مسلمانوں کے مسائل کا حل ۔ باہمی اتحاد
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
عالمی سیاست ہمیشہ طاقت کے توازن میں ہی رہی ہے، معاشی اور فوجی محاذ پرطاقتور ممالک ہی دنیا کی سیاست کو اپنے اپنے انداز سے چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اس انداز کا ایک واضح اشارہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ الفاظ ہیں جو انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے موقع پر کہے کہ اگر دونوں ممالک نے امریکا کے ساتھ تجارت کرنی ہے تو فوری طور پر جنگ بندی کردیں ورنہ امریکا اپنے تجارتی تعلقات ختم کر دے گا، یہ وہ واضح معاشی دھمکی تھی جس کا برملا اظہار امریکی صدر نے کر دیا۔
اس کے پس پردہ کیا کیا عوامل رہے ہوں گے، ان کے بارے میں چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ جیسے ہی امریکا کو اپنے مواصلاتی ذرایع سے اس عمل کی بھنک پڑ گئی کہ پاکستان بھارت کے خلاف ایک ایسی جنگ شروع کرنے کو جارہا ہے جس سے اس کا پروردہ بھارت تہس نہس ہو جائے گا تو وہ فوراً بیچ میںکود پڑے اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کرادی۔ پاکستان اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہے اوراس طاقت سے نہ صرف اس کا دشمن بھارت خائف ہے بلکہ مغربی طاقتیں بھی پاکستان کی اس طاقت کو اپنے لیے ایک مستقل خطرہ سمجھتی ہیں۔
امریکا، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ دن بہ دن مضبوط ہوتا جا رہا ہے ۔ بھارت کے جارحانہ عزائم نے اس گٹھ جوڑ کی قلعی کھول دی اور اسرائیلی ساختہ ڈرونز کا پاکستان پر حملہ اس گٹھ جوڑ کا عملی ثبوت ہے ۔
امریکی صدر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکا پاکستان کو فراموش نہیں کر سکتا ، انھوں نے پاکستانی ذہنوں کو حیرت انگیز اشیاء بنانے والا ذہن بھی قرار دیا ہے، وہ شاید یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان کے پاس ایسی حیرت انگیز اشیاء موجود ہیں جو جنگ کے میدان میں حشر برپا کر سکتی ہیں اور اگر جنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن میں بگاڑ آگیا تو پھر بات دور تلک جائے گی۔
فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کا ظلم دنیا کے سامنے ہے۔اسرائیل نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے جب کہ ایسے ہی مظالم بھارت کشمیر کے مسلمانوں پر کر رہا ہے۔ دونوں خطوں میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔ اسرائیل فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے یہودی بستیوں کی تعمیر میں مصروف ہے۔
بھارت نے بھی غیر کشمیریوں کو کشمیر میں آباد کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ مسلم اکثریت کو ختم کیا جا سکے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آواز کو نہ صرف دبایا جا رہا ہے بلکہ ان کی مزاحمت کو دہشتگردی کا نام دے دیا گیا ہے۔اب ایک ایسے موڑ پر جب پاکستان اور بھارت دنیا کی دو بڑی فوجی طاقتوں کے درمیان کشیدگی عروج کو چھو رہی ہے۔ ان حالات میں امریکا یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان بھارت کو جنگی میدان میں ہزیمت سے دوچار کر دے ۔ابھی ایک مختصر ہی جنگ میں پاکستان نے بھارتی جارحیت کو جس طرح پاش پاش کیاہے، مسلم دنیاا س پر شاداں و فرداں ہے اور یہ امریکا کو قبول نہیں ہے۔
بھارت کے جانب سے جنگی جارحیت کا پاکستانی افواج جس برق رفتاری سے جواب دیا اور اپنے اہداف کو کامیابی سے حاصل کیا، اس عظیم کامیابی پر بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ بھارتی میڈیا کھل کر اپنے حکمرانوں کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہے ، پاکستانی میڈیا کو اس بات کی ضرورت ہی نہیںپڑی کہ وہ بھارت کے میڈیا کا مقابلہ کرے، اس کے حصے کاکام بھارتی میڈیا نے بخوبی کر دیا ہے البتہ پاکستانی میڈیا نے بھارتی پراپیگنڈے کو موثر طور پر ناکام بنایا اور دنیا کو پاکستان کی کامیابیوں کی مثبت اطلاعات فراہم کیں جس پر دنیا بھر میں پاکستانی میڈیا کو سراہا جارہا ہے۔
پاکستانی عوام جو مختلف سیاسی پارٹیوں کی حمائیت میں اپنے آپ کو تقسیم کر چکے تھے اور ان کی پسند و ناپسند انتہائی تشویشناک حد وں کو بھی عبور کر چکی تھی، بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ نے قوم کو ایک بار پھر نہ صرف متحد کر دیا بلکہ پوری دنیا اور خاص طور پر دشمن بھارت کو یہ واضح پیغام چلا گیا کہ جب پاکستان کی سلامتی کا معاملہ تو پاکستانی قوم متحد اور یکجان ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں بالخصوص تحریک انصاف کی قیادت چاہے وہ اسمبلیوں میں موجود تھی یا جیل میں ان سب نے پاکستان کی سلامتی کے موڑ پر واضح پاکستانی موقف اپنایا اور اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عملی ثبوت بھی دیا ۔سوشل میڈیا واریئرز نے بھارتی پراپیگنڈے کا موثرجواب اور پاکستان کے موقف کو تقویت دینے میںتحریک انصاف نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ۔ خدا کرے کہ قومی یکجہتی کا جو ڈول ڈالا گیا ہے، اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں اور قوم کی سیاسی قیادت بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کی ترقی کے عمل میں یک جان دوقالب ہو جائیں۔
وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے پاکستان کے امن پسندانہ موقف کو دنیا بھر میں پہچانے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کمر کس کر چکے ہیں اور وہ دنیا بھر کے ممالک کے دوروں کے دوران کشمیر پر بھارتی جارحیت اور پاکستان کے دریاؤں کا پانی بند کرنے کی مذموم بھارتی کوششوں کو دنیا کے سامنے رکھیں گے۔
پاکستان کی جانب سے یہ عملی قدم پاکستان کے پر امن موقف کو تقویت دے گا ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کی کشمیری اور آبی جارحیت کو کھل کر بے نقاب کیا جائے اور پاکستان کے موقف سے دنیا کو آگاہ کیا جائے، خارجہ محاذ پر یہ حکمت عملی پاکستانی کے امن پسندانہ موقف کو مزید تقویت دے گی۔
مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے مسائل کا حل صرف باہمی اتحاد میں پنہاںہے۔ امریکا، بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ عزائم کا مقابلہ صرف باہمی اتحاد سے ممکن ہے۔ مسئلہ کشمیر اور فلسطین جب تک حل نہیں نکلتا، دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ دن دور نہیں جب ہر مسلمان ملک لیبیا، عراق، افغانستان اور شام جیسا بن جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے پاکستان کی بھارت کے دنیا بھر موقف کو دیا ہے کر دیا
پڑھیں:
مسئلہ کشمیر میں امریکی دلچسپی: چند تاریخی حقائق
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب ، عاصم افتخار احمد ، نے ایک انٹرویو میں کہا ہے :’’ مسئلہ کشمیر (تازہ پاک بھارت جنگ کے بعد) پھر (عالمی سطح پر) زندہ ہو گیا ہے‘‘۔ لاریب!حالیہ 6تا 10مئی2025 کی مختصر مگرنتیجہ خیز پانچ روزہ جنگ میں واضح طور پر پانسہ پاکستان کے حق میں پلٹا رہا ۔بھارت مگر ڈھٹائی سے مان نہیں رہا ۔
’’انڈیا ٹوڈے‘‘ سے وابستہ نامور بھارتی اخبار نویس ،سرڈیسائی راجدیپ، نے صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ تازہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے بھارت کے جنگی طیارے مار گرائے ، لیکن اِن کی تعداد کتنی تھی ، یہ نہیں معلوم ۔ بھارت نے اپنی جنگی شکست کو سفارتی فتح میں بدلنے کے لیے اپنے 7سفارتی وفود( جن میں51سیاستدان شامل تھے اور اِن کی قیادت کانگریس کے ششی تھرور کررہے تھے) دُنیا بھر میں بھجوائے، بات مگر پھر بھی نہیں بنی ۔
مودی حکومت اور کئی بھارتی سیاستدان اِس بات پر نالاں اور ناراض ہیں کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، یہ دعویٰ کیوں کرتے ہیں کہ حالیہ پاک بھارت جنگ امریکا نے رکوائی۔ اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کا دل رکھنے اور لبھانے کے لیے بھارتی نیتاؤں کا دعویٰ ہے (اور غلط دعویٰ ہے) کہ یہ پاکستانی DGMOتھے جنھوں نے بھارتی DGMOسے ، عین جنگ کے دوران، رابطہ کیا اور یوں دونوں ممالک میں ، افہام و تفہیم سے، سیز فائر ہو گیا ۔ حقائق مگر واضح ہیں کہ پاکستانی افواج کے ہاتھوں عبرتناک شکست دیکھ کر بھارت نے امریکا سے رابطہ کیا اور جنگ بندی کی درخواست کی ۔
بھارت،ایک وسیع ایجنڈے کے تحت، مگر یہ ماننے سے انکاری ہے کہ کسی تیسرے فریق نے ( موثر) بیچ بچاؤ کرتے ہُوئے پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کروائی۔ بھارتی اپوزیشن پارٹی، کانگریس، بڑھ چڑھ کر مقتدر بی جے پی کے لتّے لے رہی ہے کہ جنگ بندی کے لیے تھرڈ پارٹی ( امریکا) کا دباؤ کیوں قبول کیا ؟ مثال کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس کے جنرل سیکریٹری اور رکن پارلیمنٹ، جئے رام رمیش، نے کہا :’’ بھارتی ارکانِ پارلیمنٹ کا فُل ہاؤس اجلاس ، وزیر اعظم نریندر مودی کے زیر صدارت، بلانا چاہیے اور پوچھا جانا چاہیے کہ پاک بھارت جنگ بندی اور امریکی صدر (ڈونلڈ ٹرمپ)کا یہ دعویٰ کہ مَیں کشمیر پر بھی پاکستان اور بھارت کو اکٹھا کروں گا، در حقیقت بھارت اور امریکا کے درمیان کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ ‘‘ جئے رام رمیش نے مزید مطالبہ کیا:’’ ہمیں مودی حکومت اور مقتدر بی جے پی بتائے کہ آپریشن سندور کا نتیجہ کیا نکلا؟ پہلگام کے ذمے داران کی گرفتاریوں کا کیا بنا؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ آیا پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطے بحال ہونے جا رہے ہیں؟ کیا ہم نے مسئلہ کشمیر پر تھرڈ پارٹی (امریکا) کی ثالثی قبول کر لی ہے؟‘‘۔
اصل یہ ہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے حالیہ ایام میں مسئلہ کشمیر بارے جو موقف اختیار کیا ہے ، اِس کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کا محل لرز کررہ گیا ہے۔ پچھلے75برسوں سے بھارتی بنیا اپنے چانکیائی ہتھکنڈوں کے تحت ، مسئلہ کشمیر پر، دُنیا کو جس طرح گمراہ کرتا چلا آ رہا ہے اور مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو جس بہیمیت سے پسِ پشت ڈالتا رہا ہے ، اب اس کی بنیادیں ہل گئی ہیں ۔
90ء کے عشرے میں جب نائب امریکی وزیر خارجہ ( برائے جنوبی و وسطی ایشیا امور) رابن رافیل نے امریکی سوچ کی عکاسی کرتے ہُوئے مسئلہ کشمیر پر کھل کر بیان دیا تھا ، تب بھی نئی دہلی کو اِس سے بڑی تکلیف پہنچی تھی ۔ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پیدا ہوتے ہی امریکا نے، اپنے تئیں، اِسے سلجھانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں ، لیکن خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکا ۔ امریکا کی اِن کوششوں کا باقاعدہ آغاز 1950 سے ہوتا ہے ۔ اُن دنوں سرد جنگ ( سوویت رُوس اور امریکا کے درمیان) عروج پر تھی۔ امریکی سوچ تھی کہ اگر وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کو راضی کر لیتا ہے تو اُسے (سوویت رُوس کے مقابل) جنوبی ایشیا میں اطمینان رہے گا ۔
اِس پس منظر میں اگر ہم نامور سابق امریکی سفارتکار ہوورڈ بی شیفر (Howard B Schaffer) کی معرکہ خیز کتاب The Limits of Influence: America,s Role in Kashmirکا مطالعہ کریں تو انکشاف ہوتا ہے کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی ہی کے زمانے سے امریکا ،اپنے مفادات کی خاطر، مسئلہ کشمیر حل کروانے کی کوششیں کرتا رہا ہے ۔
اِن کوششوں کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ اگر امریکا مسئلہ کشمیر حل کروا دیتا ہے تو یہ کامیابی اُسے سوویت رُوس کے مقابل فتح سے ہمکنار کرے گی۔ اِسی مقصد کے لیے ، مذکورہ کتاب کے مصنف شیفر کے بقول، امریکی صدر ( کینیڈی) نے اپنا ایک خاص نمایندہ ( W Averell Harriman) پاکستان اور بھارت بھیجا۔ کینیڈی نے اپنے اس نمایندہ خصوصی ، ہیری مین، کو بھارتی وزیر اعظم ( جواہر لعل نہرو) اور صدرِ پاکستان ( جنرل ایوب خان) کے نام الگ الگ خطوط بھی ارسال کیے ۔ اِن خطوط میں مبینہ طور پر پاکستان اور بھارتی سربراہان کو زوردار الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے، براہِ راست، مل بیٹھنے پر اصرار کیا گیا تھا ۔ شومئی قسمت سے یہ امریکی کوشش بھی ناکامی پر منتج ہُوئی ۔
امریکی مصنف (Howard B Schaffer) نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ساٹھ کے عشرے میں چین کے ہاتھوں بھارت کے شکست کھا جانے کے بعد ایک بار پھر امریکا نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کو بٹھانے کی کوشش کی۔ اِس مقصد کے لیے ، بقول مصنف، 1962-63، میں پاکستانی وزیر خارجہ ( ذوالفقار علی بھٹو) اور بھارتی وزیر خارجہ ( سردار سورن سنگھ) میں جو تفصیلی ملاقاتیں ہُوئی تھیں، وہ امریکا ہی کی بدولت تھیں۔
یہ کوششیں بھی مگر بے ثمر ثابت ہُوئیں ۔ اِس ناکامی کی وجہ بھی بھارت ہی تھا ۔ شیفر لکھتا ہے کہ بھارت ڈھٹائی سے مقبوضہ کشمیر سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے سے انکاری تھا اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے ( Plebiscite)سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اِن پے در پے ناکامیوں کے بعد مسئلہ کشمیر پر امریکی کوششیں ، رفتہ رفتہ، تقریباً ماند پڑتی چلی گئیں۔پاکستان اور بھارت میں مگر کشیدگی بھی بدستور جاری رہی ۔
لیکن ایک سُپرپاور ہونے کے ناتے امریکا جنوبی ایشیا کے دونوں ممالک کے آئے روز کے محاربے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا تھا ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’کارگل‘‘ کا خونی معرکہ شروع ہُوا اور اِس سے قبل کہ یہ معرکہ باقاعدہ کسی بڑی جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ، امریکا نے آگے بڑھ کر اور بیچ بچاؤ کرواتے ہُوئے دونوں ممالک میں سیز فائر کروا دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اِس کے لیے اُس وقت کے وزیر اعظم ، جناب نواز شریف ، کو واشنگٹن جا کر ذاتی حیثیت میں بھی امریکی صدر (بل کلنٹن) سے خصوصی گزارشات کرنا پڑی تھیں ۔ اور جب پاکستان کے خلافOperation Parakramکے تحت بھارت اپنی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر لے آیا تھا ( پاکستان پر ایک سنگین الزام عائدکرتے ہُوئے ) تو اُس وقت بھی یہ امریکا ہی تھا جس نے اپنی وزیر خارجہ (کونڈو لیزا رائس) کے توسط سے پاکستان اور امریکا کے درمیان امن قائم کروایا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں پاکستانی صدر ( جنرل پرویزشرف) اور بھارتی وزیر اعظم ( اٹل بہاری واجپائی ) کے درمیان (آگرہ میں) جو مذاکرات ہُوئے ، وہ بھی امریکی درمیان داری کا نتیجہ تھے ۔ مسئلہ کشمیر کے کسی حل کے لیے یہ مذاکرات بھی ناکام رہے ۔ یہ ناکامی بھی دراصل بھارتی ڈھٹائی کا نتیجہ تھی ۔
اور صدر پرویز مشرف سے پہلے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جب وزیر اعظم ، جناب نواز شریف، کے دَور میں لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر حاضری بھی دی ، تو خیال یہی تھا کہ اب پاک بھارت حالات دگرگوں نہیں رہیں گے ۔ لیکن یہ اُمید بَر نہیں آئی ۔ واجپائی اور نواز شریف ملاقات کسی تیسرے فریق کے بغیر تھی ۔ مگر اب ایک بار پھر ، تھرڈ پارٹی کی حیثیت میں ، امریکا کو پاک بھارت کشیدگی کم کروانے کے لیے قدم آگے بڑھانا پڑے ہیں ۔ اور بھارت منافقت کرتے ہُوئے اِس اقدام پر چیں بہ جبیں ہورہا ہے ۔