WE News:
2025-05-13@00:35:04 GMT

سعودی عرب: جنگ کی بو میں، امن کی خوشبو

اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT

دنیا کی سب سے پرخطر سرحد، پاکستان اور بھارت کے درمیان کھنچی ہوئی وہ لکیر ہے جس نے نصف صدی سے زائد عرصے میں صرف دونوں ممالک کی افواج کو آمنے سامنے نہیں کیا، بلکہ عالمی سیاست کے رخ بھی متعین کیے۔ کبھی کشمیر کے نام پر، کبھی پانی، کبھی دہشتگردی، تو کبھی محض داخلی سیاست کے داؤ پیچ کے لیے یہ لکیر شعلہ بن جاتی ہے۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ جہاں اس خطے میں اسلحہ بڑھا، وہیں ایک خاموش مگر بصیرت افروز سفارت کاری نے بھی جنم لیا، جو زور آور آوازوں کے شور میں سنائی تو کم دیتی ہے، مگر اس کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ ایسی ہی سفارت کاری کا مظہر حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران سعودی عرب کی ثالثی کے طور پر سامنے آیا۔

2024  کے اختتام پر اور 2025 کے آغاز میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب غیر معمولی نقل وحرکت، سرحدی خلاف ورزیاں، اور میڈیا کے میدان میں نفرت انگیز مہمات نے جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل دیا۔ بھارت کی طرف سے روایتی الزام تراشی، اور پاکستان کی جانب سے جواباً مؤثر سفارتی، عسکری اور معلوماتی ردعمل نے ایک ایسی فضا بنا دی جہاں جنگ کا خطرہ حقیقی محسوس ہونے لگا تھا۔ اس فضا میں عالمی برادری نے حسبِ معمول تشویش کا اظہار کیا، مگر اس مرتبہ سعودی عرب نے خاموش ثالث نہیں، بلکہ ایک فعال مصالحت کار کا کردار ادا کیا۔

سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور، جناب عادل الجبیر نے دہلی اور اسلام آباد کے متواتر دورے کیے، وہ بھی ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کی افواج مکمل طور پر ہائی الرٹ پر تھیں۔ ان کے دورے محض علامتی نہیں تھے، بلکہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں ایک مربوط سفارتی کوشش کا حصہ تھے جس میں امریکا، چین اور دیگر اثر انگیز قوتوں کو بھی متحرک رکھا گیا۔ سعودی عرب کی یہ حکمت عملی نہ صرف بروقت تھی بلکہ تہذیبی وقار کے ساتھ بھی آراستہ تھی۔ اس ثالثی کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ یہ یکطرفہ نہیں تھی۔ نہ پاکستان کو بھارتی مفادات کے آگے جھکنے کا مشورہ دیا گیا، نہ بھارت کو پاکستان پر زور آزمائی کی اجازت ملی۔ یہی وہ توازن ہے جس کی اس خطے میں ہمیشہ کمی رہی ہے۔

یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ سعودی عرب نے ثالثی کی یہ راہ ابھی چنی، بلکہ حیرت اس بات پر ہے کہ اس نے برسوں کی خاموشی کو ختم کر کے یہ فیصلہ ایسے وقت پر کیا جب دونوں ممالک ایک دوسرے کو سفارتی محاذ پر بھی کچلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ماضی میں سعودی عرب، خلیجی وقار اور عالم اسلام کی وحدت کے پیش نظر، اکثر ایسے تنازعات پر خاموش رہتا تھا یا پس پردہ حمایت کرتا تھا۔ مگر اس مرتبہ سفارت کاری کے انداز میں جو تبدیلی دیکھی گئی، وہ نہ صرف شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کا سیاسی تسلسل ہے، بلکہ ایک نئی عالمی سوچ کی جھلک بھی ہے، جو طاقت کے بجائے توازن اور اثرورسوخ کے ذریعے علاقائی استحکام کو ممکن بنانا چاہتی ہے۔

اس سفارت کاری کا ایک منفرد پہلو وہ اعتبار ہے جو سعودی عرب کو پاکستان اور بھارت دونوں میں حاصل ہے۔ بھارت سعودی عرب کو ایک اہم تجارتی و توانائی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان سعودی عرب کو نہ صرف حرمین کا نگہبان سمجھتا ہے، بلکہ ایک دیرینہ اور آزمودہ برادر ملک بھی، جس نے ہر مشکل وقت میں اس کی سیاسی و مالی مدد کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سعودی عرب ثالثی کی نیت سے آگے بڑھا تو کسی نے اسے مسترد نہیں کیا، اور یہی اس کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی ہے۔

اس ثالثی کو اگر ایک وسیع تر عالمی سیاق میں رکھ کر دیکھا جائے تو یہ محض پاک بھارت بحران کے حل کی کوشش نہیں بلکہ سعودی خارجہ پالیسی کی سمت کا اظہار بھی ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے 1980 کی دہائی میں افغان کنفلکٹ کے دوران افغانیوں کو مکہ میں اکٹھا کیا، 2007 میں فلسطینی دھڑوں کو جوڑنے کی کوشش کی، اور حال ہی میں روس اور یوکرین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے اشارتی مذاکرات میں بھی کردار ادا کیا، اسی طرح امریکا اور روس کو بھی جمع کیا، یہی وہ تدریجی سفر ہے جو اب جنوبی ایشیا تک آ پہنچا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ لمحہ تجزیہ، تشکر اور تدبیر کا ہے۔ تجزیہ اس بات کا کہ اگر سعودی ثالثی نہ ہوتی تو کیا حالات جنگ میں بدل سکتے تھے؟ تشکر اس اعتماد کا جو ریاض نے پاکستان پر برقرار رکھا، اور تدبیر اس پالیسی کی جو اس ثالثی کو وقتی حل کے بجائے ایک مستقل امن حکمت عملی میں بدل سکتی ہے۔ سعودی عرب کو بھی اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ثالثی کو صرف وقتی بحرانوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے امن، سفارت کاری کے ادارے میں بدلنے کی جانب بڑھنا چاہیے۔

اگر آج پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے سے واپس پلٹے ہیں، تو اس میں سعودی سفارت کاری کی مہذب طاقت، وقت شناسی، اور توازن فہمی کا بڑا کردار ہے۔ اگر کل کو یہ خطہ پائیدار امن کی راہ پر چل پڑے، تو اس کی بنیاد انہی خاموش مگر مؤثر قدموں میں تلاش کی جا سکتی ہے جو ریاض سے اٹھے اور دہلی واسلام آباد کی فضا کو کسی حد تک صاف کر گئے۔

اور اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے، تو اسے لازم ہے کہ وہ طاقت کی دہلیز سے ہٹ کر، تہذیب، توازن اور ثالثی کی اس روش پر قدم رکھے، جس کا نشان سعودی عرب نے پاک بھارت بحران میں قائم کیا ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب امن، کمزوری نہیں، بلکہ دانائی بن چکا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر راسخ الكشميری

پاک بھارت سعودی عرب.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاک بھارت سعودی عرب کو سفارت کاری پاک بھارت ثالثی کی

پڑھیں:

ماحولیاتی آلودگی ذہنی تناؤ کا سبب ہے

انسانی صحت کا ماحول سے گہرا رشتہ ہے۔ فطرت اور انسان ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ جب فطرت متوازن ہو، فضا صاف ہو، دریا بہتے ہوں، درخت سانس لیتے ہوں، پرندے چہچہاتے ہوں، تو انسان بھی اندر سے پرسکون اور خوش ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اپنی ترقی،آسانی اور لالچ کے تحت اس توازن کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ شہری زندگی کی تیزی، صنعتی ترقی کا بے قابو پھیلاؤ، قدرتی وسائل کا استحصال اورکچرے کے انبار ہماری دنیا کو نہ صرف آلودہ کر رہے ہیں بلکہ ہمارے دماغوں اور دلوں کو بھی گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کی کئی صورتیں ہیں۔ فضا میں اٹھتا دھواں، زہریلی گیسیں، گاڑیوں کا دھواں اور شور، فیکٹریوں سے بہتا ہوا گندا پانی، زمین پر بکھرا ہوا پلاسٹک، یہ سب صرف زمین کی صحت کو خراب نہیں کررہے بلکہ انسان کی ذہنی کیفیت کو بھی غیر محسوس انداز میں متاثرکررہے ہیں۔ ماحولیاتی بگاڑ اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک ذہنی وجذباتی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

آج کے دور میں ڈپریشن، بے چینی، نیندکی خرابی، یاد داشت کی کمزوری اور توجہ کی کمی عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ماہرین نفسیات اور نیوروسائنسدانوں کے مطابق ان مسائل کی ایک بڑی وجہ وہ ماحول ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ فضائی آلودگی میں شامل باریک ذرات جب سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ دماغ کی رگوں کو متاثرکرتے ہیں۔ یہ ذرات نیورونزکے درمیان پیغام رسانی کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، جس سے موڈ میں تبدیلی، ذہنی تھکن اور چڑچڑاہٹ جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

روشنی کی آلودگی نیند کے قدرتی عمل کو متاثرکرتی ہے۔ جب رات کے وقت بھی مصنوعی روشنی کا غلبہ ہوتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ قدرتی ہارمون جو نیند لاتا ہے (میلاٹونن) کم پیدا ہوتا ہے، جس سے نیند کی کمی اور اس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔ شورکی آلودگی بھی اسی طرح انسانی دماغ کو مسلسل الرٹ رکھتی ہے، جس سے دماغی سکون متاثر ہوتا ہے اور انسان تھکاوٹ، اینگزائٹی اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔

دیکھا جائے تو بچوں پر اس کا اثر اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وہ بچے جو شور،آلودگی اور غیر فطری ماحول میں پلتے ہیں، ان کی دماغی نشوونما سست ہو جاتی ہے۔ ان کی سیکھنے کی صلاحیت، توجہ کی قوت اور تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ وہ جلدی تھک جاتے ہیں، چڑچڑے ہو جاتے ہیں اور سوشل تعلقات بنانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی کا اثر صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ سماجی تعلقات اور معاشرتی رویوں پر بھی پڑتا ہے۔ جب لوگ ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں، تو وہ ایک دوسرے سے الجھتے ہیں، بحث کرتے ہیں، برداشت کم ہو جاتی ہے اور معاشرتی ہم آہنگی بکھرنے لگتی ہے۔ معاشرہ عدم برداشت، غصے اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یوں ماحولیاتی آلودگی ایک خاموش سماجی بیماری کے طور پر ذہنی ہیجان میں مبتلا کر دیتی ہے۔

اس صورتحال کا حل صرف ماحولیاتی تبدیلیوں میں ہی نہیں، بلکہ ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لینے میں بھی ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں ماحولیاتی تحفظ کو صرف ماہرین یا حکومت کی ذمے داری سمجھنے کے بجائے اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہوگا۔ درختوں کی حفاظت اور نئے درخت لگانے، پلاسٹک کے استعمال کو محدود کرنے، صاف ستھری سواریوں کو ترجیح دینے،کچرے کی منظم ری سائیکلنگ اور صاف پانی کے ذرایع کو محفوظ رکھنے جیسے اقدامات ہر فرد کے اختیار میں ہیں۔

ساتھ ہی، ذہنی صحت کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ذہنی بیماریوں کو معمولی یا شرمندگی کی بات سمجھنے کے بجائے، سنجیدگی سے لینا چاہیے جیسے ہم جسمانی بیماریوں کو لیتے ہیں۔ ذہنی صحت کے مراکز ہر علاقے میں قائم کیے جائیں، جہاں سستی اور آسان رسائی ممکن ہو۔ تعلیمی اداروں میں بچوں کو ذہنی سکون کے طریقے سکھائے جائیں، جیسے مراقبہ، یوگا یا نیچر تھراپی۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو موبائل اسکرین سے نکال کر فطرت کے قریب لے جائیں۔ کبھی پارک میں وقت گزاریں،کبھی دریا کے کنارے بیٹھیں اور بچوں سے فطری ماحول کی باتیں کریں۔

ہمیں اپنے طرز زندگی میں ایسے عناصر شامل کرنے ہوں گے جو ذہنی سکون فراہم کریں جیسے روزانہ کچھ وقت فطرت میں گزارنا، خود سے بات کرنا، تنہائی سے گھبراہٹ کے بجائے اسے اپنی طاقت بنانا، مثبت سوچ کو اپنانا، دوسروں کی مدد کرنا اور سب سے بڑھ کر خود کو قبول کرنا۔ دماغی صحت کا مطلب صرف بیماری سے بچاؤ نہیں، بلکہ خود کو بہتر بنانا، اپنے خیالات کو سمجھنا اور زندگی کو توازن کے ساتھ جینا ہے۔

سوک سینس دراصل وہ اخلاقی و ذہنی بیداری ہے جو ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ اگر ہم نے ماحول کو بہتر بنایا تو ہم نے ذاتی بہتری کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ اگر ہم نے درختوں کو بچایا، تو ہم نے اپنی سانس کو تحفظ عطا کیا، اگر ہم نے شور کم کیا، تو ہم نے کسی کے سکون کو محفوظ کیا، اگر ہم نے کسی کا ذہنی بوجھ کم کیا، تو ہم نے ایک مکمل انسان کو تباہ ہونے سے بچایا۔ یہ ایک اجتماعی سفر ہے، جس میں ہر فرد کا کردار اہم ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف صرف احتجاج نہ کریں بلکہ اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں۔ اپنی ذہنی صحت کو نظرانداز نہ کریں بلکہ اسے ترجیح دیں اور سب سے بڑھ کر، سوک سینس کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں، تاکہ ہم ایک پرسکون، صحت مند اور ہم آہنگ معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔

بدقسمتی سے، ہم نے ترقی کے سفر میں فطری ماحول سے فاصلہ پیدا کر لیا ہے۔ شہروں میں رہنے والے اکثر لوگ ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں تک فطرت کے لمس سے محروم رہتے ہیں۔ درخت صرف تصویروں میں نظر آتے ہیں، پرندوں کی آوازیں موبائل کی رنگ ٹونز تک محدود ہوگئی ہیں اور ندیوں کا بہاؤ صرف بچوں کی کہانیوں میں باقی رہ گیا ہے۔ ایسے ماحول میں پلنے والے انسان کا دل بھی بنجر ہونے لگتا ہے۔ وہ جمالیاتی حسن، جو فطرت ہمیں سکھاتی ہے، جب ہمارے شعور سے مٹنے لگتا ہے تو انسان بے رنگ، بے ذوق اور بے حس ہونے لگتا ہے۔

فطرت سے جڑنے کا عمل صرف باہرکی دنیا کو بہتر بنانے کا ذریعہ نہیں بلکہ اندر کی دنیا کو روشن کرنے کا راستہ بھی ہے۔ جب انسان سبزے سے تحرک حاصل کرتا ہے، کھلی فضا میں سانس لیتا ہے، پرندوں کی آواز سنتا ہے، تو دماغ میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں، جو خوشی، سکون اور محبت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ یہی جذبات انسان کو نرم مزاج بناتے ہیں، دوسروں سے بہتر تعلق بنانے میں مدد دیتے ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کرنے کی طاقت فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے، ماحول کی حفاظت دراصل انسان کی اندرونی دنیا کی حفاظت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ’’مودی حکومت مہم جوئی سے باز رہے‘‘؛ بھارتی رکن پارلیمنٹ کا پاکستانی فوج کی طاقت کا اعتراف
  • چائنا میں صرف بیجنگ اور شنگھائی ہی نہیں بلکہ ’ گوانگشی‘ بھی ہے
  • میں پاکستان میں ہوں اور میں محفوظ ہوں — امریکی وی لاگر ڈریو بنسکی کا امن کا پیغام
  • لاہور، پاک فوج کیساتھ اظہارِ یکجہتی، المصطفیٰ اسکاؤٹس کی منظم پریڈ
  • بھارت پر حملہ نہیں کیا بلکہ اب بھی حق محفوظ رکھتے ہیں، وفاقی وزیر
  • عازمینِ حج کیلیے ہم وطن طبی عملہ کسی نعمت سے کم نہیں:وزیرمذہبی امور
  • ’پاکستانی عازمینِ حج کے لیے ہم وطن و ہم زبان طبی عملہ کا انتظام کسی نعمت سے کم نہیں‘
  • تو عظیم ہے ماں!
  • ماحولیاتی آلودگی ذہنی تناؤ کا سبب ہے