Express News:
2025-07-03@10:51:13 GMT

کیا جنوبی ایشیا میں پہلی ایٹمی جنگ پانی پر ہوگی؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT

جنوبی ایشیا میں جہاں زمین کی تہذیب ہزاروں برس پر محیط ہے، وہیں اس دھرتی کو جلا بخشنے والے دریا آج سیاسی قوت کے پنجے میں سسک رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اب اس نکتے پر آچکی ہے جہاں بارود کی بو نہیں، پانی کی روانی خطرہ بن گئی ہے۔

جنوبی ایشیا میں پانی نہ صرف زندگی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک جغرافیائی و تزویراتی اثاثہ بھی ہے، جس پر بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں پانی کی تقسیم ایک مرکزی تنازع کے طور پر ابھری ہے، یہاں تک کہ بعض تجزیہ نگار اسے ممکنہ ’’ آبی جنگ‘‘ کی شروعات قرار دے رہے ہیں۔
1960 میں بھارت اور پاکستان نے عالمی بینک کی ثالثی میں جو ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کیا تھا، وہ بظاہر ایک غیر معمولی کامیابی تھی۔

اس کے تحت تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) بھارت کو، اور تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کو دیے گئے۔ یہ معاہدہ کئی دہائیوں تک امن کا ستون رہا، مگر اب اس کی بنیادیں ہلنے لگی ہیں۔
بھارت نے پچھلے برسوں میں بگلیہار، رتلے اورکشن گنگا جیسے ڈیم تعمیرکیے جو کہ تکنیکی لحاظ سے معاہدے کی ’’سرحدی تشریحات‘‘ کے دائرے میں آ سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے لیے یہ اقدامات آبی جارحیت کے مترادف ہیں۔ جب بھارتی وزیرِاعظم نے 2019 میں اعلان کیا کہ ’’ پاکستان جانے والے پانی کو روک دیا جائے گا ‘‘ تو یہ محض سیاسی بیان نہیں، ایک ماحولیاتی اور معاشی وارننگ تھی۔

پانی، جو زندگی کی علامت تھا، اب سیاسی سودے بازی کا آلہ بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف بھارت اسے زراعت اور توانائی کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، تو دوسری طرف پاکستان کے لیے یہی پانی زراعت کی بقا اور 24 کروڑ سے زائد افراد کی غذائی سلامتی کی ضمانت ہے۔ دریائے سندھ کی وادی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے اور اگر یہ دریا سوکھنے لگے تو پاکستان صرف خشک نہیں، بھوکا بھی ہو جائے گا۔

پانی کی کمی صرف سیاست کا مسئلہ نہیں، یہ ایک ماحولیاتی بحران بھی ہے۔ ہمالیہ کے گلیشیئرز جو ان دریاؤں کا منبع ہیں موسمیاتی تبدیلی کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلی دو دہائیوں میں ان گلیشیئرزکا 30 سے 40 فیصد حصہ ختم ہو سکتا ہے، جس سے دریا پہلے سیلاب لائیں گے اور بعد میں سوکھ جائیں گے۔ مزید برآں، پانی کے بہاؤ میں کمی سے پاکستان کے جنوبی علاقے، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان، شدید صحرا زدگی (desertification) کا شکار ہو رہے ہیں۔

مچھلی، جنگلی حیات، دریائی نباتات سمیت بہت کچھ زوال پذیر ہے۔ یہ صرف ’’ آبی بحران‘‘ نہیں، بلکہ ماحولیاتی زوال کا نکتہ آغاز ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق پانی کی کمی کا براہِ راست تعلق تنازعات اور مہاجرت سے ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی سندھ و بلوچستان کے کسان نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں، اگر آبی دباؤ بڑھا، تو دیہی بدامنی، شہری بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام کی نئی لہریں اٹھیں گی۔ دوسری طرف، بھارت میں پانی کی قلت خود ایک اندرونی چیلنج ہے، خاص طور پر دہلی، مہارا شٹرا اور مدھیہ پردیش میں۔ ایسے میں سرحد پار دریا کی روانی کو روکنا ایک جذباتی سیاسی نعرہ تو ہو سکتا ہے۔

 لیکن اس کا انجام خطے کے دونوں ممالک کے لیے ہولناک ہوگا۔1997 میں ہونے والا اقوامِ متحدہ کا ’’بین الاقوامی آبی راستوں کا کنونشن‘‘  (UN Convention on the Law of the Non-Navigational Uses of International Watercourses) واضح کرتا ہے کہ سرحدی دریا مشترکہ اثاثہ ہوتے ہیں، اور ان کے استعمال میں انصاف، مساوات اور عدمِ ضرر (no harm) کے اصول لاگو ہوتے ہیں۔

یہ کنونشن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 21 مئی 1997 کو منظورکیا تھا۔ اس کا مقصد بین الاقوامی دریائوں اور آبی راستوں کے غیر بحری (non-navigational) استعمال سے متعلق قانونی اصول مرتب کرنا تھا جیسے آبپاشی، توانائی، پانی کی تقسیم، ماحولیاتی تحفظ، وغیرہ۔ لیکن نہ بھارت اس کنونشن کا حصہ ہے اور نہ پاکستان مشترکہ دریائوں پر ’’منصفانہ اور معقول استعمال‘‘ (equitable and reasonable utilization) کا اصول، دوسرے ملک کو ’’ نمایاں نقصان نہ پہنچانے‘‘ (no significant harm) کا اصول، معاہداتی تعاون، معلومات کا تبادلہ اور تنازعات کا حل اور طریقہ کار اس کے معاہدے کے بنیادی اصول ہیں۔

پاکستان نے اس کنونشن کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن ابھی تک دستخط یا توثیق (ratification) نہیں کی۔ بھارت نے اس کنونشن کے خلاف ووٹ دیا تھا اور وہ بھی اس کا فریق (party) نہیں ہے۔ یعنی دونوں ممالک ابھی تک اس کنونشن کے پابند نہیں اور اس وجہ سے بین الاقوامی سطح پر دریائوں کے حقوق و فرائض کے حوالے سے قانونی خلا موجود ہے۔2024 تک صرف 37 ممالک نے اس کنونشن کی توثیق کی ہے، اور یہ 2014 میں نافذ العمل ہوا تھا (35 توثیقوں کے بعد)۔ تاہم بڑے ممالک جیسے چین، ترکی، بھارت، پاکستان اور مصر اس کا حصہ نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب عالمی ادارے بڑے پیمانے پر آبی انصاف کی ضمانت نہیں دے سکتے، توکیا انحصار صرف دو طرفہ اخلاقیات پرکیا جا سکتا ہے؟

یہ اٹل حقیقت ہے کہ جب پانی جیسے قدرتی وسائل پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان دشمنی اتنی بڑھ جائے کہ وہ قومی سلامتی سے جڑ جائے، تو نتیجہ صرف سفارتی کشیدگی نہیں رہتا بلکہ وہ عسکری پوزیشننگ، جنگی بیانات اور بالآخر ایٹمی ہتھیاروں کی دھمکی سے استعمال تک جا پہنچتا ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ 2019 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان متعدد مرتبہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اور ایک موقع پر بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک، جب کہ پاکستان کی جانب سے فضائی رد عمل دیکھا گیا۔ اگر اس قسم کی کشیدگی پانی جیسے حساس مسئلے سے جڑ جائے، تو اس امر کا تصورکرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی معمولی فنی یا فوجی غلط فہمی کے نتیجے میں ایٹمی تصادم کا امکان بھی موجود ہو سکتا ہے۔

ماہرینِ تزویرات خبردار کر چکے ہیں کہ ’’آبی مسئلہ، اگر حل نہ ہوا، تو یہ جنوبی ایشیا میں پہلی ایٹمی جنگ کی بنیاد بن سکتا ہے۔‘‘ اس جنگ کا دائرہ صرف فوجی تنصیبات تک نہیں، بلکہ کروڑوں شہریوں، ماحولیات، معیشت اور آیندہ نسلوں تک پھیلے گا۔ ایک ایٹمی دھماکے سے زیادہ خطرناک وہ سیاسی ضد ہوگی جو پانی کو ایندھن بنائے گی۔ہم پانی کو جنگ کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے امن کی بنیاد بنا سکتے ہیں۔

مشترکہ ڈیمز،آبی تحقیقاتی مراکز اور موسمیاتی ہم آہنگی کے منصوبے خطے میں اعتماد کی فضا پیدا کر سکتے ہیں۔ دریا کی روانی اگر دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، مواصلات اور تعلق کی راہ بنے تو شاید بارود کی بو کو دریا کی خوشبو میں بدلا جا سکتا ہے۔

آج جنوبی ایشیا ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں دریا کی ہر بوند فیصلہ کن ہے، اگر یہ بوند امن کی ہو تو خوشحالی آئے گی، لیکن اگر یہی بوند غصے، انا اور طاقت کی بھینٹ چڑھی، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ پانی کی جنگ کسی فاتح کو نہیں صرف پیاسے لوگوں کو جنم دے گی۔کیا ہم دریا کو دشمن بنائیں گے یا دوست؟
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنوبی ایشیا میں دونوں ممالک پاکستان کے کے درمیان دریا کی سکتا ہے پانی کی رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

سانحہ سوات، چیختے لمحوں میں ڈوبتی انسانیت

سانحہ سوات کے مناظر سوشل میڈیا پر دیکھے۔ وہ مناظر جو روح کو چیر گئے، دل کو زخمی کر گئے۔ ایسا لگا جیسے کوئی تیز دھار نشتر روح میں اتر گیا ہو۔ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ سانسیں ہوکوں میں الجھ گئیں۔ آنکھیں بے ساختہ نم ہو گئیں۔دریا بپھر چکا تھا۔ وحشت ناک لہریں بد مست ہاتھی کی طرح سب کچھ تہہ و بالا کر رہی تھیں۔ ہر گزرتا لمحہ پانی کی شدت اور درندگی بڑھا رہا تھا۔ ڈسکہ سے سیر کے لیے آئے ایک خاندان کے اٹھارہ افرادمرد، عورتیں اور بچے دریا کے بیچ ایک ٹیلے پر محصور ہو چکے تھے۔ لمحہ بھر پہلے وہ قدرتی حسن کا نظارہ کرنے وہاں پہنچے تھے۔ اس وقت دریا میں پانی معمول کے مطابق بہہ رہا تھا۔ موسم خشک تھا، مطلع صاف۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں۔ دل پر سکون تھا۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ موت ان کے گرد رقص کر رہی ہے۔پھر اچانک دریا کی لہروں میں مستی اور اچھال آ گیا۔ پانی نے رفتار پکڑی۔ جس طرف سے وہ لوگ ٹیلے پر آئے تھے، وہاں بھی پانی برق رفتاری سے بڑھنے لگا۔ یہ فلیش فلڈ تھا۔ ایسی قیامت جو لمحوں میں ٹوٹتی ہے۔ اس ریلے نے انہیں سنبھلنے کا موقع تک نہ دیا۔ پانی نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال دیا۔ خوف کی شدت سے چیخیں بلند ہوئیں۔ خواتین پکارنے لگیں، بچے سسکنے لگے، مرد مدد کے لیے دہائیاں دینے لگے۔ مگر سب بے سود۔کنارے پر لوگ موجود تھے۔ کچھ ویڈیو بنانے میں مصروف تھے، کچھ ساکت، جیسے بے حسی کا مجسمہ۔ ہوسکتا ہے کسی نے پولیس یا ریسکیو کو فون کیا ہو، مقامی لوگوں سے مدد مانگی ہو۔ لیکن حقیقت یہی رہی کہ کوئی بروقت ان تک نہ پہنچ سکا۔ وہ ٹیلے پر کھڑے، لرزتے، کانپتے، زندہ لاشوں کی طرح، مدد کے لیے پکارتے رہے۔ وقت گزرتا گیا، پانی بڑھتا گیا۔ خود کو ان کی جگہ رکھ کر سوچیں تو کلیجہ منہ کو آ جائے۔
بچوں کے ہاتھ ماں کے گریبانوں سے لپٹے ہوں گے، عورتیں اپنے شوہروں کو تک رہی ہوں گی، اور سامنے موت کھڑی ہو گی، منہ کھولے، نگلنے کو تیار۔کسی کمزور نے جب پانی کے بہا ئوکے سامنے دم توڑ دیا ہو گا، تو باقی کتنے بے بسی سے اس کی موت کا منظر دیکھ رہے ہوں گے؟ باپ نے بچے کو بچانے کی کوشش کی ہو گی اور خود بھی بہہ گیا ہو گا۔ ماں، فریاد کرتی، جب آگے بڑھی ہو گی تو لڑکھڑا کر پانی میں جا گری ہو گی۔ لمحہ بہ لمحہ، ایک ایک کر کے سب پانی میں اترتے گئے۔ موت ان کے گرد رقص کرتی رہی اور ہم،بس دیکھتے رہے۔المیہ صرف قدرتی نہیں تھا، انسانی بھی تھا۔ سب جانتے تھے کہ برسات کا موسم ہے۔ بالائی علاقوں میں گزشتہ دو دن سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ دریا میں طغیانی کا خطرہ بڑھ چکا تھا۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو عوام کو بروقت آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ حفاظتی انتظامات کرنے چاہیے تھے۔ دریا کے قریب جانے اور نہانے پر سخت پابندی ہونی چاہیے تھی۔ فلیش فلڈ جیسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ریسکیو ٹیمیں ہمہ وقت الرٹ ہونی چاہیے تھیں۔ وہ جگہ جہاں یہ خاندان دریا برد ہوا، اچانک پانی وہاں سے نہیں نکلا تھا۔ یہ ریلا کئی میل کا سفر طے کر کے پہنچا تھا۔ راستے میں کئی شہر آئے، مگر کسی نے نیچے والوں کو خبر نہ دی۔ کوئی وارننگ جاری نہ ہوئی۔ کیا پورے شہر میں دو درجن لائف جیکٹس بھی موجود نہ تھیں؟ کیا انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بچانا ممکن نہ تھا؟ دو گھنٹے تک وہ لوگ دریا میں مدد کے لیے پکارتے رہے۔ کیا یہ دو گھنٹے بھی کم تھے؟افسوس کی بات ہے کہ حکومت نام کی کوئی شے اس لمحے دکھائی نہ دی۔ نہ کوئی منظم ادارہ، نہ کوئی مربوط کارروائی۔ یہ ایک ایسا المیہ تھا جسے روکا جا سکتا تھا، اگر ذمہ دار ادارے جاگ رہے ہوتے۔ اب تحقیقات ہوں گی، بیانات جاری ہوں گے، دو چار افسر معطل کر دیے جائیں گے، اور وقت کے ساتھ یہ واقعہ بھی بھلا دیا جائے گا۔ مگر جن کے پیارے اس ریلے میں بہہ گئے، ان کی آنکھوں سے تو ہر لمحہ ایک سیلاب بہتا رہے گا۔ ان کے دل پر جو بیتی، وہ وقت کے ساتھ کم نہیں ہو گی۔
یہ واقعہ ریاست کی بے عملی، نااہلی اور غیرذمہ داری پر ایک کالا داغ ہے۔ سیاحتی مقامات پر فلیش فلڈ وارننگ سسٹم موجود ہونے چاہئیں۔ ہر علاقے میں ریسکیو کی تربیت یافتہ ٹیمیں ہمہ وقت موجود ہوں۔ سیاحوں کو محفوظ راستوں اور ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا جائے۔ مقامی حکومتوں کو آپس میں فوری رابطے کی صلاحیت دی جائے تاکہ وقت پر اطلاع دی جا سکے۔ اگر ان میں سے ایک بھی قدم وقت پر اٹھایا جاتا، تو شاید آج ایک خاندان کے اٹھارہ افراد زندہ ہوتے۔یہ صرف ایک حادثہ نہیں، ایک سوال ہے ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا انسانی جان کی قیمت صرف اخباری بیانوں اور ٹویٹس تک محدود ہو چکی ہے؟ اگر ایسا ہے، تو یاد رکھیں، کل کسی اور دریا میں، کسی اور ٹیلے پر، کوئی اور خاندان اسی انجام سے دوچار ہو گا۔ اور ہم پھر صرف دیکھتے رہ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سانحہ سوات، چیختے لمحوں میں ڈوبتی انسانیت
  • ایشیا کپ میں پاک بھارت ٹاکرا کتنی بار ہوسکتا ہے؟ ممکنہ تاریخیں سامنے آگئیں
  • ایشیا کپ کا ممکنہ شیڈول سامنے آگیا، پاک بھارت ٹیمیں کتنی بار مدمقابل ہوں گی؟
  • ایشیا کپ 2025؛ پاکستان اور بھارت کا ٹاکرا کس دن ہوگا؟ تاریخ سامنے آگئی
  • سوات واقعے پر سیاست نہیں، سچائی سے جائزہ لیا جائے، وزیراعظم
  • پہلا ٹیسٹ: جنوبی افریقا نے زمبابوے کو 328 رنز سے شکست دے دی
  • ویمن ٹی20 رینکنگ؛ بولنگ میں سعدیہ اقبال کی پہلی پوزیشن برقرار
  • پاک بھارت کشیدگی: ایشیا کپ بھارت کے بجائے کس ملک میں ہوگا؟
  • ایشیا کپ 2025 کب اور کہاں کھیلا جائے گا؟
  • بھارت کی گھناؤنی چال، کرکٹ کے بعد پاکستان ہاکی کو نشانے پر رکھ لیا