پی ٹی آئی کی تحریک اور عمران خان کے بیٹوں کی متوقع شرکت
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جولائی 2025ء) پانچ اگست 2025ء کو عمران خان کو قید ہوئے دو سال مکمل ہو جائیں گے۔ اور پاکستان تحریک انصاف اس تاریخ سے ملک گیر احتجاج شروع کرنے جا رہی ہے، جس کی قیادت خود عمران خان جیل سے کریں گے۔ اپنے پرانے طریقہ کار کے برعکس، پی ٹی آئی نے اس بار بڑے رہنماؤں کے بجائے اپنے نچلی سطح کے کارکنوں پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوامی حمایت کو متحرک کیا جا سکے۔
کیا پی ٹی آئی احتجاج سے کچھ حاصل کر سکے گی؟یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے پہلے کیے گئے احتجاج نہ صرف ناکام رہے بلکہ ان سے پارٹی مزید تنہائی کا شکار ہوئی اور ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے۔ اس بار یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عمران خان کے بیٹے، قاسم اور سلیمان، اپنے والد کی مبینہ غیر قانونی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاج میں شرکت کریں گے۔
(جاری ہے)
میڈیا رپورٹس کے مطابق، دونوں بیٹے پہلے امریکہ جائیں گے اور وہاں سے پاکستان آ کر احتجاج میں شامل ہوں گے۔سیاسی قیادت اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عمران خان کے بیٹوں کی شمولیت سے تحریک میں کچھ توانائی ضرور آ سکتی ہے، لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ قاسم اور سلیمان کتنی قربانی دینے اور تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال بھٹو دور سے مشابہت رکھتی ہے، جب وہ جیل میں تھے اور بینظیر بھٹو نے پاکستان آ کر تحریک کی قیادت کی، لیکن اس راہ میں انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا: ''عمران خان کے بیٹوں کی تحریک میں شمولیت اہم ہوگی، لیکن یہ ان کی محنت اور توانائی پر منحصر ہے کہ وہ کتنا کردار ادا کرتے ہیں۔
مزید یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتی ہے؟ آیا وہ انہیں گرفتار کر کے ہیرو بنا دیتی ہے یا پھر نظرانداز کر کے غیر اہم بنا دیتی ہے۔‘‘ قاسم اور سلیمان کو گرفتار کرنے کی حکومتی دھمکیپاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر سابق وزیراعظم عمران خان کے بیٹے سلیمان خان اور قاسم خان پانچ اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کی قیادت کے لیے پاکستان آئے، تو انہیں گرفتار کیا جائے گا اور وہ مشکلات میں پڑ سکتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کے مطابق، ''حکومت کی غلطیاں ہی طے کریں گی کہ پی ٹی آئی کا آنے والا احتجاج کتنا کامیاب ہو سکتا ہے۔‘‘
جب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خان کے بیٹے احتجاج میں شرکت کے لیے پاکستان آ رہے ہیں، یہ معاملہ مسلسل زیر بحث ہے۔ کچھ لوگ اسے عمران خان کے بیٹوں کا عملی سیاست میں داخلہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ وہ احتجاج میں شرکت پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے والد کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور یہ ان کا حق ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں اور احتجاج کریں۔
ڈاکٹر زرقا کا، جو سینیٹر ہیں اور پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں، کہنا ہے کہ خان کے بیٹے صرف اپنے والد کے لیے آ رہے ہیں، وہ سیاست میں داخل نہیں ہو رہے۔ انہوں نے کہا، ''خان صاحب نے ہمیشہ خاندانی سیاست کو ناپسند کیا ہے اور اب بھی کرتے ہیں۔ قاسم اور سلیمان صرف اس لیے آ رہے ہیں کیونکہ پارٹی اپنے قائد کو انصاف دلوانے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکی۔
یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے والد کے لیے احتجاج کریں، اور مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس کوئی پلان بھی ہوگا۔‘‘یہ جاننا ضروری ہے کہ عمران خان کے بیٹے 27 سالہ سلیمان، اور 25 سالہ قاسم نے اب تک کبھی سیاست میں مداخلت نہیں کی اور وہ اپنی والدہ جمائما کے ساتھ برطانیہ میں مقیم ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں دونوں بھائیوں نے اپنے والد عمران خان کے لیے آواز اٹھانا شروع کی ہے۔
وہ اس سلسے میں بین الاقوامی شخصیات اور میڈیا سے بھی یہ اپیلیں کر رہے ہیں کہ ان کے والد کے ساتھ نا انصافی کے مسئلے کو اجاگر کیا جائے، اور انہیں انصاف دلایا جائے۔پاکستان میں رائے ساز حلقے اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ خان کے بیٹوں کے سیاست میں آنے کی بحث ایک غیر ضروری، کمزور اور منفی بحث ہے۔
معروف صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں، ''اصل مسئلے کچھ اور ہیں، ان کے والد دو سال سے بغیر کسی معقول وجہ کے جیل میں ہیں، ملک میں انتخابات میں دھاندلی ہوئی، عدلیہ انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے، اور لوگ قاسم اور سلیمان کے سیاست میں آنے پر بات کر رہے ہیں؟ یہ انصاف نہیں ہے۔
یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے والد کے لیے آواز اٹھائیں، اور اسے اسی تناظر میں لینا چاہیے۔‘‘.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عمران خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان خان کے بیٹے تجزیہ کار سیاست میں پاکستان آ اپنے والد پی ٹی آئی ہے کہ وہ رہے ہیں والد کے کے لیے
پڑھیں:
والد کی موت طبعی نہیں، انھیں قتل کیا گیا؛ ایرانی صدر رفسنجانی کی بیٹی کا حکومت پر الزام
ایران کے سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی بیٹی کے ایک حیران کن بیان نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کرلی اور ایرانی عدالت نے بھی نوٹس لے لیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی عدالت نے علی اکبر رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی رفسنجانی کو طلب کر لیا۔ ان پر ایک عدالتی اہلکار نے کیس کیا تھا۔
فائزہ ہاشمی رفسنجانی پر یہ کیس اُس بیان کے بعد کیا گیا جس میں انھوں نے حکومت پر اپنے والد سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
فائزہ ہاشمی رفسنجانی کو بے بنیاد بیان اور غیر مصدقہ الزام لگانے پر وضاحت کے لیے عدالت طلب کیا گیا ہے۔
سابق صدر کی بیٹی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرے والد کے قتل کا ذمہ دار کچھ لوگ اسرائیل یا روس کو سمجھتے ہیں لیکن میرے نزدیک قتل میں حکومتی لوگ ملوث تھے۔
فائزہ رفسنجانی نے مزید کہا تھا کہ والد علی اکبر رفسنجانی بعض ملکی اہم شخصیات کی راہ میں بھی رکاوٹ تھے۔ اس لیے اُن افراد نے والد کو راستے سے ہٹا دیا۔
یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کے اہل خانہ نے طبعی موت کے بجائے قتل کا الزام لگایا ہو۔
اس سے قبل سابق صدر کے بیٹے محسن رفسنجانی اور ایک اور بہن فاطمہ بھی اپنے والد کی موت کو پُراسرار قرار دیکر طبعی وجہ ہونے سے کو مسترد کرچکے ہیں۔
پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر یحییٰ رحیم صفوی کے بیانات نے بھی اس معاملے پر تنازع کھڑا کر دیا تھا۔
سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی 17 اگست 1989 سے 2 اگست 1997 تک مسلسل دو بار ملک کے صدر رہے اور جنوری 2017 میں شمالی تہران میں انتقال کر گئے تھے۔
خیال رہے کہ 2005 کے صدارتی انتخابات کے بعد اور محمود احمدی نژاد کے اقتدار میں آنے پر علی اکبر رفسنجانی حکومت کے اہم ناقدین میں سے ایک بن گئے تھے۔
علاوہ ازیں 2009 کے انتخابات کے دوران ان کے اختلافات ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے ساتھ بھی بڑھ گئے تھے۔
اسی طرح 2013 کے انتخابات میں امیدوار کے طور پر باضابطہ رجسٹریشن کے باوجود آئینی نگہبان کونسل نےانھیں الیکشن لڑنے سے روک دیا تھا۔