حکومت بلوچستان کے بدلے وزارت عظمیٰ کا معاہدہ نہیں، دونوں حکومتیں ہماری ہوگی، سردار کھیتران
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ حکومت بلوچستان کے حوالے سے اڑھائی سالہ معاہدہ حقیقت ہے۔ مرکز میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت میں اڑھائی سالہ معاہدہ طے ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے دعویٰ کیا ہے کہ مرکزی سطح پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان حکومت بلوچستان سے متعلق اڑھائی سالہ معاہدہ پر اتفاق ہوا ہے۔ جس کے بدلے میں پیپلز پارٹی نے کچھ نہیں مانگا ہے۔ بلوچستان میں اڑھائی سال حکومت کرے گی۔ انہوں نے کوئٹہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان کے حوالے سے اڑھائی سالہ معاہدہ حقیقت ہے۔ مرکز میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت میں اڑھائی سالہ معاہدہ طے ہوا ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کے ریمارکس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت کے بدلے بلاول کو وزیراعظم بنانے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ اڑھائی سال پورے ہونے کے بعد معاہدے کے تحت بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے امیدوار کون ہوگا، یہ معلوم نہیں ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حکومت بلوچستان پیپلز پارٹی ہوا ہے
پڑھیں:
عظمیٰ بخاری کا ردعمل: حسن مرتضیٰ کے بیان پر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو معافی مانگنی چاہیے
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ کے حالیہ بیان پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس غیرذمہ دارانہ بیان پر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت، خاص طور پر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ کیا پیپلز پارٹی خود حسن مرتضیٰ کے بیان پر نوٹس لے گی یا ہم سخت جواب دینے پر مجبور ہوں؟ اُنہوں نے سوال اٹھایا کہ کہیں حسن مرتضیٰ اپنی ہی قیادت کے خلاف سازش تو نہیں کر رہے۔
انہوں نے کہا، “ایک طرف جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور دوسری طرف ہماری قیادت پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ اگر پارٹی قیادت کے کنٹرول میں ان جیسے ہارے ہوئے لوگ نہیں تو سوال تو اٹھیں گے۔”
عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو چاہیے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور اشتعال انگیز بیانات پر واضح مؤقف اختیار کرے، ورنہ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ان کے مطابق، پیپلز پارٹی کے وہ رہنما جو پنجاب سے ہار چکے ہیں، شاید اب یہ بھی برداشت نہیں کر پا رہے کہ پنجاب میں کوئی اور جماعت مؤثر اور فعال حکومت چلا رہی ہے۔
انہوں نے پیپلز پارٹی کو مشورہ دیا کہ اپنی سیاسی صفوں کو سنبھالے اور دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنے گھر کو درست کرے۔