میئر کا الیکشن مسلمان امیدوار کے جیتنے پر صدر ٹرمپ نیویارک کا کنٹرول سنبھال لیں گے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
نیویارک سٹی کے میئر کے انتخاب سے قبل آخری مباحثے میں ڈیموکریٹک امیدوار ظہران ممدانی، سابق گورنر اینڈریو کومو اور ریپبلکن امیدوار کرٹس سلوا کے درمیان سخت الزامات اور جوابی حملے دیکھنے میں آئے۔
یہ بھی پڑھیں:نیویارک کی میئر شپ: ٹرمپ کو ظہران ممدانی کی جیت کیوں یقینی نظر آنے لگی؟
مباحثہ لاگارڈیا کمیونٹی کالج، کوئینز میں ہوا جہاں امیدواروں نے اپنے مخصوص نکاتِ نظر کو دہراتے ہوئے ایک دوسرے پر تجربے، پالیسیوں اور کردار کے حوالے سے تنقید کی۔
ممدانی، جو سروے میں واضح برتری پر ہیں، نے شہری زندگی کو سستا بنانے، کرایہ منجمد کرنے، مفت بس سروس اور نرسری تعلیم مفت فراہم کرنے کے منصوبوں کا دفاع کیا۔
کومو نے ان منصوبوں کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ممدانی کبھی کسی ادارے کو نہیں چلایا، نہ انتظامی تجربہ رکھتے ہیں۔
ریپبلکن امیدوار سلوا نے دونوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ممدانی کا تجربہ ایک نیپکن پر سما سکتا ہے، اور کومو کی ناکامیاں ایک عوامی لائبریری بھر سکتی ہیں۔
Mamdani just bodied both Adams and Cuomo in one breath:
“I won’t be the mayor who calls you to stay out of jail.
Now that’s a shot across the machine. pic.twitter.com/jIkd6xywzn
— Brian Allen (@allenanalysis) October 15, 2025
مباحثے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سایہ بھی نمایاں رہا۔ کومو نے کہا کہ اگر ممدانی جیتے تو ٹرمپ نیویارک کا کنٹرول سنبھال لیں گے، جبکہ ممدانی نے کومو کو ’ٹرمپ کا کٹھ پتلی‘ قرار دیا۔
فلسطین کے حق میں ممدانی کے مؤقف پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ کومو نے اسے یہود دشمنی سے جوڑا، مگر ممدانی نے کہا کہ میں وہ میئر ہوں گا جو یہودی شہریوں کا تحفظ اور احترام دونوں کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:نیویارک میئر شپ کے امیدوار زہران ممدانی کی پرتعیش شادی تقریب، نظریات پر سوال اٹھنے لگے
انہوں نے الزام لگایا کہ ان پر غلط الزامات صرف اس لیے لگائے جا رہے ہیں کہ وہ پہلے مسلمان امیدوار ہیں جن کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں۔
ممدانی نے دورانِ مباحثہ اعلان کیا کہ وہ کامیابی کی صورت میں موجودہ پولیس کمشنر جیسیکا ٹش کو برقرار رکھیں گے، جو ان کے بعض حامیوں کے لیے متنازع فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔
مباحثے کے دوران کومو کو ایک بار پھر ان الزامات کا سامنا کرنا پڑا جن کے باعث وہ 2021 میں گورنری سے مستعفی ہوئے تھے۔ ممدانی نے ان سے براہِ راست سوال کیا کہ آپ ان 13 خواتین سے کیا کہیں گے جنہیں آپ نے ہراساں کیا؟ جس پر کومو نے جواب دیا کہ یہ مقدمات قانونی طور پر ختم ہو چکے ہیں۔
واضح رہے کہ نیویارک کا میئرل انتخاب 4 نومبر کو ہوگا، اور یہ مباحثہ ووٹروں کے فیصلے پر اہم اثر ڈالنے کا امکان رکھتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اینڈریو کومو ریپبلکن امیدوار کرٹس سلوا ظہران ممدانیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اینڈریو کومو کومو نے کہا کہ
پڑھیں:
فرانس میں ہر تیسرا مسلمان تعصب اور امتیازی سلوک کا شکار ہے: رپورٹ میں انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
فرانس میں مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور تازہ رپورٹ کے مطابق ہر تین میں سے ایک مسلمان خود کو اس کا شکار قرار دیتا ہے۔
غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق فرانس کی حقوق کی محتسب کلیئر ہیدون کی جانب سے جاری رپورٹ میں 2024 کے ایک سروے کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں پانچ ہزار افراد نے حصہ لیا۔
فرانسیسی قانون کے تحت نسلی، لسانی یا مذہبی بنیادوں پر ڈیٹا اکٹھا کرنے پر پابندی ہے، جس کے باعث امتیازی سلوک سے متعلق جامع اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم سروے کے مطابق سات فیصد افراد نے گزشتہ پانچ برسوں میں مذہبی بنیادوں پر امتیاز کا سامنا کرنے کا اعتراف کیا، جو 2016 میں پانچ فیصد تھا۔
مسلمان، یا وہ افراد جنہیں مسلمان سمجھا جاتا ہے، اس امتیاز کا سب سے زیادہ شکار پائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق 34 فیصد مسلمانوں نے خود کو متاثرہ قرار دیا ہے، جبکہ دیگر مذاہب کے افراد میں یہ شرح 19 فیصد اور مسیحیوں میں صرف چار فیصد رہی۔
مسلمان خواتین میں امتیازی سلوک کی شرح مزید بلند ہے، جو 38 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حجاب پہننے والی خواتین کو اکثر ملازمتوں میں رکاوٹوں، کیریئر میں تعطل اور بعض اوقات کھیلوں میں شرکت پر پابندی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرانسیسی سیکولرزم کے متعلق عوامی غلط فہمیاں امتیاز میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، کیونکہ بہت سے لوگ اسے “عوامی مقامات پر مذہبی علامتوں پر پابندی” کے طور پر سمجھتے ہیں، حالانکہ قانون کا اصل مقصد ریاست کی غیرجانبداری اور مذہبی آزادی کا تحفظ ہے۔
حقوق گروپس کے مطابق سرکاری سطح پر حجاب پر پابندیاں دراصل مذہبی آزادی کے برعکس ہیں اور خواتین کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے لباس کا انتخاب کریں۔