کیا ہے تاکہ وہ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے عمل پر تبادلۂ خیال کریں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ محترم الہام علی اوف، صدرِ آذربایجان! ذرائع ابلاغ میں شائع اطلاعات کے مطابق، ہمیں علم ہوا ہے کہ یورپی خاخاموں کی کانفرنس 4 سے 6 نومبر 2025 تک باکو میں منعقد ہونے جا رہی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کانفرنس میں سینکڑوں خاخام شریک ہوں گے اور ابراہیم معاہدوں اور صہیونیت سے متعلق سرگرمیوں پر گفتگو ہوگی۔

انہوں نے کہا ہے کہ اس سے قبل ایسی کوئی کانفرنس کبھی کسی مسلم یا ترک ملک میں منعقد نہیں ہوئی، اگر باکو میں ہوئی تو یہ مغربی ایشیا اور قفقاز میں موجود ممالک کے لیے خطرات کو بڑھائے گی اور ترک و اسلامی دنیا کی وحدت کو نقصان پہنچائے گی، آذربایجان، جو آپ کی مدبرانہ قیادت میں ترقی کر رہا ہے، کے لیے یہ ناقابلِ تصور ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے محاذ پر کھڑا ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ کانفرنس ہمارے برادر ملک آذربایجان میں منعقد ہوئی تو یہ ایک تاریخی بدنامی کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ بیان کے آخر میں دوغو پرینچک نے کہا ہے کہ ہم اپنے ممالک کی آزادی، سلامتی اور مستقبل کے تحفظ اور ابھرتی ہوئی ایشیائی تہذیب میں اپنے قائدانہ کردار کے پیشِ نظر اس کانفرنس کے منسوخ کیے جانے پر اپنی گہری قدردانی کا اظہار کرتے ہیں۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: دوغو پرینچک نے کہا ہے کہ باکو میں کے لیے

پڑھیں:

امریکی حکمت عملی میں روس کے لیے نرم مؤقف، یورپی ممالک میں تشویش بڑھ گئی

امریکی حکمت عملی میں روس کے بارے میں نرم موقف نے یورپی ممالک میں تشویش بڑھا دی ہے۔

ماسکو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی نیشنل سکیورٹی اسٹریٹجی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے اپنے وژن سے بڑی حد تک مطابقت رکھنے والی قرار دیا ہے۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونے والی 33 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں یورپ کو تہذیبی زوال کے خطرات سے دوچار قرار دیا گیا ہے جبکہ روس کو امریکہ کے لئے خطرہ نہیں سمجھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا روس مذاکرات کی میزبانی پر پیوٹن کا سعودیہ سے اظہار تشکر

دستاویز میں غیر ملکی اثر و رسوخ کے خلاف اقدامات، بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی روک تھام اور یورپی یونین کی مبینہ سینسر شپ کے رجحان کو چیلنج کرنا بنیادی ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے۔ یورپی حکام اور تجزیہ کاروں نے اس حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے اسے کریملن کے بیانیے سے مشابہ قرار دیا ہے۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روسی خبر رساں ایجنسی تاس کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ امریکی دستاویز میں کی جانے والی تبدیلیاں روسی نقطہ نظر سے مطابقت رکھتی ہیں اور ماسکو اسے مثبت قدم سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حتمی رائے دینے سے قبل اس حکمت عملی کا مزید جائزہ لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جی20 ممالک کے اجلاس میں روس یوکرین امن منصوبے پر غور، امریکا نے بائیکاٹ کیوں کیا؟

نئی امریکی حکمت عملی میں روس کے بارے میں نرم موقف نے یورپی حلقوں میں تشویش بڑھا دی ہے۔ یورپی حکام کو اندیشہ ہے کہ اس سے یوکرین میں جاری جنگ پر امریکی مؤقف کمزور ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں یورپی یونین کو جنگ کے خاتمے میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکہ کو روس کے ساتھ تزویراتی استحکام بحال کرنا ہوگا تاکہ یورپی معیشتیں مستحکم رہ سکیں۔

دستاویز میں یورپ کی آئندہ بیس سال میں شناخت تبدیل ہونے کے خطرے اور معاشی مسائل کو تہذیبی زوال کے مقابلے میں ثانوی قرار دیا گیا ہے۔ اس میں قومی رجحان رکھنے والی یورپی سیاسی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو سراہا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امریکہ اپنی حلیف جماعتوں کو اس رجحان کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: روس یوکرین جنگ بندی کا انحصار پیوٹن پر ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

جرمن وزیر خارجہ جوہان وادے فول نے کہا کہ امریکہ نیٹو میں ہمارا اہم اتحادی ہے لیکن آزاد معاشرے اور اظہار رائے کے معاملات کو سکیورٹی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔ پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے اپنے بیان میں کہا کہ یورپ امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور اسی حکمت عملی سے مشترکہ سلامتی کو تقویت ملتی ہے۔

سابق سوئیڈش وزیر اعظم کارل بلڈٹ نے اس حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے اسے یورپی انتہا پسند دائیں بازو سے بھی زیادہ سخت قرار دیا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی سے قربت بڑھا رہا ہے جسے جرمن انٹیلی جنس انتہا پسند قرار دے چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس کا امریکا سے نیو اسٹارٹ معاہدے کی تجدید میں مساوی اقدام کا مطالبہ

امریکہ نے نئی حکمت عملی میں ویٹی کان بحر اور مشرقی بحر الکاہل میں منشیات کی اسمگلنگ کرنے والی کشتیوں کے خلاف کارروائی اور وینیزویلا میں ممکنہ فوجی اقدامات کے اشارے بھی دیے ہیں۔ دستاویز میں جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور تائیوان سے دفاعی اخراجات بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

امریکی ڈیموکریٹ اراکین کانگریس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حکمت عملی امریکی خارجہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ریاست کولوراڈو کے رکن جیسن کرو نے اسے امریکہ کی عالمی ساکھ کے لئے تباہ کن قرار دیا جبکہ نیویارک سے تعلق رکھنے والے گریگوری مِیکس نے کہا کہ یہ حکمت عملی کئی دہائیوں پر محیط امریکی اقدار پر مبنی قیادت کو مسترد کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news امریکا پیوٹن تشویش ڈونلڈ ٹرمپ روس یورپی کونسل یورپی ممالک یوکرین

متعلقہ مضامین

  • باکو: وفاقی وزیر قومی ورثہ و ثقافت اورنگزیب خان کھچی او آئی سی کلچرل فیسٹیول’’ باکو کری ایٹو ویک ‘‘کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے ہیں
  • ہیومن رائٹس گورنمنٹ آف سندھ کے زیر اہتمام یونیٹی واک
  • امریکی حکمت عملی میں روس کے لیے نرم مؤقف، یورپی ممالک میں تشویش بڑھ گئی
  • لارڈز میں پی ایس ایل 2026ء کا لندن روڈ شو منعقد
  • شکر کریں فوج پریس کانفرنس کر کے جواب دے رہی ہے، ورنہ مائیں بچوں کو ڈھونڈتی رہی ہیں: مصطفیٰ کمال
  • فوج صرف پریس کانفرنس کر کے جواب دے رہی ہے، ورنہ اس سے بہت کم گناہ کرنے پر مائیں اپنے بچوں کو ڈھونڈتی رہی ہیں، مصطفیٰ کمال
  • شکر کریں فوج پریس کانفرنس کر کے جواب دے رہی ہے، ورنہ مائیں بچوں کو ڈھونڈتی رہی ہوتیں، مصطفیٰ کمال
  • شکر کریں فوج پریس کانفرنس کرکے جواب دے رہی ہے، ورنہ مائیں بچوں کو ڈھونڈتی رہی ہیں، مصطفیٰ کمال
  • تحریک انصاف کا پشاور میں سیاسی پاور شو جاری
  • ٹرمپ کی نئی سیکیورٹی پالیسی نے یورپ میں ہلچل مچا دی