حکومت سندھ نے 62 سال سے زائد عمر کے ماہرین تعلیم اور بیورو کریٹس پر سرکاری جامعات میں وائس چانسلر بننے کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کردیے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سندھ حکومت نے وائس چانسلر بننے کی عمر کی حد 62 برس متعین کرتے ہوئے اسے سندھ اسمبلی سے منظور کیے جانے والے نئے ایکٹ کا باقاعدہ حصہ بنادیا گیا ہے جو اب قانون بن چکا ہے۔

یہ ایکٹ 27 فروری 2025 کو گزٹ کی شکل میں جاری ہوا، جو سندھ اسمبلی سے بیورو کریٹس کو وائس چانسلر بنانے سمیت کئی ایک ترامیم کے ساتھ منظور ہوا تھا جس میں مذکورہ شق بھی شامل کردی گئی اور سندھ کی تمام 30 سرکاری جامعات کے منظور کیے گئے۔

ترمیمی ایکٹ 2025 میں مذکورہ شق بھی شامل کردی گئی، ایکٹ میں سندھ میں قانون کی واحد جامعہ "شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء" (زابل) میں صرف ججز کی جانب سے وائس چانسلر کی آسامی پر درخواست دینے کی صورت میں انھیں عمر کی چھوٹ دی گئی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے ججز کے لیے عمر کی حد 63 جبکہ سپریم کورٹ کے ججز کے لیے یہ حد 67 برس رکھی گئی ہے تاہم اگر مذکورہ یونیورسٹی میں بھی کوئی ماہر تعلیم یا بیوروکریٹ درخواست دیتا ہے تو اس کی عمر کی حد 62 برس ہی ہوگی۔

ایکٹ میں کسی بھی سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی پہلی مدت ملازمت پوری ہونے پر انھیں بطور وائس چانسلر ایک بار پھر آئندہ مدت کے لیے توسیع دینے کی شق  شامل رکھی گئی ہے۔

 ایکٹ کے تحت اب اگر کوئی ماہر تعلیم یا بیوروکریٹ 62 برس کی عمر میں وائس چانسلر مقرر ہوتا یے تو وہ اپنے عہدے کی پہلی مدت 65 برس میں پوری کرے گا اور اس کے تحت اسے آئندہ مدت کے لیے توسیع ملتی یے تو وہ 69 برس تک وائس چانسلر رہے سکے گا۔

اس سے قبل 62 برس کی حد صرف رولز میں تھی جبکہ ماضی میں یہ حد 65 برس تک رہی ہے۔

 یاد رہے کہ مذکورہ ایکٹ میں بیوروکریٹ کو وائس چانسلر بنانے کی راہیں کھل چکی ہیں جس کے مطابق ایک اکیڈمیشن کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ فل پروفیسر بمعہ پی ایچ ڈی ہو لیکن  " پی اے ایس، ایکس پی سی ایس، پی ایس ایس اور پی ایم ایس کیڈر کے گریڈ 21 کے افسر ماسٹرز ڈگری کی بنیاد پر وائس چانسلر کے لیے درخواست دینے کا اہل ہونگے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: وائس چانسلر عمر کی کے لیے

پڑھیں:

ڈیجیٹل پاکستان ایکٹ ڈیجیٹل وژن کو قانونی تحفظ دیتا ہے، شزا فاطمہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (صباح نیوز) وفاقی وزیر برائے آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل پاکستان ایکٹ ہمارے ڈیجیٹل وژن کو قانونی تحفظ اور تقویت دیتا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی 27ویں نیشنل سیکورٹی ورکشاپ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزارت آئی ٹی کو وزیر اعظم آفس، ایس آئی ایف سی، وفاقی کابینہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ڈیجیٹل سیکٹر اقتصادی سلامتی، اسٹریٹجک مضبوطی، عالمی مسابقت کا بنیادی ستون ہے۔ ڈیجیٹل گورننس، اے آئی، سائبر سیکورٹی پاکستان کے مستقبل کیلیے فیصلہ کن شعبے ہیں۔ ہم اپنی سائبر ریزیلنس کو مسلسل مضبوط بنا رہے ہیں۔ شزا فاطمہ کا کہنا ہے کہ گوگل کا پاکستان میں دفتر کھولنے کا فیصلہ ٹیک سیکٹر کیلیے بڑی پیش رفت ہے، کلاؤڈ انفرااسٹرکچر پاکستان کے ڈیجیٹل مستقبل کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کی پوری زندگی کو ایک جامع ڈیجیٹل ماحول میں منتقل کرنا ہمارا ہدف ہے۔

خبر ایجنسی سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • خیبر یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹر ضیا الحق ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقرر
  • سندھ حکومت کے تحت آن لائن ای اسپورٹس مقابلے حتمی مرحلہ میں داخل
  • مصطفیٰ کمال نے پیپلز پارٹی کو سندھ میں صوبہ بننے سے متعلق خبردار کردیا
  • حسینہ واجد کی سزا پر عالمی ماہر کا تبصرہ، بنگلہ دیش میں سیاسی اثرات کا امکان
  • نئی شالیمار ایکسپریس کا افتتاح: حنیف عباسی نے مخالفین کے منہ بند کردیے، وزیراعظم شہباز شریف
  • 26 نومبر احتجاج کیس: علیمہ خان کے منجمد بینک اکاؤنٹس کی رپورٹ جمع نہ ہوئی
  • آئینی عدالت نے کنگ ایڈورڈ  یونیورسٹی وائس چانسلر تقرری کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دے دیا
  • وفاقی آئینی عدالت کا پہلا بڑا فیصلہ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کیخلاف درخواست نمٹا دی
  • ڈیجیٹل پاکستان ایکٹ ڈیجیٹل وژن کو قانونی تحفظ دیتا ہے، شزا فاطمہ
  • حکومت سندھ نے حال ہی میں اسداللہ ابڑو کو سیکرٹری لیبر سندھ جبکہ ذوالفقار نظامانی کو ڈائریکٹر جنرل لیبر سندھ مقرر کیا ہے۔ ان تقرریوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے پیپلز لیبر بیورو سندھ کے صدر سینئر مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی، وقار میمن، فرحت پروین، اسلم سموں، ری