بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور، ایف بی آر پر تجربہ کامیاب
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی انصار عباسی نے اپنے بلاگ میں قراردیا ہے کہ ملک میں سول سروس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافے کیلئے بڑی اصلاحات لائی گئی ہیں اور کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کیلئے ایف بی آر میں ایک نئی پرفارمنس مینجمنٹ سکیم متعارف کرائی گئی جسے سینٹرل سپیریئر سروسز کی تمام سروسز اور کیڈرز تک وسعت دی جائے گی تاکہ کارکردگی کی جائزہ رپورٹس (پرفارمنس ایویلیوایشن رپورٹس) ”پی ای آرز“ کے موجودہ ناقص اور ہیرا پھیری پر مبنی نظام کو تبدیل کیا جا سکے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سکیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ایف بی آر کے معاملے میں کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس (جسے انکم ٹیکس گروپ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے) کے 98 فیصد افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ”شاندار“ اور ”بہت اچھا“ کے طور پر کم کر کے صرف 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ نظام کے تحت کسٹمز اور انکم ٹیکس افسران کی 99 فیصد تعداد کو ان کی دیانتداری کے لحاظ سے بہترین (”اے کیٹیگری“) قرار دیا جاتا تھا۔ نئے نظام کے تحت بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر معاوضہ دیا جائے گا۔ کارکردگی اور اس کے نتیجے میں ملنے والے معاوضے کے پیکیج کا ہر 6 ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا۔وزیر اعظم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کہا ہے کہ وہ سینٹرل سپیریئر سروسز کی دیگر تمام سروسز اور کیڈرز کیلئے ایف بی آر کے نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا جائزہ لیکر اس پر عمل درآمد کرے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام ملک کی سول سروسز کی کارکردگی اور اس کے موثر ہونے کو ڈرامائی انداز سے تبدیل کر دے گا۔ نیا نظام موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا آئیڈیا ہے، جنہوں نے اپنی ٹیم کے تعاون سے پوری سکیم کو ڈیزائن، اس کا تجربہ اور پھر کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے ہر افسر کے گزشتہ 6 ماہ کے جائزے کے دوران اسے کامیابی سے نافذ کیا۔
ماضی میں تقریباً ہر افسر کو اس کی ساکھ اور کارکردگی سے قطع نظر ”شاندار“ ”بہت اچھا“ اور ”بہت ایماندار“ سمجھا جاتا تھا لیکن اب نئے نظام کے تحت، ”اے“ کیٹیگری سے ”ای“ کیٹیگری تک کی ہر کیٹیگری میں 20 فیصد افسران ہوں گے جن کا فیصلہ مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ کارکردگی کے نظام کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس میں افسران کے کام کے معیار اور ان کی ساکھ پر مرکوز رہے گی۔نہ صرف ہر افسر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام کسی بھی ممکنہ ہیرا پھیری یا مداخلت سے پاک ہے بلکہ بہتر گریڈ میں آنے والوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر معاوضہ بھی دیا جائے گا۔
ایف بی آر کے معاملے میں اے کیٹیگری کے 20 فیصد افسران کو چار گنا زیادہ تنخواہ ملنا شروع ہوگئی ہے، بی کیٹیگری کے 20 فیصد افسران کو تین گنا، سی کیٹیگری کے 20 فیصد افسران کو دو گنا جبکہ ڈی کیٹیگری کے 20 فیصد افسران کو ایک اضافی تنخواہ مل رہی ہے۔
ای کیٹیگری کے افسران کیلئے کوئی اضافی معاوضہ نہیں۔ اس سکیم کا ہر 6 ماہ بعد انفرادی لحاظ سے کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے گا۔ ایف بی آر کے افسران کے معاملے میں شاید ہی چند ارب روپے کا ہی اضافی بوجھ ہو۔ کارکردگی جانچنے کے اس نئے نظام کو اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے نہ اس میں مداخلت کی جا سکتی ہے۔ کسی فرد، سینئر حتیٰ کہ حکمرانوں کی خواہشات کو بھی پورا کرنا ممکن نہیں۔
اس سسٹم کے تحت، پہلے ہی کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے 1500 سے زائد افسران پر تجربہ کرکے سکیم پر عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ ہر افسران کا 45 ساتھیوں (سینئرز، جونیئرز، سول سروس کے ساتھیوں اور بیچ میٹ) کے ذریعے ہر 6 ماہ بعد گمنام انداز سے فورسڈ رینکنگ سسٹم کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے۔ فورسڈ رینکنگ سسٹم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ 5 کیٹیگریز میں ہر ایک میں20 فیصد افسران تک محدود رکھا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی سروس یا کیڈر میں 20 فیصد سے زیادہ ”شاندار“ کارکردگی والے افسران نہیں ہوں گے۔ 45 ساتھیوں کی شناخت کو مکمل طور پر گمنام رکھنے کیلئے جدید سائبر سکیورٹی ٹولز کا استعمال کیا گیا ہے اور سسٹم کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کیا گیا ہے۔
سسٹم تک رسائی چیئرمین ایف بی آر اور ایف بی آر کے تین ممبران کو ہو گی تاہم ان میں سے کوئی بھی شخص کسی افسر کی رپورٹ کو تبدیل یا اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔ ایف بی آر کے تینوں ممبران ڈیٹا تک صرف مشترکہ انداز سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے کسی بھی غیر مجاز حرکت یا سرگرمی کی اطلاع 5 مختلف افراد تک پہنچ جائے گی تاہم رپورٹ میں تبدیلی پھر بھی ممکن نہیں ہوگی۔
45 افراد کو منتخب کرنے کیلئے ایک چار سطحوں پر مشتمل ایک طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو ا±س افسر کو ممکنہ طور پر جانتے ہیں جس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ دیانتداری پر نمبر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک تکنیکی ٹیم افسر کے کام کے معیار کا بھی جائزہ لے گی۔
تکنیکی پینل، جس میں ایف بی آر کے ریٹائرڈ افسران اور دیگر ٹیکس پریکٹیشنرز شامل ہیں، ڈیجیٹائزڈ سسٹم کے ذریعے بے ترتیب (رینڈم) انداز سے منتخب کردہ افسران کے کام کے معیار کا جائزہ لے گا۔ ایف بی آر نے نئی حکومت کے تحت گزشتہ 6 ماہ سے اپنے تمام افسران کا جائزہ (اسیسمنٹ) کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔
ججز تبادلوں کیخلاف کیس؛ وفاقی حکومت نے تفصیلات اور ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو جائزہ لیا جا ایف بی آر کے کی کارکردگی کا جائزہ جائے گا ہر افسر جاتا ہے اور اس گیا ہے کیا جا کے تحت
پڑھیں:
ڈی ایم اے کی جی نائن اور آئی الیون بس اسٹینڈز کی کامیاب نیلامی
ڈی ایم اے کی جی نائن اور آئی الیون بس اسٹینڈز کی کامیاب نیلامی WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس ) چیئرمین سی ڈی اے و چیف کمشنر اسلام آباد محمد علی رندھاوا کی ہدایت پر میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آبادکے ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن (ڈی ایم اے) نے G-9 اور I-11 بس اسٹینڈز کی اوپن نیلامی کامیابی سے مکمل کرلی ہے، جو ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن آمدنی میں تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ نیلامی ڈائریکٹر ڈی ایم اے ڈاکٹر انعم فاطمہ کی زیر نگرانی شفافیت کے ساتھ عمل میں لائی گئی جسمیں ملک بھر کے بہترین کنٹریکٹرز نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔واضح رہے عرصہ دراز سے تعطل یہ دونوں بس اسٹینڈز نیلامی کی بار بار ناکامی اور ٹھیکیداروں کی اجارہ داری کے باعث خود وصولی کی بنیاد پر چلائے جارہے تھے۔ تاہم، میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کے ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن (ڈی ایم اے) کی جانب سے کئے گئے اصلاحی اقدامات، سخت نگرانی اور بہتر ریونیو مینجمنٹ نے نہ صرف آمدنی کو مستحکم کیا بلکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال کیا اور ایک کامیاب نیلامی کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا جسے کنٹریکٹرز کی جانب سے بھرپور پزیرائی حاصل ہوئی۔
اس موقع پر کنٹریکٹرز کا کہنا تھا کہ جس طرح دونوں بس اسٹینڈز کے ٹھیکے کو میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر ایوارڈ کیا گیا ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سی ڈی اے آئندہ بھی شفافیت کے عمل کو یقینی بناتے ہوئے اسی طرح کے اقدامات اٹھاتا رہے گا۔تفصیلات کے مطابق، سیکٹر G-9 بس اسٹینڈ سالانہ 81.60 ملین روپے میں نیلام کیا گیا جو پہلے خود وصولی کے تحت 37.90 ملین روپے سالانہ تھا۔ یہ اضافہ 104.7 فیصد سے زائد کی عکاسی کرتا ہے۔
اسی طرح سیکٹر I-11 بس اسٹینڈ کو بھی ریکارڈ 38.00 ملین روپے سالانہ میں نیلام کیا گیا، جو رواں برس کے آغاز میں صرف 6.50 ملین روپے سالانہ تھا، اس طرح 400 فیصد سے زائد کا غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ دونوں معاہدے میرٹ کی بنیاد پر تین سالہ مدت کیلئے ایوارڈ کئے گئے ہیں۔ جن میں ہر سال سالانہ 10 فیصد لازمی اضافہ شامل ہے۔ ڈی ایم اے انتظامیہ کے مطابق یہ تاریخی کامیابی نہ صرف شفافیت، منصفانہ مسابقت اور پائیدار مالی نظم و نسق کے عزم کی عکاسی کرتی ہے بلکہ خود میٹروپولیٹن کارپوریشن کے مالی وسائل کو بھی مستحکم بناتی ہے
، تاکہ شہریوں کو مزید بہتر بلدیاتی خدمات فراہم کی جا سکیں۔ چیئرمین سی ڈی اے و چیف کمشنر اسلام آباد محمد علی رندھاوا نے ڈائریکٹر ڈی ایم اے ڈاکٹر انعم فاطمہ اور انکی پوری ٹیم کی بہترین کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کی منظم ترقی اور شہری سہولیات کی بہتری کیلئے اسی نوعیت کے شفاف اور موثر اقدامات تسلسل کے ساتھ جاری رہیں گے تاکہ اسلام آباد کو دنیا کا بہترین دارالخلافہ بنایا جاسکے اور اس سلسلہ میں تمام وسائل بروئے کارلائی جا رہی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچیئر مین پی سی بی کی وسیع مشاورت:پاکستانی ٹیم کو آج میچ کھیلنے کی اجازت مل گئی چیئر مین پی سی بی کی وسیع مشاورت:پاکستانی ٹیم کو آج میچ کھیلنے کی اجازت مل گئی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ: جیولن تھرو میں ارشد ندیم نے فائنل رانڈ کے لیے کوالیفائی کر لیا اینڈی پائیکرافٹ تنازع، پاکستان اور یو اے ای کے درمیان میچ نہ ہونے کا امکان،ٹیم ایشیاء کپ سے دستبردار ہو سکتی ہے:ذرائع مریم نواز شریف نے وزیرآباد کے لئے الیکٹرک بس پراجیکٹ کا افتتاح کر دیا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان رجسٹرار سپریم کورٹ سلیم خان کی رخصت کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا گیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم