کسٹرڈ یا بم، کیا یہ پھٹ کر زخمی بھی کرسکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
کسٹرڈ پاؤڈر سے لذیذ میٹھا تیار ہوتا ہے جو اکثر لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں لیکن کبھی کبھار یہ ’معصوم سا دکھنے والا‘ پاؤڈر ایک طاقتور دھماکہ خیز مادے میں بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گھوڑی کے دودھ سے بنی آئس کریم کے فوائد نےسائنسدانوں کو بھی حیران کر دیا
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق انسٹنٹ کسٹرڈ پاؤڈر بہت سے باورچی خانوں میں پایا جانے والا ایک اہم جزو ہے۔ بس پانی ملاکر چولہے پر تھوڑا جوش دیں اور مکئی کے نشاستے اور ذائقوں کا یہ مرکب ایک مزیدار میٹھے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب کس کے وہم و گمان میں ہوگا کہ یہ کبھی ’غصے‘ میں آکر لوگوں کو زخمی بھی کرسکتا ہے۔
لیکن 18 نومبر 1981 کو آکسفورڈ شائر میں برڈز کسٹرڈ فیکٹری میں اس مادے نے اپنا ایک غضبناک پہلو دکھایا تھا۔ وہاں یہ پاؤڈر اچانک ابل پڑا تھا جس کے نتیجے میں دھول کے بادل اٹھے اور شعلے بھڑک گئے۔
اس دھماکے میں 9 افراد زخمی ہوئے تھے لیکن خوش قسمتی سے اس ’کسٹرڈ بم‘ کے پھٹنے سے کسی کی جان نہیں گئی۔
پاؤڈر دھماکے مہلک بھی ہوسکتے ہیں۔ مینیسوٹا میں سنہ 1871 میں آٹے کی مل میں دھماکے سے 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سنہ 1919 میں آئیووا کے شہر سیڈر ریپڈس میں ہونے والے ایک دھماکے میں ایک بچے سمیت 44 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
لیکن ایک سادہ مٹھائی کی تیاری کس طرح قتل و غارت کا سبب بن سکتی ہے؟ ان پاؤڈر دھماکوں میں کچھ عوامل بھی ہوتے ہیں کیوں کہ ایسا پاؤڈر تو ایک آتش گیر مادے سے بنا ہونا چاہیے۔ لیکن آٹا، مکئی کا نشاستہ، چینی، کوئلے یا چولہے کی آنچ، پاؤڈر پلاسٹک اور ایلومینیم پاؤڈر سب ہی جل سکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اگر وہ ہوا میں چلے جاتے ہیں تو واقعی تباہ کن دھماکے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بادل میں معطل ہونے سے ان تمام ذرات کی سطح کا رقبہ بہت بڑا ہوتا ہے جو آکسیجن کے سامنے ہوتا ہے۔ اس سے وہ جلنے میں تیزی پیدا کرتے ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ اگنیشن تک گرم ہو جاتے ہیں اور ان میں سے ہر معاملے میں رگڑ یا جامد بجلی جیسی گرمی کا ذریعہ ہوتا ہے تو آگ تقریبا فوری طور پر پھیل سکتی ہے۔
مزید پڑھیے: مرچوں سے بنے حلوے کی ویڈیو وائرل، ’یہ میٹھا ہے یا کڑوا‘
لیکن کسٹرڈ پاؤڈر کے معاملے میں جو حادثہ پیش آیا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اس شام برڈ کسٹرڈ فیکٹری میں 20 مزدور ڈیوٹی پر تھے۔ حادثے کی رپورٹ کے مطابق بہت سے لوگوں نے دیکھا کہ ایک ڈبے کے اوپری حصے سے مکئی کا نشاستہ نکل رہا تھا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس موقع پر متعدد عینی شاہدین نے دیکھا کہ ڈبے کے اوپری حصے کے قریب ایک فلیش تھا اور آگ کی ایک دیوار بن کی چوٹی سے باہر اور نیچے کی طرف پھیل رہی تھی۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ تیز ہوا چل رہی تھی جس کے پیچھے ایک شعلہ تھا جو پورے علاقے میں پھیل گیا۔ بعد میں معائنے سے پتا چلا کہ مکئی کے نشاستے کو مختلف ڈبوں میں ڈالنے والی مشینری خراب ہو گئی تھی لہٰذا مکئی کا نشاستہ کنٹینر میں اس وقت تک ڈالا جاتا رہا جب تک کہ اس میں پانی بھر نہ گیا۔ اس طرح کے دھماکوں کے خطرے کو کم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے کو کئی زاویوں سے دیکھا جانا چاہیے۔
جامد بجلی کو کم کرنے کے لیے فیکٹری میں تمام مشینوں کو گراؤنڈ کرنا، فلٹریشن سسٹم کی تعمیر جو ہوا سے دھول کو ہٹاتا ہے اور کسی بھی دھول کی تعمیر کے لیے محتاط گشت کرنا۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کا مشورہ صحت اور حفاظتی ایجنسیوں کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ْ
ایک چمچ مکئی کے نشاستے یا کسٹرڈ پاؤڈر کو دیکھیں اور اسے تباہی کے انجن کے طور پر تصور کرنا تقریباً ناممکن ہے.
مزید پڑھیں: کیا اسٹرابری واقعی زہریلا پھل ہے؟
ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی ناگہانی آفات سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انہیں پہلے سے ہی روک دیا جائے۔ ایسی جگہوں کو صاف رکھیں جہاں پاؤڈر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چولہے کا جائزہ لیتے رہیں اور کسٹرڈ جیسے معصوم خوردنی پاؤڈر کی مخفی تباہ کن صلاحیت پر نظر رکھیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
کسٹرڈ بم کسٹرڈ پاؤڈر کسٹرڈ پاؤڈر کے خطراتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کسٹرڈ پاؤڈر کسٹرڈ پاؤڈر کے خطرات کسٹرڈ پاؤڈر ہوتا ہے جاتا ہے
پڑھیں:
زر مبادلہ ذخائر میں بہتری، لیکن ڈالر ندارد
حکومت کے دعوے کے مطابق 14 سال کے وقفے کے بعد مالی سال کا اختتام جاری کھاتے (Current Account) کے سرپلس کے ساتھ ہوا، جس سے اسٹیٹ بینک (SBP) کو بیرونی کھاتہ منظم رکھنے میں مدد ملی، کیونکہ ملک مالی سال 2025-26 (FY26) میں داخل ہو چکا ہے۔اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 میں جاری کھاتے کا سرپلس 2.105 ارب ڈالر رہا، جبکہ گزشتہ سال یہ 2.072 ارب ڈالر خسارے میں تھا۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے بیرونی کھاتے کو دانشمندی سے سنبھالا، جس سے سرپلس برقرار رکھنے میں مدد ملی، اور اس نے زر مبادلہ کی شرح میں استحکام کو سہارا دیا۔ اس سرپلس سے اسٹیٹ بینک کو زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملی۔ اگرچہ اسٹیٹ بینک نے انٹربینک مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری کے سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے، لیکن بینکرز اور کرنسی ڈیلرز کا اندازہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے مالی سال FY25 کے دوران تقریباً 8 ارب ڈالر خریدے۔بیشترماہرینِ مالیات اس بات پر متفق ہیں کہ نیا مالی سال FY26 مثبت پیش رفت کے ساتھ شروع ہوا ہے، جن میں جاری کھاتے کا سرپلس، مستحکم زرِمبادلہ کی شرح اور اسٹیٹ بینک کے پاس موجود 14 ارب ڈالر سے زائد کے زرمبادلہ ذخائر شامل ہیں، نیز IMF پروگرام کا تسلسل بھی۔اس کے علاوہ، دوست ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی، جنہوں نے FY25 کے دوران تقریباً 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کیے۔ بیرونی کھاتے کی بہتر حالت کے پیشِ نظر FY26 میں مزید امداد کا امکان ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس یقینا ایک بڑی کامیابی ہے جو14 سال کے وقفے کے بعدحاصل ہوسکی ہے لیکن اس کامیابی کے باوجود زمینی حقائق اور صورت حال ملکی معیشت کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کررہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہبظاہر پاکستان ایک تضاد کا سامنا کر رہا ہے: کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، ترسیلات زر کی بلند ترین سطح، اور پھر بھی ڈالرز ناپید۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ملک نے جون میں 2.1 ارب ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا، جس نے سالانہ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو 14 سال بعد پہلی بار مثبت بنا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات بھی 38.3 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ مستحکم ہے، لیکن یہ استحکام صرف کاغذات تک محدود ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ طلبہ، مسافر، اور مریض، سبھی کو بینکوں سے زرمبادلہ حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔یہ تضاد ایک گہرے ساختی مسئلے کو ظاہر کرتا ہے۔ چاہے ڈالرز ملک میں آ بھی رہے ہوں، وہ رسمی نظام کے ذریعے گردش نہیں کر رہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ غیر رسمی مارکیٹ ایک بار پھر پھلنے پھولنے لگی ہے۔ اوپن مارکیٹ اور سرکاری ایکسچینج ریٹ کے درمیان فرق (کرِب پریمیم) دوبارہ ابھر آیا ہے، جس کی وجہ سے ترسیلات زر رسمی ذرائع کے بجائے غیر رسمی چینلز کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔ بینکوں کو ڈالر کی قلت طلب کی زیادتی کی وجہ سے نہیں، بلکہ رسمی نظام پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے درپیش ہے۔ ایسے حالات میں برآمد کنندگان کی طرف سے آمدنی واپس نہ لانا اور تاجروں کی طرف سے کرنسی کی تبدیلی میں تاخیر فطری بات ہے۔ ایکسچینج ریٹ اگرچہ مستحکم ہے، لیکن اس پر یقین رکھنے والے کم ہی ہیں۔یہ اعتماد کی کمی کی علامت ہے، نہ کہ سرمایہ کی۔ حکومت کی انتظامی کنٹرول کی حکمتِ عملی جیسے درآمدات پر پابندیاں، غیر رسمی ایکسچینج ریٹ گائیڈنس، اور وقتی مراعات نے وقتی طور پر کچھ مہلت تو دی، مگر اعتماد بحال نہیں کر سکی۔ اب ان پالیسیوں میں دراڑیں نمایاں ہونے لگی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اور گہرا تضاد موجود ہے۔ یہ سرپلس نہ تو برآمدات میں اضافے کی وجہ سے آیا ہے، نہ ہی عالمی مسابقت میں بہتری کی بدولت۔ بظاہر یہ صورتحال مصنوعی طور پر کم کی گئی درآمدات اور وقتی طور پر چھپائی گئی سرمایہ گری کی پیداوار ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری اکثر ”دباؤ سے” آتی ہے نہ کہ ”پیداوار سے”۔ یعنی اگر درآمدات بند کر دی جائیں، مشینری نہ منگوائی جائے، صنعتی خام مال محدود ہو، تو بظاہر سرپلس تو حاصل ہو جاتا ہے لیکن معیشت کی نمو رک جاتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس معاشی بہتری کو صنعتی پیداوار، برآمدات اور روزگار میں اضافے کا ذریعہ بنائے، ماہرین سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان اپنا زاویہِ نظر تبدیل نہیں کرتا، اُس کی بقا کی بحث سہ ماہی بنیادوں پر مالی خلا پورا کرنے تک محدود رہے گی۔ ملک کو مالی، مانیٹری، اور ادارہ جاتی سطح پر اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک یہ نہ ہو، ہر سرپلس ایک سراب ہوگا، اور ہر بہتری عارضی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب مسلسل اقتصادی ڈھانچے کی دل خوش کن تصویر پیش کرتے رہتے ہیں مگر ان تمام حکومتی دعووں اور اپنی کامرانیوں کے ڈنکے بجانے کے باوجود عوام کے چہروں پر ان کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل میں ریلیف کے حوالے سے خوشی کی کوئی رمق امڈتی نظر نہیں آتی اور اپنے اقتصادی مسائل کے معاملہ میں ان کا اضطراب بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔بجلی پانی اور جان بچانے والی ادویات کے نرخوں میں بیجا اضافہ کرکے انہیں عملاً زندہ درگور کیا جا چکا ہے جنہیں دو وقت کی روٹی کیلئے بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں،عوامی معیشت مشکلات میں گھری ہوئی نظر آ رہی ہے۔ عوام میں کسی سطح پر بھی،کسی طبقے میں بھی اطمینان نہیں پایا جاتا۔ قومی معیشت کی بہتری اپنی جگہ ہوگی۔ اعدادوشمار کچھ بھی بولتے ہوں لیکن جو کچھ صارف مارکیٹوں میں نظر آ رہا ہے اور یہی زمینی حقائق ہیں، وہ خوفناک نہیں، پریشان کن ہیں، اطمینان بخش نہیں ہیں۔ اس لئے اہل اقتدار کی جانب سے زمینی حقائق سے قطعی برعکس عوام کو غربت میں کمی اور خوشحالی کی تصویر دکھائی جاتی ہے تو وہ ایسے حکومتی دعووں کو اپنے زخموں پر نمک پاشی سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ترسیلات میں اضافہ خوش آئند ضرور ہے، لیکن ایک ایسی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتا جس کی بنیادیں کمزور ہوں۔ وقتی سہولتیں صرف زوال کو مؤخر کرتی ہیں۔ آگے بڑھنے کے لیے عارضی اقدامات کافی نہیں۔ کرِب پریمیم کو ختم کرنے کے لیے شفاف اور قابلِ اعتماد ایکسچینج ریٹ پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، مارکیٹ پر مبنی شرحِ سود ہونی چاہیے جو ڈالرز رکھنے کی ترغیب دے، اور ایسی سرمایہ اکاؤنٹ پالیسی ہونی چاہیے جو گھبراہٹ کا تاثر نہ دے۔ حکومت کو عوام کا مکمل اعتماد اس وقت ہی حاصل ہوپائے گا جب وہ اپنے روزمرہ کے مسائل بالخصوص مہنگائی کے مسائل میں عملی طور پر ریلیف ملتا ہوا محسوس کریں گے۔ جب حکمران طبقات کی جانب سے عوام پر مہنگائی در مہنگائی کا بوجھ لاد کر اپنی سہولتوں اور مراعات میں بے انتہاء اضافے کے منتخب ایوانوں میں قوانین منظور کرائے جاتے ہیں تو عوام کو اپنے اقتصادی مسائل کے حل کے حکومتی اعلانات مذاق ہی نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے گذشتہ روز کے دل خوش کن اعلانات کے ساتھ ہی گذشتہ روز وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ میں جولائی کے تیسرے ہفتے میں بھی مہنگائی کے جھکڑ چلنے کا عندیہ دیا گیا ہے جس کے مطابق رواں ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پھر مہنگائی میں ریلیف اور اقتصادی استحکام کے دل خوش کن حکومتی دعووں پر عوام کیسے مطمئن ہو سکتے ہیں۔ بے شک حکمران اقتصادی ترقی کیلئے اٹھائے گئے اپنے اقدامات کا کریڈٹ لیں مگر عوام کو بھی ان کے مسائل کے حل کے معاملہ میں ضرور مطمئن کریں۔ اگر عوام بجلی گیس کے ناروا اضافی بلوں کی اذیت سے ہی خود کو باہر نہیں نکال پائیں گے تو ان سے حکومتی گورننس کے لیئے رطب اللسان ہونے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
اس وقت حقیقی صورت حال یہ ہے اور ارباب اختیار بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے کہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ضروریات 23 سے 26 ارب ڈالر کے درمیان ہوں گی۔جون 2025 میں جاری کھاتے کا سرپلس 328 ملین ڈالر رہا، جو مئی کے 84 ملین ڈالر خسارے سے خاصی بہتری ظاہر کرتا ہے۔ مالی سال کے بیشتر حصے میں جاری کھاتہ سرپلس میں رہا۔ چار میں سے صرف پہلی سہ ماہی (جولائی-ستمبر ) میں 474 ملین ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا۔دوسری سہ ماہی میں 1.492 ارب ڈالر کا سرپلس رہا، تیسری میں 820 ملین ڈالر اور چوتھی میں 262 ملین ڈالر۔ تاہم، اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دوسری سہ ماہی کے بعد سرپلس میں بتدریج کمی واقع ہوئی۔کئی سال کی بلند ترین سطح پر ذخائر اور زبردست جاری کھاتہ سرپلس بڑی کامیابی ہے، لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ فارن ایکسچینج کی لیکویڈیٹی کم ہے، اور درآمد کنندگان بروقت ادائیگیاں کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں مالی سال 25 کے دوران معمولی اضافہ ہوا، جو حکومتی کوششوں کے برعکس ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، 25 میں FDI 4.7 فیصد بڑھ کر 2.457 ارب ڈالر رہی۔ جون میں FDI کا حجم 206.6 ملین ڈالر رہا، جو کہ جون 2024 میں 205 ملین ڈالر تھا۔حکومت کی سرمایہ کاری کے فروغ کی کوششوں کے باوجود اندرونی اور علاقائی حالات سرمایہ کاروں کے لیے سازگار نہیں رہے۔مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جارحیت اور مسلسل مخاصمانہ رویے نے پاکستان میں سرمایہ کاری کو پرخطر بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندرونی سیاسی حالات بھی غیر یقینی کا شکار ہیں، جس سے غیر ملکی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ایران اور اسرائیل کے حالیہ تنازعے نے بھی پاکستان کو متاثر کیا، اور ایران کے ساتھ تجارت اپنی نچلی ترین سطح پر آ گئی۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ان دونوں تنازعات نے پورے خطے کو سرمایہ کاری کے لیے غیر پرکشش بنا دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صنعتی شعبے میں ملکی سرمایہ کاری بھی کم ہوئی ہے، جس کی وجہ غیر موزوں معاشی پالیسیاں اور پالیسی سازوں کے ساتھ کاروباری طبقے کے بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔اس سرپلس کی سب سے بڑی وجہ 38.3 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر تھیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ تھیں اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر کے لیے بنیادی سہارا بنی رہیں۔ اگرچہ حکومت کو امید ہے کہ اس سال پی آئی اے اور دیگر اثاثوں کی فروخت سے غیر ملکی سرمایہ آئے گا، لیکن قومی ایئر لائن کو ایک مقامی کمپنی کے حاصل کرنے کا امکان ہے لیکن ان تمام کامیابیوں کے باوجود حقیقت یہی ہے جسے ارباب حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ مالی سال 25 میں نجکاری پالیسی غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس دوران، اسٹیٹ بینک نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ حقیقی مؤثر شرح تبادلہ (REER) انڈیکس پر روپیہ 21 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گیا۔ مئی میں 97.79 پوائنٹس کے مقابلے میں جون 2025 میں REER 1.22 فیصد کم ہو کر 96.61 پوائنٹس پر آ گیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیاہے کہ حکومت کاروباری اور سرمایہ کار دوست ماحول کو مزید بہتر بنانے کے لیے ترجیحی اقدامات کر رہی ہیلیکن اب تک ایسی کوششیں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ ملک میں صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے صنعتوں میں توسیع انھیں اپ گریڈ کرنے کے کم وبیش تمام منصوبے التوا میں ڈال دیے ہیں اور غالباً دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں جس کی وجہ سے صنعتی شعبے کی کارکردگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ہے اور ہماری برآمدات میں اب تک ہونے والا اضافہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے سوا زیادہ تر غیررسمی اور زرعی شعبے کا مرہون منت رہا ہے ،اور ظاہر ہے کہ موسم جس طرح کروٹ بدل رہاہے ہم زرعی شعبے کی برآمدات پر زیادہ انحصار نہیں کرسکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔