قطر اور امریکا کے درمیان بوئنگ طیاروں کی خریداری سمیت مختلف معاہدوں پر دستحط
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
امیرِ قطر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں امریکی صدر نے بتایا کہ ہم نے دنیا، یوکرین کی جنگ، اور ایران سے متعلق جو ایک دلچسپ صورتحال ہے، پر بات کی۔ مجھے لگتا ہے کہ سب کچھ بہتر طریقے سے حل ہو جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ قطر اور امریکا کے درمیان بوئنگ طیاروں کی خریداری سے سمیت مختلف معاہدوں پر دستحط کئے گئے۔ عرب میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے بعد قطر پہنچے جہاں امیرِ قطر تمیم بن حمد نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا، امیرِ قطر کے ساتھ ملاقات میں امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
دونوں راہنماؤں نے ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعاون میں مزید اضافے پر اتفاق کرتے ہوئے اقتصادی معاہدوں پر دستخط بھی کیے، ان معاہدوں میں امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے طیاروں کی خریداری کا ایک ایسا معاہدہ بھی شامل ہے جو کمپنی کی تاریخ کا سب سے بڑا "آرڈر" ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے دفاعی شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان Letter of Intent پر بھی دستخط کیے، صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کو خطے میں امریکا اور قطر کے بڑھتے ہوئے اسٹریٹیجک تعاون کی ایک بڑی مثال قرار دیا۔
امیرِ قطر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ ہم نے دنیا، یوکرین کی جنگ، اور ایران سے متعلق جو ایک دلچسپ صورتحال ہے، پر بات کی۔ مجھے لگتا ہے کہ سب کچھ بہتر طریقے سے حل ہو جائے گا۔
اس موقع پر قطری امیر نے کہا کہ ان کی ٹرمپ سے ملاقات "عمدہ" رہی اور انہیں یقین ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ ملاقات کے بعد دونوں راہنماؤں نے قطر اور امریکا کے درمیان تعاون کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
امریکا پاکستان اور بھارت تعلقات کی تشکیل جدید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارت اور امریکا کے تعلقات میں ایک جہاں ایک بحرانی سی کیفیت دکھائی دی رہی ہے وہیں دونوں ملکوں کے درمیان اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ہمہ جہتی مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ امریکا تعلقات کی ایک نئی کہانی رقم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ دونوں ملکوں کو ان کے دو روایتی دوستوں چین اور روس سے تھوڑا دور کرتے ہوئے اپنے قریب لانے کی کوشش زوروں پر ہے۔ بھارت تمام تر دباؤ کے باوجود روس کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو امریکی پسند کی سطح پر لانے سے انکاری ہے اسی طرح پاکستان کو اپنے روایتی دوست چین سے فاصلہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ہر طرح کی ترغیب دی جارہی ہے۔ ایسے میں بظاہر امریکا کا جھکاؤ بھارت کے بجائے پاکستان کی طرف ہوتا محسوس ہورہا ہے جو محض فریب ِ نظر نہ سہی مگر ایک عارضی سی بات ہے۔ اگر بھارت کے ساتھ زیادہ بہتر سمجھوتا نہیں بھی ہوتا تو بھی امریکا چین کے مقابل اور متبادل کی آس پر بھارت کو خصوصی سلوک اور رعایت کا مستحق سمجھتا رہے گا۔ پاکستان کی اہمیت فقط جنگوں کی وجہ سے ہے۔ افغانستان کی جنگ، ایران کی جنگ، چین کی جنگ بس جنگوں کے جتنے خاکے امریکیوں کے ذہنوں اور کاغذوں میں ہیں پاکستان کی اہمیت صرف اتنی ہی ہے۔ ماضی میں پاکستان نے بھرپور کوشش کی امریکا اسے ان علاقائی ملکوں کے بجائے پاکستان کی عینک سے دیکھے اور اس کے ساتھ تجارتی معاہدات کرے مگر امریکا نے پاکستان کی اس خواہش کو اہمیت نہیں دی۔ امریکی منصوبہ سازوں کو اندازہ تھا کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو سہولتوں، مراعات، سیر وتفریح، بچوں کی رہائش، کاروبار اور تعلیم کی ضرورت کے لیے امریکا کی مستقل ضرورت رہے گی اور چین کے ساتھ ایسی کشش اور تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔
امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے فوری بعد اسلام آباد میں امریکا کے سابق سفیر رچرڈ اولسن نے اپنے ایک مضمون میں اسی اعتماد کا اظہار کیا تھا یہ وہ زمانہ جب امریکا اور پاکستان کے درمیان دنیا کے کئی ملکوں میں اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے نام پر مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔ رچرڈ اولسن کا کہنا تھا کہ متذکرہ بالا مجبوریوں کے باعث پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے پاس امریکا کے ساتھ تعلق رکھنے کے سوا کوئی آپشن ہی موجود نہیں۔ انہی دنوں جنرل قمر جاوید باجوہ نجی محفلوں میں چین کی مخالفت اور امریکا کی حمایت کرتے نظر آتے تھے۔ پاکستان کو چونکہ امریکا تزویراتی زاویے سے دیکھتا ہے اس لیے وہ پہلے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے اور بعدازاں پاک فضائیہ کے سربراہ سے مذاکرات کر چکا ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات ہمہ جہتی ہیں تو وہ ان سے کئی سطحوں پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک وفد دفاعی امور پر بات چیت کو آگے بڑھا رہا ہے تو دوسرا تجارتی معاملات اور ٹیرف کی جنگ کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین کی سرپرستی میں قائم شنگھائی کانفرنس سے اعلامیہ پر دست خط نہ کرکے دل برداشتہ ہو کر نکلنے والے بھارت کو مغرب سے اس وقت دست مسیحائی میسر آیا جب امریکا کی سرپرستی میں قائم تنظیم کواڈ کے مشترکہ اعلامیے میں وہ تمام خواہشات اور محاورے سمو دیے گئے جو شنگھائی کانفرنس میں اپنائے اور ٹھونسے نہ جا سکے تھے۔ شنگھائی کے دل برداشتہ بھارت کو کواڈ میں پہل گام اور سرحد پار دہشت گردی کا بھرپور ذکر کرے خوش کر دیا گیا۔ کواڈ وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ پہل گام کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ کواڈ کے اس اجلاس میں امریکا کے سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو۔ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر آسڑیلیا کی وزیر خارجہ پینی وانگ اور جاپانی وزیر خارجہ تا کیشی کیوابا نے شرکت کی تھی۔ جس کے بعد بھارت کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ امریکا کے ساتھ بھارت کے دفاعی تعلقات پہلے ہی مضبوط ہیں اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ بھارت ایک مقام پر جا کر امریکا کے مطالبات کے آگے سرینڈر بھی کر سکتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے بھی یہ اشارے دیے ہیں کہ امریکا بھارت کے ساتھ کئی زیر التوا دفاعی سودے مکمل کر سکتا ہے جس میں مشترکہ دفاعی صنعت اور دفاعی پیداوار اور دونوں افواج کے درمیان قریبی تعاون بھی شامل ہے۔ یہ بھارت اور امریکا کے درمیان تزویراتی مقاصد کے یکجا ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے ساتھ تجارتی تعلقات میں ٹیرف اور جوابی ٹیرف کی جنگ بھی اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔
بھارت کے محکمہ کامرس کے خصوصی سیکرٹری راجیش اگروال ایک وفد کے ہمراہ تجارتی اختلافات کو حل کرنے کے لیے امریکا گئے تھے مگر ان کا قیام ایک ہفتے پر محیط ہوگیا۔ امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت روس پر تیل کی خریداری کا انحصار کم کرکے یوکرین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرے۔ بھارت روس سے اپنی ضروریات کا چالیس فی صد تیل خریدتا ہے۔ امریکا پوری کوشش کے باوجود اس میں کمی نہیں کر اسکا۔ یہ بات طے ہے کہ اگر بھارت امریکا کا یہ مطالبہ مانتا ہے تو اسے دوسرے ملکوں سے مہنگے داموں تیل خریدنا پڑے گا اور جس کا اثر بھارت کی معیشت پر پڑے گا۔ مہنگائی میں اضافے کے باعث عوام میں ناراضی پید اہوجائے گی۔ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ بھی امریکا کے مذاکرات ٹیرف اور دفاع دونوں سطحوں پر جاری ہیں۔ بظاہر امریکا دونوں ملکوں سے تجارت پر بات کررہا ہے مگر حقیقت میں اصل وجہ نزع دفاعی اور تزویراتی ہے جس میں تجارت محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ بھارت کو روس سے تو پاکستان کو چین سے دور کرنا اصل مقصد ہے اور اس کے اثرات تجارتی شعبے پر منعکس ہو تے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ملک ان مشکل حالات سے کس طرح نبر د آزما ہوتے ہیں؟۔