علی اکبر پچاس سال پہلے راولپنڈی سے فرانس پہنچے۔ انھوں نے اخبار فروخت کرنے کا پیشہ اختیارکیا اور فرانسیسی زبان پر عبور حاصل کیا۔ علی اکبر پیرس کے مضافاتی قصبے میں فرانسیسی زبان کا اخبار Lemondeفروخت کرتے ہیں۔ فرانس کی حکومت نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز دینے کا فیصلہ کیا۔
علی اکبر روزانہ 20 اخبار فروخت کرتے ہیں۔ علی اکبر کا کہنا ہے کہ ان کا اخبار فروخت کرنے کا خاص طریقہ ہے، بقول علی اکبر وہ خبروں سے لطیفہ بناتے ہیں۔ وہ لوگوں کے دل جیت لیتے ہیں اور جیب خالی نہیں کراتے۔ علی اکبر کے خاص گاہک ہیں جو علی اکبر کے اخبار خریدتے ہیں۔ وہاں لوگ انھیں دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ ایک خاتون نے ایک انٹرویو میں کہا کہ علی اکبر ایک ہاکر ہی نہیں بلکہ ایک ادارہ ہیں۔
ہم ان سے اخبار ہی نہیں خریدتے بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کرکافی اور کیک وغیرہ بھی کھاتے ہیں۔ علی اکبر کہتے ہیں کہ انھیں اخبار کی خوشبو پسند ہے۔ Lemonde دوپہر کو شایع ہونے والا اخبار ہے۔ اس کی اوسطاً اشاعت 480,000 ہے۔ علی اکبرکہتے ہیں کہ سب کچھ ڈیجیٹل ہے مگر جو مزہ اخبار پڑھنے میں ہے وہ ڈیجیٹل پر اخبار دیکھنے میں نہیں ہے۔ علی اکبر کہتے ہیں کہ 70ء کی دہائی میں ٹیلی وژن عام ہونے سے اخبارات کی سرکولیشن متاثر ہوئی تھی، مگر پھر اخبارات کی سرکولیشن بہت بڑھ گئی تھی اور اب ڈیجیٹل ایج میں اخبارات کو سخت چیلنج کا سامنا ہے۔
پاکستان میں اخبارات کی اشاعت کم ہوگئی ہے، جو اخبارات روزانہ لاکھوں کی تعداد میں شایع ہوتے تھے، ان کی اشاعت ہزاروں میں آگئی ہے۔ اخبارات کی اشاعت متاثر ہونے سے اخبار تقسیم کرنے والے ہاکر حضرات بھی کم ہوگئے ہیں۔ کبھی کراچی شہرکی ہر شاہراہ پر اخبار کی فروخت کا اسٹال موجود تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان کی اشاعت کم ہونا شروع ہوئی تو یہ اسٹال بھی بند ہونا شروع ہوگئے اور یہ معاملہ صرف کراچی تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے ملک میں ہاکر حضرات کا ادارہ سکڑ کر رہ گیا، اگرچہ ڈیجیٹل ایج کی بناء پر پوری دنیا میں اخبارات کی اشاعت متاثر ہوئی ہے مگر بھار ت کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اخبارات کی اشاعت متاثر نہیں ہوئی۔ وکی پیڈیا پر ملنے والی معلومات کے مطابق ا س وقت بھارت میں مختلف زبانوں میں 10000 اخبارات شایع ہوتے ہیں اور روزانہ 42 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد اخبار پڑھتے ہیں ۔
بھارت کے سب سے بڑے اخبار دینک بھاسکر کی اشاعت 43,20,000 ہے۔ دوسرے اخبار دینک جاگرن کی اشاعت 34,10,000 ہے۔ اس طرح ممبئی سے شایع ہونے والے انگریزی کے اخبار Times of Indiaکی اشاعت 18,70,000 ہے۔ اطلاعات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2024 تک امریکا میں ایک ہزار 33 اخبارات روزانہ شایع ہوتے تھے اور امریکا میں اخبارات کی سرکولیشن 24.
اس وقت نیو یارک سے شایع ہونے والا اخبار وال اسٹریٹ جنرل امریکا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے۔ اس کی اشاعت555,200, ہے۔ دوسرے نمبر پر نیویارک ٹائمز ہے جس کی اشاعت 260,600 ہے۔ حکومت ان اخبارات کی اب بھی سرپرستی کرتی ہے۔ برطانیہ میں اخبارات کی کل اشاعت 62,60,000سے زیادہ ہے۔ لندن کے شام کو شایع ہونے والے اخبار Metroکی اشاعت 52,00,000 کے قریب ہے۔ اس طرح Daily Mail کی اشاعت 6 لاکھ سے زیادہ ہے اور Daily Mirror کی اشاعت 2 لاکھ کے قریب ہے۔ برطانیہ میں صبح کے اخبارات کی اشاعت کم ہے مگر رائے عامہ کی تشکیل میں صبح کے اخبار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت جاپان میں تمام اخبارات کی اشاعت 26 ملین سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں اخبارات کی اشاعت میں کمی کی مختلف وجوہات ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فلم اور ٹیلی وژن آنے کے بعد اخبارات کی اشاعت پرکوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑا تھا۔ پھر اس صدی کے آغاز میں اسمارٹ فون عام ہوا۔ اس کے بعد عام آدمی کی ترجیحات بدل گئیں اور اب اخبار اورکتاب کی جگہ اسمارٹ فون نے لے لی۔ پھرگزشتہ 10 برسوں کے دوران سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز رائج ہوئے۔
اب ہر شخص کو ہر طرف سے خبرکے نام پرکوئی مواد مل جاتا ہے مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے 90 فیصد مواد کے مصدقہ ہونے کا سوال بہت زیادہ اہم ہے۔ ابلاغِ عامہ اور شماریات کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ قوتِ خرید میں کمی، معاشی مشکلات بڑھنا وغیرہ اس کی بنیادی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ اخبارکی اشاعت پر آنے والے لاگت کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ ابلاغِ عامہ کے اساتذہ کے مطابق معاشرے میں علمی ماحول کم ہونے اور ایک مصنوعی زندگی کے معیارکی روایت قائم ہونے سے لوگ اخبار اور کتاب سے دور ہوگئے۔
اس حقیقت پر کوئی بحث نہیں ہوسکتی کہ ترقی کا راستہ جمہوری نظام کا استحکام ہے۔ جمہوری معاشرے میں میڈیا ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخبار میڈیا کا ایک ایسا ادارہ ہے جس کا تمام مواد معروضیت کے اصول پر مرتب کیا جاتا ہے اور معروضیت کی بناء پر احتساب کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔
اخبار میں آج بھی ایڈیٹرکا ادارہ موجود ہے۔ ایڈیٹرکا ادارہ اخبارکی درست سمت کے تعین میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اخبار کے مواد سے جو رائے عامہ ہموار ہوتی ہے، وہ حقائق سے بھرپور ہوتی ہے اور اس مواد سے جمہوری نظام مستحکم ہوتا ہے۔ نوجوان نسل کے بعض رہنما اخبار کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی کے لیے سوشل میڈیا پر اپنا بیانیہ وائرل کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو زبان دے دی ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کے حقیقت پر مبنی ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رات کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر جو خبریں وائرل ہوتی ہیں وہ صبح غائب ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ خبریں سچائی پر مبنی نہ ہونے کے باوجود رائے عامہ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے کو رجعت پسندی کی طرف دھکیلنے کے لیے ایک منصوبہ کے تحت کام ہوا ہے، مگر جب تک سوشل میڈیا پر ایڈیٹر کا ادارہ مضبوط نہیں ہوگا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کی معروضیت پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔ اس پوری صورت حال میں پرنٹ میڈیا کے مواد کا مصدقہ ہونا سو فیصد ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز نے اپنی تحریر میں بیان کیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال اور افادیت کے باوجود، پرنٹ میڈیا، خصوصا اخبارات، آج بھی قابلِ اعتبار صحافت کا ایک ناگزیر ذریعہ ہیں۔
اخبارات نہ صرف خبروں کو ایک محفوظ شکل میں پیش کرتے ہیں بلکہ انھیں ایک ایسے سیاق و سباق اور گہرائی کے ساتھ محفوظ کرتے ہیں ۔ ان کا سخت اور مرحلہ وار ادارتی نظام اور برسوں پر محیط ساکھ انھیں ایسی درستگی اور جوابدہی فراہم کرتی ہے جس تک کئی ڈیجیٹل ذرایع نہیں پہنچ پاتے۔ محققین، پالیسی سازوں اور عام قارئین کے لیے اخبار روزمرہ معلومات کا معتبر ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے تسلسل کو محفوظ رکھنے والا ایک اہم دستاویزی ریکارڈ بھی ہے۔ معلومات کے اژدہام میں چھپی ہوئی تحریر آج بھی یکسوئی اور سنجیدہ مطالعے کا وہ موقع فراہم کرتی ہے جو باشعور شہریوں اور جمہوری شہری معاشرے کے لیے ضروری ہے۔
ایک نوجوان صحافی کاشف حسن کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا معروضی اور حقائق پر مبنی صحافت کررہے ہیں جب کہ سوشل میڈیا صحافت سے زیادہ پراپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اخبار کی صنعت کے بنیادی مسائل کے حل کی طرف توجہ دے ۔ فرانس کی حکومت نے ایک پاکستانی نژاد ہاکر کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے سب سے بڑا سول اعزاز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی ایسے ہی اقدامات کرنے چاہئیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اخبارات کی اشاعت میں اخبارات کی سوشل میڈیا کے سوشل میڈیا پر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے شایع ہونے کے اخبار کرتے ہیں علی اکبر سے زیادہ کا ادارہ کے ساتھ کے لیے ہے مگر
پڑھیں:
سیاسی شخصیت کیخلاف پیش ہونے کیلیے 7 کروڑ روپے فیس کی پیشکش ہوئی، وفاقی وزیر قانون کا انکشاف
سیاسی شخصیت کیخلاف پیش ہونے کیلیے 7 کروڑ روپے فیس کی پیشکش ہوئی، وفاقی وزیر قانون کا انکشاف WhatsAppFacebookTwitter 0 12 August, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہیں سیاسی شخصیت کے خلاف پیش ہونے کے لیے 7 کروڑ روپے بطور فیس کی پیش کش ہوئی تھی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہوا، جس میں نکتہ اعتراض پر اپوزیشن رکن سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 26 آئینی ترمیم کے بعد ایوان اور عدلیہ کو دفن کردیا گیاہے ۔ آج سپریم کورٹ میں وکلا کو داخل ہونے سے روک دیا گیا ۔ عدالتی فیسوں میں اضافہ کردیا گیا ہے ۔ لوگوں کو عدالتی فیس بڑھنے کے بعد مشکلات کا سامنا ہے ۔ تھوک کے حساب سے رہنماؤں اور ورکرز کو جھوٹی گواہیوں پر سزا سنا دی گئی ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پی ٹی آئی کے مقدمات کا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ عدالتی فیسوں پر کیا کرے۔ وکیلوں نے بھی اپنی فیسوں میں اضافہ کردیا ہے ۔ سردار لطیف کھوسہ ایک کروڑ سے کم فیس نہیں لیتے ۔ مجھے تو آپ کی سیاسی شخصیت کے خلاف کیس میں پیش ہونے کے 7 کروڑ فیس کی آفر تھی ۔ میں نے 7 کروڑ فیس کو ٹھکراتے ہوئے سیاسی شخصیت کے خلاف پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔
اسد قیصر نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹ میں کوئی فیصلہ ہو جائے تو ہائیکورٹ میں چیلنج کا اختیار ہونا چاہیے۔ میں نے اس حوالے سے بل جمع کرایا ہوا ہے، جو آج ایجنڈے پر نہیں ہے۔ اسپیکر سردار ایاز صادق نے ہدایت کی کہ اگلے ہفتے بل کو ایجنڈے پر لایا جائے۔
پی ٹی آئی اقتدار میں آکر مظالم کا سود سمیت بدلہ لے گی، اقبال آفریدی
اپوزیشن رکن اقبال آفریدی نے کہا کہ اسپیکر صاحب آپ کے سابقہ کردار کو دیکھتے ہوئے مجھے امید تھی کہ آپ ارکان کو ایوان سے گرفتار کرنے کی وجہ سے استعفا دیں گے۔ اس ایوان کی اس سے بڑی توہین کیا ہوگی کہ اس کے 10 ارکان اس ایوان سے اٹھا لیے جائیں۔ اسپیکر صاحب یہ کرسی عارضی ہے، کل یہاں پی ٹی آئی کا اسپیکر بیٹھا ہوگا ۔ جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئے گی تو جو ظلم کیے ہیں ان کا سود سمیت بدلہ لیں گے ۔
اسپیکر سردار ایاز صادق نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ کرسی عارضی ہے ۔ یہ کرسی اتنی عارضی ہے کہ پلک جھپکتے تبدیل ہوجاتی ہے۔
قبائلی عوام محب وطن ہیں، کوئی آپریشن قبول نہیں، شاہد خٹک
رکن اسمبلی شاہد خٹک نے کہا کہ قبائلی عوام محب وطن ہیں، ہم کسی بھی آپریشن کو قبول نہیں کریں گے۔ ہمیں امن چاہیے، ہمیں آپریشن نہیں چاہیے۔ قبائلی عوام اب کسی آپریشن کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
اسپیکر نے وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری کو ایوان میں طلب کر لیا اور کہا کہ ایوان میں آکر اراکین کے تحفظات دور کریں اور حقائق سے آگاہ کریں۔
ملازمین کو مراعات سے متعلق وزیر ریلوے کا جواب
اجلاس میں ریلوے ملازمین کو مختلف مراعات نہ ملنے کے خلاف توجہ دلاونوٹس پی پی پی کے رکن اسمبلی آغا رفیع اللہ نے پیش کیا ، جس پر وزیر ریلوے حنیف عباسی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب سے میں آیا ہوں جو جو تنخواہیں و مراعات ہیں وہ 5 تاریخ تک ادا کی جارہی ہیں ۔ ریلوے کی پنشن اس کی اپنی بکس میں ہے، ہم خود سے پنشن ادا کرتے ہیں ۔ ریلوے کی روٹین کی پنشن ملازمین کو مل رہی ہے ۔
سید آغا رفیع اللہ نے کہا کہ اگر وزارت خزانہ سے منظوری کے چکر میں پڑیں گے تو پھر ملازمین رہ جائیں گے۔ وزیر ریلوے نے جواب دیا کہ ریلوے کا کچھ مراعات کے سلسلے میں ساڑھے 12 ارب روپے کا معاملہ چل رہا ہے۔ کوشش کررہے ہیں جیسے ہی ریلوے کا کچھ منافع بڑھے ہم اپنے فنڈ سے ملازمین کو دیگر مراعات بھی دیں۔
کوئی قانون توہین رسالت کے قانون سے بالاتر نہیں، وفاقی وزیر قانون
اپوزیشن رکن علی محمد خان نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت اقلیتی کمیشن کے بل پر اس وقت دستخط نہ کریں، جب تک بل پر دینی جماعتوں اور اپوزیشن کے اعتراضات دور نہ ہوجائیں ۔ اقلیتی کمیشن کے بل میں ردقادیانیت آرڈیننس کو غیر فعال کردیا گیا ہے ۔ اقلیتی کمیشن میں اس بل کو تمام مذہبی قوانین پر بالادستی دے دی گئی ہے ۔ دیگر تمام قوانین کو اقلیتی کمیشن کے بل کے تابع کرنے سے قادیانیت کا قانون غیر مؤثر ہوجائے گا ۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتی کمیشن کے بل میں جو مقاصد بیان کیے گئے ہیں وہ صرف انہی تک محدود ہے۔ آرٹیکل 20 کی رو سے قادیانی اپنے نظریات کی ترویج نہیں کرسکتے ، کوئی بھی قانون توہین رسالت کے قانون سے بالاتر نہیں ۔ جو تشریح کی جارہی ہے وہ ممکن نہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس میں بھی ختم نبوت معاملہ بالکل کلیئر کردیا گیا ہے ۔ اس اقلیتی کمیشن کے پاس کوئی فوجداری اختیارات نہیں ۔ میں بطور وزیر قانون اپوزیشن اور دینی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر جو بھی خدشات ہیں انہیں دور کرنے کو تیار ہوں ۔ اگر کہیں کوئی سقم ثابت ہوتا ہے تو اسے مل بیٹھ کر دور کیا جاسکتا ہے۔
ارکان کے ساتھ یہی رویہ رہا تو ایوان کا بائیکاٹ کریں گے، عامر ڈوگر
پی ٹی آئی رکن اسمبلی عامر ڈوگر نے ایوان میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے 5 ایم این اے اس وقت بھی اڈیالہ جیل کے باہر ہیں۔ ہمارے اراکین کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس پورے ایوان کو استحقاق ایوان میں تبدیل کیا جائے۔ اسپیکر صاحب آپ اس معاملے پر رولنگ دیں۔ اگر ہمارے اراکین کے ساتھ یہی رویہ رکھا گیا تو ہم ایوان کا بائیکاٹ کریں گے۔
اسپیکر سردار ایاز صادق نے جواب دیا کہ استحقاق ہوتا کیا ہے، وزیر قانون صاحب تفصیلاً ایوان کو آگاہ کریں۔
استحقاق کے قانون میں گرے ایریاز ہیں، اسد قیصر
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ استحقاق کے قانون میں گرے ایریاز ہیں۔ ہمارا لیڈر جیل میں ہے، ہمارا پارلیمنٹرینز کا حق ہے کہ ان سے ملیں۔ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے معاملے پر ہم ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہیں۔
اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ آپ لوگ ایوان سے واک آؤٹ سے پہلے میری بات سنیں۔ کل انڈیا میں راہول گاندھی گرفتار ہوا کوئی پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوئے۔ بیٹھ کر بات کریں میرے لیے کوئی گرینڈ جرگہ نہیں ہے۔ میرا گرینڈ جرگہ یہ ایوان ہے سینیٹ ہے۔ میں سہولت کاری کے لیے تیار ہوں، آپس میں بیٹھ کر بات کریں۔ مل کر بیٹھ کر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ابھی بیٹھ جائیں، بتائیں پھر کیا بات ہوئی؟۔
پی ٹی آئی ارکان پارلیمنٹ کا گیٹ نمبر 1پر احتجاج
بعد ازاں تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر ایک پر احتجاج کیا۔ انہوں نے 9 مئی کے مقدمات میں سزا پانے والے رہنماؤں کے حق میں نعرے بازی کی اور عدالتوں کو آزاد کرو، آئین کو آزاد کرو کے نعرے لگائے۔
مختلف بلز قائمہ کمییٹیوں کے سپرد
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈیجیٹل میڈیا پر فحاشی کی روک تھام سے متعلق ترمیمی بل پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی نے پیش کیا گیا،جسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اسی طرح وکلا بار کونسل ترمیمی بل بھی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا جب کہ گارڈین ترمیمی بل 2025ء بھی قومی سمبلی میں پیش کیا گیا، جسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسونے کی قیمت میں آج بھی کمی، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟ مسلم لیگ (ق) برطانیہ کا 14 اگست بھرپور قومی جذبے کے ساتھ منانے کا اعلان اسلام آباد میں مقامی سطح پر کل عام تعطیل کا اعلان پاکستان سٹاک مارکیٹ میں ہنڈرڈ انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا عدالت نے 9 مئی کے 2 مقدمات میں شاہ محمود قریشی کو رہا کرنے کا حکم جاری کردیا اعظم سواتی بیرون ملک جا سکتے ہیں، نام کسی اسٹاپ لسٹ میں نہیں، ایف آئی اے کی عدالت کو یقین دہانی نو مئی مقدمات میں سزائیں پانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کی جائیدادیں بھی ضبط کرنے کا حکمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم