اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)نے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت پاکستان پر 11 نئی شرائط عائد کی ہیں جن میں بجلی کے بلوں پر عائد ڈیٹ سروسنگ سرچارج میں اضافے، 3 سال سے زیادہ پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندیاں ختم کرنے اور پارلیمنٹ سے آئی ایم ایف کے معاہدے کے مطابق بجٹ پاس کرانے سمیت دیگر شرائط شامل ہیں۔
نجی سوشل میڈیا ویب سائٹ وی نیوز نے معاشی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط سے کیا عوام کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا؟ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے معاشی حالات گزشتہ چند سالوں سے ایسے تھے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل ہونا ضروری تھا جس وقت ہم آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں تھے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر تھے، جو اب 13 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کے بعد پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے، مالیاتی خسارہ بھی کم ہوا ہے، آئی ایم ایف ایک آئی سی یو کا ڈاکٹر ہے اور پاکستان کو اپنی 77 سالہ تاریخ میں 24ویں مرتبہ اس ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا ہے اور معاشی علاج کے لئے وہ کچھ کرنا ضروری ہے جو آئی ایم ایف ہمیں ہدایات دے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہاکہ پاکستان نے صرف ایک مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام مکمل کیا جو 2013 سے 2016 تک کا تھا، عالمی مالیاتی فنڈ قرض دے کر ایک ہدف دیتا ہے جسے پورا کرنا ہوتا ہے، گزشتہ بجٹ میں تاجروں سے ٹیکس حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا لیکن تاجروں سے 50 ارب کا ٹیکس وصول نہ ہو سکا، اس کے علاوہ زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس کے نفاذ کی بات کی گئی لیکن یہ ٹیکس بھی وصول نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہاکہ اب آئی ایم ایف نے زور دیا ہے کہ صوبائی حکومتیں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنائیں تو اس سے کسانوں اور زمینداروں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ان کو وہ ٹیکس دینا ہوگا جو وہ کبھی نہیں دیتے تھے یا بالکل معمولی ٹیکس دیتے تھے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہاکہ آئندہ سال کے بجٹ میں آئی ایم ایف 500 ارب کے نئے ٹیکس کا نفاذ کرنے کا ہدف دے سکتا ہے، اس ہدف کے لئے حکومت تنخواہ دار طبقے کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دے سکے گی، ایک ہی صورت میں ریلیف ممکن ہے کہ ملک بھر میں یکساں ٹیکس کا نظام لاگو ہو، حکومت ریٹیلرز پر ٹیکس عائد کرتی ہے تو تاجر احتجاج کرتے ہیں اور ٹیکس عائد ہی نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر بھی مکمل ٹیکس ادا نہیں کرتا، اگر تمام شعبوں پر یکساں ٹیکس عائد ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ عوام خصوصاً تنخواہ دار طبقے کو ریلیف مل جائے۔
ماہر معیشت شہباز رانا کے مطابق آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر کے قرض کی قسط کے لئے پاکستان پر مزید 11 شرائط عائد کی ہیں جس سے اب پاکستان پر کل شرائط کی تعداد 50 ہوگئی ہے۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاعی بجٹ 2.

414 ٹریلین روپے ظاہر کیا ہے جو رواں سال کی نسبت 12 فیصد یعنی 252 ارب روپے زیادہ ہے جبکہ بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد 18 فیصد یعنی 2.5 ٹریلین روپے زیادہ بجٹ مختص کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جبکہ وفاقی بجٹ کا کل حجم 17.6 ٹریلین روپے ظاہر کیا گیا ہے، اس میں ترقیاتی اخراجات کے لئے 1.07 ٹریلین روپے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں پر بھی ایک نئی شرط عائد کی ہے جس کے بعد نئے زرعی انکم ٹیکس قوانین لاگو کئے جائیں گے جس میں ریٹرن کی کارروائی، ٹیکس دہندگان کی شناخت اور رجسٹریشن کے لئے ایک آپریشنل پلیٹ فارم کا قیام کیا جائے گا جبکہ اس ہدف کے لئے صوبائی حکومتوں کو آئندہ ماہ جون کے آخر تک کا وقت دیا گیا ہے۔
شہباز رانا نے بتایا کہ تیسری نئی شرط کے مطابق اب وفاقی حکومت آئی ایم ایف کی معائنہ رپورٹ کی سفارشات پر مبنی گورننس کا ایکشن پلان شائع کرے گی جس کا مقصد گورننس کی اہم کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے عوامی سطح پر اصلاحاتی اقدامات کی نشاندہی کرنا ہے۔
شہباز رانا کے مطابق آئی ایم ایف کی چوتھی نئی شرط کے مطابق حکومت لوگوں کی حقیقی قوت خرید کو برقرار رکھنے کے لئے غیر مشروط کیش ٹرانسفر پروگرام کی سالانہ افراط زر کی ایڈجسٹمنٹ دے گی اور 2027 کے بعد کے مالیاتی شعبے کی حکمت عملی کے خاکے کی بنیاد پر ایک منصوبہ تیار کیا جائے گا اور حکومت 2028 کے بعد سے ادارہ جاتی اور ریگولیٹری ماحول کا خاکہ پیش کرےگی۔
انہوں نے کہاکہ توانائی کے شعبے میں 4 نئی شرائط متعارف کرائی گئی ہیں، توانائی کے نرخوں کو لاگت کی وصولی کی سطح پر برقرار رکھنے کے لئے اس سال یکم جولائی تک سالانہ بجلی کے ٹیرف کی ری بیسنگ کی جائے گی، اس کے علاوہ 15 فروری 2026 تک سالانہ گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جائے گا تاکہ توانائی کے نرخوں کو لاگت کی وصولی کی سطح پر برقرار رکھا جا سکے۔
شہباز رانا نے بتایا کہ نئی شرائط کے مطابق ڈیٹ سروس سرچارج پر عائد زیادہ سے زیادہ 3.21 روپے فی یونٹ کی حد کو ختم کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے قانون سازی بھی کی جائے گی اور اس کے لئے بھی جون کے آخر تک کا وقت دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ پاکستان 2035 تک سپیشل ٹیکنالوجی زونز اور دیگر صنعتی پارکس اور زونز کے حوالے سے تمام مراعات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے کی گئی سٹڈی کی بنیاد پر ایک منصوبہ تیار کرےگا تاہم اس ہدف کے لئے رواں سال کے آخر تک رپورٹ تیار کرنے کا وقت دیا گیا ہے۔
شہباز رانا نے کہاکہ آئی ایم ایف نے ایک اور شرط میں ہدف دیا ہے کہ استعمال شدہ موٹر گاڑیوں کی تجارتی درآمد پر عائد تمام پیداواری پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے مطلوبہ قانون سازی پارلیمنٹ میں کی جائے گی، ان پابندیوں کے ہٹانے سے لوگوں کی گاڑیاں خریدنے کی سکت بڑھ جائے گی۔
شہباز رانا کے مطابق نئی شرائط عائد کرنے کے علاوہ آئی ایم ایف نے پہلے کی شرائط میں بھی ایڈجسٹمنٹ کی ہے، پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے دسمبر 2024 کے آخر تک 7 شرائط کے ساتھ کارکردگی کے معیار کو پورا کیا ہے جس میں مرکزی بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں بہتری، نئے فائلرز سے ٹیکس ریٹرنز میں اصافہ جیسے اقدامات شامل ہیں اور بیشتر اہداف دسمبر کے آخر تک مکمل کر لئے گئے۔

کرسٹیانو رونالڈو کو سعودی کلب چھوڑنے کی پیشکش آگئی

مزید :

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: نے کہاکہ آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف کی ٹریلین روپے کرنے کے لئے دیا گیا ہے کے آخر تک کے مطابق ارب ڈالر جائے گی کرنے کا عائد کی کے بعد سال کے

پڑھیں:

312 ارب روپے کے نئے ٹزکس اور سخت اقدامات:نئے مالی سال میں اور کیا بدلے گا؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: نیا مالی سال شروع ہوتے ہی فنانس ایکٹ 2025 آج سے ملک بھر میں نافذ العمل ہو گیا ہے، جس کے ساتھ ہی عوام، کاروباری طبقے اور سرمایہ کاروں کو نئے ٹیکسوں اور مالیاتی اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس ایکٹ کے تحت جہاں 312 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لاگو کیے گئے ہیں، وہیں 389 ارب روپے کے سخت انفورسمنٹ اقدامات بھی متعارف کرائے گئے ہیں، جن کا مقصد محصولات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ میں وسعت لانا ہے۔

وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مطابق فنانس ایکٹ کے تحت کئی اہم تبدیلیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تبدیلی میوچل فنڈز کے ذریعے سرمایہ کاری پر لاگو ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہے، جو اب 25 فیصد سے بڑھا کر 29 فیصد کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ٹی بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز پر بھی ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، جس کا براہ راست اثر درمیانے درجے کے سرمایہ کاروں پر پڑے گا۔

حکومت نے ای کامرس اور آن لائن کاروبار کے شعبے کو بھی نئے ضابطوں کے تحت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تمام آن لائن کاروبار کرنے والوں کے لیے ایف بی آر کے ساتھ رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی ہے۔ رجسٹریشن نہ کرنے کی صورت میں کاروبار بند کرنے، پراپرٹی ضبط کرنے یا دیگر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سولر پینلز کی درآمد اور فروخت پر بھی 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، جس پر عوامی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام صاف توانائی کی جانب عوامی رجحان کو متاثر کرے گا۔ دوسری جانب، ہائی برڈ گاڑیوں کے پرزوں پر 4 فیصد ڈیوٹی اور زرعی ٹریکٹرز پر 15 فیصد ڈیوٹی بھی لاگو کر دی گئی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات پر بھی حکومت کو پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح 90 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کا اختیار دے دیا گیا ہے، جس کا اثر نہ صرف ٹرانسپورٹ پر بلکہ دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر بھی پڑے گا۔

تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس سلیب میں تبدیلی کی گئی ہے۔ اب ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدن پر ایک فیصد انکم ٹیکس لاگو ہو گا، جبکہ ساڑھے 8 لاکھ روپے سے زائد ماہانہ پینشن حاصل کرنے والے افراد کو بھی انکم ٹیکس دینا ہو گا۔ تاہم کم آمدنی والے ملازمین کے لیے انکم ٹیکس میں کچھ کمی بھی کی گئی ہے۔

اثاثہ جات کی خریداری پر بھی نئی شرائط لاگو ہو چکی ہیں۔ اب 5کروڑ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد یا 70 لاکھ سے زیادہ قیمت کی گاڑی خریدنے کے لیے ایف بی آر سے باقاعدہ سرٹیفکیٹ لینا ہوگا، بصورت دیگر خریداری ممکن نہیں ہوگی۔

ٹیکس نیٹ سے باہر شہریوں پر بھی سخت اقدامات متعارف کرائے گئے ہیں۔ اب ایسے افراد صرف سادہ بینک اکاؤنٹ رکھ سکیں گے، جن سے محدود حد تک رقم نکالی جا سکے گی۔ سیونگ یا کرنٹ اکاؤنٹ کھولنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 5کروڑ روپے سے زائد کے ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کی گرفتاری بھی اب کمیٹی کی منظوری کے بعد ممکن ہوگی۔

دوا ساز اور صنعتی شعبے کے لیے کچھ ریلیف بھی دیا گیا ہے۔ کینسر، ہیپاٹائٹس بی کی ادویات، ویکسینز اور ان میں استعمال ہونے والے 380 خام مال کی اقسام پر ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے، جب کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے درآمدی مشینری پر بھی کسٹمز ڈیوٹی کو صفر کر دیا گیا ہے، جس سے ملکی برآمدات کو فروغ ملنے کی امید ہے۔

مشترکہ سرحدی مارکیٹس میں فروخت ہونے والی 122 اشیا کو 3کیٹیگریز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پہلی کیٹیگری میں شامل اشیا پر 5 فیصد، دوسری پر 10 فیصد اور تیسری پر 20 فیصد کسٹمز ڈیوٹی لاگو ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • مالی سال 25-2024 کے دوران تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس ادائیگی میں 178 ارب روپے کا اضافہ
  • 7 ہزار درآمدی اشیاء پر ٹیکس و ڈیوٹی میں کمی، ایف بی آر کا بڑا فیصلہ
  • وفاقی ٹیکس محصولات میں 42 فیصد تاریخی اضافہ، وزیراعظم کی ایف بی آر کو ڈیجیٹائزیشن میں تیزی لانے کی ہدایت
  • اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایف بی آر اصلاحات پر جائزہ اجلاس، محصولات میں 42 فیصد تاریخی اضافہ
  • ٹیکس وصولی کا رواں مالی سال کا ٹارگٹ آسان نہیں مگر ممکن ہے: چیئرمین ایف بی آر
  • 312 ارب روپے کے نئے ٹزکس اور سخت اقدامات:نئے مالی سال میں اور کیا بدلے گا؟
  • گزشتہ سال بجلی صارفین کودیاگیاریلیف ختم نہیں کیا،وفاقی وزیراویس لغاری
  • وزیراعظم کا مالی سال کے پہلے دن پاکستان اسٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس کے 127000 کی بلند ترین سطح عبور کرنے پر اطمینان کا اظہار
  • چیئرمین ایف بی آر نے نئے مالی سال کو ٹیکس دہندگان کے لیے سہولتیں دینے کا سال قرار دیدیا
  • نئے مالی سال کا آغاز ، بجٹ پر عملدرآمد شروع، اربوں کے نئے ٹیکس نافذ