حضرت عائشہؓ کی سخاوت اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی آزمائش
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن امِ عبد اللہ کہلاتی تھیں۔ ان کے بھانجے عبد اللہ بن زبیرؓ اور عروہ بن زبیرؓ حضرت اسماءؓ کے بیٹے تھے لیکن حضرت عائشہؓ کی گود میں ہی پلے تھے اور پرورش پائی تھی۔ خالہ ماں ہی ہوتی ہے، تو عبد اللہ بن زبیرؓ کی نسبت سے امِ عبد اللہ کہلاتی تھیں۔ ساری زندگی ماں بیٹے کی طرح رہے لیکن ایک دفعہ ماں بیٹے میں جھگڑا ہو گیا، وہ جھگڑا بیان کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ پاک بہت نوازتے تھے، بڑی دولت آتی تھی، دل بھی بہت بڑا تھا۔ عام طور پر یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوتیں، دولت ہوتی ہے تو دل نہیں ہوتا، دل ہوتا ہے تو دولت نہیں ہوتی۔ یہ دو چیزیں بہت کم لوگوں میں اکٹھی ہوتی ہے کہ جتنی دولت ہے اتنا دل بھی ہو۔ حضرت عائشہؓ کا دل بہت بڑا تھا، جو چیز آتی تھی بانٹ دیتی تھیں، بہت کچھ آتا تھا ان کے پاس لیکن تقسیم کر دیتی تھیں۔
حضرت عائشہؓ کی ایک کی خادمہ اور شاگرد تھیں عمرہ بنت عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہا، وہ حضرت عائشہؓ کی کیفیت یہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ رمضان میں ایک لاکھ درہم کسی نے ہدیہ بھیجا، یہ صدقہ خیرات نہیں تھا۔ عمرہؓ کہتی ہیں کہ ہم گھر میں تین چار لوگ تھے، عروہؓ تھا، میں تھیؓ، ایک عائشہ لڑکی اور تھی، صبح سے شام تک ہماری ڈیوٹی لگ گئی کہ فلاں یتیم کے گھر دے کر آؤ، فلاں بیوہ کے گھر دے کر آؤ، فلاں مجاہد کے گھر دے کر آؤ۔ سارا دن ہم بانٹے رہے بانٹے رہے اور عصر تک سب ختم ہو گیا۔
عمرہؓ کہتی ہیں کہ ہم چار پانچ بچے بانٹنے میں لگے رہے، یتیم کے گھر میں، مجاہد کے گھر میں، کسی شہید کے گھر میں، کسی ضرورتمند کے گھر میں، تھال بھر بھر کر دے رہے ہیں، حتیٰ کہ عصر تک سب ختم ہو گیا۔ کہتی ہیں کہ گھر کا نظام میرے حوالے تھا، ہانڈی روٹی وغیرہ۔ عصر کے بعد میں نے دیکھا کہ اپنے گھر کے لوگوں کے روزہ کھولنے کے لیے گھر میں کوئی شے نہیں تھی۔ میں نے اماں جی سے کہا کہ روزہ کھولنے کے لیے کوئی شے نہیں ہے، تو اماں جی نے ڈانٹا کہ پہلے بتانا تھا، وہ پیسے تو میرے ہی تھے، کچھ درہم روک لیتے اور کھجوریں منگوا لیتے۔ اب میرے پاس کچھ نہیں ہے، پانی سے روزہ کھولو۔ عمرہؓ کہتی ہیں کہ شام کو ہم سب نے پانی سے روزہ کھولا۔
یہ تھی حضرت عائشہؓ کی کیفیت کہ جو آیا بانٹ دیا۔ ایک دن عبد اللہؓ کہنے لگے کہ میں اماں کا ہاتھ روکوں گا۔ بیٹا آگیا موج میں کہ سارا کچھ بانٹ دیتی ہیں، بچے گھر میں بھوکے رہتے ہیں، میں اماں کا ہاتھ روکوں گا۔ حضرت عائشہؓ کو پتہ چلا تو فرمایا اچھا! میرا بھی کوئی ہاتھ روکنے والا ہے؟ اللہ دیتا ہے اور میں اللہ کے بندوں کو دیتی ہوں، یہ کون ہوتا ہے میرا ہاتھ روکنے والا؟ خدا کی قسم آج کے بعد عبد اللہؓ سے بات نہیں کروں گی، اسے کہو اس گھر کے اندر نہ آئے، میں اس سے کوئی کلام نہیں کروں گی۔ اماں آگئیں غصے میں۔
اب عبد اللہؓ کو اپنی مصیبت پڑ گئی کہ ہاتھ روکتے روکتے خود رک گئے، اور سفارشیں تلاش کرتے پھر رہے ہیں کہ اماں جی کو منا لوں، اماں جیسے معافی لے لوں۔ اب لوگ آ رہے ہیں اور منتیں کر رہے ہیں لیکن نہیں مان رہیں۔ کسی نے عبد اللہؓ سے کہا کہ ایک ہی صورت ہے کہ حضرت آمنہؓ کے خاندان کا کوئی بوڑھا آدمی آجائے گا تو اس کو وہ ناں نہیں کریں گی۔ بنو نجار حضورؐ کے ننھیال تھے۔ اس خاندان کا کوئی بابا آ جائے تو اماں جی اس کو ناں نہیں کریں گی، باقی کسی کی نہیں مانیں گی۔ وہ تلاش کر کے دو بزرگ لے آئے۔ مسور بن مخرمہؓ اور عبد الرحمٰن بن اسودؓ۔ اب بابے تو بابے ہوتے ہیں۔ عبد اللہؓ کو منع کیا ہوا تھا کہ گھر میں قدم نہیں رکھنا۔ وہ آ کر باہر کھڑے ہوئے، بتایا کہ اماں جی میں عبد الرحمٰن ہوں۔ فرمایا، اندر آجائیں۔ کہا، میرے ساتھ مسور بھی ہے۔ فرمایا، آجائیں۔ کہا، ایک آدمی اور بھی ہے۔ فرمایا، آجائیں۔ اس طرح وہ عبد اللہؓ کو ساتھ اندر لے گئے۔
حضرت عائشہؓ کے آگے پردہ لٹکا ہوتا تھا اور وہ اس کے پیچھے بیٹھی ہوتی تھیں، سامنے آ کر لوگ بیٹھتے تھے اور بات کرتے تھے۔ اب یہ لوگ آ کر پردے کے سامنے بیٹھے گئے اور حضرت عائشہؓ اندر ہیں۔ انہوں نے عبد اللہؓ سے کہا کہ ہم باتیں کرتے ہوئے جب یہ بات کریں گے، تم تو بھانجے ہو، کپڑا اٹھا کر اندر چلے جانا اور قدموں میں پڑ جانا۔ انہوں نے یہ پلاننگ کی اور بات شروع کی، جب یہ بات کی تو عبد اللہ اٹھے اور کپڑا اٹھایا اور اندر چلے گئے، اماں جی خدا کا واسطہ ہے معاف کر دیں، خدا کا واسطہ معاف کر دیں۔ اس طرح بابوں نے معافی لے کر دی عبد اللہ بن زبیرؓ کو۔ اماں جی کہتی ہیں کہ اس نے جو بات کہی ہے، مجھے اُن باتوں سے اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جب مجھ پر الزام لگایا گیا تھا، اس کی بات نے مجھے زیادہ تکلیف دی ہے۔
جب قسم توڑیں تو اس کا کفارہ ہوتا ہے اور کفارے میں پہلا نمبر غلام آزاد کرنے کا ہے۔ انہیں پھر خیال آیا کہ میں نے بہت بڑی قسم اٹھا لی تھی جو مجھے اٹھانی نہیں چاہیے تھی، چنانچہ چالیس غلام خرید کر آزاد کیے ایک قسم کے کفارے میں کہ بڑی غلطی کا کفارہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ میں نے یہ بات بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ دولت دے تو دل بھی دے، اور دل دے تو دولت بھی دے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عبد اللہ بن زبیر اللہ تعالی کے گھر میں رہے ہیں ہوتا ہے
پڑھیں:
پہلگام میں بدترین دہشتگردانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں، جماعت اسلامی ہند
سید سعادت اللہ حسینی نے سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے بیانیوں سے گریز کریں جو مزید کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے ہولناک دہشتگرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس حملے میں 26 بے گناہ افراد بشمول غیر ملکی سیاح جاں بحق ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر نے اس المناک واقعہ پر اپنے گہرے رنج و غم اور غصے کا اظہار کیا اور فوری انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم پہلگام میں منگل کے روز ہونے والے بدترین دہشت گرد حملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ اس حملے میں بے گناہ جانوں کا جانا، جن میں غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں، انتہائی افسوسناک ہے، ہماری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اس طرح کے وحشیانہ فعل کی کوئی بھی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مکمل طور پر غیر انسانی حملہ ہے، اس کی واضح الفاظ میں غیر مشروط مذمت ہونی چاہیئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس حملے کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر سخت ترین سزا دی جائے۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے زور دے کر کہا کہ کوئی بھی مقصد، سیاسی ہو، نظریاتی یا کوئی اور ہو، اس طرح کی درندگی کا جواز قطعی نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر انسانی عمل ہے، جو ہر اخلاقی اور انسانی ضابطے کی سخت خلاف ورزی ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے ریاستی اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے فوری، فیصلہ کن اور شفاف اقدامات کرے اور کشمیر میں سکیورٹی کے انتظامات کو مؤثر بنائے اور کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرے۔ انہوں نے سول سوسائٹی، مذہبی رہنماؤں اور میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ایسے بیانیوں سے گریز کریں، جو مزید کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہوں یا بے گناہ گروہوں کو نشانہ بنا سکتے ہوں۔