کیا آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط سے عوام کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)نے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت پاکستان پر 11 نئی شرائط عائد کی ہیں جن میں بجلی کے بلوں پر عائد ڈیٹ سروسنگ سرچارج میں اضافے، 3 سال سے زیادہ پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندیاں ختم کرنے اور پارلیمنٹ سے آئی ایم ایف کے معاہدے کے مطابق بجٹ پاس کرانے سمیت دیگر شرائط شامل ہیں۔
نجی سوشل میڈیا ویب سائٹ وی نیوز نے معاشی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط سے کیا عوام کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا؟ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے معاشی حالات گزشتہ چند سالوں سے ایسے تھے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل ہونا ضروری تھا جس وقت ہم آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں تھے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر تھے، جو اب 13 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کے بعد پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے، مالیاتی خسارہ بھی کم ہوا ہے، آئی ایم ایف ایک آئی سی یو کا ڈاکٹر ہے اور پاکستان کو اپنی 77 سالہ تاریخ میں 24ویں مرتبہ اس ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا ہے اور معاشی علاج کے لئے وہ کچھ کرنا ضروری ہے جو آئی ایم ایف ہمیں ہدایات دے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہاکہ پاکستان نے صرف ایک مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام مکمل کیا جو 2013 سے 2016 تک کا تھا، عالمی مالیاتی فنڈ قرض دے کر ایک ہدف دیتا ہے جسے پورا کرنا ہوتا ہے، گزشتہ بجٹ میں تاجروں سے ٹیکس حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا لیکن تاجروں سے 50 ارب کا ٹیکس وصول نہ ہو سکا، اس کے علاوہ زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس کے نفاذ کی بات کی گئی لیکن یہ ٹیکس بھی وصول نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہاکہ اب آئی ایم ایف نے زور دیا ہے کہ صوبائی حکومتیں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنائیں تو اس سے کسانوں اور زمینداروں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، ان کو وہ ٹیکس دینا ہوگا جو وہ کبھی نہیں دیتے تھے یا بالکل معمولی ٹیکس دیتے تھے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہاکہ آئندہ سال کے بجٹ میں آئی ایم ایف 500 ارب کے نئے ٹیکس کا نفاذ کرنے کا ہدف دے سکتا ہے، اس ہدف کے لئے حکومت تنخواہ دار طبقے کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دے سکے گی، ایک ہی صورت میں ریلیف ممکن ہے کہ ملک بھر میں یکساں ٹیکس کا نظام لاگو ہو، حکومت ریٹیلرز پر ٹیکس عائد کرتی ہے تو تاجر احتجاج کرتے ہیں اور ٹیکس عائد ہی نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر بھی مکمل ٹیکس ادا نہیں کرتا، اگر تمام شعبوں پر یکساں ٹیکس عائد ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ عوام خصوصاً تنخواہ دار طبقے کو ریلیف مل جائے۔
ماہر معیشت شہباز رانا کے مطابق آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر کے قرض کی قسط کے لئے پاکستان پر مزید 11 شرائط عائد کی ہیں جس سے اب پاکستان پر کل شرائط کی تعداد 50 ہوگئی ہے۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاعی بجٹ 2.
انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں پر بھی ایک نئی شرط عائد کی ہے جس کے بعد نئے زرعی انکم ٹیکس قوانین لاگو کئے جائیں گے جس میں ریٹرن کی کارروائی، ٹیکس دہندگان کی شناخت اور رجسٹریشن کے لئے ایک آپریشنل پلیٹ فارم کا قیام کیا جائے گا جبکہ اس ہدف کے لئے صوبائی حکومتوں کو آئندہ ماہ جون کے آخر تک کا وقت دیا گیا ہے۔
شہباز رانا نے بتایا کہ تیسری نئی شرط کے مطابق اب وفاقی حکومت آئی ایم ایف کی معائنہ رپورٹ کی سفارشات پر مبنی گورننس کا ایکشن پلان شائع کرے گی جس کا مقصد گورننس کی اہم کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے عوامی سطح پر اصلاحاتی اقدامات کی نشاندہی کرنا ہے۔
شہباز رانا کے مطابق آئی ایم ایف کی چوتھی نئی شرط کے مطابق حکومت لوگوں کی حقیقی قوت خرید کو برقرار رکھنے کے لئے غیر مشروط کیش ٹرانسفر پروگرام کی سالانہ افراط زر کی ایڈجسٹمنٹ دے گی اور 2027 کے بعد کے مالیاتی شعبے کی حکمت عملی کے خاکے کی بنیاد پر ایک منصوبہ تیار کیا جائے گا اور حکومت 2028 کے بعد سے ادارہ جاتی اور ریگولیٹری ماحول کا خاکہ پیش کرےگی۔
انہوں نے کہاکہ توانائی کے شعبے میں 4 نئی شرائط متعارف کرائی گئی ہیں، توانائی کے نرخوں کو لاگت کی وصولی کی سطح پر برقرار رکھنے کے لئے اس سال یکم جولائی تک سالانہ بجلی کے ٹیرف کی ری بیسنگ کی جائے گی، اس کے علاوہ 15 فروری 2026 تک سالانہ گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جائے گا تاکہ توانائی کے نرخوں کو لاگت کی وصولی کی سطح پر برقرار رکھا جا سکے۔
شہباز رانا نے بتایا کہ نئی شرائط کے مطابق ڈیٹ سروس سرچارج پر عائد زیادہ سے زیادہ 3.21 روپے فی یونٹ کی حد کو ختم کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے قانون سازی بھی کی جائے گی اور اس کے لئے بھی جون کے آخر تک کا وقت دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ پاکستان 2035 تک سپیشل ٹیکنالوجی زونز اور دیگر صنعتی پارکس اور زونز کے حوالے سے تمام مراعات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے کی گئی سٹڈی کی بنیاد پر ایک منصوبہ تیار کرےگا تاہم اس ہدف کے لئے رواں سال کے آخر تک رپورٹ تیار کرنے کا وقت دیا گیا ہے۔
شہباز رانا نے کہاکہ آئی ایم ایف نے ایک اور شرط میں ہدف دیا ہے کہ استعمال شدہ موٹر گاڑیوں کی تجارتی درآمد پر عائد تمام پیداواری پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے مطلوبہ قانون سازی پارلیمنٹ میں کی جائے گی، ان پابندیوں کے ہٹانے سے لوگوں کی گاڑیاں خریدنے کی سکت بڑھ جائے گی۔
شہباز رانا کے مطابق نئی شرائط عائد کرنے کے علاوہ آئی ایم ایف نے پہلے کی شرائط میں بھی ایڈجسٹمنٹ کی ہے، پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے دسمبر 2024 کے آخر تک 7 شرائط کے ساتھ کارکردگی کے معیار کو پورا کیا ہے جس میں مرکزی بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں بہتری، نئے فائلرز سے ٹیکس ریٹرنز میں اصافہ جیسے اقدامات شامل ہیں اور بیشتر اہداف دسمبر کے آخر تک مکمل کر لئے گئے۔
کرسٹیانو رونالڈو کو سعودی کلب چھوڑنے کی پیشکش آگئی
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: نے کہاکہ آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف کی ٹریلین روپے کرنے کے لئے دیا گیا ہے کے آخر تک کے مطابق ارب ڈالر جائے گی کرنے کا عائد کی کے بعد سال کے
پڑھیں:
وفاقی بجٹ ساڑھے 17 ہزار سے 18 ہزار ارب روپے تک رہنے کا تخمینہ
ذرائع کے مطابق ایف بی آر آئندہ مالی سال کے دوران 14 ہزار 307 ارب روپے جمع کرے گا، اس میں 6 ہزار 470 ارب روپے ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں جمع کئے جائیں گے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 11 سو 53 ارب روپے اور سیلز ٹیکس کا ہدف 4943 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آئندہ مالی سال کیلئے وفاقی بجٹ ساڑھے 17 ہزار ارب روپے سے 18 ہزار ارب روپے تک رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر آئندہ مالی سال کے دوران 14 ہزار 307 ارب روپے جمع کرے گا، اس میں 6 ہزار 470 ارب روپے ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں جمع کئے جائیں گے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 11 سو 53 ارب روپے اور سیلز ٹیکس کا ہدف 4943 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 1 ہزار 741 ارب روپے، پٹرولیم لیوی کا ہدف 13 سو 11 ارب روپے مقرر کیا گیا۔
دستاویز کے مطابق نان ٹیکس آمدن 25 سو 84 ارب روپے، صوبے 12 سو 20 ارب کا سرپلس دیں گے، آئندہ سال قرضوں پر سود ادائیگیوں کیلئے 8 ہزار 685 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، آئندہ مالی سال کے دوران دفاع پر 2 ہزار 414 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے جبکہ ترقیاتی منصوبوں پر وفاق 1065 ارب روپے خرچ کرے گا۔ واضح رہے کہ آئندہ مالی سال 6 ہزار 588 ارب روپے کا قرض حاصل کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔