نئی دہلی/اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 17 مئی ۔2025 )بھارت نے جنگی محاذ کے ساتھ ساتھ خارجہ اور سفارتی سطح پر ناکامی کے بعد مودی حکومت نے ایک سات رکنی وفد تشکیل دیا ہے جو دنیا بھر میں اہم شراکت دار ممالک کا دورہ کر کے انہیں ”آپریشن سندور“ اور پہلگام واقعہ بریفنگ دے گا.

(جاری ہے)

بھارتی پریس انفارمیشن بیورو کی پریس ریلیز کے مطابق وفد میں تمام سیاسی جماعتوں کے سنیئراراکین پارلیمنٹ شامل ہیں اس دورے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان بھی وفد کے ہمراہ ہوں گے پی آئی بی کے مطابق کل جماعتی وفد انڈیا کے قومی اتحاد دہلی کا موقف بین الاقوامی فورمز پر پیش کرے گا فہرست میں کانگریس پارٹی کے سنیئرراہنما ششی تھرور، بی جے پی کے رکن روی شنکر پرساد، جنتا دل یونائیٹڈ کے سنجے کمار جھا، بی جے پی کے بائیجیانت پانڈا، ڈی ایم کے پارٹی کے کنیموزی کروناندھی، این سی پی کی سپریا سولے اور شیوسینا کے ایکناتھ شندے شامل ہیں.

بھارت کے ارکان پارلیمنٹ مختلف ممالک کے سامنے جنوبی ایشیا کی صورتحال میں بھارت کی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کریں گے وفد کی قیادت پارلیمنٹ کے رکن کانگریس پارٹی کے راہنما ششی تھرور کریں گے بھارتی ارکان پارلیمنٹ کا وفد امریکا، برطانیہ، جنوبی افریقہ، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے اہم ممالک کا سفر کریں گے مودی سرکار 70 ملکوں کے اتاشیوں کو بھی صفائی پیش کرے گی امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر مسعود خان کا کہنا ہے کہ پہلگام واقعے کے بعد بھارت کو بری طرح شکست ہوئی، آثار بتا رہے ہیں کہ پہلگام واقعے اور پاکستان سے جنگ میں شکست کی شکار مودی سرکار کو سفارتی محاذ پر بھی ناکامی ہوگی .

دوسری جانب بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے بھی آپریشن سندور کو ناکام قرار دے دیا ایک انٹرویو کے دوران بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے کہا کہ آپریشن سندور ناکام ہوچکا اور امریکی صدر کے سامنے بھارتی وزیراعظم نے سرنڈر کردیا انہوں نے آپریشن سندور میں ناکامی کو مودی کے کیریئر کا سب سے بڑا دھبہ قرار دیا.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

چار محاذ، ایک ریاست؛ پاکستان کی بقا کی حقیقی لڑائی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251118-03-5
پاکستان آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں دہشت گردی کی نئی لہر محض ایک داخلی سیکورٹی چیلنج نہیں رہی، بلکہ یہ چاروں طرف سے آنے والے اسٹرٹیجک دباؤ، خطے کی طاقتوں کی نئی صف بندی، عالمی پروپیگنڈے، اور بیانیاتی جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے اپنی سرزمین پر اتنا خون دیکھا ہو، اپنی نسلوں کو اتنی اذیت سے گزارا ہو، اور پھر بھی دنیا کے سامنے اپنے آپ کو مسلسل دفاع پر مجبور پایا ہو۔ افغانستان کی جنگ، عالمی طاقتوں کی پراکسی پالیسیاں، مشرقی سرحد کے تناؤ، دہشت گردی کے حملے، اور داخلی کمزوریوں نے پاکستان کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے ایک ساتھ چار محاذوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو بتانا پڑ رہا ہے کہ وہ جنگجو نہیں، جنگ کا زخمی ہے؛ مگر افسوس یہ ہے کہ دنیا کے طاقتور حلقے آج بھی پاکستان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جیسے وہ یہ سب کچھ اپنی مرضی سے برداشت کر رہا ہو، نہ کہ عالمی فیصلوں اور علاقائی سیاست کی قیمت کے طور پر۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ 2001 سے نہیں، بلکہ 1979 سے شروع ہوتی ہے، جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا اور پاکستان کو ایک ایسی جنگ کا مرکز بنا دیا گیا جس میں شرکت ہماری اپنی ترجیح نہیں تھی۔ افغان جہاد کی دہائی میں امریکا اور مغربی طاقتوں نے پاکستان کو ایک فرنٹ لائن ریاست بنایا، مگر جب جنگ ختم ہوئی تو وہ یہاں بارود، اسلحہ، نظریاتی تقسیم، اور لاکھوں مہاجرین چھوڑ کر چلے گئے۔ 1990 کی دہائی میں افغانستان خانہ جنگی میں ڈوبا رہا اور پاکستان کو عسکریت پسندی، منظم گروہوں، ریاستی خلاؤں، اور بھارتی دباؤ کے درمیان سروائیو کرنا پڑا۔ پھر نائن الیون آیا اور پاکستان پر وہ فیصلہ تھوپ دیا گیا جو ہم نے خود نہیں کیا تھا: ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف؟‘‘ دو دہائیوں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اسی ہزار سے زائد زندگیاں کھو دیں، معیشت کو ایک کھرب ڈالر سے زیادہ نقصان پہنچا، قبائلی معاشرت اجڑ گئی، معصوم بچے، جوان، سپاہی شہید ہوئے اور ریاست ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھ گئی۔ مگر دنیا نے کبھی سوچا نہیں کہ اس جنگ کی سب سے بھاری قیمت صرف پاکستان نے ادا کی۔
مگر پاکستان کو جو سب سے بڑا خطرہ آج درپیش ہے، وہ صرف بندوقوں کا نہیں، بلکہ چار مسلسل اور بیک وقت اسٹرٹیجک پریشر پوائنٹس کا ہے۔ ایسے پریشر پوائنٹس جن کا سامنا اس وقت شاید کسی اور ریاست کو نہیں ہے۔ پہلا دباؤ مشرقی سرحد پر ہے، جہاں بھارت کے ساتھ روایتی اسکیلیشن کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کا تعلق ہمیشہ ایک ’’کانیٹک تھریٹ‘‘ کے طور پر موجود رہا ہے، اور حالیہ برسوں میں اس فضا میں ہنگامی تناؤ مزید بڑھا ہے۔ دوسرا دباؤ اسی محاذ سے جڑا ہوا نیوکلیئر ڈیٹرنس ڈائنامک ہے، جو دونوں ریاستوں کی بقا کے لیے بنیادی ستون ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس ڈیٹرنس کو ذمے داری سے مینج کیا ہے، لیکن ماضی کے کچھ واقعات نے اس حساس توازن پر غیر معمولی دباؤ ڈالا ہے، اور بھارت کی جارحانہ حکمت عملی خطے کو مزید غیر مستحکم بنا رہی ہے۔ تیسرا محاذ افغانستان اور مغربی سرحد کا ہے، جو صرف دہشت گردی تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب براہِ راست کانیٹک آپریشنز کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سرحد پار گروہوں کی بڑھتی ہوئی فعالیت، ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ، اور بدلتی ہوئی طالبان پالیسیوں نے پاکستان کی مغربی سرحد کو مستقل دباؤ کا مقام بنا دیا ہے۔ مگر چوتھا دباؤ باقی تینوں سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ وہ غیر رسمی اور غیر اقوام متحدہ منصوبہ جس کے تحت خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستانی دستے ممکنہ طور پر غزہ میں تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تنازع ہے جو عالمی سطح پر نسل کشی سمجھا جا رہا ہے اور کسی ایسے مشن میں شرکت جس کا یو این مینڈیٹ نہ ہو پاکستان کو نہ صرف خطے میں سیاسی طور پر تنہا کر سکتا ہے بلکہ داخلی سطح پر بھی شدید ردِعمل پیدا کر سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب پاکستان پہلے ہی مشرق، مغرب، اندرونی دہشت گردی اور عالمی بیانیاتی جنگ کے دباؤ میں ہے تو کیا ہم اپنی سیکورٹی فورسز کو مزید وسعت دینے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اگر ہماری افواج کسی ایسے تنازعے میں ملوث ہو جاتی ہیں جس کا بلاواسطہ تعلق پاکستان سے نہیں، تو کیا یہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، ٹی ٹی اے اور بھارت جیسی طاقتوں کے لیے ’’سنہری موقع‘‘ نہیں بن جائے گا کہ وہ پاکستان پر کئی سمتوں سے دباؤ بڑھا دیں؟ کیا پاکستان کی نیشنل سیکورٹی پالیسی میں ایسی کوئی بنیادی تبدیلی ہوئی ہے جس کا قوم کو علم ہو؟ اور کیا ہماری معیشت، سفارت کاری، اور داخلی سیاست اس نئے بوجھ کو برداشت کر سکتی ہے؟
اسی دباؤ کے بیچ ایک اور غلط فہمی ہے جس کا بوجھ پاکستان کو مسلسل اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کو ’’اسلام‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کے ساتھ جوڑنا۔ مسلمان ریاستوں اور خاص طور پر پاکستان کے بارے میں دنیا کا ایک مخصوص بیانیہ طاقت کے ایوانوں میں بنایا اور پھیلایا گیا ہے، جس میں ’’جہاد‘‘ کو ایک عسکری اصطلاح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی روایت میں جہاد کا بنیادی مفہوم ظلم کے خلاف مزاحمت، اخلاقی ذمے داری، انسانی وقار کا دفاع، اور عدل و انصاف ہے۔ مگر طاقتور ریاستوں نے اس مذہبی اصطلاح کو سیاسی مفادات کی سطح پر اتنا مسخ کر دیا کہ آج ہر دہشت گردی کے واقعے کو اسلام کے ساتھ جوڑ دینا سب سے آسان پروپیگنڈا بن چکا ہے۔ یہی غلط تعبیر پاکستان کے بیانیاتی تشخص کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کبھی بھی اس لیے نہیں لگائے گئے کہ وہ عسکریت کو پالتا ہے، بلکہ اس لیے کہ عالمی طاقتیں ’’جہاد‘‘ کو ایک convenient narrative tool کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اور چونکہ پاکستان دنیا کی واحد مضبوط ایٹمی مسلمان ریاست ہے، اس لیے اسے کمزور کرنا عالمی سیاست میں ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔
مگر پاکستان کا اصل دکھ اس غلط تعبیر سے بھی بڑھ کر ہے۔ پاکستان نے دنیا کو اپنی قربانیوں کے بارے میں سمجھانے کی ہزار کوششیں کیں، مگر وہ سنی نہیں گئیں۔ پاکستان نے اسی ہزار شہادتیں دیں، بیس سال تک خطے کی سب سے بڑی جنگ لڑی، چالیس برس افغان مہاجرین کو سہارا دیا، اپنے شہر جلتے دیکھے، مسخ شدہ لاشیں اٹھائیں، خودکش حملوں کا صدمہ برداشت کیا، اپنے اسکولوں کے بچوں کو خون میں نہاتا دیکھا، اور اپنے محافظوں کو روز قبروں کے حوالے کیا۔ اس سب کے باوجود دنیا آج بھی کہتی ہے کہ ’’پاکستان دہشت گردوں کو پالتا ہے‘‘۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ یہ وہ مقام ہے جہاں بارود سے زیادہ بیانیہ جان لیتا ہے، اور حقیقت سے زیادہ پروپیگنڈا مضبوط ہو جاتا ہے۔
آج پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ صرف سیکورٹی نہیں، بلکہ ایک مضبوط، مربوط اور عالمی سطح پر قابل ِ قبول قومی بیانیہ ہے۔ پاکستان کو دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردی کا نہ صرف شکار ہے بلکہ اس کے خلاف سب سے مؤثر جنگ لڑنے والا ملک بھی ہے۔ ہماری قربانیاں، ہمارا خون، ہماری جدوجہد؛ یہ سب دنیا کے سامنے ایک نئی زبان، نئے انداز اور ایک متحد سیاسی آواز کے ذریعے لانا ہوں گی۔ داخلی اتحاد، معاشی استطاعت، سفارتی توازن، اور بیانیاتی جنگ کی مضبوط حکمت ِ عملی یہ سب آج پاکستان کی بقا کے ستون ہیں۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے، تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ تاریخ ہمیشہ یہ لکھے گی کہ پاکستان دہشت گردی کا ملک نہیں، دہشت گردی کا زخمی ہے۔ اور جب زخمی سچ بولتا ہے، تو اس کی آواز دیر سے سہی، مگر دنیا تک ضرور پہنچتی ہے۔

رمیصاء عبدالمھیمن سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان پر دو بڑے سائبر حملے ناکام بنائے جانے کا انکشاف
  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • 28ویں آئینی ترمیم جلد پیش کی جائے گی، مقامی حکومت، این ایف سی اور صحت کے امور شامل ہوں گے: رانا ثناء اللہ
  • سفارتی  سطح  پر بڑی  کامیابیاں ‘ وزیراعظم  ‘ فیلڈ  مارشل  کا اہم  کردار : عطاتارڑ
  • چار محاذ، ایک ریاست؛ پاکستان کی بقا کی حقیقی لڑائی
  • پچھلی جنگ صرف ٹریلر تھا فلم ابھی باقی ہے، بدترین رسوائی کے بعد بھارتی آرمی چیف کی بڑھک
  • 28ویں آئینی ترمیم جلد پیش کی جائے گی، مقامی حکومت، این ایف سی اور صحت کے امور شامل ہوں گے: رانا ثناء اللہ:
  • مودی سرکار کی کینیڈا اور امریکا میں مبینہ مداخلت پر نئے انکشافات
  • بھارت کی فوج میں بڑھتی بےچینی، بھارتی آرمی چیف کا ملکی دفاعی صنعت پر عدم اعتماد کا اظہار