اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں، 97 فلسطینی شہید، 230 زخمی
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
غزہ حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ 10 اکتوبر سے نافذ ہونے والی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی افواج نے متعدد بار اس کی خلاف ورزی کی ہے، جن میں صرف اتوار کے روز 21 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق جنگ بندی کے بعد سے اب تک اسرائیلی کارروائیوں میں 97 فلسطینی شہید اور 230 زخمی ہو چکے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی افواج نے 80 دستاویزی خلاف ورزیاں کیں، جو بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
غزہ حکومت کے مطابق اسرائیلی افواج نے شہری آبادی پر براہ راست فائرنگ، شیلنگ، جان بوجھ کر ٹارگٹ کرنا، فائر بیلٹسبنانا اور شہریوں کی گرفتاری جیسے اقدامات کیے۔
بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی فورسز نے ان حملوں میں ٹینک، فوجی گاڑیاں، ریموٹ کنٹرول کرینز، جنگی طیارے اور ڈرونز استعمال کیے، جبکہ تمام کارروائیاں غزہ کی مختلف گورنریٹس میں کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیے سعودی ولی عہد اور فرانسیسی صدر کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ، غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال
غزہ حکومت نے اقوام متحدہ اور جنگ بندی معاہدے کے ضامن فریقوں سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ان خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کے تحت 10 اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ نافذ ہوا تھا، جس میں اسرائیلی افواج کے تدریجی انخلا، قیدیوں کے تبادلے، انسانی امداد کی فوری فراہمی اور حماس کے غیر مسلح ہونے کی شقیں شامل تھیں۔
یہ جنگ بندی 2 سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد عمل میں آئی، جس میں 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 1 لاکھ 70 ہزار زخمی ہوئے، جبکہ غزہ کی بیشتر تنصیبات تباہ ہو گئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
غزہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیلی افواج
پڑھیں:
نیتن یاہو تنگ آگئے، اسرائیلی حکومت کی ٹرمپ کے دباؤ سے نکلنے کی کوششیں: جرمن خبرایجنسی رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیتن یاہو حکومت امریکی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں سے انحراف کی کوشش کر رہی ہے۔
جرمن ایجنسی کی رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق غزہ کی پٹی میں تمام قیدیوں کی لاشوں کی منتقلی کے قریب پہنچنے کے بعد، اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت جس کی قیادت بنیامین نیتن یاہو کر رہے ہیں، امریکی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمے داریوں سے انحراف کی کوشش کر رہی ہے۔
معاہدے کے دوسرے مرحلے کی طرف پیش رفت کے بجائے، عدم یقینی کی کیفیت قائم ہے اور تل ابیب وقتاً فوقتاً جنگ دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دیتا رہا ہے۔ اس کے جواز میں حماس کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے دعوے میں پیش کیے جاتے رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ رفح کراسنگ “صرف غزہ کے باشندوں کے مصر جانے کے لیے” کھولی جائے گی۔ بعد ازاں مصر نے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ اگر کراسنگ کھلی تو دونوں طرف سے آمد و رفت ممکن ہو گی، جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے میں درج ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی یہ کوشش معاہدے سے بچنے اور فلسطینیوں کو رضاکارانہ طور پر منتقل کرنے کی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ اسرائیلی اہل کار نے مصر کو ذمے دار ٹھہراتے ہوئے کہا “اگر مصر انہیں قبول نہیں کرتا تو یہ اس کی ذمے داری ہے۔”
یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی جب نیتن یاہو کے متوقع دورہ امریکہ سے قبل واشنگٹن کی جانب سے ان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے تاکہ وہ معاہدے کے دوسرے مرحلے اور غزہ کی دوبارہ تعمیر کی طرف بڑھیں۔ ذرائع کے مطابق امریکی حکومت اگلے ہفتے سکیورٹی کمیٹی اور امن کونسل تشکیل دے گی، جس کی نگرانی خود ٹرمپ کریں گے جب کہ اسرائیل اب بھی چاہتا ہے کہ پہلے تمام لاشیں واپس لے لی جائیں۔
اس دوران اسرائیلی اپوزیشن کے رہنما یائیر لیپڈ نے 20 نکاتی امریکی منصوبے کی حمایت میں تحریک پیش کی، جسے اسرائیلی پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ تاہم اس میں حکومت کے اتحادی شامل نہیں ہوئے۔ یہ امر نیتن یاہو پر دباؤ بڑھانے اور داخلی غیر یقینی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔
حماس تنظیم نے بھی زور دیا کہ اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل کرنا ہو گا، رفح کراسنگ دونوں طرف سے کھولی جائے اور اسرائیل کسی ایک طرف کی کارروائی یا معاہدے میں چالاکی نہ کرے۔
فریقین اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں مگر بین الاقوامی ارادے کی سنجیدگی ہی معاہدے کے عملی نفاذ یا ناکامی کا تعین کرے گی۔