ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن امِ عبد اللہ کہلاتی تھیں۔ ان کے بھانجے عبد اللہ بن زبیرؓ اور عروہ بن زبیرؓ حضرت اسماءؓ کے بیٹے تھے لیکن حضرت عائشہؓ کی گود میں ہی پلے تھے اور پرورش پائی تھی۔ خالہ ماں ہی ہوتی ہے، تو عبد اللہ بن زبیرؓ کی نسبت سے امِ عبد اللہ کہلاتی تھیں۔ ساری زندگی ماں بیٹے کی طرح رہے لیکن ایک دفعہ ماں بیٹے میں جھگڑا ہو گیا، وہ جھگڑا بیان کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ پاک بہت نوازتے تھے، بڑی دولت آتی تھی، دل بھی بہت بڑا تھا۔ عام طور پر یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوتیں، دولت ہوتی ہے تو دل نہیں ہوتا، دل ہوتا ہے تو دولت نہیں ہوتی۔ یہ دو چیزیں بہت کم لوگوں میں اکٹھی ہوتی ہے کہ جتنی دولت ہے اتنا دل بھی ہو۔ حضرت عائشہؓ کا دل بہت بڑا تھا، جو چیز آتی تھی بانٹ دیتی تھیں، بہت کچھ آتا تھا ان کے پاس لیکن تقسیم کر دیتی تھیں۔
حضرت عائشہؓ کی ایک کی خادمہ اور شاگرد تھیں عمرہ بنت عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہا، وہ حضرت عائشہؓ کی کیفیت یہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ رمضان میں ایک لاکھ درہم کسی نے ہدیہ بھیجا، یہ صدقہ خیرات نہیں تھا۔ عمرہؓ کہتی ہیں کہ ہم گھر میں تین چار لوگ تھے، عروہؓ تھا، میں تھیؓ، ایک عائشہ لڑکی اور تھی، صبح سے شام تک ہماری ڈیوٹی لگ گئی کہ فلاں یتیم کے گھر دے کر آؤ، فلاں بیوہ کے گھر دے کر آؤ، فلاں مجاہد کے گھر دے کر آؤ۔ سارا دن ہم بانٹے رہے بانٹے رہے اور عصر تک سب ختم ہو گیا۔
عمرہؓ کہتی ہیں کہ ہم چار پانچ بچے بانٹنے میں لگے رہے، یتیم کے گھر میں، مجاہد کے گھر میں، کسی شہید کے گھر میں، کسی ضرورتمند کے گھر میں، تھال بھر بھر کر دے رہے ہیں، حتیٰ کہ عصر تک سب ختم ہو گیا۔ کہتی ہیں کہ گھر کا نظام میرے حوالے تھا، ہانڈی روٹی وغیرہ۔ عصر کے بعد میں نے دیکھا کہ اپنے گھر کے لوگوں کے روزہ کھولنے کے لیے گھر میں کوئی شے نہیں تھی۔ میں نے اماں جی سے کہا کہ روزہ کھولنے کے لیے کوئی شے نہیں ہے، تو اماں جی نے ڈانٹا کہ پہلے بتانا تھا، وہ پیسے تو میرے ہی تھے، کچھ درہم روک لیتے اور کھجوریں منگوا لیتے۔ اب میرے پاس کچھ نہیں ہے، پانی سے روزہ کھولو۔ عمرہؓ کہتی ہیں کہ شام کو ہم سب نے پانی سے روزہ کھولا۔
یہ تھی حضرت عائشہؓ کی کیفیت کہ جو آیا بانٹ دیا۔ ایک دن عبد اللہؓ کہنے لگے کہ میں اماں کا ہاتھ روکوں گا۔ بیٹا آگیا موج میں کہ سارا کچھ بانٹ دیتی ہیں، بچے گھر میں بھوکے رہتے ہیں، میں اماں کا ہاتھ روکوں گا۔ حضرت عائشہؓ کو پتہ چلا تو فرمایا اچھا! میرا بھی کوئی ہاتھ روکنے والا ہے؟ اللہ دیتا ہے اور میں اللہ کے بندوں کو دیتی ہوں، یہ کون ہوتا ہے میرا ہاتھ روکنے والا؟ خدا کی قسم آج کے بعد عبد اللہؓ سے بات نہیں کروں گی، اسے کہو اس گھر کے اندر نہ آئے، میں اس سے کوئی کلام نہیں کروں گی۔ اماں آگئیں غصے میں۔
اب عبد اللہؓ کو اپنی مصیبت پڑ گئی کہ ہاتھ روکتے روکتے خود رک گئے، اور سفارشیں تلاش کرتے پھر رہے ہیں کہ اماں جی کو منا لوں، اماں جیسے معافی لے لوں۔ اب لوگ آ رہے ہیں اور منتیں کر رہے ہیں لیکن نہیں مان رہیں۔ کسی نے عبد اللہؓ سے کہا کہ ایک ہی صورت ہے کہ حضرت آمنہؓ کے خاندان کا کوئی بوڑھا آدمی آجائے گا تو اس کو وہ ناں نہیں کریں گی۔ بنو نجار حضورؐ کے ننھیال تھے۔ اس خاندان کا کوئی بابا آ جائے تو اماں جی اس کو ناں نہیں کریں گی، باقی کسی کی نہیں مانیں گی۔ وہ تلاش کر کے دو بزرگ لے آئے۔ مسور بن مخرمہؓ اور عبد الرحمٰن بن اسودؓ۔ اب بابے تو بابے ہوتے ہیں۔ عبد اللہؓ کو منع کیا ہوا تھا کہ گھر میں قدم نہیں رکھنا۔ وہ آ کر باہر کھڑے ہوئے، بتایا کہ اماں جی میں عبد الرحمٰن ہوں۔ فرمایا، اندر آجائیں۔ کہا، میرے ساتھ مسور بھی ہے۔ فرمایا، آجائیں۔ کہا، ایک آدمی اور بھی ہے۔ فرمایا، آجائیں۔ اس طرح وہ عبد اللہؓ کو ساتھ اندر لے گئے۔
حضرت عائشہؓ کے آگے پردہ لٹکا ہوتا تھا اور وہ اس کے پیچھے بیٹھی ہوتی تھیں، سامنے آ کر لوگ بیٹھتے تھے اور بات کرتے تھے۔ اب یہ لوگ آ کر پردے کے سامنے بیٹھے گئے اور حضرت عائشہؓ اندر ہیں۔ انہوں نے عبد اللہؓ سے کہا کہ ہم باتیں کرتے ہوئے جب یہ بات کریں گے، تم تو بھانجے ہو، کپڑا اٹھا کر اندر چلے جانا اور قدموں میں پڑ جانا۔ انہوں نے یہ پلاننگ کی اور بات شروع کی، جب یہ بات کی تو عبد اللہ اٹھے اور کپڑا اٹھایا اور اندر چلے گئے، اماں جی خدا کا واسطہ ہے معاف کر دیں، خدا کا واسطہ معاف کر دیں۔ اس طرح بابوں نے معافی لے کر دی عبد اللہ بن زبیرؓ کو۔ اماں جی کہتی ہیں کہ اس نے جو بات کہی ہے، مجھے اُن باتوں سے اتنی تکلیف نہیں ہوئی تھی جب مجھ پر الزام لگایا گیا تھا، اس کی بات نے مجھے زیادہ تکلیف دی ہے۔
جب قسم توڑیں تو اس کا کفارہ ہوتا ہے اور کفارے میں پہلا نمبر غلام آزاد کرنے کا ہے۔ انہیں پھر خیال آیا کہ میں نے بہت بڑی قسم اٹھا لی تھی جو مجھے اٹھانی نہیں چاہیے تھی، چنانچہ چالیس غلام خرید کر آزاد کیے ایک قسم کے کفارے میں کہ بڑی غلطی کا کفارہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ میں نے یہ بات بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ دولت دے تو دل بھی دے، اور دل دے تو دولت بھی دے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عبد اللہ بن زبیر اللہ تعالی کے گھر میں رہے ہیں ہوتا ہے

پڑھیں:

دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان

لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی اتحاد کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے، اسکی بلیک میلنگ و جارحیت میں کسی بھی قسم کی کمی نہ ہوگی بلکہ اس امر کے باعث دشمن مزید طلبگار ہو گا اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے ساتھ وابستہ اتحاد "الوفاء للمقاومۃ" کے سربراہ محمد رعد نے اعلان کیا ہے کہ گو کہ ہم اسلامی مزاحمت میں، اِس وقت مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور دشمن کی ایذا رسانی و خلاف ورزیوں کے سامنے صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی سرزمین پر پائیدار ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق اپنے موقف و انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ اپنے اور اپنے وطن کے وقار کا دفاع کر سکیں۔ عرب ای مجلے العہد کے مطابق محمد رعد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ملک لبنان کی خودمختاری کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں اور  خون تک کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور مزاحمت کے انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ دشمن؛ ہم سے ہتھیار ڈلوانے یا ہمیں اپنے معاندانہ منصوبے کے سامنے جھکانے کو آسان نہ سمجھے۔
  سربراہ الوفاء للمقاومہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب بھی لبنان کے اندر سے کچھ ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جو قابض دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے اور لبنان کی خودمختاری سے ہاتھ اٹھا لینے پر اُکسا رہی ہیں درحالیکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ ملکی مفادات کا تحفظ کر سکیں گے! انہوں نے کہا کہ ان افراد نے انتہائی بے شرمی اور ذلت کے ساتھ ملک کو غیروں کی سرپرستی میں دے دیا ہے جبکہ یہ لوگ، خودمختاری کے جھوٹے نعرے لگاتے ہیں۔ 

محمد رعد نے تاکید کی کہ انتخاباتی قوانین کے خلاف حملوں کا مقصد مزاحمت اور اس کے حامیوں کی نمائندگی کو کمزور بنانا ہے تاکہ ملک پر قبضہ کرنا مزید آسان بنایا جا سکے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے باوجود، اسلامی مزاحمت اب بھی جنگ بندی پر پوری طرح سے کاربند ہے تاہم دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینا، "لبنان پر حملے" کے بہانے کے لئے تشہیری مہم کا سبب ہے اور یہ اقدام، دشمن کی بلیک میلنگ اور جارحیت کو کسی صورت روک نہیں سکتا بلکہ یہ الٹا، اس کی مزید حوصلہ افزائی ہی کرے گا کہ وہ مزید آگے بڑھے اور بالآخر پورے وطن کو ہی ہم سے چھین لے جائے۔ محمد رعد نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ دشمن کے اہداف کو ناکام بنانے کے لئے وہ کم از کم کام کہ جو ہمیں انجام دیا جانا چاہیئے؛ اس دشمن کی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت اور اپنے حق خود مختاری کی پاسداری ہے!!

متعلقہ مضامین

  • امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
  • تجدید وتجدّْ
  • کراچی میں ٹریکس نظام کا ’آزمائش کے بغیر‘ نفاذ، پہلی غلطی پر معافی کیسے ملے گی؟
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • ایپل واچ کیلئے واٹس ایپ ورژن کی آزمائش
  • موضوع: حضرت زینب ّمعاصر دنیا کی رول ماڈل کیوں اور کیسے