دنیا کی 7 جنگیں ختم کرانے کے دعویدار ڈونلڈ ٹرمپ پاک افغان تنازع پر بول پڑے
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں جاری تمام جنگوں کو ختم کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وہ دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع سے بخوبی واقف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں وفود کی سطح پر مذاکرات شروع
انہوں نے کہا کہ میں واپس آ کر اس جنگ کو بھی ختم کروا دوں گا، یہ میرے لیے ایک آسان کام ہے کیونکہ دنیا کے تنازعات کو حل کرنا میرا مشن ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی عالمی رہنما نے پاک افغان حالیہ تنازع پر کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔
صدر ٹرمپ اس سے قبل بھی متعدد مواقع پر دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ دنیا کی سات بڑی جنگوں کو ختم کرانے کے باعث نوبیل انعام کے حقدار ہیں۔
واضح رہے کہ ماضی میں پاکستان نے بھی بھارت کے ساتھ جنگ بندی میں ثالثی کے کردار پر صدر ٹرمپ کا نام نوبیل انعام کے لیے تجویز کیا تھا۔
صدر ٹرمپ اب غزہ میں جنگ بندی کے بعد روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے متحرک ہیں، اور اس سلسلے میں وہ جلد روسی صدر سے ہنگری میں بالمشافہ ملاقات کریں گے۔
یاد رہے کہ 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان طالبان فورسز نے پاکستان پر بلااشتعال فائرنگ کی تھی، جس کے جواب میں پاک فضائیہ نے مؤثر کارروائی کرتے ہوئے کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
فوجی ذرائع کے مطابق پاکستان آرمی نے جارحیت میں ملوث متعدد افغان چوکیوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں درجنوں افغان اہلکار ہلاک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو ٹام ہاک میزائل فراہم کرنے سے انکار کردیا
افغان فورسز کی ناکامی اور پسپائی کے بعد طالبان حکومت نے پاکستان سے فوری جنگ بندی کی درخواست کی، جس پر پاکستان نے 15 اکتوبر کو 48 گھنٹے کے عارضی سیز فائر کا اعلان کیا تھا، جس کی مدت کل شام 6 بجے مکمل ہوئی۔
بعدازاں افغان طالبان کی جانب سے جنگ بندی میں مزید توسیع کی درخواست پر پاکستان نے اعلان کیا کہ دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات تک سیز فائر برقرار رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی صدر پاک افغان تنازع ڈونلڈ ٹرمپ نوبیل انعام وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر پاک افغان تنازع ڈونلڈ ٹرمپ نوبیل انعام وی نیوز ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان نے پاک
پڑھیں:
پاک افغان تنازع: بنیادی نکات پر یکسو ہونا پڑے گا
پاک افغان تنازع کے حوالے سے دونوں ممالک میں مذاکرات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، آج بھی ہور ہے ہیں اور آئندہ بھی یہ چلتے رہیں گے۔ ایک بات مگر نوٹ کر کے رکھ لیں کہ یہ مذاکرات تب تک کامیاب نہیں ہوسکتے، جب تک معاملہ کے بنیادی محرک اور وجہ ِ تنازع کو دور نہیں کر لیا جاتا۔
وہ وجہ تنازع تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی (فتنہ الخوارج الہند )ہے۔ جب تک افغان طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی سرپرستی، فنڈنگ اور سپورٹ جاری رکھے گی، تب تک چاہے چین، روس ، قطر یا کوئی بھی دوسرا ملک ثالثی کرا لے، کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ اصل وجہ تنازع کو دور کرنے کے بعد ہی پاک افغان تعلقات نارملائز ہوسکتے ہیں، اس کے بغیر ہرگز نہیں۔
یہ بہت اہم سوال ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق ملین ڈالر سوال۔ اس کے کئی جوابات ہوسکتے ہیں، مختلف آرا ہیں۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ افغان طالبان کے اندر ٹی ٹی پی کے لئے سپورٹ پہلے سے موجود تھی، تاہم اسے انہوں نے امریکہ کے خلاف جدوجہد کے دوران مخفی رکھا ۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تب چونکہ مسلح جدوجہد چل رہی تھی تو بعض طاقتور فیلڈ کمانڈر اور گروپ جو تب محاذ پر جنگ لڑ رہے تھے، ان کی ٹی ٹی پی کے بارے میں رائے مختلف تھی اور وہ پاکستان کی سائیڈ لیتے تھے ۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، تاہم دو کی طرف اشارہ کروں گا۔
مزید پڑھیں: جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
ایک تو ممتاز افغان طالبان کمانڈر داد اللہ مرحوم جس نے کم از کم دو مواقع پر فاٹا کی ایجنسیوں میں ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان معاہدے کرائے اور کوشش کی کہ تمام تر فوکس قابض غیر ملکی فوج سے لڑنے میں رہے۔ جبکہ حقانی نیٹ ورک کے مشہور کمانڈر سراج حقانی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جنہوں نے پاکستان کے لئے مسائل پیدا نہیں کئے اور ٹی ٹی پی کے ساتھ فاصلہ کیا اور ان کی حوصلہ شکنی کی۔
بدقسمتی سے افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان کا قندھاری (کندھاری)گروپ زیادہ طاقتور ہوگیا، انہیں اہم ترین منصب مل گئے۔اس قندھاری گروپ پر مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان مخالف جذبات غالب ہیں۔ ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب بھی پاکستان کےحوالے سے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں، وہ اس وقت وزیردفاع ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کو ان کی فل سپورٹ حاصل ہے۔ افغان طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ بھی قندھاری ہیں اور اطلاعات ہیں کہ وہ اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والے بعض لیڈروں جن میں گورنر صاحبان بھی شامل ہیں، ان کے زیراثر آچکے ہیں۔ اسی قندھاری گروپ میں سے بعض کے بی ایل اے سے روابط کی بھی اطلاعات ہیں۔ جب تک قندھاری گروپ اپنی سوچ تبدیل نہیں کرتا، ٹی ٹی پی کی سپورٹ جاری رہے گی ۔ افغان طالبان میں تھوڑے بہت پرو پاکستان لوگ بھی موجود ہیں، مگر وہ کمزور ہیں اور اس وقت مزید دب چکے ہیں۔
ٹی ٹی پی اور افغان طالبان گٹھ جوڑ ثابت ہوگیامزید پڑھیں:وائس آف امریکا کی متنازع رپورٹ کا کوئی نوٹس لے گا؟
ویسے اب تو یہ لگ رہا ہے کہ افغان طالبان کے اندر ٹی ٹی پی کی سپورٹ خاصا پہلے سے موجود تھی، جو اب زیادہ نمایاں اور واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ ہونہار پاکستانی صحافی فیض اللہ خان گیارہ بارہ سال قبل افغانستان میں ٹی ٹی پی کے حوالے سے رپورٹ بنانے گئے اور افغان انٹیلی جنس کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ وہ کئی ماہ تک جیل میں قید رہے اور پھر حامد کرزئی نے ایوان صدر میں اپنے آخری دن فیض اللہ کی رہائی کے احکام جاری کئے اور یوں ان کی واپسی ہوئی۔ فیض اللہ نے اس حوالے سے اپنی کتاب ڈیورنڈ لائن کے پار لکھی ، اس میں ذکر کیا کہ جیل میں ان کے ساتھ افغان طالبان علما، کارکن، رہنما وغیرہ قید تھے۔ وہ برملا ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنی ہمدردی اور حمایت کا اعلان کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم تحریک طالبان پاکستان کے ایجنڈے کے حامی ہیں۔
فیض اللہ کی کتاب شائع ہوئی، تاہم تب افغان طالبان لیڈر ایسے تاثر کی نفی کرتے تھے، وہ کہتے کہ ہم اگر اقتدار میں آئے تو پاکستان افغانستان برادر ممالک کی طرح رہیں گے۔ افسوس کہ یہ سب جھوٹے وعدے اور دروغ گوئی تھی۔ وقت آنے پر سب کچھ صاف صاف ہوچکا۔
جامعتہ الرشید کے سربراہ اور ممتاز عالم دین مفتی عبدالرحیم صاحب شائد وہ واحد دیوبندی عالم دین ہیں جنہوں نے کئی ماہ پہلے سے بڑے پرزور انداز میں یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان کو افغانستان سے خبردار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ بار بار اپنے مختلف ویڈیو بیانات اور پوڈ کاسٹ وغیرہ میں یہ کہتے رہے کہ تحریک طالبان افغانستان (ٹی ٹی اے ) اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اصل میں دونوں ایک ہیں اور ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو واضح طور پر افغان حکومت کی بھرپور سپورٹ اور فنانسنگ حاصل ہے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب کی ویڈیوز کا خاصا ردعمل بھی ہوا اور دیوبندی مکتب فکر کے بعض لوگوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا، خاص کر جے یوآئی فضل الرحمن کے کارکن ان کی ویڈیوز پر خاصے برہم نظر آئے۔ سوشل میڈیا پر یہ کیچڑ اچھالتے رہے۔
مزید پڑھیں: 2024 میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں کون سی تھیں؟
مفتی عبدالرحیم صاحب نے لال مسجد کے حوالے سےمولانا عبدالعزیز کے شدت پسند بیانیے کا ابطال بھی دلائل اور معتبر گواہیوں کی مدد سے کیا، جس پر ان کے خلاف مخالفت کا طوفان امنڈ آیا۔ ان پر اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کا الزام بھی لگایا جاتا رہا، تاہم یہ مرد درویش اپنی بات پر ڈٹا رہا۔ مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ میں پاکستان کی بات کر رہا ہوں اور اس جھوٹ کا پردہ چاک کر رہا ہوں جس کی آڑ لے کر ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہ معصوم پاکستانیوں کے لہو کی ہولی کھیلتے رہے ہیں۔
مفتی صاحب کی تمام باتیں درست نکلیں۔ جو کچھ انہوں نے افغانستان کے منفی عزائم کے بارے میں کہا تھا، انہوں نے افغانوں کے اندر پاکستان مخالفانہ زہریلے جذبات کی جو نشاندہی کی تھی، وہ سو فی صد درست نکلیں۔ جس بے شرمی اور بے حمیتی سے افغان فوجیوں نے پاکستانی شہدا کی وردیاں اتاریں، توہین کی اور انہیں مختلف شہروں کے چوکوں میں لٹکا کر تمسخر اڑایا، وہ تو پاکستان اور بھارت جیسے روایتی حریفوں کی جنگوں میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہ تو نرا وحشی پن اور گھٹیا پن کی انتہا تھی۔
یہ پاکستان کی جنگ ہے، کسی اور کی نہیںسوشل میڈیا پر مختلف حلقے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کی سپورٹ میں مختلف عذر اور حیلے بہانے تراشتے پھر رہے ہیں۔ بعض سیاسی حلقے اسٹیبلشمنٹ سے اپنی ناراضی کے باعث بھی اینٹی آرمی اور اینٹی پاکستان بیانیہ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ بہت ہی افسوسناک امر ہے۔ ان کے الزامات بہت کمزور اور غیر منطقی ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ پاکستان اس لئے ایسا کر رہا ہے کہ امریکہ نے بگرام ائیر بیس واپس مانگا ہے اور پاکستان امریکی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ فضول بات ہے، اس لئے کہ اصل مسئلہ ٹی ٹی پی کی پاکستان میں کارروائیاں ہیں۔ آج ٹی ٹی پی پاکستان میں اپنی کارروائیاں روک دے، ہمیں افغان حکومت کے حوالے سے سب سے بڑی شکایت ختم ہوجائے گی۔ اس میں امریکہ کہاں سے آ گیا؟ فوجی جوان اور افسر پاکستانی شہید ہورہے ہیں، مسلسل یہ شدید حملے جاری ہیں۔ اس پر کیا پاکستان ردعمل کا اظہار نہ کرے ؟
مزید پڑھیں: کب جان سے جائیں گی یہ جذباتی وابستگیاں
ویسے بھی صدر ٹرمپ ایک متلون مزاج آدمی ہیں۔ وہ بگرام ائیر بیس کا بیان دے کر اسے بھول گئے، دوسرے ایشوز کی طرف چل نکلے۔ امریکہ کو بگرام اڈہ لینا ہوگا تو وہ اس کے لئے کئی طریقے استعمال کر سکتا ہے۔ سب سے آسان یہ ہے کہ افغان طالبان حکومت کو جو ہفتہ وار ڈآلر مل رہے ہیں، انہیں روک لیا جائے۔ ایسا ہوا تو افغان حکومت اپنی کرنسی افغانی کے مضبوط ہونے پر جو فخر کرتی ہے، وہ سب پاش پاش ہوجائے گا اور ایک مہینے کے بعد چار پانچ سو افغانی کا ایک ڈالر ہوگا۔
پختون خوا حکومت کو سمجھداری دکھانا ہوگی
پختون خوا کے نامزد وزیراعلیٰ نے اپنی پہلی تقریر میں خاصی کمزور اور غیر منطقی باتیں کہیں۔ وہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، خارجہ پالیسی ان کا میدان نہیں۔ افغانستان کے ساتھ ریاست پاکستان جو بھی معاملہ طے کرے، اس کے لئے وزیراعلیٰ کے پی سے منظوری نہیں لی جائے گی۔ ایسا نہیں ہوتا بھیا۔ کیا انڈیا سے مذاکرات کے لئے پہلے مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد میں لینا پڑے گا کہ اس کی بارڈر کے پرلی طرف انڈین پنجاب ہے؟ پھر ایران سے خارجہ پالیسی طے کرتے ہوئے بلوچستان کی صوبائی حکومت سے اپروول لی جائے ؟ ایسا کہاں ہوتا ہے ؟ کیا انڈیا اپنی خارجہ پالیسی بناتے ہوئے انڈین پنجاب یا ہریانہ کی صوبائی حکومت سے اپروول لیتا ہے؟ یا چین کے ساتھ پالیسی میں لداخ کے لوگوں سے مینڈیٹ لیا جاتا ہے؟
سہیل آٖفریدی اور تحریک انصاف کو سمجھنا چاہیےکہ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، یہ پاکستان کی جنگ ہے۔ دہشت گردی کا نشانہ ہم بن رہے ہیں۔ اس کا مقابلہ ہمیں ہی کرنا ہوگا اور واضح موقف کے ساتھ ۔ پختون خوا میں آپریشن سیاسی نہیں ہوریا۔ سیاسی کارکنوں کے خلاف نہیں۔ یہ تو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہے۔
کیا تحریک انصآف ٹی ٹی پی کو اپنا دوست سمجھتی ہے کہ اس کے خلاف آپریشن پر معترض ہے؟کیا ان دہشت گردوں سے اب مذاکرات کا کوئی جواز بچا ہے؟تاہم وفاقی حکومت کو چاہیے کہ نوجوان وزیراعلیٰ کو کلاسیفائیڈ بریفنگ دیں اور انہیں ان شواہد سے آگاہ کریں۔ اگرچہ امکانات کم ہی ہیں کہ وزیراعلیٰ کے پی قائل ہوپائیں۔ اس لئے کہ سہیل آفریدی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ میں ہر معاملے میں عمران خان سے مشورہ کروں گا۔ یعنی وہ ایک کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کے طور پر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔
مزید پڑھیں: استحکام پاکستان پارٹی کے عہدیداران کا باضابطہ اعلان، عبدالعلیم خان صدر مقرر
انصافی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو سائیڈ چننا ہوگیاب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصآف کے سوشل میڈیا سیلز، ایکٹوسٹس اور کی بورڈ وارئیرز یہ طے کر لیں کہ وہ پاکستان کی سائیڈ پر ہیں یا افغانسان کی طرف۔ یہ بہت ضروری ہوگیا ہے۔ معاملات اس نہج پر جا چکے ہیں کہ آپ کو اپنے کیمپ کا تعین کرنا پڑے گا۔ غیر جانبداری کا ڈھونگ نہیں چل سکتا اور نہ ہی “دونوں مسلمان ملک ہیں،لڑائی نہیں ہونی چاہیے ، وغیرہ “کے بھاشن چل سکیں گے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ بنیادی تنازع جب تک حل نہیں ہوتا، لڑائی چلتی رہے گی، اس کے مختلف راونڈز ہوں گے۔ کبھی خاموشی چھا جائے گی، کبھی اچانک شدت آ جائے گی۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ سب اوپر نیچے چلتا رہے گا۔ ہر کوئی اپنا دیکھ لے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔
ہم جیسے تو پوری طرح یکسو ہو کر پاکستان کی سائیڈ پر کھڑے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہے کہ افغانستان کیا کھیل کھیل رہا ہے اور پاکستان کو کیوں تنگ کیا جا رہا ہے؟ اچانک افغان طالبان حکومت کے دل میں انڈیا کی محبت کیسے جاگ اٹھی اور اب تو یہ یوٹرن لیتے ہوئے ملا عمر کے روایتی موقف کو ترک کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھی انڈیا کا حصہ مان گئے ہیں۔
مجھے تحریک انصاف کے بعض لوگوں کی سمجھ نہیں آ رہی۔ پاکستان افغانستان کے حملوں کا جواب نہ دے تو اس پر بھی تنقید، طعنے وغیرہ اور اگر جواب دے دے تو افغان پروپیگنڈہ تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے لگتے ہیں کہ دیکھیں گولہ گرنے سے یہ نقصان ہوگیا۔ بھیا یہ جنگ ہے، اس میں نقصان تو ہوگا۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ قصور کس کا ہے؟ جنگ کس نے چھیڑی اور پاکستان کو ردعمل کرنے پر کون مجبور کر رہا ہے ؟
مزید پڑھیں:استحکام پارٹی نے ملک بھرسے کتنی نشستوں پر مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسمنٹ مانگی؟
یہ کہنا بھی فضول ہے کہ میڈیا کے لوگ عسکری بیانیہ کو فالو کر رہے ہیں۔ اپنے وطن کی محبت میں لکھنا، اپنی افواج کو سپورٹ کرنا، اپنے اوپر حملہ آور دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دینا، ان کے زیریلے پروپیگنڈے کو کاونٹر کرنا عسکری بیانیہ نہیں بلکہ قومی غیرت اور حب الوطنی کہلاتی ہے۔ دنیا بھر میں قومی، ملی غیرت کی یہی تعریف مانی اور سمجھی جاتی ہے۔
ہمارے انصافین دوستوں کو اس حوالے سے کلیئر اور یکسو ہوجانا چاہیے ۔ یہ فیصلہ کی گھڑی ہے اور اس میں اپنایا گیا موقف بعد میں بھی حوالہ بنا رہے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
پاک افغان تنازع عامر خاکوانی