WE News:
2025-06-28@07:36:23 GMT

سعودی عرب: جنگ کی بو میں، امن کی خوشبو

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

دنیا کی سب سے پرخطر سرحد، پاکستان اور بھارت کے درمیان کھنچی ہوئی وہ لکیر ہے جس نے نصف صدی سے زائد عرصے میں صرف دونوں ممالک کی افواج کو آمنے سامنے نہیں کیا، بلکہ عالمی سیاست کے رخ بھی متعین کیے۔ کبھی کشمیر کے نام پر، کبھی پانی، کبھی دہشتگردی، تو کبھی محض داخلی سیاست کے داؤ پیچ کے لیے یہ لکیر شعلہ بن جاتی ہے۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ جہاں اس خطے میں اسلحہ بڑھا، وہیں ایک خاموش مگر بصیرت افروز سفارت کاری نے بھی جنم لیا، جو زور آور آوازوں کے شور میں سنائی تو کم دیتی ہے، مگر اس کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ ایسی ہی سفارت کاری کا مظہر حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران سعودی عرب کی ثالثی کے طور پر سامنے آیا۔

2024  کے اختتام پر اور 2025 کے آغاز میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب غیر معمولی نقل وحرکت، سرحدی خلاف ورزیاں، اور میڈیا کے میدان میں نفرت انگیز مہمات نے جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل دیا۔ بھارت کی طرف سے روایتی الزام تراشی، اور پاکستان کی جانب سے جواباً مؤثر سفارتی، عسکری اور معلوماتی ردعمل نے ایک ایسی فضا بنا دی جہاں جنگ کا خطرہ حقیقی محسوس ہونے لگا تھا۔ اس فضا میں عالمی برادری نے حسبِ معمول تشویش کا اظہار کیا، مگر اس مرتبہ سعودی عرب نے خاموش ثالث نہیں، بلکہ ایک فعال مصالحت کار کا کردار ادا کیا۔

سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور، جناب عادل الجبیر نے دہلی اور اسلام آباد کے متواتر دورے کیے، وہ بھی ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کی افواج مکمل طور پر ہائی الرٹ پر تھیں۔ ان کے دورے محض علامتی نہیں تھے، بلکہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں ایک مربوط سفارتی کوشش کا حصہ تھے جس میں امریکا، چین اور دیگر اثر انگیز قوتوں کو بھی متحرک رکھا گیا۔ سعودی عرب کی یہ حکمت عملی نہ صرف بروقت تھی بلکہ تہذیبی وقار کے ساتھ بھی آراستہ تھی۔ اس ثالثی کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ یہ یکطرفہ نہیں تھی۔ نہ پاکستان کو بھارتی مفادات کے آگے جھکنے کا مشورہ دیا گیا، نہ بھارت کو پاکستان پر زور آزمائی کی اجازت ملی۔ یہی وہ توازن ہے جس کی اس خطے میں ہمیشہ کمی رہی ہے۔

یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ سعودی عرب نے ثالثی کی یہ راہ ابھی چنی، بلکہ حیرت اس بات پر ہے کہ اس نے برسوں کی خاموشی کو ختم کر کے یہ فیصلہ ایسے وقت پر کیا جب دونوں ممالک ایک دوسرے کو سفارتی محاذ پر بھی کچلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ماضی میں سعودی عرب، خلیجی وقار اور عالم اسلام کی وحدت کے پیش نظر، اکثر ایسے تنازعات پر خاموش رہتا تھا یا پس پردہ حمایت کرتا تھا۔ مگر اس مرتبہ سفارت کاری کے انداز میں جو تبدیلی دیکھی گئی، وہ نہ صرف شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کا سیاسی تسلسل ہے، بلکہ ایک نئی عالمی سوچ کی جھلک بھی ہے، جو طاقت کے بجائے توازن اور اثرورسوخ کے ذریعے علاقائی استحکام کو ممکن بنانا چاہتی ہے۔

اس سفارت کاری کا ایک منفرد پہلو وہ اعتبار ہے جو سعودی عرب کو پاکستان اور بھارت دونوں میں حاصل ہے۔ بھارت سعودی عرب کو ایک اہم تجارتی و توانائی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان سعودی عرب کو نہ صرف حرمین کا نگہبان سمجھتا ہے، بلکہ ایک دیرینہ اور آزمودہ برادر ملک بھی، جس نے ہر مشکل وقت میں اس کی سیاسی و مالی مدد کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سعودی عرب ثالثی کی نیت سے آگے بڑھا تو کسی نے اسے مسترد نہیں کیا، اور یہی اس کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی ہے۔

اس ثالثی کو اگر ایک وسیع تر عالمی سیاق میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ محض پاک بھارت بحران کے حل کی کوشش نہیں بلکہ سعودی خارجہ پالیسی کی سمت کا اظہار بھی ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے 1980 کی دہائی میں افغان کنفلکٹ کے دوران افغانیوں کو مکہ میں اکٹھا کیا، 2007 میں فلسطینی دھڑوں کو جوڑنے کی کوشش کی، اور حال ہی میں روس اور یوکرین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے اشارتی مذاکرات میں بھی کردار ادا کیا، اسی طرح امریکا اور روس کو بھی جمع کیا، یہی وہ تدریجی سفر ہے جو اب جنوبی ایشیا تک آ پہنچا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ لمحہ تجزیہ، تشکر اور تدبیر کا ہے۔ تجزیہ اس بات کا کہ اگر سعودی ثالثی نہ ہوتی تو کیا حالات جنگ میں بدل سکتے تھے؟ تشکر اس اعتماد کا جو ریاض نے پاکستان پر برقرار رکھا، اور تدبیر اس پالیسی کی جو اس ثالثی کو وقتی حل کے بجائے ایک مستقل امن حکمت عملی میں بدل سکتی ہے۔ سعودی عرب کو بھی اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ثالثی کو صرف وقتی بحرانوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے امن، سفارت کاری کے ادارے میں بدلنے کی جانب بڑھنا چاہیے۔

اگر آج پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے سے واپس پلٹے ہیں، تو اس میں سعودی سفارت کاری کی مہذب طاقت، وقت شناسی، اور توازن فہمی کا بڑا کردار ہے۔ اگر کل کو یہ خطہ پائیدار امن کی راہ پر چل پڑے، تو اس کی بنیاد انہی خاموش مگر مؤثر قدموں میں تلاش کی جا سکتی ہے جو ریاض سے اٹھے اور دہلی واسلام آباد کی فضا کو کسی حد تک صاف کر گئے۔

اور اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے، تو اسے لازم ہے کہ وہ طاقت کی دہلیز سے ہٹ کر، تہذیب، توازن اور ثالثی کی اس روش پر قدم رکھے، جس کا نشان سعودی عرب نے پاک بھارت بحران میں قائم کیا ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب امن، کمزوری نہیں، بلکہ دانائی بن چکا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر راسخ الكشميری

پاک بھارت سعودی عرب.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاک بھارت سعودی عرب کو سفارت کاری پاک بھارت ثالثی کی

پڑھیں:

کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ ایران، اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی جنگ کا نیا مرحلہ

اسلام ٹائمز: یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)

دنیا کی تاریخ میں کچھ جنگیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف بارود کے دھوئیں میں نہیں لکھی جاتیں بلکہ قوموں کے عزم، نظریات، عقیدے اور استقلال کے لہو سے رقم ہوتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کے درمیان 1980ء میں شروع ہونے والی جنگ بھی ایسی ہی ایک جنگ تھی۔ اس جنگ میں صدام حسین نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی سے ایران پر جنگ مسلط کی۔ مہلک کیمیکل ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایران کے بے شمار نڈر، فدائی اور مخلص جوان شہید ہوئے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایران، باوجود عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کے، نہ جھکا، نہ ٹوٹا، نہ بکا۔ ایران کی قوم نے اپنے نومولود انقلاب کے آغاز ہی میں جس دلیری، شعور، اور ایمانی طاقت کا مظاہرہ کیا، وہ ایک زندہ معجزہ ہے۔ آج 46 سال بعد، یہ انقلاب صرف ایران کے گلی کوچوں میں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے۔ جس نظام کو عالمی سامراج "موقّت خروش" سمجھ رہا تھا، وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے اور دشمن یہ مان چکا ہے کہ اسے جڑ سے اکھاڑنا اب اس کے بس میں نہیں۔

اب آتے ہیں حالیہ جنگی منظرنامے کی طرف۔ ایران اور اسرائیل کے مابین جو تصادم اس وقت جاری ہے، وہ درحقیقت دہائیوں کی پراکسی جنگوں کا براہ راست رخ اختیار کر چکا ہے۔ یہ لڑائی نہ تو اچانک شروع ہوئی ہے، نہ ہی کسی محدود دائرے تک محدود ہے۔ حزب اللہ لبنان کی قیادت کا قتل، اسماعیل ہانیہ کے خاندان پر حملہ، شام میں رجیم چینج اور ایران کو تنہا کرنے کی منظم کوششیں۔ یہ سب اس طویل منصوبے کا حصہ تھیں جسے امریکہ، یورپ، اسرائیل، اور ہندوستان نے مل کر ترتیب دیا۔ ان طاقتوں نے نہ صرف ایران کے خلاف اندرونی غداروں کو استعمال کیا بلکہ جاسوسی نیٹ ورک، ڈرون بیسز اور حساس اہداف کو نشانہ بنانے جیسی خطرناک سازشیں بھی تیار کیں لیکن ایران نے کمال مہارت، سیاسی بصیرت اور انٹیلیجنس برتری سے ان تمام سازشوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ 24 گھنٹوں کے اندر اپنی دفاعی پوزیشن کو بحال کر کے اسرائیل کو کرارا جواب دیا۔

جب امریکہ نے دیکھا کہ اسرائیل میدانِ جنگ میں ہانپ رہا ہے تو خود براہِ راست کود پڑا۔ مگر ایران نے نہ صرف اس حملے کا بھی بھرپور جواب دیا بلکہ امریکہ کو یہ باور کرا دیا کہ اب "دھمکی" کا دور گزر چکا ہے۔ یہ "ردِ عمل" کا دور ہے۔ فی الحال اگرچہ ایک عارضی جنگ بندی نافذ ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ایران اس وقت دفاعی و تزویراتی لحاظ سے مکمل برتری رکھتا ہے۔ امریکہ، اسرائیل، یورپ اور ہندوستان اپنے تمام تر وسائل کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران واقعی اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ ایران کی اولین ترجیحات میں اسرائیل کی مکمل نابودی شامل ہے۔ ایران اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سامراج کا غاصب اڈہ سمجھتا ہے۔ ایک ناجائز وجود جو ظلم، دہشت اور استعماری مفادات کا محافظ ہے۔ تاہم، ایران اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے درست وقت، بین الاقوامی حالات اور علاقائی توازن کا گہری نظر سے جائزہ لے رہا ہے۔

ممکن ہے، جب وقت موافق ہوا، تو ایران یہ مقصد بھی حاصل کر گزرے اور دنیا ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کو دیکھے۔ جہاں تک اس جنگ کی مدت کا تعلق ہے، تو یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ انجام کب اور کیسے ہوگا  اور دنیا کا ضمیر کس طرف کھڑا ہوگا؟

متعلقہ مضامین

  • اگر عدالت ہوتی تو ایران پر نہیں بلکہ اسرائیلی ڈیمونا پر بمباری کی جاتی، ترکی الفیصل
  • اگر عدالت ہوتی تو ایران پر نہیں بلکہ اسرائیلی ڈیمونا پر بمباری ہوتی، ترکی الفیصل
  • بھارت کی ایٹمی دھوکہ دہی، عالمی اعتماد کی سنگین پامالی
  • محرم الحرام حق، صبر اور قربانی کا واضح پیغام
  • پی ٹی آئی بانی مائنس ہو چکے، ہم نہیں، ان کی بہنیں کہہ رہی ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب
  • کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ ایران، اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی جنگ کا نیا مرحلہ
  • میٹھے آم کی پہچان کیسے کریں؟ آسان طریقہ جانیں
  • ایران نے اسرائیل و امریکہ کا غرور خاک میں ملا دیا
  • چا ئنہ۔جنو بی ایشیا ایکسپو میں گلاب کی لکڑی کی خوشبو سے سر حد پار تعلقات کا فروغ
  • نقشے کی ایک لکیر نے دنیا کا راستہ موڑ دیا