ریلویزکے آدھے لیول کراسنگز پر پھاٹک ہے نہ گیٹ کیپر
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
لاہور:
ملک بھر میں ریلوے لیول کراسنگز کی نصف سے زائد تعداد پھاٹک اور گیٹ کیپر سے محروم ہے، جس سے ٹرین حادثات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
وزیر ریلوے کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق پاکستان بھر میں ریلوے کے مجموعی طور پر 2,777 لیول کراسنگز موجود ہیں، جن میں سے 1,416 کراسنگز پر نہ تو پھاٹک نصب ہے اور نہ ہی گیٹ کیپر تعینات ہیں۔
دستاویزات کے مطابق صرف 1,361لیول کراسنگز پر پھاٹک اور عملہ موجود ہے۔دستاویزات کے مطابقریلوے ایکٹ 1890 کے تحت لیول کراسنگز کو محفوظ بنانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ 550 ایسی لیول کراسنگز کو’’انتہائی خطرناک‘‘ قرار دیا گیا ہے، جن پر نہ صرف پھاٹک موجود نہیں بلکہ ان کا محل وقوع بھی حادثات کے لحاظ سے حساس ہے۔
ان میں سے اب تک صرف 175 کراسنگز کو اپ گریڈ کر کے محفوظ بنایا گیا ہے۔ریلوے حکام کے مطابق باقی ماندہ خطرناک کراسنگز کو محفوظ بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لیول کراسنگز کراسنگز کو گیا ہے
پڑھیں:
بوگی نمبر10 اور بوڑھا مسافر
کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کی تزئین و آرائش مکمل۔ وزیر اعظم نے اپ گریڈ شالیمار ٹرین کا افتتاح کردیا۔ اب مسافروں کے لیے جتنی بھی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں ان میں مرکزیت مسافروں کی ہوتی ہے اور ان کی اہمیت بھی ہے۔
کراچی ریلوے اسٹیشن تزئین و آرائش ریل میں سفر سے پہلے کی سہولت کے لیے ہے لیکن دوران سفر مسافر کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ایک سچی روداد پیش خدمت ہے۔ ایک مسافر جس نے 15 نومبر کو سرگودھا سے کراچی تک کا سفر کیا اس کی روداد کچھ یوں ہے۔
اس نے بکنگ کروائی کوچ کی برتھ و سیٹ تھی۔ سرگودھا اسٹیشن پر متعلقہ کوچ تو نہ ملی۔ مسافروں کے دھکے ملے، پوچھنے پر عملے کی طرف سے لاعلمی کا تحفہ ملا۔ بالآخر یہ سوچا کہ فیصل آباد سے مزید معلومات حاصل کی جائیں۔ وہاں بھی کچھ بھی کوئی بتانے سے قاصر تھا ،اب مسافر معلومات کہاں سے حاصل کرتا،اس کے لیے اب یہ نیا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ کہیں سے کوئی معلومات فوری ملنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ بالآخر سوچا کہ خانیوال کافی دیر گاڑی رکے گی وہاں مکمل معلومات حاصل ہو جائیں گی۔یہ سوچ کر کچھ امید بندھی کہ اس سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
گمشدہ کوچ شاید اپنی ٹرین کو تلاش کرتے ہوئے آ ملے۔ بوڑھا مسافر سامان اٹھائے ہوئے ایک ایک ڈبے کا نمبر پڑھتا رہا لیکن کسی بوگی پر 10 نمبر درج نہ تھا۔ کم از کم مسافر کو آگاہ کرنا عالمی قوانین کے تحت لازمی تھا۔ مسافروں کی سہولت کے لیے بہت سے اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ انھیں کوئی پریشانی نہ ہو۔ عالمی ریلوے پالیسیز کے ماہرین اب مسافری مرکزیت پر زور دے رہے ہیں، اگر مسافروں کو ساری توقعات جیسے درست بوگی کا ملنا، اسٹیشن پر رہنمائی سروس، اسٹاف کا تعاون، کسی وجہ سے بوگی کا نہ ہونا تو ایسی صورت میں مسافر کو سیٹ اور برتھ ایڈجسٹ کرکے دینا یہ تو فرض ہے ریلوے کا۔
اگر ایسا نہ ہو سکے تو سخت سردی میں رات کے وقت مسافر انجن سے لے کر آخری ڈبے تک دوڑتا ہی چلا جاتا ہے اور کوئی اس کے سوال کا جواب نہیں دیتا۔ اس مسافر کا کیا قصور ہے جس نے رقم خرچ کرکے سیٹ برتھ بک کروائی جو اسے مل نہ سکی آخر مریض بوڑھا شخص مجبوری کے عالم میں واش روم کے سامنے چادر بچھا کر فرش پر بیٹھ گیا۔ اور یخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑے کھاتا رہا۔
ایک سخت سردی اور دوسرے بوڑھا جسم،تیسرے متعلقہ سیٹ نہ ملنے کی پریشانی۔اگر کوئی ریلوے سسٹم اپنے مسافروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کے بجائے اس کی پریشانی کا باعث بنے اور عملے کا کوئی فرد اس کے مسئلے کو حل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں اس ادارے کے سسٹم کو کیا بہتر اور مثالی کہا جا سکتا ہے۔خرابی کہاں ہے کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا۔ہر کوئی اسے سرکاری ادارہ اور خود کو احتساب کے عمل سے مبرا سمجھ کر اپنے فرائض سر انجام دے گا تو اس ادارے کا نظام کیسے چلے گا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی شکایات مینجمنٹ اور فیڈ بیک چینلز ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں ریلوے نیٹ ورکس کو اس لیے بہتر کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ماحول دوست ہو۔ مسافر دوستانہ ہو۔ ریلوے کی اصلاح سے متعلق تنظیمیں مستقبل کی ریلوے سرمایہ کاری پر تبصرہ کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ریلوے ایک سماجی اور اقتصادی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ریلوے ملک کے تجارتی اور صعنتی نظام کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی اور عوامی سہولتوں کی بر وقت فراہمی میں ریلوے کا جدید نظام اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مگر بنیادی باتیں ہوں گی بوگی نمبر 10 کا نہ ملنا، سیٹ اور برتھ کی بکنگ کرانے پر بھی نیچے فرش پر یخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑے کھا کر رات بھر سفر کرتے رہنا۔ بتایا گیا کہ سامنے واش روم میں 23 گھنٹے میں دو یا تین گھنٹے کے لیے ہی پانی دستیاب تھا۔ زیادہ تر واش روم کی کنڈیاں ٹوٹی ہوئی۔ ٹونٹیاں بھی بس نام کی تھیں۔ صفائی بالکل غائب، ہر اسٹیشن پر بہت سے مسافر بوگی میں آ جاتے کھڑے کھڑے سفرکرتے بوڑھی عورتیں، جوان لڑکیاں، چھوٹی بچے، بوڑھے مریض سب کھڑے ہو کر گھنٹوں سفر کرتے رہے کیونکہ بیٹھے ہوئے مسافر اس بات کے لیے رضا مند نہیں ہوتے کہ ان کو تھوڑی سی جگہ دے دیں۔ کیونکہ مسافروں کا سفر دور کا ہوتا ہے اس لیے کھڑے مسافروں کے لیے سفر آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر بوڑھے مسافروں کہ بہت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کھڑے مسافر اس بات کے متمنی ہوتے کہ ہمیں تھوڑی سی جگہ دینا ان کا حق بنتا ہے۔ کاش! ہم لوگ کسی کو تھوڑی سی سہولت دینے کی خاطر معمولی سی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ عوام کو ریل کے سفر کے دوران ریل کے اندر سہولیات پہنچانا جیسے پانی کا ہونا، واش روم صاف اور ٹھیک حالت میں ملیں، مسافر کے بیٹھنے کے لیے بینچز ہوں۔ ایک ایک بوگی میں ضرورت سے زیادہ افراد کا بھر جانا اور کھڑے کھڑے 10 سے 12 گھنٹے کا سفرکرنا، یہ کس سہولت کا نام ہے۔
تزئین و آرائش پر اتنی زیادہ رقم خرچ کرنے کے بجائے مسافروں کو سہولت دیں، دوران سفر سہولت دینے پر رقم خرچ کریں۔مسافروں کو دوران سفر جتنی زیادہ سہولتیں ملیں گی،سفر اتنا ہی آسان ہو جائے گا۔مسافروں کا اعتماد بھی بڑھے گا اور زیادہ سے زیادہ مسافر ریلوے کے ذریعے سفر کو ترجیح دیں گے ، اس سے ریلوے کی آمدن میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ریلوے کے اعلیٰ افسران ذرا سی توجہ دیں تو ریلوے کے بہت سے مسائل فوری حل ہو سکتے ہیں۔ ریلوے کے مسائل عملے کی کوتاہی اور لاپروائی سے پیدا ہوتے ہیں، عملے کے کام کی نگرانی کی جائے تو تو نظام بہتر ہو سکتا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ پاکستان ریلوے کے مسائل مشکلات مصیبتیں عذاب کو سمجھنا ہے تو وزیر ریلوے یا وزیر اعظم بھیس بدل کر ایک ایک بوگی میں جا کر بیٹھیں۔ کہیں کھڑے ہو کر مسافروں کے ساتھ سفر کریں، بار بار ٹوائلٹ چیک کریں، کب پانی آتا ہے اورکب ٹونٹیاں پانی سے فارغ ہو جاتی ہیں۔ ایک واش روم اور مسافروں کی قطار یعنی ایک انار سو بیمار کا عملی مشاہدہ خود کریں۔ مسافروں سے ان کے سفرکا احوال خود معلوم کریں، اس ان پڑھ دیہاتی غریب مسکین مسافر کو بتائیں کہ ریلوے اسٹیشن پر واش روم، فوری ٹکٹ کا انتظام، اے ٹی ایم مشین، لاؤنج انتظار گاہیں، مسافروں کے لیے جدید انفارمیشن ڈیسک، ڈیجیٹل کمپلینٹ سسٹم کا قیام اور آپ کے لیے بہت ساری سہولتیں فراہم ہو گئی ہیں اور حکومت یہ ساری سہولتیں فراہم کرے گی، کرتی رہی ہے اور آیندہ بھی کرتی رہے گی۔
لیکن اس بوڑھے غریب مریض مسافر کو آج بھی اس سوال کا جواب درکار ہے جو صرف وزیر اعظم یا وزیر ریلوے دے سکتے ہیں کہ آخر سرگودھا سے ٹرین کی بوگی نمبر 10 کہاں غائب ہو گئی تھی؟