متبادل بیانیہ، علمی اور فکری اداروں کا بحران
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
آج کی دنیا جدید تصورات کی دنیا ہے۔یہ دنیا میں معلومات ،علم صلاحیت اور مہارتوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں پرانے خیالات یا سوچ عملًا کمزور ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ نئے خیالات جنم لے رہے ہیں۔ جدید دنیا پرانے خیالات کو چھوڑ کر نئے خیالات کے ساتھ خود کو جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔
وہ ریاستیں جو پرانے خیالات کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ان کی اہمیت اب دنیا میں کم ہو رہی ہے۔علم اور معلومات کی بنیاد تحقیق اور خاص طور پر شواہد کے ساتھ دیکھی جا رہی ہے۔اسی طریقے سے گلوبل دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بہت کچھ بدل رہا ہے۔
جدید ریاست کے تصورات میں اب علمی اور فکری اداروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور وہ اس کو بنیاد بنا کر خود کو ایک متبادل ترقی کے ماڈل میں پیش کر رہے ہیں۔لیکن وہ ریاستیںجو جدید ترقی کے ماڈل کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں یا کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہیں وہ ترقی کے ماڈل میں بہت پیچھے کھڑی ہیں۔
ایسے میں جامعات یعنی یونیورسٹیاں علمی اور فکری اداروں کی ترویج کے لیے کام کرتی ہیں جہاں سے ان کو نئی سوچ اور علم ملتا ہے۔
اس علم میں جذباتیت کے مقابلے میں عقل و دانش اور شواہد ہوتے ہیں اور ان شواہد کو بنیاد بنا کر وہ متبادل ترقی کے ماڈل کو عملاً اختیار کرتے ہیں۔
لیکن یہ سب کچھ بھی ایسی ہی ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں جامعات کی اہمیت ہوتی ہے اور جہاں ریاستی نظام جامعات کو ترجیحی بنیادوں پر فوقیت دیتا ہے اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل رکھے جاتے ہیں۔ مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کے ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہم جامعات کی اہمیت کو سمجھ کر ترقی کی نئی سوچ و فکر کو بنیاد بناکر فیصلے کرتے ہیں۔
جامعات پہلے سے موجود علم کا مطالعہ کرتی ہیں اور دنیا بھر میں جو نئی تبدیلیاں آرہی ہے ان کا تجزیہ کر کے کچھ نئے تجربوں کی بنیاد پر نئے خیالات کو پیش کرتی ہیں۔بدقسمتی سے ہماری جامعات میں تحقیقات کے معیارات میں کافی گراوٹ نظر آتی ہے۔
اول تو تحقیق کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کچھ وسائل ہیں بھی تو پھر تحقیق کے لیے فکری و علمی آزادیوں کا بڑی حد تک فقدان ہے۔ریاستی نظام کے کنٹرول کی وجہ نے یا آمرانہ سوچ اور فکر نے بہت سی تحقیق کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہمارے پاس ہے ہمیں کسی نئے علم کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طریقے سے جامعات اور گورننس پرمبنی نظام میں حکومت اور ریاستی نظام میں ایک خلیج واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم دنیا میں اس وقت بہت سی ہونے والی تبدیلیوں سے بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔جامعات کی حیثیت محض ڈگری کی تقسیم کا کھیل نہیں ہے بلکہ ایک متبادل بیانیہ کی تلاش سے جڑا ہوتاہے۔
یہ جو آج دنیا میں ترقی ہو رہی ہے اور جہاں بڑی طاقتوں کا قبضہ ہے اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ انھوں نے خاص طور پر ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔وہ اپنی جامعات میں سیاسی انتظامی اور مالی بنیادوں پر بہت بڑی سرمایہ کاری کرکے نئے امکانات کو پیدا کر رہے ہیں۔
پرانے علم اور پرانی ڈگریوں کے مقابلے میں نئے علم کی تلاش کا عمل جاری ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی اور سماجی علوم میں نئے نئے اصول متعارف کروائے جا رہے ہیں ۔ایسے علم کو فوقیت دی جا رہی ہے جو آج کی جدید دنیا کی ضرورت کے زمرے میں آتے ہیں۔
ایک نیا متبادل علم تلاش کیا جا رہا ہے۔ہم بطور پاکستان جب جدید دنیا کی بات کرتے ہیں تو اس میں آج کل سب سے زیادہ گفتگو جیو معیشت ،جیو ٹیکنالوجی اور جیو سیاست پر ہو رہی ہے۔ ریاستوں کے درمیان تنازعات اور جنگوں کے مقابلے میں باہمی رابطہ کاری کو بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ہمیں تنازعات کے مقابلے میں برابری کی بنیاد پر باہمی رابطوں کو فروغ دینا ہوگا۔
اس کام میں جامعات ایک کنجی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اگر ہم نے اپنی عقل و دانش کے ساتھ جامعات کے نظام کو بہتر طور پر استعمال کر لیا تو اس سے ہم اپنے لیے نئے امکانات کو پیدا کرکے گلوبل دنیا کے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔
پاکستان بنیادی طور پر جن بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سیاست جمہوریت آئین، قانون کی حکمرانی، معیشت اور انتظامی ڈھانچے کے مسائل ہیں۔خاص طور پر گورننس و سیکیورٹی کے نظام نے ہمارے لیے بہت سی مسائل پیدا کیے ہوئے ہیں۔
ان مسائل کا حل ہم داخلی سطح پر جامعات اور تھنک ٹینک کی مدد سے تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے جامعات ایک مختلف چیز جب کہ ریاستی اور حکومتی نظام ایک الگ چیز ہے۔یہ جو ہمیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے اس کا بیانیہ بھی جامعات کی سطح پر بحث کے بعد باہر آنا چاہیے۔
رواداری اور سیاسی ہم آہنگی اور غربت کا خاتمہ کیسے ہو۔اسی بنیاد پر ٹیکنالوجی کی دنیا میں جو نئے انقلابات آرہے ہیں اور ایک مصنوعی ذہانت کا تجربہ ہم دیکھ رہے ہیں اسے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے اس سے کیسے نئے امکانات پیدا کر سکتے ہیں ۔اسی بنیاد پر جامعات اور صنعتوں کے درمیان توازن پیدا ہونا چاہیے ۔تنگ نظری فرسودہ خیالات یا شدت پسندی ہمارا مستقبل نہیں ہونا چاہے۔
جامعات کی سطح پر ایسے تھنک ٹینک موجود ہونے چاہیے جہاں ماہرین تعلیم خاص طور پر جو ریاست اور سیاست کے بحران میں یا معیشت کی سطح پر موجود جڑے معاملات میں اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں ان کو ان تھنک ٹینکس کا حصہ بننا چاہیے۔
جب تک جامعات کے اندر سیاسی مداخلتیں ختم نہیں ہوں گی اور حکمران طبقات ان کو اپنی مرضی کے مطابق ریموٹ کنٹرول سے چلانے کی کوشش کریں گے تو جامعات کچھ نہیں کر سکیں گی۔
انتظامی ڈھانچوں کی ترقی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن اصل ترقی کا معیار انسانی ترقی ہے جہاں معاشرے کے محروم اور کمزور طبقات جو ہیں کو ترقی کے ماڈل میں پیش کیا جاتا ہے۔اہم بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی اپنی جامعات کی سطح پر ایک بڑے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ ہم سے غلطیاں کہاں ہو رہی ہیں اور اس کا ذمے دار کون ہے۔یہ کام ایک سنجیدہ مکالمہ چاہتا ہے جہاں سب فریقین مل جل کر مسئلے کا حل تلاش کریں۔مقصد ایک دوسرے پر الزامات لگانا نہیں بلکہ اصلاح کا راستہ تلاش کرنا ہوناچاہیے۔
اس کا علاج اسی صورت میں ممکن ہوگا جب پہلے ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں۔لیکن یہ کام کھلے ذہن ،شفافیت کے ساتھ ہوگا اور ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا تقاضہ کرتا ہے۔نئی تحقیق کا عمل نئے زاویے بناتا ہے اور نئی سوچ اور نئی فکر کو پیدا کرتا ہے۔اس لیے ہمیں اس سے ڈرنے کے بجائے ایک متبادل علم کی تلاش کے طور پر آگے بڑھنا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے مقابلے میں ترقی کے ماڈل کی بنیاد پر جامعات کی کی سطح پر کی ضرورت دنیا میں کی اہمیت کو بنیاد ہے کہ ہم ہیں اور کے ساتھ پیدا کر رہے ہیں کی دنیا اور ان رہی ہے ہو رہی ہے اور کے لیے
پڑھیں:
سوڈان میں انسانی بحران، الفاشر سے 62 ہزار سے زائد بے گھر افراد کی ہجرت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خرطوم: سوڈان میں جاری خانہ جنگی کے باعث ہزاروں شہری ایک بار پھر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے، شمالی دارفور کے شہر الفاشر پر نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے قبضے کے بعد 62 ہزار سے زائد افراد انتہائی کٹھن حالات میں شہر سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق زیادہ تر بے گھر افراد نے کُرمہ، تاویلہ اور گارنی کے علاقوں کا رخ کیا جبکہ ہزاروں لوگ اب بھی راستوں میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نہ نقل و حمل کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی انسانی امداد۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سینکڑوں شہری 1,200 کلومیٹر طویل سفر طے کر کے الشمالی ریاست کے شہر الدبہ پہنچے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، کئی افراد نے یہ سفر پیدل طے کیا اور انہیں دورانِ سفر بھوک، پیاس اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
بین الاقوامی طبی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (MSF) نے فوری مطالبہ کیا کہ RSF اور اس کے اتحادی گروہ الفاشر کے شہریوں کو نکلنے کی اجازت دیں، کیونکہ شہر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
ایم ایس ایف کے ایمرجنسی سربراہ میشل اولیور لاشاریٹے نے ایک بیان میں کہا کہ ہم فوری طور پر مطالبہ کرتے ہیں کہ شہریوں کو محفوظ راستہ دیا جائے اور انہیں جنگ سے نکلنے دیا جائے۔ الفاشر میں صورتِ حال انتہائی خطرناک ہو چکی ہے۔
انہوں نے امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر پر زور دیا کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے خونریزی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق 26 اکتوبر کو RSF نے الفاشر پر قبضے کے بعد شہریوں پر مظالم ڈھائے اور اجتماعی قتلِ عام کیا، جس کے نتیجے میں سوڈان کی جغرافیائی تقسیم کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔
یاد رہے کہ 15 اپریل 2023 سے سوڈانی فوج اور RSF کے درمیان جنگ جاری ہے، جس میں اب تک 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 1 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر لڑائی نہ رُکی تو سوڈان دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں شامل ہو جائے گا۔