ماہرینِ فلکیات نے ایک بین السیاراتی دمدار ستارہ دریافت کیا ہے جسے اٹلس تھری آئی کا نام دیا گیا ہے، جو جلد سورج کے قریب ترین پہنچنے والا ہے۔

یہ ستارہ اب تک دریافت ہونے والا تیسرا دمدار ستارہ ہے جو کسی دوسرے نظامِ شمسی سے آیا ہے اور اسی وجہ سے یہ سائنسدانوں میں غیر معمولی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کہکشاں کے مرکز سے پراسرار روشنی کے اخراج نے ماہرینِ فلکیات کو حیران کردیا

امریکی ریاست مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرِ فلکیات پروفیسر ڈیرل سیلگمین نے اسے انتہائی دلچسپ دریافت قرار دیا۔

بین السیاراتی دمدار ستارہ دراصل ایسا ستارہ ہوتا ہے جو ہمارے نظامِ شمسی سے باہر کسی دوسرے نظام سے آتا ہے اور خلا میں سفر کرتے ہوئے سورج کے قریب سے گزرتا ہے۔

جب دمدار ستارے سورج کے قریب پہنچتے ہیں تو ان کی سطح سے گیسیں اور گردوغبار خارج ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اٹلس تھری بھی سورج سے تقریباً 6.

4 اے یو (یعنی زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے سے ساڑھے 6 گنا زیادہ) کے فاصلے پر یہ عمل ظاہر کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نظام شمسی سے 3 ارب سال پرانا دمدار ستارہ دریافت

ماہرین کے مطابق جب یہ ستارہ سورج کے قریب ترین مقام پر پہنچے گا تو اس کا مشاہدہ مزید انکشافات کا باعث بنے گا، جو اس کے ماخذ یا سابقہ ماحول کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرے گا۔

پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر جیسن رائٹ نے کہا کہ ’یہ صرف تیسرا بین السیاراتی دمدار ستارہ ہے جسے ہم تفصیل سے مشاہدہ کر سکتے ہیں، اور ماہرینِ فلکیات کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ دوسرے نظامِ ہائے شمسی کے دمدار ستاروں کو سمجھ سکیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اٹلس 3I بین السیارہ پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی دمدار ستارہ سائنسدان سورج مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی نظام شمسی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اٹلس 3I بین السیارہ دمدار ستارہ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی اسٹیٹ یونیورسٹی سورج کے قریب دمدار ستارہ

پڑھیں:

آئس لینڈ میں پہلی مرتبہ مچھر دریافت

آئس لینڈ میں پہلی مرتبہ مچھر دریافت کیے گئے ہیں، جو اس جزیرہ نما ملک کے لیے ایک غیر معمولی واقعہ ہے کیونکہ یہ دنیا کے ان چند خطوں میں شمار ہوتا ہے جہاں اب تک مچھر موجود نہیں تھے۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف پیر کے روز ایک محقق نے کیا۔

نیچرل سائنس انسٹیٹیوٹ آف آئس لینڈ کے ماہرِ حشرات (انٹومولوجسٹ) میتھیاس الفریڈسن کے مطابق دارالحکومت ریکیاوک سے تقریباً 30 کلومیٹر شمال میں ’کولیسٹا انولاتا‘ نسل کے 3 مچھر (2 مادہ اور ایک نر) دیکھے گئے۔

میتھیاس الفریڈسن نے بتایا کہ ’یہ تمام مچھر وائن رَپس سے اکٹھے کیے گئے جو عام طور پر پروانوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں‘۔

یہ طریقہ اس طرح کام کرتا ہے کہ گرم شراب میں چینی ملا کر رسّیاں یا کپڑے کے ٹکڑے بھگوئے جاتے ہیں اور پھر انہیں باہر لٹکایا جاتا ہے تاکہ میٹھا پسند کرنے والے کیڑے ان کی طرف راغب ہوں۔

انٹارکٹیکا کے ساتھ ساتھ آئس لینڈ بھی اب تک زمین کے ان چند مقامات میں شامل تھا جہاں مچھر نہیں پائے جاتے تھے۔

میتھیاس الفریڈسن نے مزید کہا کہ ’یہ آئس لینڈ کے قدرتی ماحول میں مچھروں کی موجودگی کا پہلا باقاعدہ ریکارڈ ہے، کئی سال پہلے ایڈیس نگریپیس (قطبی مچھر کی ایک قسم) کا ایک نمونہ کیفلاوِک ایئرپورٹ پر ایک طیارے سے ملا تھا، لیکن افسوس کہ وہ نمونہ اب ضائع ہو چکا ہے‘۔

متعلقہ مضامین

  • کروشیا کے ساحل پر دو ہزار سال پرانا رومی جہاز حیرت انگیز حالت میں دریافت
  • گوگل کروم کے حریف کے طور پر چیٹ جی پی ٹی اٹلس براؤزر پیش
  • آرٹیکل 191اے ون کو 191اے تھری کے ساتھ ملا کر پڑھیں،آرٹیکل کہتا ہے آئینی بنچ کیلئے ججز جوڈیشل کمیشن نامزد کرے گا، جسٹس عائشہ ملک
  • تاریخی بلندی پر پہنچنے کے بعد سونے کی قیمت میں آج بڑی کمی ریکارڈ
  • سائنسدانوں کا 60 سالوں سے زمین کے ساتھ محوِ سفر نیا ‘چاند’ دریافت کرنے کا دعویٰ، ناسا کی تصدیق
  • آئس لینڈ میں پہلی مرتبہ مچھر دریافت
  • اوپن اے آئی نے اے آئی براؤزر ’اٹلس‘ متعارف کرا دیا
  • سائنسدانوں کا بڑا کارنامہ: دماغ میں خودکشی پر اکسانے والا کیمیکل دریافت
  • غزہ: نازک جنگ بندی میں یو این ادارے فاقہ کشوں تک پہنچنے میں مصروف