علی اکبر پچاس سال پہلے راولپنڈی سے فرانس پہنچے۔ انھوں نے اخبار فروخت کرنے کا پیشہ اختیارکیا اور فرانسیسی زبان پر عبور حاصل کیا۔ علی اکبر پیرس کے مضافاتی قصبے میں فرانسیسی زبان کا اخبار Lemondeفروخت کرتے ہیں۔ فرانس کی حکومت نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز دینے کا فیصلہ کیا۔
علی اکبر روزانہ 20 اخبار فروخت کرتے ہیں۔ علی اکبر کا کہنا ہے کہ ان کا اخبار فروخت کرنے کا خاص طریقہ ہے، بقول علی اکبر وہ خبروں سے لطیفہ بناتے ہیں۔ وہ لوگوں کے دل جیت لیتے ہیں اور جیب خالی نہیں کراتے۔ علی اکبر کے خاص گاہک ہیں جو علی اکبر کے اخبار خریدتے ہیں۔ وہاں لوگ انھیں دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ ایک خاتون نے ایک انٹرویو میں کہا کہ علی اکبر ایک ہاکر ہی نہیں بلکہ ایک ادارہ ہیں۔
ہم ان سے اخبار ہی نہیں خریدتے بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ کرکافی اور کیک وغیرہ بھی کھاتے ہیں۔ علی اکبر کہتے ہیں کہ انھیں اخبار کی خوشبو پسند ہے۔ Lemonde دوپہر کو شایع ہونے والا اخبار ہے۔ اس کی اوسطاً اشاعت 480,000 ہے۔ علی اکبرکہتے ہیں کہ سب کچھ ڈیجیٹل ہے مگر جو مزہ اخبار پڑھنے میں ہے وہ ڈیجیٹل پر اخبار دیکھنے میں نہیں ہے۔ علی اکبر کہتے ہیں کہ 70ء کی دہائی میں ٹیلی وژن عام ہونے سے اخبارات کی سرکولیشن متاثر ہوئی تھی، مگر پھر اخبارات کی سرکولیشن بہت بڑھ گئی تھی اور اب ڈیجیٹل ایج میں اخبارات کو سخت چیلنج کا سامنا ہے۔
پاکستان میں اخبارات کی اشاعت کم ہوگئی ہے، جو اخبارات روزانہ لاکھوں کی تعداد میں شایع ہوتے تھے، ان کی اشاعت ہزاروں میں آگئی ہے۔ اخبارات کی اشاعت متاثر ہونے سے اخبار تقسیم کرنے والے ہاکر حضرات بھی کم ہوگئے ہیں۔ کبھی کراچی شہرکی ہر شاہراہ پر اخبار کی فروخت کا اسٹال موجود تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان کی اشاعت کم ہونا شروع ہوئی تو یہ اسٹال بھی بند ہونا شروع ہوگئے اور یہ معاملہ صرف کراچی تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے ملک میں ہاکر حضرات کا ادارہ سکڑ کر رہ گیا، اگرچہ ڈیجیٹل ایج کی بناء پر پوری دنیا میں اخبارات کی اشاعت متاثر ہوئی ہے مگر بھار ت کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اخبارات کی اشاعت متاثر نہیں ہوئی۔ وکی پیڈیا پر ملنے والی معلومات کے مطابق ا س وقت بھارت میں مختلف زبانوں میں 10000 اخبارات شایع ہوتے ہیں اور روزانہ 42 کروڑ 50 لاکھ سے زائد افراد اخبار پڑھتے ہیں ۔
بھارت کے سب سے بڑے اخبار دینک بھاسکر کی اشاعت 43,20,000 ہے۔ دوسرے اخبار دینک جاگرن کی اشاعت 34,10,000 ہے۔ اس طرح ممبئی سے شایع ہونے والے انگریزی کے اخبار Times of Indiaکی اشاعت 18,70,000 ہے۔ اطلاعات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2024 تک امریکا میں ایک ہزار 33 اخبارات روزانہ شایع ہوتے تھے اور امریکا میں اخبارات کی سرکولیشن 24.
اس وقت نیو یارک سے شایع ہونے والا اخبار وال اسٹریٹ جنرل امریکا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے۔ اس کی اشاعت555,200, ہے۔ دوسرے نمبر پر نیویارک ٹائمز ہے جس کی اشاعت 260,600 ہے۔ حکومت ان اخبارات کی اب بھی سرپرستی کرتی ہے۔ برطانیہ میں اخبارات کی کل اشاعت 62,60,000سے زیادہ ہے۔ لندن کے شام کو شایع ہونے والے اخبار Metroکی اشاعت 52,00,000 کے قریب ہے۔ اس طرح Daily Mail کی اشاعت 6 لاکھ سے زیادہ ہے اور Daily Mirror کی اشاعت 2 لاکھ کے قریب ہے۔ برطانیہ میں صبح کے اخبارات کی اشاعت کم ہے مگر رائے عامہ کی تشکیل میں صبح کے اخبار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت جاپان میں تمام اخبارات کی اشاعت 26 ملین سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں اخبارات کی اشاعت میں کمی کی مختلف وجوہات ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فلم اور ٹیلی وژن آنے کے بعد اخبارات کی اشاعت پرکوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑا تھا۔ پھر اس صدی کے آغاز میں اسمارٹ فون عام ہوا۔ اس کے بعد عام آدمی کی ترجیحات بدل گئیں اور اب اخبار اورکتاب کی جگہ اسمارٹ فون نے لے لی۔ پھرگزشتہ 10 برسوں کے دوران سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز رائج ہوئے۔
اب ہر شخص کو ہر طرف سے خبرکے نام پرکوئی مواد مل جاتا ہے مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے 90 فیصد مواد کے مصدقہ ہونے کا سوال بہت زیادہ اہم ہے۔ ابلاغِ عامہ اور شماریات کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ قوتِ خرید میں کمی، معاشی مشکلات بڑھنا وغیرہ اس کی بنیادی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ اخبارکی اشاعت پر آنے والے لاگت کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ ابلاغِ عامہ کے اساتذہ کے مطابق معاشرے میں علمی ماحول کم ہونے اور ایک مصنوعی زندگی کے معیارکی روایت قائم ہونے سے لوگ اخبار اور کتاب سے دور ہوگئے۔
اس حقیقت پر کوئی بحث نہیں ہوسکتی کہ ترقی کا راستہ جمہوری نظام کا استحکام ہے۔ جمہوری معاشرے میں میڈیا ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخبار میڈیا کا ایک ایسا ادارہ ہے جس کا تمام مواد معروضیت کے اصول پر مرتب کیا جاتا ہے اور معروضیت کی بناء پر احتساب کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے۔
اخبار میں آج بھی ایڈیٹرکا ادارہ موجود ہے۔ ایڈیٹرکا ادارہ اخبارکی درست سمت کے تعین میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اخبار کے مواد سے جو رائے عامہ ہموار ہوتی ہے، وہ حقائق سے بھرپور ہوتی ہے اور اس مواد سے جمہوری نظام مستحکم ہوتا ہے۔ نوجوان نسل کے بعض رہنما اخبار کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی کے لیے سوشل میڈیا پر اپنا بیانیہ وائرل کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو زبان دے دی ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کے حقیقت پر مبنی ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رات کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر جو خبریں وائرل ہوتی ہیں وہ صبح غائب ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ خبریں سچائی پر مبنی نہ ہونے کے باوجود رائے عامہ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے کو رجعت پسندی کی طرف دھکیلنے کے لیے ایک منصوبہ کے تحت کام ہوا ہے، مگر جب تک سوشل میڈیا پر ایڈیٹر کا ادارہ مضبوط نہیں ہوگا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کی معروضیت پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔ اس پوری صورت حال میں پرنٹ میڈیا کے مواد کا مصدقہ ہونا سو فیصد ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر عرفان عزیز نے اپنی تحریر میں بیان کیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال اور افادیت کے باوجود، پرنٹ میڈیا، خصوصا اخبارات، آج بھی قابلِ اعتبار صحافت کا ایک ناگزیر ذریعہ ہیں۔
اخبارات نہ صرف خبروں کو ایک محفوظ شکل میں پیش کرتے ہیں بلکہ انھیں ایک ایسے سیاق و سباق اور گہرائی کے ساتھ محفوظ کرتے ہیں ۔ ان کا سخت اور مرحلہ وار ادارتی نظام اور برسوں پر محیط ساکھ انھیں ایسی درستگی اور جوابدہی فراہم کرتی ہے جس تک کئی ڈیجیٹل ذرایع نہیں پہنچ پاتے۔ محققین، پالیسی سازوں اور عام قارئین کے لیے اخبار روزمرہ معلومات کا معتبر ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے تسلسل کو محفوظ رکھنے والا ایک اہم دستاویزی ریکارڈ بھی ہے۔ معلومات کے اژدہام میں چھپی ہوئی تحریر آج بھی یکسوئی اور سنجیدہ مطالعے کا وہ موقع فراہم کرتی ہے جو باشعور شہریوں اور جمہوری شہری معاشرے کے لیے ضروری ہے۔
ایک نوجوان صحافی کاشف حسن کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا معروضی اور حقائق پر مبنی صحافت کررہے ہیں جب کہ سوشل میڈیا صحافت سے زیادہ پراپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ اخبار کی صنعت کے بنیادی مسائل کے حل کی طرف توجہ دے ۔ فرانس کی حکومت نے ایک پاکستانی نژاد ہاکر کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے سب سے بڑا سول اعزاز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی ایسے ہی اقدامات کرنے چاہئیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اخبارات کی اشاعت میں اخبارات کی سوشل میڈیا کے سوشل میڈیا پر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے شایع ہونے کے اخبار کرتے ہیں علی اکبر سے زیادہ کا ادارہ کے ساتھ کے لیے ہے مگر
پڑھیں:
ایک اور معروف سوشل میڈیا سٹار جوڑی کی راہیں جدا
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 ستمبر2025ء ) ٹک ٹاکر اور سوشل میڈیا انفلوئنسر سحر حیات نے اپنے شوہر گلوکار سمیع رشید سےعلیحدگی کی تصدیق کردی۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ایک مداح نے سحر حیات سے سوال کیا کہ ’کیا وہ اب اپنی بیٹی عائرہ کی سنگل مدر ہیں؟‘، اس پر سحر نے جواب دیا کہ ’میں اور سمیع اب ساتھ نہیں ہیں لیکن عائرہ کے والد ہمیشہ سمیع ہی رہیں گے، بیٹیاں اپنے والد کے نام سے پہچانی جاتی ہیں، میں اپنی بیٹی کو والد اور والدہ دونوں کی عزت کرنا سکھاؤں گی‘۔ سوشل میڈیا سٹار نے مزید کہا کہ ’میں کبھی بیٹی اور والد کی ملاقات میں رکاوٹ نہیں بنوں گی، عائرہ سے متعلق فیصلے میری خواہش پر نہیں بلکہ قانون کے مطابق ہوں گے اور مجھے امید ہے کہ اس موضوع پر بار بار بات نہیں کی جائے گی، گزارش کرتی ہوں کہ ہماری ذاتی زندگی کو بار بار زیر بحث نہ لایا جائے اور ہماری پرائیویسی کا احترام کیا جائے‘۔(جاری ہے)
یاد رہے کہ دسمبر 2022ء میں سحر حیات اور سمیع رشید کا نکاح ہوا تھا، جس کے جولائی 2023ء میں ان کی شادی کی باعدہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا جو ان کے مداحوں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی رہیں، 2024ء میں اس جوڑی کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی جس کا نام عائرہ رکھا گیا، تاہم شادی کے دو سال بعد دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے اور کچھ عرصے سے علیحدگی کی افواہیں چل رہی تھیں اور اب سحر حیات نے اس کی باضابطہ تصدیق کردی۔