اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی انصار عباسی نے اپنے بلاگ میں قراردیا ہے کہ ملک میں سول سروس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافے کیلئے بڑی اصلاحات لائی گئی ہیں اور کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کیلئے ایف بی آر میں ایک نئی پرفارمنس مینجمنٹ سکیم متعارف کرائی گئی جسے سینٹرل سپیریئر سروسز کی تمام سروسز اور کیڈرز تک وسعت دی جائے گی تاکہ کارکردگی کی جائزہ رپورٹس (پرفارمنس ایویلیوایشن رپورٹس) ”پی ای آرز“ کے موجودہ ناقص اور ہیرا پھیری پر مبنی نظام کو تبدیل کیا جا سکے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سکیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ایف بی آر کے معاملے میں کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس (جسے انکم ٹیکس گروپ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے) کے 98 فیصد افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ”شاندار“ اور ”بہت اچھا“ کے طور پر کم کر کے صرف 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ نظام کے تحت کسٹمز اور انکم ٹیکس افسران کی 99 فیصد تعداد کو ان کی دیانتداری کے لحاظ سے بہترین (”اے کیٹیگری“) قرار دیا جاتا تھا۔ نئے نظام کے تحت بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر معاوضہ دیا جائے گا۔ کارکردگی اور اس کے نتیجے میں ملنے والے معاوضے کے پیکیج کا ہر 6 ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا۔وزیر اعظم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کہا ہے کہ وہ سینٹرل سپیریئر سروسز کی دیگر تمام سروسز اور کیڈرز کیلئے ایف بی آر کے نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا جائزہ لیکر اس پر عمل درآمد کرے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام ملک کی سول سروسز کی کارکردگی اور اس کے موثر ہونے کو ڈرامائی انداز سے تبدیل کر دے گا۔ نیا نظام موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا آئیڈیا ہے، جنہوں نے اپنی ٹیم کے تعاون سے پوری سکیم کو ڈیزائن، اس کا تجربہ اور پھر کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے ہر افسر کے گزشتہ 6 ماہ کے جائزے کے دوران اسے کامیابی سے نافذ کیا۔ 
ماضی میں تقریباً ہر افسر کو اس کی ساکھ اور کارکردگی سے قطع نظر ”شاندار“ ”بہت اچھا“ اور ”بہت ایماندار“ سمجھا جاتا تھا لیکن اب نئے نظام کے تحت، ”اے“ کیٹیگری سے ”ای“ کیٹیگری تک کی ہر کیٹیگری میں 20 فیصد افسران ہوں گے جن کا فیصلہ مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ کارکردگی کے نظام کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس میں افسران کے کام کے معیار اور ان کی ساکھ پر مرکوز رہے گی۔نہ صرف ہر افسر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام کسی بھی ممکنہ ہیرا پھیری یا مداخلت سے پاک ہے بلکہ بہتر گریڈ میں آنے والوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ 
ایف بی آر کے معاملے میں اے کیٹیگری کے 20 فیصد افسران کو چار گنا زیادہ تنخواہ ملنا شروع ہوگئی ہے، بی کیٹیگری کے 20 فیصد افسران کو تین گنا، سی کیٹیگری کے 20 فیصد افسران کو دو گنا جبکہ ڈی کیٹیگری کے 20 فیصد افسران کو ایک اضافی تنخواہ مل رہی ہے۔
 ای کیٹیگری کے افسران کیلئے کوئی اضافی معاوضہ نہیں۔ اس سکیم کا ہر 6 ماہ بعد انفرادی لحاظ سے کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے گا۔ ایف بی آر کے افسران کے معاملے میں شاید ہی چند ارب روپے کا ہی اضافی بوجھ ہو۔ کارکردگی جانچنے کے اس نئے نظام کو اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے نہ اس میں مداخلت کی جا سکتی ہے۔ کسی فرد، سینئر حتیٰ کہ حکمرانوں کی خواہشات کو بھی پورا کرنا ممکن نہیں۔ 
اس سسٹم کے تحت، پہلے ہی کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے 1500 سے زائد افسران پر تجربہ کرکے سکیم پر عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ ہر افسران کا 45 ساتھیوں (سینئرز، جونیئرز، سول سروس کے ساتھیوں اور بیچ میٹ) کے ذریعے ہر 6 ماہ بعد گمنام انداز سے فورسڈ رینکنگ سسٹم کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے۔ فورسڈ رینکنگ سسٹم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ 5 کیٹیگریز میں ہر ایک میں20 فیصد افسران تک محدود رکھا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی سروس یا کیڈر میں 20 فیصد سے زیادہ ”شاندار“ کارکردگی والے افسران نہیں ہوں گے۔ 45 ساتھیوں کی شناخت کو مکمل طور پر گمنام رکھنے کیلئے جدید سائبر سکیورٹی ٹولز کا استعمال کیا گیا ہے اور سسٹم کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کیا گیا ہے۔ 
سسٹم تک رسائی چیئرمین ایف بی آر اور ایف بی آر کے تین ممبران کو ہو گی تاہم ان میں سے کوئی بھی شخص کسی افسر کی رپورٹ کو تبدیل یا اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔ ایف بی آر کے تینوں ممبران ڈیٹا تک صرف مشترکہ انداز سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے کسی بھی غیر مجاز حرکت یا سرگرمی کی اطلاع 5 مختلف افراد تک پہنچ جائے گی تاہم رپورٹ میں تبدیلی پھر بھی ممکن نہیں ہوگی۔
45 افراد کو منتخب کرنے کیلئے ایک چار سطحوں پر مشتمل ایک طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو ا±س افسر کو ممکنہ طور پر جانتے ہیں جس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ دیانتداری پر نمبر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک تکنیکی ٹیم افسر کے کام کے معیار کا بھی جائزہ لے گی۔
تکنیکی پینل، جس میں ایف بی آر کے ریٹائرڈ افسران اور دیگر ٹیکس پریکٹیشنرز شامل ہیں، ڈیجیٹائزڈ سسٹم کے ذریعے بے ترتیب (رینڈم) انداز سے منتخب کردہ افسران کے کام کے معیار کا جائزہ لے گا۔ ایف بی آر نے نئی حکومت کے تحت گزشتہ 6 ماہ سے اپنے تمام افسران کا جائزہ (اسیسمنٹ) کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔ 

ججز تبادلوں کیخلاف کیس؛ وفاقی حکومت نے تفصیلات اور ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو جائزہ لیا جا ایف بی آر کے کی کارکردگی کا جائزہ جائے گا ہر افسر جاتا ہے اور اس گیا ہے کیا جا کے تحت

پڑھیں:

پاکستان کا بھارت کی ایٹمی تنصیبات اور مواد کی سیکیورٹی کا جائزہ لینے کا مطالبہ

 

بھارتی وزیر دفاع کا غیرذمہ دارانہ بیان، بھارتی جارحیت کیخلاف پاکستان کی مؤثر دفاعی صلاحیت اور مزاحمتی حکمت عملی سے عدم تحفظ کا مظہر ہے، بھارت اپنے جوہری اثاثوں اور تنصیبات کی سیکیورٹی یقینی بنائے

اگر کسی چیز پرآئی اے ای اے اور عالمی برادری کو تشویش ہونی چاہیے تو وہ بھارت میں جوہری اور تابکار مواد کی بارہا چوری اور غیرقانونی اسمگلنگ کے واقعات ہیں، ترجمان دفتر خارجہ کا رد عمل

پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی وزیر دفاع کی جانب سے پاکستان کے جوہری اثاثوں سے متعلق دیے گئے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی ایٹمی ایجنسی اور عالمی برادری سے بھارت میں ایٹمی تنصیبات اور مواد کی سیکیورٹی کا جائزہ لینے کا مطالبہ کردیا۔اپنے ایک بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ غیر ذمہ دارانہ بیان بھارتی قیادت کی پاکستان کی مؤثر دفاعی صلاحیت اور بھارت کی جارحیت کے خلاف مزاحمتی حکمت عملی سے عدم تحفظ کا مظہر ہے ، پاکستان کی روایتی عسکری صلاحیت بھارت کو روکنے کے لیے کافی ہے ۔ترجمان نے کہا کہ بھارت خود ساختہ ’جوہری بلیک میل‘ کے جنون میں مبتلا ہے ، بھارتی وزیر دفاع کے ریمارکس بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے مینڈیٹ اور ذمہ داریوں سے مکمل لاعلمی کا بھی ثبوت ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ اگر کسی چیز پر IAEA اور عالمی برادری کو تشویش ہونی چاہیے تو وہ بھارت میں جوہری اور تابکار مواد کی بارہا چوری اور غیرقانونی اسمگلنگ کے واقعات ہیں۔ترجمان نے کہا کہ گزشتہ سال بھارت کے شہر دہرہ دون میں بھابھا ایٹمی تحقیقاتی مرکزسے چوری شدہ تابکار آلہ رکھنے والے پانچ افراد گرفتار کیے گئے ، اسی سال، ایک گروہ کے قبضے سے انتہائی تابکار اور مہلک مادہ "کالیفورنیئم” برآمد ہوا، جس کی مالیت 10 کروڑ امریکی ڈالر سے زائد تھی۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ سال 2021 میں بھی کالیفورنیئم کی چوری کے تین واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، یہ واقعات بھارت میں جوہری و تابکار مواد کی سیکیورٹی کے ناقص اقدامات اور خطرناک بلیک مارکیٹ کے وجود کی نشاندہی کرتے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ جو ریاست جوہری استعمال والے حساس مواد کی غیر قانونی خرید و فروخت میں ملوث ہو سکتی ہے ، پاکستان ان واقعات کی شفاف اور جامع تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے ، اور بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے جوہری اثاثوں اور تنصیبات کی سیکیورٹی یقینی بنائے ۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا سیٹلائٹ ای او ایس زیرو نائن کا تجربہ ناکام ہوگیا
  • آئی ایم ایف کا وفاق اور صوبوں کی معاشی کارکردگی پر اظہارِ اطمینان
  • پی ایس ایل 10: لاہور قلندرز کے 3 غیر ملکی کھلاڑی اسلام آباد پہنچ گئے
  • سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم منظور، افسران پر اپنے و اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کرنا لازمی قراردیدیا گیا
  • گریڈ 17 اور اوپر کے تمام افسران اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہوں گے، بل منظور کر لیا گیا
  • سفاری پارک کی مدھوبالا اور ملکہ کے علاج کے لیے سری لنکن ڈاکٹر کی کراچی آمد
  • سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم منظور: افسران پر اپنے و اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کرنا لازمی قرار
  • سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم منظور،افسران پر اپنے و اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کرنا لازمی قرار
  • پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں، افواج کی پیشہ ورانہ کارکردگی، اور قومی یکجہتی مثالی ہیں، بیرسٹر علی ظفر
  • پاکستان کا بھارت کی ایٹمی تنصیبات اور مواد کی سیکیورٹی کا جائزہ لینے کا مطالبہ