سپریم کورٹ: ججز کا تبادلہ صدر مملکت کا آئینی اختیار ہے: جسٹس علی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
اسلام آباد(آئی این پی)سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ ججز کا تبادلہ صدر مملکت کا آئینی اختیار ہے، آپ درخواست گزاران کے وکلا کے دلائل میں اختلاف ہے، آپ نے دلائل میں کہا ٹرانسفر ہونے والے جج کو نیا حلف لینا پڑے گا اور دوسری طرف کہا جا رہا ہے ٹرانسفر مستقل نہیں ہو سکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر اور سینارٹی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ آئینی بینچ نے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں ججز سے ٹرانسفر پر رضامندی نہیں پوچھی جاتی، اس لیے ججز سنیارٹی کے ساتھ ٹرانسفر ہوتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے لیے ججز کی تقرری لازمی ہے، صدر پاکستان کے لیے جج کا تبادلہ کرنا لازمی نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ صدر مملکت کے تبادلہ کا آئینی اختیار ہے، صدر مملکت کو تبادلہ کے لیے کوئی کیسے انفورس کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ دلائل ججز کے ٹرانسفر تک محدود رکھیں۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے دلائل کے آغاز میں کہا تھا کہ ججز ٹرانسفر پر صدر کے اختیار کو نفی نہیں کرتے۔ جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ آپ کا کہنا تھا دلائل میں سنیارٹی کے ایشو کو فوکس کروں گا۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا نقطہ ہے جج کا تبادلہ ٹائم باونڈ ہے، فیڈرل شریعت کورٹ میں ہائیکورٹس سے ججز تعینات ہوتے ہیں۔ ان ججز کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے تبادلہ کے ایشو سے کیا تعلق ہے۔ ہائیکورٹ سے جج کی شریعت کورٹ میں تعیناتی کا درجہ اوپر ہے، ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں جج کا تبادلہ کا اسٹیٹس برابر ہوتا ہے۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس آصف ایڈیںشنل جج تھے، ایڈیںشنل جج کی تبادلہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کیسے تقرری ہو سکتی ہے، کیا جوڈیشل کمیشن جسٹس آصف کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی کارکردگی کی بنا پر مستقل کرنے کا فیصلہ کرے گا، ججز کی مستقل ٹرانسفر نہیں ہو سکتی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ آپ کہتے ہیں ان ججز کی ٹرانسفر ٹائم باونڈ نہیں ہے، فرض کریں اگر انہی ججز کو دوبارہ سے ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو انکی پھر وہاں پر کیا سنیارٹی ہوگی، جب ججز دوبارہ سے اپنی ہائیکورٹ میں جائیں گے تو پھر یہ سنیارٹی کا مسئلہ ہو جائے گا، انڈیا میں ٹرانسفر ججز کی سنیارٹی طے ہے لیکن ہمارے پاس مسئلہ ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ بھارت میں سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ انڈیا میں ٹرانسفر ججز حلف لیتے ہیں، شریعت کورٹ اور ہائیکورٹ میں جب قائم مقام چیف جسٹس بنتے ہیں تو حلف لیا جاتا ہے، ٹرانسفر جج کے واپس جانے پر ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ دوبارہ سے انکی سنیارٹی نیچے سے شروع ہو۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے مزید ریمارکس دیئے کہ اگر ٹرانسفر کیا جانا ہوتا تو قانون میں ایسا لکھ دیا جاتا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ وکیل فیصل صدیقی نے شریعت کورٹ کا تبادلہ صدر مملکت نے کہا کہ کورٹ میں نہیں ہو ججز کی کے لیے
پڑھیں:
گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ کے فریقین کو نوٹسز جاری
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی سے متعلق کیس میں فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس امین الدین نے کامران ٹیسوری کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں پارٹی کو بٹھا کر آپ خود ہی فیصلہ کر لیں۔ جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ اس میں قانونی چارہ جوئی کا مرحلہ کون سا ہے۔
وکیل عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ایک ہی سماعت پر فیصلہ کر دیا، سندھ ہائی کورٹ میں جو تاریخ دی گئی ہم پیش ہوئے لیکن بغیر نوٹس کے فیصلہ کر دیا گیا۔
اسپیکر کے وکیل نے عدالت میں استدعا کی کہ اسپیکر نے مجھے کل سے رابطہ کیا ہے، تیاری کے لیے وقت دیا جائے۔
عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔