فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ انسانیت سے جڑے عالمی حساسیت کے لیے ایک بہت بڑا سوال ہے جس کے حل کے لیے پوری دنیا کے انسان دوست حلقے فکرمند ہیں۔ ابھی حال ہی میں ’’فریڈم فوٹیلا کولیشن‘‘ نے ایک بار پھر غزہ کے ظالمانہ محاصرے کے خلاف اپنی مزاحمتی مہم کو عملی جامہ پہنایا ہے۔
امدادی کشتی "Madleen"، جو برطانیہ کے پرچم تلے انسانی ہم دردی کی اشیاء، جیسے آٹا، چاول، بچوں کا دودھ، طبی آلات، اور واٹر فلٹریشن ڈیوائسز لے کر روانہ ہوئی تھی، بین الاقوامی پانیوں میں اسرائیلی بحریہ کی جانب سے روک لی گئی۔ اس کشتی پر معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، فرانسیسی ایم ای پی ریما حسن، اور الجزیرہ کے صحافی سمیت بارہ کارکنان سوار تھے، جنہیں بعد ازآں اسرائیلی بندرگاہ اشدود منتقل کر کے حراست میں لے لیا گیا۔ اسرائیلی حکام نے اس کارروائی کو علامتی مظاہرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حقیقی امداد باقاعدہ چینلز کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے، جب کہ فوٹیلا اتحاد اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے اغوا اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔
فرانس، اسپین، ترکی اور دیگر ممالک نے اسرائیلی اقدام کی شدید مذمت کی، جب کہ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے بھی اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا الزام عائد کیا۔ اگرچہ چند افراد کو واپس بھیجا جاچکا ہے، تاہم بیشتر کارکنان تاحال اسرائیلی تحویل میں ہیں۔ اس واقعے نے غزہ کی ناکا بندی پر عالمی توجہ دوبارہ مرکوز کی ہے۔ فوٹیلا اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سلسلے کو مزید کشتیوں کے ذریعے جاری رکھے گا، جو نہ صرف غزہ کے لیے امداد بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا پیغام بھی لے کر روانہ ہوں گی۔
فریڈم فوٹیلا کے علاوہ بھی روزانہ بیسیوں ایسی خبریں عالمی منظرنامہ کا حصہ بنتی ہے جس سے اس انسانیت سوز بربریت کا پتا چلتا ہے۔
یہ المیہ آج کل کی بات نہیں، کئی عشروں سے فلسطین اس خوںریزی و نسل کشی کا شکار ہے۔ مغربی میڈیا اس حوالے سے جب اتنا متحرک نہیں تھا، سوشل میڈیا کا پُرزور اور متحرک میڈیم بھی نہیں تھا، تب بھی ایڈورڈ سعید اور رابرٹ فسک جیسے کہنہ مشق و انسان دوست صحافی، مصنف و محقق مغربی میڈیا میں انسان کشی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے تھے۔
اس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ ان نابغہ روزگار کی شخصیات کی فلسطینیوں کے حق میں جدوجہد کو کسی حد تک قلم بند کیا جاسکے۔
ایڈورڈ سعید مغربی دنیا میں فلسطین کی سب سے بڑی آواز رہا ہے۔ ایڈورڈ ودیح سعیدEdward Wadie Said یکم نومبر 1935کو یروشلم میں ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات 25 ستمبر 2003 کو نیویارک میں ہوئی۔
ایڈورڈ سعید فلسطینی نژاد امریکی ادبی تھیورسٹ تھے۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے اہم ترین فلسطینی اور بلکہ عرب دانش وروں میں ہوتا ہے۔ ایڈورڈ سعید نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں ادبی تنقید اور تقابلی ادب کے یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور نوآبادیاتی مطالعے کے بانی شخصیات میں سے ایک تھے۔ فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کے محافظ رابرٹ فسک (جن کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے) نے انہیں فلسطینی کاز کے دفاع میں سب سے موثر آواز قرار دیا ہے۔ انہیں بیسویں صدی کے دس اہم ترین مفکرین میں شمار کیا جاتا ہے اورینٹلزم ان کی مشہور کتاب ہے۔
ایڈورڈ سعید، جو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے مغربی بیانیے کے سب سے شدید ناقد سمجھے جاتے ہیں، فلسطین کے مسئلے پر نہ صرف علمی انداز میں قلم اٹھاتے رہے بلکہ ایک فلسطینی مہاجر کی حیثیت سے انہوں نے اس بحران کو ذاتی درد اور عالمی انصاف کے زاویے سے بیان کیا۔
ان کی کتاب The Question of Palestine (1979) میں فلسطین کے تاریخی، سیاسی اور اخلاقی تناظر کو عالمی ضمیر کے سامنے رکھتے ہوئے صہیونی تحریک کے پس منظر، اسرائیلی ریاست کے قیام، اور مغربی جانبداری کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
ان کے نزدیک فلسطینیوں کا مقدمہ صرف زمین کا تنازعہ نہیں، بلکہ ایک قوم کی شناخت، حق خودارادیت، اور استعمار سے نجات کا مقدمہ ہے۔
ایڈورڈ سعید نے فلسطینیوں کو مظلوم اور بے زبان قوم کے طور پر پیش نہیں کیا، بلکہ انہیں مزاحمت، روایت اور ثقافت سے جڑی ہوئی ایک باشعور قوم کے طور پر دیکھا، جسے اس دور کے عالمی بیانیے میں یا تو نظرانداز کیا یا یک طرفہ طور پر مجرم ٹھہرایا گیا۔
ان کی تحریریں اسرائیلی قبضے کے سیاسی و اخلاقی جواز کو رد کرتی ہیں اور مغربی میڈیا میں موجود تعصبات کو بے نقاب کرتی ہیں۔ جیسا کہ ان کی مشہور کتاب Covering Islam: How the Media and the Experts Determine How We See the Rest of the World (1981) میں بھی واضح کیا گیا۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ مؤقف پیش کیا کہ کس طرح مغربی میڈیا اسلامی دنیا کو غیرمنطقی، پرتشدد اور پس ماندہ ظاہر کرکے ایک منفی بیانیہ تشکیل دیتا ہے، اور فلسطین اس منفی رویے کا سب سے بڑا شکار ہے۔ ایڈورڈ سعید کا مؤقف یہ تھا کہ فلسطین کی آزادی صرف سیاسی معاہدوں سے نہیں بلکہ بیانیہ کی فتح، عالمی بیداری اور انصاف پر مبنی فکری مزاحمت سے ممکن ہے۔
ان کی آخری تحریروں میں، خاص طور پرFrom Oslo to Iraq and the Roadmap (2004) میں انہوں نے اوسلو معاہدے (1993) کی خامیوں اور فلسطینی قیادت کی کم زوریوں پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قیادت نے اپنی تاریخی جدوجہد کو محدود مفاہمت کی سیاست میں دفن کردیا، اور اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر اخلاقی جواز حاصل کرنے میں مدد دی۔
ایڈورڈ سعید نے ہمیشہ دوٹوک الفاظ میں کہا کہ فلسطینی شناخت اور آزادی کسی سیاسی رعایت کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک بھرپور تہذیبی، فکری اور اخلاقی جدوجہد بھی درکار ہے، جس کا محاذ تحریر اور شعور ہے۔
ایڈورڈ سعید خود مغربی علمی اداروں کا حصہ رہے، بالخصوص انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی (نیویارک) میں کئی دہائیوں تک تقابلِ ادب اور سماجیات کے پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کی۔ ان کی فکر کو مغرب کے علمی حلقوں میں ایک غیرمعمولی اور انقلابی آواز کے طور سنا جاتا تھا ۔ وہ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کرتے رہے بلکہ نوآبادیاتی فکر، ثقافتی بالادستی اور علمی تعصب کے خلاف ایک منظم فکری تحریک کے بانی شمار ہوتے ہیں۔
ان کا علمی ورثہ آج بھی فلسطینی شناخت، خودمختاری اور مزاحمت کے فکری ستون کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، ایڈورڈ اپنی مسلسل جدو جہد کی بنا پر انسانیت کے ضمیر کی آواز بن کر ابھرے جنہوں نے اپنے قلم سے فلسطین کی بے بسی کو عالمی شعور میں بدلنے کی کوشش کی۔ بہت سی دوسری مشہور و عالمی شخصیات کی طرح ان پر بھی تنقید کی جاتی ہے ۔ ایڈورڈ سعید پر کی جانے والی تنقید کا دائرہ ان کے فکری، سیاسی اور ذاتی حوالوں تک پھیلا ہوا ہے، اور یہ تنقید بنیادی طور پر تین سطحوں پر سامنے آئی: مغربی علمی حلقوں سے، اسرائیلی و صہیونی لابیوں سے، اور چند عرب اور فلسطینی مفکرین سے بھی۔
سب سے زیادہ تنقید ان کی شہرۂ آفاق کتاب Orientalism (1978) پر کی گئی، جس میں انہوں نے دلیل دی کہ مغرب نے مشرق (خصوصاً عرب و اسلامی دنیا) کی ایک تصوراتی، استشراقی اور کم تر تصویر بنائی ہے تاکہ اپنی علمی اور سیاسی بالادستی کو قائم رکھ سکے۔
معروف امریکی مؤرخ برنارڈ لیوس (Lewis Bernard ) نے ایڈورڈسعید پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے علمی تاریخ کو سیاسی نظریات کی بھینٹ چڑھایا اور مستند علمی روایت کو دانستہ مسخ کیا۔ لیوس اور دیگر نقادوں کے مطابق سعید نے استشراقی روایت کو یک طرفہ طور پر مجرم ٹھہرایا اور مغربی اسکالرشپ کے مثبت پہلوؤں کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا۔ علاوہ ازیں، چند محققین نے یہ بھی کہا کہ Orientalism میں تنقیدی تھیوری کو جذباتی بیانیے پر فوقیت دی گئی، جس سے علمی توازن متاثر ہوا۔
فلسطین کے مسئلے پر ان کی واضح پوزیشن، خصوصاً اسرائیل کی صہیونی بنیادوں پر تنقید، انہیں مغربی میڈیا، سیاسی حلقوں اور اسرائیلی مفکرین کی نظر میں غیرمعتبر بنانے کا سبب بنی۔ بعض امریکی اور اسرائیلی دانش وروں نے انہیں ’’دہشت گردوں کا نظریاتی پشت پناہ‘‘ قرار دیا، خاص طور پر جب انہوں نے فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے بیانیے کو سمجھنے اور اس کے اسباب پر بات کی۔ ان کی اسرائیلی قبضے کے خلاف شدید تنقید، اور فلسطینی مزاحمت کے حق میں فکری و اخلاقی دلائل نے انہیں صہیونی حلقوں میں سخت مخالفت کا نشانہ بنایا۔ 2000 میں لبنان کے ایک دورے کے دوران جب انہوں نے جنوبی لبنان میں اسرائیلی سرحد کے قریب ایک پتھر پھینکا — ایک علامتی فعل جو اسرائیلی قبضے کے خلاف احتجاج سمجھا گیا تو مغربی میڈیا نے اس پر خاصا شور مچایا اور ان کے عمل کو اشتعال انگیزی سے تعبیر کیا، حالاںکہ وہ خود اسے ایک غیرپرتشدد علامتی احتجاج قرار دیتے رہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ خود عرب دنیا کے بعض حلقوں، خاص طور پر روایتی اور قدامت پسند سوچ رکھنے والے دانش وروں نے بھی ان پر تنقید کی۔ بعض نے ان پر یہ اعتراض کیا کہ وہ مغربی تعلیمی نظام کا حصہ رہ کر مغرب ہی کے نظریاتی ڈھانچے سے لڑنے کی کوشش کر رہے تھے، جو بظاہر تضاد کا شکار ہے۔ کچھ عرب ناقدین نے یہ بھی کہا کہ ان کی تحریریں مغربی قاری کو متاثر کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں اور عام عرب عوام کے لیے قابل فہم یا مفید نہیں۔
اس تمام تر تنقید کے باوجود، ایڈورڈ سعید نے کبھی اپنے مؤقف سے انحراف نہیں کیا۔ انہوں نے اختلافات کا جواب علمی دلائل، سیاسی فہم اور اخلاقی استقامت سے دیا۔ ان کے نزدیک فکری جدوجہد، صرف سچ بولنے کا نام ہے — خواہ وہ سچ طاقت وروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ ان کی یہی استقامت انہیں محض ایک نظریہ ساز نہیں بلکہ ایک ’’عالمی ضمیر‘‘ کے طور پر ممتاز کرتی ہے، جس کی صدائے احتجاج آج بھی سامراج، ظلم، اور فکری جبر کے خلاف بلند سنائی دیتی ہے۔
اس علمی و شعوری جدوجہد میں دوسرا بڑا نام رابرٹ فسک کا ہے۔
رابرٹ فسک (1946–2020) بیسویں اور اکیسویں صدی کے اْن نمایاں ترین صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے صحافت کو صرف خبر رسانی تک محدود نہیں رکھا بلکہ انسانیت کی بہتری کے حوالے سے صحافت کو مؤثر انداز میں بروئے کار لائے۔
برطانوی نژاد بے باک صحافی مشرق وسطیٰ کے ان میدانوں میں اترے جہاں طاقت، مذہب، جنگ اور سیاست کی گرد میں سچ دب چکا تھا۔ انہوں نے Times Theاور بعد ازآں Independent Theکے لیے چار دہائیوں تک مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ خطوں سے رپورٹنگ کی۔ ان کی تحریریں ہمیشہ طاقت وروں سے سوال اور مظلوموں کے زخموں کی ترجمان ہوتی تھیں۔
رابرٹ فسک کی شہرہ آفاق کتاب The Great War for Civilisation: The Conquest of the Middle East ان کے کیریئر کا نچوڑ ہے، جو صحافت، تاریخ، سیاست، جنگ اور انسانی المیے کا مفصل
بیان ہے۔ اس کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ تہذیب کے نام پر لڑی گئی جنگیں درحقیقت طاقت کے کھیل تھے، جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو بے گھر، بے بس، اور بے آواز بنادیا۔ فسک افغانستان کی تاریخ بیان کرتے ہیں، جہاں سوویت حملے سے لے کر امریکی مداخلت اور طالبان کی پیدائش تک کا سفر ایک سچے گواہ کی زبان سے سنائی دیتا ہے۔ ایران کے باب میں وہ آیت اللّہ خمینی کے انٹرویوز، انقلاب کے بعد کی خوںریزی، اور ایران-عراق جنگ میں زہریلی گیس کے استعمال جیسے ناقابل فراموش واقعات کو زندہ کرتے ہیں۔
عراق میں وہ صدام حسین کی آمریت کے ساتھ مغرب کے دوغلے رویے کو بے نقاب کرتے ہیں: پہلے دوست، پھر دشمن۔ وہ امریکی حملے، بمباری، لوٹ مار اور انسانی المیے کے وہ مناظر بیان کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے ضمیر سے جوڑ دیتے ہیں۔
فلسطین-اسرائیل تنازعے پر ان کی تحریریں بے مثال ہیں۔ فسک نے مغربی میڈیا کے جھوٹ اور اسرائیلی ریاستی مظالم کو قلم بند کیا، جب کہ مغرب خاموش تماشائی بنا رہا۔
لبنان کی خانہ جنگی، 1982 کی اسرائیلی بم باری، اور صابرہ وشتیلا کے کیمپوں میں قتلِ عام جیسے واقعات پر فسک نے صرف رپورٹنگ نہیں کی، بلکہ خود ان برباد ہوتی بستیوں کے درمیان موجود رہے کہ دنیا کے سامنے ظالم کا بہیمانہ سچ سامنے لاسکے۔
فسک کا ایک مستقل مؤقف یہ تھا کہ مغربی میڈیا اکثر طاقت وروں کے بیانیے کو دہراتا ہے، جب کہ حقیقت ظلم کی میدان میں دفن ہوجاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا:’’ہمیں وہ سچ بتانا چاہیے جو لوگوں کو تکلیف دے، نہ کہ وہ جھوٹ جو انہیں آرام دے۔‘‘
ان کی کتاب The Great War for Civilisation صرف ایک کتاب نہیں یہ گواہی ہے، تاریخ کا آئینہ ہے، اور صحافت کی روح ہے۔ رابرٹ فسک کا کام ان کے بعد آنے والے صحافیوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ انسانیت اور انسان دوستی ہی صحافتی پیشے کہ معراج ہے۔
فسک پر تنقید بھی ہوئی اور بعض اوقات سخت الفاظ میں تنقید ہوئی۔ کچھ ناقدین کا کہنا تھا کہ فسک کی صحافت غیرجانب دار نہیں بلکہ جذباتی تھی۔ ان کی رپورٹنگ میں اکثر شدید غصہ اور اخلاقی جارحیت محسوس کی جا سکتی ہے، جو روایتی ’’غیرجانب دار‘‘ صحافت کے برخلاف تھی۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ مظلوم کے ساتھ جذباتی طور پر جُڑ جاتے تھے اور یہی چیز ان کے بیانیے کو غیرمتوازن بناتی تھی۔ تاہم، فسک کے نزدیک سچ صرف توازن سے نہیں آتا، بلکہ ضمیر کی آواز سے آتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر کسی جگہ ظلم ہو رہا ہو، تو اس پر خاموشی غیرجانب داری نہیں، بلکہ بزدلی ہے۔
فسک پر ایک مشہور تنقید یہ بھی رہی کہ وہ اسرائیل اور امریکا پر حد سے زیادہ سخت ہوتے تھے، جب کہ بعض دیگر طاقتوں، جیسے حزب اللہ، ایران یا شام کے بشارالاسد، کے ساتھ وہ نسبتاً نرم لہجہ اختیار کرتے تھے۔ ناقدین نے ان پر ’’مغرب مخالف‘‘ یا ’’اسلام پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والا صحافی‘‘ ہونے کا لیبل بھی لگایا۔ اس حوالے سے فسک کا جواب واضح تھا: ’’ظلم جہاں بھی ہو، اس پر لکھنا صحافت ہے، اور جب سب مغرب کا ظالم دفاع کر رہے ہوں، تو میرا کام مظلوم سے متعلق سچ دکھانا ہے۔‘‘
فسک پر تنقید میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ بعض اوقات ایسی باتیں یا سوالات اٹھاتے ہیں جو ’’سازشی نظریات‘‘ ( theories conspiracy) سے مشابہ دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً نائن الیون (11 ستمبر 2001 کے حملے) کے بارے میں انہوں نے امریکی حکومت کے بیانیے پر شکوک کا اظہار کیا۔ ان کا یہ رویہ مین اسٹریم میڈیا کی اُس عمومی روش سے ہٹ کر تھا جو بغیر سوال کیے امریکی موقف کو دہرا رہا تھا۔
عراق کی جنگ کے دوران جب امریکا و اتحادی قوتیں ’’تہذیب‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے فروغ جیسے دعووں پر جنگ کو جواز دے رہی تھیں، فسک نے ان بیانیوں کے پس پردہ مقاصد کو جانچنے کی کوشش کی مثلاً تیل، جیوپولیٹیکل کنٹرول اور سامراجی مفادات کا تحفظ یہ سوالات، اِن پر بات اُن حلقوں پر ناگوار گزری جو سرکاری یا مقتدر بیانیے کے حامی تھے۔ اسی بنا پر ناقدین نے فسک کو ’’غیرذمے دار‘‘ یا ’’متعصب‘‘ قرار دیا۔
فسک کا ماننا تھا کہ صحافت کا اصل فرض صرف خبریں دینا نہیں، بلکہ طاقت کے بیانیے کو سوالیہ نگاہ سے دیکھنا ہے خاص طور پر جب بات جنگ، انسانی جانوں کے ضیاع، یا سیاسی مفادات کی ہو۔ ان کے نزدیک ایک صحافی کو ریاستی مفادات کا ترجمان بننے کے بجائے مظلوم، متاثرہ، اور بے آواز طبقات کی ترجمانی کرنی چاہیے، خواہ اس کے لیے مقتدر حلقوں سے ٹکر لینی پڑے۔
فسک کی صحافت کا انداز جسے بعض لوگ ’’دھماکاخیز‘‘، تو کچھ ’’انسان دوست‘‘ کہتے ہیں — دراصل اس اصول پر قائم تھا کہ سچ کی تلاش ہمیشہ مقتدر بیانیے سے متصادم ہوتی ہے۔ یہی رویہ انہیں صحافت میں منفرد، متنازع مگر قابلِ احترام بناتا ہے، مگر ایسا بھی ہرگز نہیں تھا کہ عالمی و مغربی میڈیا میں رابرٹ و فسک پر تنقید ہی کی گئی ان کے کام کو سراہا بھی گیا۔
رابرٹ فسک اور ایڈورڈ سعید، دونوں نے اپنے اپنے میدان میں ایسی فکری اور اخلاقی بلندی حاصل کی جس نے انہیں محض مؤرخ یا صحافی نہیں رہنے دیا، بلکہ مظلوم اقوام کے ضمیر کا استعارہ بنا دیا تھا۔
رابرٹ فسک نے مشرق وسطیٰ میں تقریباً چار دہائیوں تک جنگی صحافت کی۔ لبنان کی خانہ جنگی، ایران کا انقلاب، افغانستان پر سوویت حملہ، عراق جنگ، اسرائیلی بم باری، اور فلسطینی انتفاضہ پر لکھا۔ یہ سب وہ مناظر تھے جنہیں فسک نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پوری دنیا کے سامنے ان کی سچائی لکھی۔ ان کی تحریروں میں ایک طرف انسانی ہم دردی کی شدت نظر آتی ہے اور دوسری طرف طاقت ور قوتوں کے خلاف ایک غیرمتزلزل موقف ہے۔
انہوں نے ایران کے آیت اللّہ خمینی سے لے کر اسامہ بن لادن تک ایسے انٹرویوز کیے جو آج صحافتی تاریخ کے نایاب گوشے تصور کیے جاتے ہیں۔ فسک کی کتاب The Great War for Civilisationجنگی صحافت کا ایک بلند ترین سنگِ میل مانی جاتی ہے، جب کہ Pity the Nation لبنان پر لکھی گئی ایک ایسی تحریر ہے جو ایک قوم کے کرب کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب کی خاموشی پر زوردار سوال بھی اٹھاتی ہے۔
فسک کی عالمی سطح پر پزیرائی ان کے اصولی مؤقف کا ثبوت ہے۔ انہیں سات مرتبہ ’’انٹرنیشنل رپورٹر آف دی ایئر‘‘ قرار دیا گیا۔ انہیںAmnesty International Press Award سے نوازا گیا، اور Lannan Foundation نے انہیں Prize Freedom Cultural عطا کیا۔ ان کا نام UNESCO کے پریس فریڈم انعام کے لیے بھی سامنے آیا۔ یہ سب اعزازات اس بات کا اعتراف ہیں کہ رابرٹ فسک نہ صرف سچ لکھتے تھے، بلکہ سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔
عالمی پزیرائی کے حوالے سے ایڈورڈ سعید کی بات کی جائے تو ایڈورڈ کی تحریروں نےPost-Colonial studies کی بنیاد رکھی، اور آج بھی دنیا بھر میں دانش ورانہ مباحث ان کے افکار کے گرد گھومتے ہیں۔
ایڈورڈ سعید نہ صرف علمی دنیا میں ممتاز تھے بلکہ فلسطینی کاز کے ایک نرم گفتار، پراثر اور دلیل سے بھرپور وکیل بھی تھے۔ وہ فلسطین کی آواز کو مغرب کے ایوانوں میں لے گئے، لیکن ایسی شائستگی اور فکری وقار کے ساتھ کہ ان کی بات کو نظرانداز کرنا آسان نہ رہا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں بطور پروفیسر، اور دنیا بھر کی جامعات میں بطور لیکچرر، ان کا علمی اثر ناقابلِ انکار رہا۔
ایڈورڈ سعید کو بھی عالمی سطح پر بے شمار اعزازات سے نوازا گیا۔ انہیں Award Trilling Lionel ، Lannan Literary Awards، اور Truman Capote Award جیسے علمی انعامات حاصل ہوئے۔ انہیں اسپین کے شہزادے سے منسوب اعزاز Prince of Asturias Award for Concord سے نوازا گیا، جب کہ ییل، ٹورنٹو، ہارورڈ، اور اوسلو سمیت کئی عالمی جامعات نے انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ دی۔ ان کی علمی دیانت اور انسان دوستی نے انہیں ایک بین الاقوامی دانش ور کے مقام تک پہنچادیا۔
رابرٹ فسک صحافی اور ایڈورڈ سعید بنیادی طور پر محقق تھے، لیکن دونوں نے اپنی زندگیاں اس مقصد کے لیے وقف کیں کہ عالمی منظرنامے پر پیش کی گئی یک طرفہ کہانیوں کے پردے چاک کیے جائیں، مظلوم اقوام کے دکھ کو عالمی ضمیر تک پہنچایا جائے۔ ان کی فکر، تحریر اور جرأت آج بھی ان لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے جو طاقت کے سامنے سچائی کو تھامنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان کی تحریریں بین الاقوامی کے بیانیے کو میں انہوں نے ایڈورڈ سعید اور اسرائیل مغربی میڈیا اور فلسطینی اور فلسطین عالمی ضمیر اور اخلاقی اور انسان کہ فلسطین فلسطین کی کے خلاف ا کے طور پر نے انہیں کے سامنے کے نزدیک قرار دیا حوالے سے کے لیے ا انہیں ا دنیا کے کے ساتھ کتاب The ا ج بھی یہ بھی تھا کہ نہیں ا کہا کہ اور ان اور اس فسک کی کی گئی فسک کا
پڑھیں:
دہلی دھماکہ: اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ڈاکٹر سلیم خان
دہلی میں ہونے والے دھماکوں کی بابت پہلے تو یہ بات واضح نہیں تھی کہ وہ کسی گاڑی کے سیلنڈر پھٹنے سے ہوا ہے یا دھماکہ خیز مادے کی مدد سے کیا گیا ہے ۔ اس گاڑی کو چلانے والا فدائین حملہ آور تھا حادثاتی طور پر موت کے منہ میں چلا گیا۔ شاید اس وقت تک سرکار دربار کے لوگ یہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ کون سا بیانیہ سیاسی طور پر مفید یا مضر ہوگا؟ بی جے پی کی فرقہ پرستانہ سیاست کے لیے دہشت گردانہ بیانیہ ہی مفید تھا اور اگر وہ اقتدار میں نہیں ہوتی تو بلاتحقیق اسی کو آگے بڑھایا جاتا لیکن چونکہ یہ دھماکہ دارالخلافہ دہلی میں ہوا تھا جہاں ڈبل انجن سرکار ہے یعنی ریاستی حکومت کو بھی اس کے لیے گھیرا نہیں جاسکتا اس لیے یہ ہچکچاہٹ تھی کہ کسے موردِ الزام ٹھہرایا جائے ؟ ملک میں فی الحال ایک بہت طاقتور مانے جانے والے وزیر اعظم ہیں جو ایک زمانے میں چین کو لال آنکھیں دِکھا کر ٹھیک کردینے کی عار دلاتے تھے اس لیے ان کے ہوتے یہ ہوجانا موصوف کی ‘مہا مانو'( عظیم انسان) والی شبیہ پر سوال کھڑے کرتا تھا۔اس کے علاوہ وزیر داخلہ اور قومی سلامتی کے مشیر کی انتظامی صلاحیت بھی مشکوک ہوجاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دو تین دن گومگوں کی کیفیت رہی لیکن وزیر اعظم کے بھوٹان سے لوٹنے کے بعد اب تفتیشی ایجنسیوں کو دہشت گردی کے زاویہ کا اشارہ دے دیا گیا ہے ۔
دھماکے کے بعد تیسرے دن تحقیقاتی ایجنسیوں نے گرفتار شدگان سے پوچھ گچھ کے بعد یہ دعویٰ کردیا ہے کہ دہلی سمیت ملک بھر کے کم از کم 32 مقامات پر ایک ساتھ دھماکے کرنے کی سازش رچی گئی تھی ۔ ملک تفتیشی ایجنسیوں کو اس طرح کی کہانیاں گھڑنے کابہت وسیع تجربہ ہے اور وہ اس معاملے میں بڑے بڑے سے فکشن نگار کو چاروں خانے چِت کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں۔ وطن عزیز میں یہ ہوتا رہا ہے اور یہ کام اس قدر سفاکی سے کیا جاتا ہے کہ باضمیر افسران کے لیے ایسے ظلم کا حصہ بننا ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے ۔ ممبئی کے ٹرین دھماکوں کی تفتیش شاہد ہے 11 جولائی 2006 کو ممبئی میں ہونے والے بم دھماکوں کے سینئر تحقیقاتی افسرونود وٹھل بھٹ پراسرار حالت میں خودکشی کرلی تھی۔ ریلوے پولیس کو ان کی لاش مشکوک حالت میں ریل کی پٹریوں کے درمیان ملی تھی ۔ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ونود بھٹ اس وقت انسداد دہشت گردی عملہ کے تفتیشی افسر تھے ۔ اس سے قبل وہ ممبئی میں بارہ مارچ 1993 میں ہوئے بم دھماکوں کی جانچ سے بھی منسلک رہے تھے ۔ آگے چل کر جن نام نہاد ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمین کو برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا اور ان میں سے کئی لوگوں کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی عدالت میں نہیں ٹک سکے اور سارے کے سارے ملزم باعزت بری ہوگئے لیکن میڈیا میں سنائی جانے والی کہانی اس قدر مرصع تھی کہ ہر کسی نے اس پر اعتبار کرلیا بقول وسیم بریلوی
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ گاؤں میں 21اور22مارچ 2000کی رات ایسا ہی ایک سانحہ پیش آیا تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کی دہلی آمد کے موقع پر بے قصور سکھوں کو ہلاک کرکے اس سانحہ کا الزام لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین پر لگا کر پتھری بل کی پہاڑیوں میں ان کے انکاونٹر کا دعویٰ کردیا گیا۔ آگے چل کر معلوم ہوا وہ پانچوں مقامی باشندے تھے اور انہیں گشتی دستے کو گائیڈ کرنے کے لیے اٹھا یا گیا تھا۔ اس ہلاکت پر احتجاج درج کرنے کے لیے ضلع ہیڈکوارٹر کی طرف مارچ کرنے والوں پر فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ اس سے پورے کشمیر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔اس کے بعد سکھ برادری کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایس آر پانڈین کی قیاد ت میں تحقیقات کا حکم دیا۔ ایک سال بعد جب کولکاتہ اور حیدرآباد کی فورنسک لیبارٹریوں نے بتایا کہ مہلوکین اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی خاطر بھیجے جانے والے نمونے نقلی تھے ، اس پر ایک اورعدالتی کمیشن جسٹس جی اے کوچھے کی سربراہی میں مقرر کیا گیا۔ان دونوں کمیشنوں نے دیگر سیکورٹی اداروں کے علاوہ جنوبی کشمیر میں ایس او جی کے سربراہ فاروق احمد خان کو نامزد کرکے اس کے خلاف کارروائی کرنے کی سفار ش کی اور ابتداء میں گھڑے جانے والے جھوٹ کو مسترد کردیا۔ اس لیے ویسا ہی تجربہ دہلی دھماکے کے معاملے میں دوہرایا نہیں جائے ۔ چھٹی سنگھ پورہ کے سکھ اب بھی ہر سال 22مارچ کو انصاف کی خاطر اس امید پر اپنا احتجاج درج کرواتے ہیں کہ
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
دہلی دھماکے کے اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے نٹھاری قتل کیس میں بنیادی ملزم سریندرکولی کی رہائی کا حکم دے دیا ۔ اس مقدمہ کے نشیب و فراز کو دیکھا جائے تو نہ صرف تفتیشی ایجنسی بلکہ عدلیہ کے رویہ پر بھی کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ نٹھاری قتل معاملے کا انکشاف 29 دسمبر 2006 کو ہوا تھا۔ اس وقت دہلی سے سٹے نوئیڈا کے نٹھاری گاؤں میں صنعت کار مونندر سنگھ پنڈھیر کی رہائش گاہ کے پیچھے نالے سے 8 بچوں کے ڈھانچے برآمد ہوگئے ۔ تفتیش کے دوران مرکزی ملزم کے طور پر پندھیر کا گھریلو ملازم سریندر کولی سامنے آیا۔ آگے چل کر جب یہ معاملہ سی بی آئی کے ہاتھ میں گیا تو مزید انسانی اعضا اور ڈھانچے برآمد ہوئے ۔ تفتیش کے بعد کولی کو ایک 15 سالہ لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے الزام میں مجرم ٹھہرایا گیا ۔ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس کی سزا برقرار رکھی تھی اور 2014 میں اس کی نظرثانی عرضی بھی مسترد کر دی تاہم، 2015 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے رحم کی عرضی پر فیصلہ کرنے میں تاخیر کی تکنیکی بنیاد پر اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ۔
اکتوبر 2023 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے نٹھاری کیس متعلق معاملات میں سریندر کولی اور مونندر سنگھ پندھیر کو کمزورثبوت کمزور ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی سبب بری کر دیا۔اس کے بعد سی بی آئی اور مقتولین کے اہل خانہ نے مذکورہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتو 30 جولائی 2025 کو عدالت عظمیٰ نے ان تمام 14 اپیلوں کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ دستیاب شواہد اتنے مضبوط نہیں کہ ان کی بنیاد پر سزائے موت یا قید برقرار رکھی جا سکے ۔امسال ٧اکتوبر 2025 کو عدالت نے کولی کی اصلاحی عرضی پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا مگر ١١نومبر کو سپریم کورٹ نے اپنے تازہ ترین فیصلے میں 18 برس سے جیل میں بند سریندر کولی کوفوراً رہا کرنے کا حکم دے دیا۔یہ فیصلہ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس وکرم ناتھ کی بنچ نے سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ”اصلاحی عرضی کو منظور کیا جاتا ہے ، سزا اور جرمانہ منسوخ کیے جاتے ہیں، اور اگر کسی دوسرے معاملے میں کولی کی ضرورت نہیں ہے تو اسے فوراً رہا کیا جائے ۔” ان مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ عدلیہ کے اندر یہ کہانیاں کیسے کمزور پڑجاتی ہیں مگر اس وقت تک بے قصور کی زندگی کے کئی سال قیدو بند میں گزر جاتے ہیں ۔
عمر خالد اور شرجیل امام وغیرہ کی مثال ہیں شاہد ہے کہ اس طرح کے معاملات صرف ہندوستان جیسے پسماندہ ملک کا خاصا نہیں ہیں بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بے قصور سبرامنیم ‘سبو’ویدم کو رہا ہونے سے قبل 43 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑتے ہیں ۔19 سالہ طالب علم سبرامنیم ویدم کو اپنے ہم کمرہ ٹام کنسر کے قتل کا مجرم قرار دے کر 43 سال قبل عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی کیونکہ انہوں نے مقتول کی گمشدگی کے دن اس سے گاڑی لی تھی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹام کنسر کو ان کی گاڑی معمول کی مختص جگہ پر واپس کر دی گئی تھی مگر اس واقعے کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا۔ 1984 میں سبرامنیم کو عدالت کے سامنے طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت منشیات کے جرم میں علیحدہ سے ڈھائی سے پانچ برس کی سزا سنا دی گئی۔ یہ سزا انھیں عمر قید کی سزا کے ساتھ ہی بھگتنی تھی۔ سبرامنیم کو قتل کی سزا کے خلاف نئے شواہد سامنے آنے پر بریت مل گئی ان کے خلاف ملک بدری کا حکمنامہ موجود ہے اور وہ حراست میں ہیں۔ ان کا پورا خاندان امریکہ میں ہے جبکہ ہندوستان کوئی بھی نہیں ہے اس لیے وہ یہاں آکر کیا کریں گے کوئی نہیں جانتا مگر امریکی انتظامیہ کے لیے یہ سوال بے معنیٰ ہے ۔ سبرامنیم ملک بدری کے مقدمے کے فیصلے تک حراست میں ہی رہیں گے ۔ اس طرح دنیا بھر میں بے قصور لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے ۔ خدا کرے دہلی دھماکے میں گرفتار ہونے والے بے قصور لوگوں کے ساتھ یہ سلوک نہ ہو۔ مذکورہ بالا تشویش کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی تفتیشی ایجنسیوں اور عدلیہ کی موجودہ حالت پر امیر قزلباش کا یہ شعر صادق آتا ہے
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا