ایران میں ایک اور اسرائیلی جاسوس کو پھانسی دے دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران نے ایک اور شخص کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں سزائے موت دے دی ہے۔ یہ کارروائی ایران میں گزشتہ چند ماہ سے جاری ان آپریشنز کا تسلسل ہے جن میں ملک کی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث غیر ملکی ایجنٹوں کو بے نقاب کیا جا رہا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے میزان نیوز ایجنسی کے مطابق عدالتی حکام نے تصدیق کی کہ سزائے موت پانے والا شخص اسرائیلی خفیہ ادارے موساد سے منسلک تھا اور وہ ایران کی حساس اور خفیہ معلومات باقاعدگی سے اسرائیل کو فراہم کر رہا تھا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس شخص کی سرگرمیوں کا پتا انٹیلی جنس اداروں نے ایک طویل نگرانی کے بعد لگایا، جس کے بعد اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔
عرب میڈیا نے ایرانی پراسیکیوٹر کاظم موسوی کے حوالے سے بتایا کہ مجرم کا صیہونی حکومت کی خفیہ سروسز سے براہِ راست رابطہ تھا اور وہ کئی مرتبہ موساد کے افسران سے ملاقاتیں بھی کر چکا تھا۔ تحقیقات کے دوران اس کے قبضے سے حساس نوعیت کے دستاویزات اور معلومات بھی برآمد ہوئیں، جنہیں وہ اسرائیل منتقل کرنے کی تیاری میں تھا۔
ایرانی حکام کے مطابق، انٹیلی جنس اور دیگر سکیورٹی اداروں کی بروقت اور مؤثر کارروائی کے نتیجے میں نہ صرف اس شخص کی شناخت ممکن ہوئی بلکہ مزید حساس معلومات کو افشا ہونے سے بھی بروقت روکا گیا۔
یاد رہے کہ ایران نے ماضی میں بھی متعدد ایسے جاسوسوں کو گرفتار اور پھانسی دی ہے جو مبینہ طور پر موساد کے لیے کام کر رہے تھے۔ گزشتہ ماہ بھی ایک اسرائیلی جاسوس کو ایران میں سزائے موت سنائی گئی تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران اپنی قومی سلامتی کے معاملے میں کسی بھی قسم کی نرمی برتنے کے لیے تیار نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سلامتی کونسل کے نام خط
اسلام ٹائمز: ایران کے قانونی امور اور بین الاقوامی امور کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی ممالک اور امریکہ اسنیپ بیک میکنزم کے ذریعے جن پابندیوں کی واپسی کا دعویٰ کرتے ہیں، انکی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی ہے اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو ان پابندیوں پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ روس کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بہت اہم بیان جاری کیا اور ایک اور قدم میں 18 اکتوبر کو تینوں ممالک ایران، چین اور روس مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کو ایک خط بھیجیں گے، جس میں اس حقیقت کو اجاگر کیا جائے گا کہ قرارداد کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور یہ ممالک سلامتی کونسل کی ان میعاد ختم ہونے والی پابندیوں کی قراردادوں کے پابند نہیں ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آنٹونیوگوترش اور سلامتی کونسل کے موجودہ سربراہ واسیلی نبنزیا کے نام خط میں اٹھارہ اکتوبر دو ہزار پچیس سے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی مدت و اعتبار ختم ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سید عباس عراقچی نے اس خط میں قرارداد بائیس اکتیس کی شق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ ایران کا ایٹمی معاملہ، دس برس گزرنے کے بعد سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج ہو جانا چاہیئے اور اس کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کسی بھی پابندی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ انھوں نے دو ہزار پندرہ میں ایٹمی سمجھوتے کی منظوری کی یاد دہانی کراتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع سے ہی پوری نیک نیتی سے معاہدے کی پابندی کی ہے، لیکن امریکہ نے دو ہزار اٹھارہ میں ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل کر اور پابندیاں نافذ کرکے بین اقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔
سید عباس عراقچی نے ایٹمی سمجھوتے کے رکن یورپی ممالک کے روییّے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے نہ صرف معاہدے پر عمل نہیں کیا بلکہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کر دیں اور اس اقدام سے ایٹمی سمجھوتے کو پہلے سے زیادہ کمزور کر دیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے خط کے ایک حصے میں تاکید کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغربی ممالک کی بار بار خلاف ورزی کے باوجود نہایت صبر و تحمل سے کام لیا اور صرف سمجھوتے کے دائرے میں دو ہزار انیس سے مرحلہ وار تلافی جویانہ اور قابل واپسی اقدامات کئے ہیں۔ سید عباس عراقچی نے آخر میں تاکید کے ساتھ کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ سفارتکاری کی پابندی کی ہے اور ایٹمی سمجھوتے کے تناظر میں تمام فریقوں سے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کرتا ہے۔
دوسری طرف ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کو دس سال گزرنے کے بعد ایران کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اٹھارہ اکتوبر دو ہزار پچیس سے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس میں درج تمام فوجی اور ایٹمی پابندیاں کالعدم ہوگئی ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ اس کے بعد اس قرارداد کے تناظر میں کسی بھی طرح کی پابندی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور ایران کا ایٹمی معاملہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے ختم ہو جانا چاہیئے۔ بیان میں سن دو ہزار اٹھارہ میں ایٹمی سمجھوتے سے غیر قانونی طور پر امریکہ کے باہر نکلنے اور یورپی ممالک کی جانب سے معاہدے کی پابندی نہ کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا گیا ہے کہ تین یورپی ممالک کی جانب سے اسنیپ بیک کو فعال کرنے اور پابندیوں کی بحالی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل نے اب تک ایران کے خلاف سابقہ پابندیوں کی بحالی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور روس و چین کی جانب سے اس اقدام کی مخالفت نے اس سلسلے میں کسی طرح کے قانونی دعوے کو غیر موثر بنا دیا ہے۔ بیان کے آخر میں ایران کی جانب سے سفارتکاری کی پابندی اور پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی سے استفادے کے جائز حق پر تاکید کی گئی ہے۔ ایران کی جانب سے قرارداد 2231 کی میعاد ختم ہونے کے اعلان کو دنیا کے اکثریتی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ ناوابستہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ناوابستہ تحریک کے 121 سے زیادہ رکن ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ قرارداد 2231 کی میعاد 18 اکتوبر 2025 کو ختم ہو جانی چاہیئے۔ دوسری جانب نیویارک میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے گروپ آف فرینڈز کے 21 رکن ممالک نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ قرارداد 2231، 18 اکتوبر کو ختم ہو جائے گی اور یہ ممالک ان پابندیوں پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہیں، جو غیر منصفانہ اور غیر قانونی طور پر واپس کی گئی ہیں۔
ایران کے قانونی امور اور بین الاقوامی امور کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی ممالک اور امریکہ اسنیپ بیک میکنزم کے ذریعے جن پابندیوں کی واپسی کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی ہے اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو ان پابندیوں پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ روس کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بہت اہم بیان جاری کیا اور ایک اور قدم میں 18 اکتوبر کو تینوں ممالک ایران، چین اور روس مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کو ایک خط بھیجیں گے، جس میں اس حقیقت کو اجاگر کیا جائے گا کہ قرارداد کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور یہ ممالک سلامتی کونسل کی ان میعاد ختم ہونے والی پابندیوں کی قراردادوں کے پابند نہیں ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ یورپی یونین، امریکہ کی خفیہ اور کھلی حمایت کے ساتھ، سنیپ بیک میکانزم کے مبینہ طور پر فعال ہونے کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نفاذ پر اپنے موقف پر زور دے رہا ہے۔
اس سلسلے میں، یورپی یونین نے ایرانی جوہری معاملے پر اپنے غیر تعمیری موقف کو جاری رکھتے ہوئے، ایک نیا بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یونین کے متعدد غیر رکن ممالک نے اسنیپ بیک میکانزم کے نفاذ کے بعد، ایران کے خلاف جوہری پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے یورپی کونسل کے فیصلے کے ساتھ ہم آہنگی کر لی ہے۔ یورپی یونین کی کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ ایران کے خلاف جوہری پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔ یورپی یونین کی کونسل نے اپنے نئے فیصلے میں اعلان کیا ہے کہ ایران سے خام تیل، قدرتی گیس، پیٹرو کیمیکلز اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کے ساتھ ساتھ ایران میں استعمال ہونے والے اہم آلات کی فروخت اور فراہمی پر بھی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ تینوں یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے ختم شدہ قراردادوں (بشمول قراردادیں 1696، 1737، 1747، 1803، 1835، 1929) کو واپس کرنے کے دعوے پر کان نہ دھریں اور قرارداد 2231 کو منسوخ کرنے پر غور کریں۔