مس یونیورس مقابلے میں پہلی بار شرکت، نادین ایوب فلسطین کی آواز بنیں گی
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
تھائی لینڈ میں ہونے والے مس یونیورس 2025 کے بین الاقوامی مقابلے میں فلسطین پہلی بار اپنی نمائندہ بھیج رہا ہے۔
ستائیس سالہ نادین ایوب، جو ایک سرٹیفائیڈ ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن کوچ ہیں، نومبر 2025 میں ہونے والے اس عالمی مقابلے میں فلسطین کی اولین نمائندہ بننے جا رہی ہیں۔
نادین ایوب، جنہیں 2022 میں مس فلسطین کا تاج پہنایا گیا تھا، ادب اور نفسیات میں ڈگری رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنی اس تاریخی شرکت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کی نمائندہ ہیں جنہیں غزہ میں ناانصافی اور قتل عام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
فلسطینی ماڈل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’فلسطین دنیا کے ہر فورم پر نمودار ہوگا۔ فلسطینیوں کے لیے اب خاموش نہیں رہا جاسکتا۔‘‘ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب غزہ میں جاری جنگ کے باعث فلسطینی عوام بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
A post common by Nadeen Ayoub (@nadeen.
مس یونیورس 2025 کا مقابلہ 21 نومبر کو تھائی لینڈ میں منعقد ہوگا، جہاں 130 سے زائد ممالک کی نمائندہ خواتین اس عالمی تاج کے لیے مقابلہ کریں گی۔ اس سال یہ 74واں مس یونیورس مقابلہ ہوگا، جس میں متحدہ عرب امارات کی مریم محمد، عراق، لبنان اور ایران سمیت متعدد مسلم ممالک کی نمائندہ خواتین بھی شریک ہوں گی۔
یہ خبر بھی پڑھیے: مس یونیورس مقابلے میں پہلی بار امارات کی نمائندگی، ماڈل مریم محمد شرکت کریں گی
نادین ایوب کی شرکت نے بین الاقوامی میڈیا میں خاصی توجہ حاصل کی ہے، کیونکہ یہ پہلا موقع ہے کہ فلسطین کی نمائندہ اس معروف عالمی مقابلے میں حصہ لے رہی ہے۔ مس یونیورس آرگنائزیشن کے ترجمان کے مطابق، یہ مقابلہ خواتین کو بااختیار بنانے اور عالمی برادری میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے وقف ہے۔
نادین ایوب کی شرکت نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے امید کی کرن ہے، بلکہ یہ ثابت کرتی ہے کہ فلسطینی خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔ ان کی یہ کوشش عالمی سطح پر فلسطینی قضیے کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
TagsShowbiz News Urdu
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: نادین ایوب مس یونیورس کی نمائندہ مقابلے میں کے لیے
پڑھیں:
فلسطین کا امن منصوبہ: حقیقت یا فریب؟
فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ سات دہائیوں پر محیط ایک ایسا المیہ ہے جس نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کی سیاست اور سفارت کاری کو اپنے دائرہ اثر میں لے رکھا ہے۔
ہر دور میں اس مسئلے کے حل کے لیے مختلف منصوبے پیش کیے گئے، مذاکرات کی میزیں سجی، قراردادیں منظور ہوئیں، مگر ایک پائیدار اور منصفانہ حل تاحال سامنے نہ آسکا۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے، جسے انھوں نے بڑے دعوے اور فخر کے ساتھ ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ قرار دیا ہے۔ اس مجوزہ منصوبے کو ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی حلقوں میں غزہ میں امن کی جانب ایک نئی پیش رفت کہا جا رہا ہے جب کہ بیشتر عالمی ماہرین اور مبصرین اسے فلسطینی عوام کے حقوق پر ایک کاری ضرب سے تعبیر کر رہے ہیں۔
یہ منصوبہ بظاہر دو ریاستی حل کے تصور کو تسلیم کرتا ہے، لیکن اس کے عملی پہلو اس کے برعکس ہیں۔ یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت قرار دینا فلسطینی عوام کے جذبات اور امنگوں کی نفی ہے، کیونکہ یہی شہر ان کی شناخت، تاریخ اور مذہب کا مرکز ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارے میں موجود اسرائیلی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنا انصاف کے بنیادی اصولوں کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ بستیاں وہ ہیں جنھیں عالمی برادری بھی غیر قانونی قرار دے چکی ہے، لیکن ٹرمپ امن منصوبہ انھیں باقاعدہ قانونی حیثیت دیتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ امن منصوبے میں پیش کردہ فلسطینی ریاست کے ڈھانچے پر نظر ڈالیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک مکمل خودمختار اور مقتدر ریاست کے بجائے ایک محدود اختیارات کی حامل انتظامیہ ہوگی جس کی خارجہ پالیسی اور دفاعی امور اسرائیل اور امریکا کے زیرِ اثر رہیں گے۔
فلسطین اتھارٹی اسی قسم کی حکومت ہے جس کے سربراہ محمود عباس ہیں۔ فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی جانشین سیاسی جماعت پی ایل او فلسطین اتھارٹی کے زیر انتظام فلسطینی علاقوں کی حکمران ہے جب کہ غزہ پر حماس کا کنٹرول رہا ہے جو اسرائیل نے بزور قوت ختم کردیا ہے۔بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی یا ان کے ازالے کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل پیش نہیں کیا گیا، جو اس منصوبے کی ایک بڑی کمی سمجھی جارہی ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ منصوبہ ایک ایسا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے جس میں فلسطینی عوام کو بظاہر ریاست کا نام تو مل جائے گا، لیکن عملی طور پر ان کی خودمختاری نہایت محدود ہوگی۔ حماس کے تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں جنھیں طے کرنے کے لیے صدر ٹرمپ اور ان کے حامی مسلسل کوشش کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دھمکی آمیز بیانات بھی جاری کر رہے ہیں۔
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے لیکن اس کا دوسرا رخ بھی ہے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر اسے قبول کر لیا جائے تو خطے میں معاشی ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور روزگار کے نئے مواقع فلسطینی عوام کی مشکلات کم کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو خطے میں دیرپا امن کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ تاہم ان سب وعدوں کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ امن کی بنیاد انصاف پر ہوتی ہے، اور جب انصاف ہی مفقود ہو تو معاشی مراعات کسی بھی قوم کو مطمئن نہیں کر سکتیں۔
مسلم ممالک میں اس حوالے سے خاصے شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ فلسطینوں کی غالب اکثریت اس منصوبے کو اسرائیل کے مفادات کو تحفظ دینے اور فلسطینی عوام کو مزید کمزور کرنے کی کوشش سمجھ رہی ہے۔ پاکستان میں بھی جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں اور دائیں بازو کے خیالات کے حامل طبقے اس منصوبے کو یکسر مستر د کرتے ہیں اور اپنی حکومت پر بھی دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اس منصوبے کی حمایت نہ کرے ۔
ترکی اور ایران نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کو کھل کر رد کیا ہے، عرب لیگ نے بھی اسے فلسطینی عوام کے حقوق کے برعکس قرار دیا تاہم وہ اس منصوبے کو رد نہیں کررہی ہے ۔ عرب ممالک دو ریاستی حل کے حامی نظر آتے ہیں۔ یورپی یونین نے نسبتاً محتاط موقف اپنا رکھا اور کہا ہے کہ امن منصوبے کے بعض نکات پر مزید غور کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسے مذاکرات کے لیے ایک ’’ابتدائی نکتہ‘‘ قرار دیا ہے، مجموعی طور پر مسلم دنیا میں عوامی سطح پر اس منصوبے کے خلاف غم و غصہ نمایاں نظر آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ اسی انداز میں نافذ کیا گیا تو خطے کا مستقبل کیا ہوگا؟ سب سے پہلا خدشہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام میں مزید مایوسی اور غصہ پیدا ہوگا، جس کے نتیجے میں انتفاضہ جیسی نئی تحریکیں ابھر سکتی ہیں۔ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں شدت پسندی کے خطرات بڑھنے کا امکان ہے۔
عرب ریاستوں اور مغربی طاقتوں کے درمیان اعتماد کی خلیج مزید گہری ہوگی، اور مسلم دنیا میں یہ تاثر مزید مضبوط ہوگا کہ امریکا غیر جانب دار ثالث کے بجائے اسرائیل کا حمایتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں بھی امریکا اور یورپ کے بارے میں اچھا تاثر نہیں جائے گا۔
مسلم عوام پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم ممالک امریکا کے اتحادی ہیں، مسلم ممالک نے ہر مشکل وقت میں امریکا اور مغربی یورپ کا ساتھ دیا ہے لیکن انھوں نے جواب میں ایسا نہیں کیا۔ تنازعہ کشمیر ہو یا تنازعہ فلسطین امریکا اور یورپ نے اسرائیل اور بھارت کا ساتھ دیا ہے۔ اس لیے مسلم ممالک میں عوامی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کو تاحال شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔
ٹرمپ پلان بظاہر ایک امن منصوبہ ہے، لیکن حقیقت میں اس کے اندر بہت سے ایسے پہلو ہیں جو انصاف اور برابری کے اصولوں پر پورا نہیں اترتے۔ فلسطین کا مسئلہ محض زمین یا اقتدار کا نہیں بلکہ ایک قوم کی شناخت، مذہب اور بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
اگر عالمی برادری اس پہلو کو نظرانداز کرتی رہی تو کوئی بھی منصوبہ دیرپا امن قائم نہیں کر سکتا۔ فلسطین کے تنازعے کا ایک ایسا حل تلاش کیا جانا چاہیے جو فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق، ان کی آزادی اور ان کے مستقبل کو مقدم رکھے۔ بصورت دیگر یہ منصوبہ بھی تاریخ کے صفحات میں محض ایک اور ناکام کوشش کے طور پر درج ہوگا، جیسے اس سے قبل بے شمار منصوبے دفن ہو چکے ہیں۔