WE News:
2025-10-05@02:19:41 GMT

سینیٹر تاج حیدر کون تھے؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

سینیٹر تاج حیدر کون تھے؟

تاج حیدر8 مارچ 1942 کو بھارت کے علاقے کوٹہ، راجستھان کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے،تاج حیدر کے والد پروفیسر کرار حسین اس وقت میرٹھ کالج میں انگریزی ادب کے استاد تھے، 1948 میں پروفیسر کرار حسین ہجرت کر کے پاکستان آئے، تاج حیدر نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول، رنچھوڑ لائنز کراچی سے حاصل کی۔

انہوں نے انٹرمیڈیٹ خیر پور کالج سندھ سے کیا، کراچی یونیورسٹی سے 1962 میں بی ایس سی آنرز کیا، اور کراچی یونیورسٹی ہی سے ریاضی کے مضمون میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر تاج حیدر انتقال کرگئے

تاج حیدر نے فنونِ لطیفہ کے میدان میں قدم رکھا اور ٹیلی وژن کے لیے بھی لکھا انہوں نے مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھے۔

تاج حیدر نے 1967 کے سوشلسٹ کنونشن میں شرکت کی، 1967 میں باقاعدہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی، ان کا شمار اس دور کے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں ہوتا تھا۔

1999 سے 2000 تک انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ابتدائی صنعتی منصوبوں میں حصہ لیا اور ہیوی مکینیکل کمپلیکس کے قیام، حب ڈیم اور دیگر کئی سماجی پروگرامز کا اجرا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کرنا کیسے ممکن ہے؟ سینیٹر تاج حیدر نے فارمولا بتادیا

تاج حیدر کو 2012 میں ستارہِ امتیاز برائے سائنسی خدمات دیا گیا، 2006 میں 13واں پی ٹی وی ایوارڈ برائے مصنف بہترین ڈراماسیریل بھی دیا گیا، ان کے لکھے ہوئے مشہور ڈراموں میں آبلہ پا، چارہ گر، جنہیں راستے میں خبر ہوئی اور لبِ دریا شامل ہیں۔

تاج حیدر سینڈی انٹیگریٹڈ منرل ڈویلپمنٹ پروجیکٹ ، ہیوی مکینیکل کمپلیکس کے ساتھ ساتھ 1970 میں ایٹمی پراجیکٹ میں بطور معاون شمولیت اور خدمات دیں، پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری، چیئرمین سینیٹ کمیٹی برائے پاک چین اقتصادی راہداری رہے، انہوں نے 1995 اور 2014 میں 2 بار سینٹ کی رکنیت پائی۔

2013 میں سندھ حکومت کے میڈیا کوآرڈینیٹر منتخب ہوئے، سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں برائے صنعت و پیداوار، برائے پانی وبجلی، برائے تعلیم و ٹیکنالوجی کی رکن بھی رہے، وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر رہے ، 2016میں سینیٹ میں پی پی کے پارلیمانی لیڈر مقرر ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: نگراں حکومت کو ترقیاتی فنڈز منجمد کرنے کا اختیار نہیں، پیپلز پارٹی کا خط

تاج حیدر پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر 2021 سے 2027 تک سینیٹر بھی منتخب ہوئے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news انتقال پاکستان پیپلز پارٹی راجھستان ستارہ امتیاز سینیٹر تاج حیدر کوٹہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انتقال پاکستان پیپلز پارٹی راجھستان ستارہ امتیاز سینیٹر تاج حیدر کوٹہ پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹر تاج حیدر تاج حیدر نے انہوں نے پارٹی کے

پڑھیں:

سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان کب تک، پی پی اور ن لیگ کا پاور شیئرنگ فارمولا کیا ہے؟

 بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وزیراعلیٰ کی مدت کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے بیانیے میں تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے جو آگے چل کر اختلافات کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان حکومت کا شفافیت کے فروغ اور بجٹ میں 14 ارب روپے کی بچت کا دعویٰ

ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی علی مدد جتک نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کریں گے اور اتحادی جماعتوں سمیت سب ان کے ساتھ ہیں جبکہ دوسری جانب صوبائی وزیر نور محمد دمڑ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت وزیراعلیٰ کا منصب ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے تقسیم کیا گیا ہے۔

علی مدد جتک نے کہا کہ ’میں یقین سے کہتا ہوں کہ پورے 5 سال وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی ہی رہیں گے اور پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دیگر اتحادی سب اس پر متفق ہیں‘۔

ان کے بقول پیپلز پارٹی اپنی پوری قوت کے ساتھ وزیراعلیٰ کے پیچھے کھڑی ہے اور اس حوالے سے کسی بھی طرح کا ابہام پیدا کرنے کی کوشش محض افواہیں ہیں۔

تاہم صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ڈھائی، ڈھائی سالہ اقتدار کی تقسیم کا معاہدہ پہلے ہی طے پا چکا ہے اور یہ محض سیاسی وعدہ نہیں بلکہ ایک دستاویزی شکل میں موجود ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ فیصلہ ہماری پارٹی قیادت نے کیا ہے اور وقت آنے پر ن لگ کا وزیراعلیٰ سامنے آئے گا‘۔

مزید پڑھیے: بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اختلافات، سرفراز بگٹی کی وزارت اعلیٰ خطرے میں؟

بلوچستان میں مخلوط حکومتیں ہمیشہ سے سیاسی معاہدوں اور پاور شیئرنگ فارمولوں پر چلتی آئی ہیں۔ سب سے نمایاں مثال سنہ 2013 کی ہے جب  ن لیگ اور نیشنل پارٹی نے ڈھائی، ڈھائی سال کے لیے وزیراعلیٰ کا عہدہ بانٹنے پر اتفاق کیا تھا۔

اس فارمولے کے تحت پہلے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جنہوں نے اپنی نصف مدت پوری کی۔ اس کے بعد معاہدے کے مطابق وزارتِ اعلیٰ ن لیگ کے نواب ثناء اللہ زہری کو منتقل کی گئی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا لیویز فورس میں اصلاحات کا اعلان، پرانے نوٹیفکیشنز منسوخ

اس سے قبل بلوچستان میں حکومت سازی کے دوران بھی یہ سننے میں آیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈھائی ڈھائی سالہ پاور شئیرنگ کا معاملہ پا گیا ہے جس پر اس وقت گورنر بلوچستان اور مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے ڈھائی ڈھائی سال کا معاہدہ ہے جس پر پی پی پی کے سینیئر رہنما میر عبد القدوس بزنجو نے ایسے کسی بھی معاہدے کی تردید کی تھی۔

اگرچہ اس پاور شیئرنگ ماڈل کے نتیجے میں حکومت نے آئینی مدت تو مکمل کی لیکن درمیان میں سیاسی کشیدگی بھی سامنے آئی خصوصاً جب نواب ثناء اللہ زہری کو اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی تحریک عدم اعتماد کے دباؤ پر مستعفی ہونا پڑا۔ اس مثال نے یہ واضح کیا کہ بلوچستان میں پاور شیئرنگ فارمولے وقتی استحکام تو فراہم کرتے ہیں لیکن طویل المدت سیاسی استحکام کی ضمانت نہیں دے پاتے۔

یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی سیاسی تاریخ: نصف صدی کے دوران کتنی مخلوط حکومتیں مدت پوری کر سکیں؟

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے منصب پر اختلافات کوئی نئی بات نہیں لیکن اب یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آیا موجودہ حکومت بھی سنہ 2013 والے ’پاور شیئرنگ ماڈل‘ پر چل رہی ہے یا نہیں۔ اگر واقعی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تحریری معاہدہ موجود ہے تو مستقبل قریب میں اقتدار کی منتقلی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر علی مدد جتک کا دعویٰ درست ہے اور پیپلز پارٹی اپنی مدت پوری کرنے پر اصرار کرتی ہے تو یہ اتحادیوں کے درمیان تناؤ کو جنم دے سکتا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر حکومتیں مرکز صوبہ کشیدگی یا اتحادی اختلافات کے باعث اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں پاور شیئرنگ فارمولوں نے سیاسی استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت کا بینک آف بلوچستان کے قیام کا اعلان

اس پس منظر میں دیکھیں تو نور محمد دمڑ کا بیان زیادہ حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے لیکن فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی 5 سالہ مدت پوری کر پاتے ہیں یا ڈھائی سال بعد اقتدار ن لیگ کو منتقل ہو جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بلوچستان مخلوط حکومت وزیراعلیٰ بلوچستان کی مدت

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی پنجاب میں غیر آئینی مداخلت کررہی ہے، عظمی بخاری
  • سرفراز بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان کب تک، پی پی اور ن لیگ کا پاور شیئرنگ فارمولا کیا ہے؟
  • پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری
  • پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملہ ہم بیٹھ کر سلجھا لیں گے: رانا ثناء اللّٰہ
  • بلوچستان حکومت پر اڑھائی کا فارمولہ طے ہوا ہے، نور محمد دمڑ کا دعویٰ
  • پیپلز پارٹی کا پارلیمنٹ میں حکومت سے تعاون نہ کرنے کا فیصلہ
  • مریم نواز کے بیانات کیخلاف پیپلز پارٹی کا قومی اسمبلی سے واک آؤٹ
  • مریم نواز کے بیان کیخلاف پیپلز پارٹی کا قومی اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ
  • اتحاد کی ہانڈی، بار بار چوراہے میں کیوں پھوٹتی ہے؟
  • ن لیگ سے لفظی جنگ:پیپلز پارٹی نے اہم فیصلہ کر لیا